گویا فریب کھائے زمانے گزر گئے
وہ سرما کی ایک جادو بھری شام تھی۔جامعہ کراچی کی فضائوں میں پُرسکون خاموشی نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔
وہ سرما کی ایک جادو بھری شام تھی۔جامعہ کراچی کی فضائوں میں پُرسکون خاموشی نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ ہوائوں میں خنکی تھی۔ شعبۂ ابلاغ عامہ کے ایک کمرے میں تاریخ صحافت پر کلاس جاری تھی۔ طلبا ہمہ تن گوش تھے۔ دل میں اُن کے بہتر معاشرے کی آرزو تھی، جس کے لیے وہ صحافت کو بطور آلہ برتنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اور یہ خواب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی ٹوٹنے والا تھا۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب خودکش جیکٹس کا چلن عام نہیں تھا، جنت میں جانے کے اور بھی کئی طریقے تھے۔ ڈرون خاموشی سے گزرتے، اور ہم اُنھیں قوی الجثہ پرندہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے۔ قرضوں نے معیشت کو سنبھال رکھا تھا۔ چیف جسٹس کو جاں نثاروں کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ اور کراچی پر مئی کی وہ ظالم تاریخ نہیں اتری تھی۔
عزت مآب پرویز مشرف کا دور تھا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ہمارے لیے دنیا ابھی تازہ اور کراری تھی۔ نئے ہزاریے کا جشن منانا کر کالج سے ابھی تو نکلے تھے۔ سانحہ 9/11 بیت چکا تھا۔ پاکستان نے، ہمیشہ کی طرح، امریکا کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ افغانستان پر یلغار ہو گئی۔ ہماری نسل لاابالی پن سے چھلک رہی تھی۔ جنگ کی پروا کون کرتا۔ ہم تو اپنے حال میں مست تھے کہ کراچی یونیورسٹی سرما کی ایک بھید بھری شام کی آغوش میں آ گئی۔
جمہوریت اور آمریت پر بحث چل نکلی۔ ہمارے استاد، اﷲ انھیں صحت دے، کا تعلق دائیں بازو سے تھا۔ اب بازو کوئی ہو، سامراجی چالوں کا بھلا کہاں مقابلہ کر سکتا ہے، اہل اقتدار کے ہاتھ سب ہی کھلونا بن جاتے ہیں جناب۔ خیر، وہ ٹھہرے نظریاتی آدمی، لگے جمہوریت کی حمایت کرنے۔ نوجوانوں کی جانب سے شدید ردعمل آیا۔ سیاست دانوں کو مغلظات بکی گئیں۔ کچھ نے جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دے ڈالا۔ مارشل لا کی افادیت میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے گئے۔ یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ساتھی ہمارے مارشل لا کی نہیں، پرویز مشرف کی حمایت کر رہے تھے۔ اور کئی تو شاید اب بھی کر رہے ہوں۔
خیر، بحث میں شدت آ گئی۔ پروفیسر صاحب کے دلائل جذباتی ریلے کے سامنے ٹھہرنے میں ناکام رہے۔ ہمارا معاملہ یہ تھا کہ اُس وقت تک مبارک حیدر کی کتاب ''تہذیبی نرگسیت'' نہیں پڑھی تھی کہ اُس وقت یہ لکھی ہی نہیں گئی تھی۔ اگر اُس جیسی کوئی کتاب نظر سے گزری ہوتی، تو واشگاف الفاظ میں بدترین جمہوریت کو بہترین آمریت سے بہتر ٹھہرا دیتے۔ ہاں، زاہدہ حنا صاحبہ اور کچھ اور جمہور پسندوں کے کالم پڑھ رکھے تھے، اِس نوع کے مباحث میں اُن ہی کا حوالہ دیتے، مگر ماحول خاصا گرم ہو گیا تھا، سو چپ سادھے بیٹھے رہے۔ بحث منطقی انجام کو پہنچے بنا ختم ہوئی۔ استاد محترم یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ جس قوم کے پڑھے لکھے نوجوان جمہوریت کے مخالف ہوں، اُس کا خدا ہی حافظ۔ ساتھ ہی یہ جملہ بھی جڑ دیا کہ چوتھے ستون کا مستقبل اُنھیں کچھ روشن دکھائی نہیں دیتا۔
تدریسی زمانے میں تو پھر تذکرہ نہیں آیا، مگر بات یہ دل میں کھٹکتی رہی۔ سوچا، کیا ہم ''آمریت پسند'' قوم ہیں؟
محمد بن قاسم کی آمد سے اِس خطے کی تاریخ کا آغاز کرنے والی ''ایمان افروز'' کتابوں سے راہ فرار اختیار کی۔ تاریخ کو غیر جانب دارانہ انداز میں پڑھنے کی کوشش کی۔ دھیرے دھیرے حالات بھی بدلنے لگے۔ دہشت گردی کا عفریت پھنکارنے لگا تھا۔ کالے کوٹ سڑکوں پر آ گئے۔ معیشت لڑکھڑانے لگی۔ سول سوسائٹی میں بیداری کی لہر اٹھی۔ عملی صحافت کا آغاز اُسی پُرآشوب زمانے میں کیا۔ محترم منہاج برنا کی نظموں کی صورت ''مرثیہ چوتھے ستون کا'' بھی پڑھ لیا۔ جمہوری تحاریک کی تفصیلات سے آگاہی ہوئی۔ مبارک حیدر کی کتاب بھی چھپ گئی۔ آمریت اور جمہوریت سے متعلق رائے پختگی ہوئی، مگر جامعہ کراچی پر اترنے والی اس شام اپنے ہم عمروں کا جمہوریت مخالف رویہ مسلسل کھٹکتا رہا۔ کچھ برس بعد اندازہ ہوا کہ جمہوریت سے متعلق نوجوان نسل کی رائے آج بھی منفی ہی ہے، بلکہ اِس میں کچھ شدت آ گئی ہے۔ ایک بڑا طبقہ سیاست دانوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، اُنھیں مفاد پرست اور غیر مخلص خیال کیا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات ہے، تمام باشعور اور ترقی یافتہ معاشروں میں جمہوری نظام رائج، پھر ہم اس سے متنفر کیوں؟ ایک سبب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہم فی الحال اتنے باشعور نہیں۔ یا یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مفاد پرست طبقے نے یہاں کبھی حقیقی جمہوریت پنپنے ہی نہیں دی۔ مذہبی حلقے جمہوریت پر لعن طعن کرتے رہے کہ یہ نظام اُنھیں اپنے مفادات سے ٹکراتا نظر آیا۔ جاگیردار اور وڈیرے اپنی سہولت کے لیے اس کا حلیہ بگاڑتے رہے۔ جو آمر آئے، اُنھوں نے تو اِس عمل کو باقاعدہ فن کی شکل دے دی، لیکن وہ ہمارا سروکار نہیں۔ ہم انھیں ووٹوں سے منتخب نہیں کرتے۔ وہ بااختیار ہیں، مرضی کے مالک۔ نہ جانے کب آ جائیں۔
مسئلہ ہمارا سیاست دان ہیں، جن کی اکثریت نے ہر مرحلے پر اپنا مفاد عزیز رکھا۔ جمہوریت کو بہترین انتقام تو قرار دیا، مگر دشمنوں کے بجائے انتقام لیا اُن بے چاروں سے جنھوں نے اُنھیں منتخب کیا تھا۔ وقفے وقفے سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے نعرے لگاتے رہے۔ نظمیں سنا سنا کر ہم پر رقت طاری کر دی۔ بلے سے مخالفین کی پھینٹی لگانے کا راگ الاپا۔ جب ضرورت پیش آئی، پاکستان کھپے کا نعرہ لگا دیا۔ قرض اتارو ملک سنوارو کہہ کر دیوانہ بنا دیا۔ معیشت کے استحکام اور امن کا وعدہ کیا، مگر وقت کے ساتھ یہ دعوے، سب وعدے ہوا ہو گئے۔
اگر نوجوان نسل جمہوریت سے متنفر ہے، تو امر یہ حیرت انگیز نہیں۔ یہ تو ہمارے سیاست دانوں کی غفلت کا نتیجہ ہے، جن کے کانوں میں ''سب اچھا ہے'' کی سرگوشیاں منجمد ہو گئی ہیں۔ ہیں سارے سردار، عوام سے بھلا اُنھیں کیا سرورکار۔ آپریشن اور مذاکرات کے درمیان معلق۔ پشاور کو ماڈل ضلع بنائیں گے، مگر دہشت گردی کے خلاف ایک لفظ زبان پر نہیں لائیں گے۔ سانحات پر ایسے بچگانہ بیانات داغتے ہیں کہ عوام کے پاس مٹھیاں بھینچنے، دانت پیسنے کے سوا کوئی امکان نہیں رہتا۔ اگر کل پاکستان کو عرب ممالک کی کالونی بنا دیں، تب بھی ہم کیا کر لیں گے۔
آمر کو یہ سہولت رہتی ہے کہ کوئی اپوزیشن نہیں ہوتی، تنقید کی ہمت کم ہی دیوانے کرتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست میں معاملہ اور ہے۔ ہر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہا ہے۔ ٹاک شوز میں ایک دوسرے کو رگیدا جاتا ہے۔ اخباری بیانات میں مخالفین کو ادھیڑا جاتا ہے۔ ہر ماہ حکومت کے خاتمے کی تاریخوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ان ہی عوامل کی وجہ سے عوام ہمارے انتخابات کو لاحاصل مشق خیال کرتے ہیں۔ عنایت علی خان کا وہ شعر ہے ناں:
سوچو تو یار کب سے الیکشن نہیں ہوئے
گویا فریب کھائے زمانے گزر گئے
ایک سیاسی کارکن نے کہا تھا، سیاست دان بے شک بدعنوان ہیں، نااہل ہیں، مگر یہ سارے آمروں ہی کی دین ہیں۔ بات دُرست ہے، مگر یہ جواز ہم کب تک پیش کرتے رہیں گے۔ اگر ہمارے سیاست داں خود میں تھوڑا سدھار پیدا کر لیں، تو کیا مضایقہ ہے۔ تبدیلی اتنی بری شے تھوڑی ہے۔ ذرا کوشش کر کے دیکھئے۔
خبر گردش میں ہے کہ تھر کے بعد اب چولستان میں ایک سانحہ ہونے کو ہے۔ المیے کی چاپ سنائی دے رہی ہے، اور فقط ''میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'' کہنے سے وہ ٹلے گا نہیں۔