پاکستان کو درپیش چیلنجز
مثبت اشاریوں کے معیشت پر تو اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن ان کے ثمرات اس طرح سامنے نہیں آرہے ہیں جیسے آنے چاہیے
پاکستان کے لیے معاشی حوالے سے اچھے اشارے مل رہے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوچکے ہیں، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آچکا ہے،چھ سات ماہ پہلے تک پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جارہی تھیں لیکن اب یہ امکان ختم ہوگیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف عوامی جمہوریہ چین کے اہم دورے پر ہیں۔ ان مثبت اشاریوں کے معیشت پر تو اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن ان کے ثمرات اس طرح سامنے نہیں آرہے ہیں جیسے آنے چاہیے۔
اس کی وجہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے۔جب تک سیاسی عدم استحکام دور نہیں ہوتا، ملکی معیشت بھی پوری رفتار سے ترقی نہیں کرسکتی۔بلاشبہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں موجودہ حکومت کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدہ کر کے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بھی حاصل کیا۔
حالیہ سیلاب کی وجہ سے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی دل کھول کر مدد کی، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ نہیں پڑا ۔ اب پاکستان کے لیے یورپی ممالک سے تجارت کی راہیں بھی کھل جائیں گی ، ملک کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو اپنی برآمدات کی شرح بڑھانے کی از حد ضرورت ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی کے سوال پر ماہرین ِمعاشیات میں اِختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو کوریا کی مثال سامنے رکھنی چاہیے اور ماضی میں 1960سے 1965 کے پانچ سالہ دور میں ایسا کرنے کی ایک کوشش بھی کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات کا دوسرا طبقہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو خدمات کے شعبے کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے لیکن اگر خدمات کسی معیشت کی بنیاد ہوں جیسا کہ ٹرانسپورٹ اور مواصلات ، خوردہ اور تھوک ، صحت کی خدمات ، کاروباری خدمات (کمپیوٹر ، اِنٹرنیٹ وغیرہ) حکومت اور انتظامی امور یہ سب براہ راست یا بالواسطہ طور پر اشیاء کی پیداوار پر منحصر ہیں۔
اس کا سب سے واضح مظاہرہ فنانس ، انشورنس اور رئیل اسٹیٹ صنعتوں سے ہوتا ہے۔ یہ باقی معیشت کے ذریعے پیدا ہونے والی اشیاء کو مختلف شعبوں میں منتقل کرتے ہیں۔
مہنگائی کی شرح بھی بہت زیادہ بلند ہوچکی ہے ، عام آدمی کے لیے کچن کا خرچہ پورا کرنا بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے، حکومت کو ڈسٹرکٹ کی سطح پر قائم سرکاری اداروں کو فعال کرنا ہوگا ،جو منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی کرسکیں۔ مہنگائی پر قابو پانا حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کو معاشی اور خارجہ امور کے محاذ پر کامیابی ملی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے سخت محنت اور عالمی توازن کی ضرورت ہے۔پاکستان کو مالیاتی ڈسپلن کی اشد ضرورت ہے' ملکی معیشت اور مالیاتی شعبے کو نگرانی کے بغیر ریگولرائز کرنا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کر کے مالی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ افغانستان کی نرم سرحد پاکستانی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔وفاقی حکومت اور اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو پاک افغان سرحد کے ذریعے ہونے والی غیر قانونی تجارت کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے ساتھ تجارت ضرور ہونی چاہیے لیکن یہ تجارت مسلمہ بین الاقوامی اصولوں اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیرف وغیرہ کی مد میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کو مالی فائدہ پہنچے۔ اس طریقے سے غیر قانونی تجارت کا بھی خاتمہ ہو گا اور کالے دھن پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
غیرقانونی تجارت پاکستان ہی کی معیشت نہیں بلکہ افغانستان کی معیشت کو بھی تباہ کررہی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کنٹرول کو سخت کرے تاکہ انھیں بھی ٹیکسوں کی مد میں خطیر رقم مل سکے۔
اس وقت افغانستان اور ایران کی سرحد کے ذریعے اربوں روپے کی تجارت ہورہی ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ غیرقانونی تجارت پر مشتمل ہے۔ جس کا فائدہ نہ پاکستان کو ہے اور نہ ہی افغانستان اور ایران کو ہے۔ لہٰذا اس غیرقانونی تجارت کا خاتمہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔
بلاشبہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو خاصا نقصان ہوا ہے ۔ پاکستانی معیشت دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے۔ سیلاب سے کل کاشت شدہ اراضی کے 22 ملین ہیکٹر میں سے 7 ملین ہیکٹر زیر آب آچکے ہیں جو تقریباً 33 فی صد ہے۔
موسمیاتی تبدیلی 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ یہ موسم کے پیٹرن میں تبدیلیوں اور موسمی درجہ حرارت میں تبدیلیوں سے مراد ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا زراعت پر گہرا اثر پڑتا ہے اور خوراک کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔
پاکستان درجہ حرارت اور موسم کی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کا اثر وسیع ہے جیسے کہ زراعت کی پیداوار میں کمی، مسلسل خشک سالی، ساحلی کٹاؤ اور اوسط سے زیادہ بارش۔ آج ملک میں سیلاب کی صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ ہے جس نے ہزاروں ایکڑ اراضی کو تباہ اور لاکھوں افراد کو جانوں کے ضیاع کے ساتھ بے گھر کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک پر ملکی اور غیرملکی قرضوں کا انبار ہے ،یہ قرضے معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ، توانائی کا بحران بھی شدید سے شدید تر ہورہا ہے۔
بجلی کا ٹرانسمیشن سسٹم فرسودہ ہوچکا ہے ،ہم نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈیمز بنانے کی طرف کبھی توجہ نہ دی، بجلی کے نرخ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب متوسط طبقہ بجلی کے بل ادا کرتا ہے تو گھر کا کچن چلانا مشکل ہوجاتا ہے اور تیسری بات یہ کہ ہمیشہ سے ہمارا مقصد اقتدار بچاؤ تو رہا غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح نہ رہا۔
ہم ہمیشہ اقتدار میں آنے کے لیے یہ تاثر دیتے رہے کہ پرانی حکومتیں غیر جمہوری تھیں ہم حکومت کے اصل وارث ہیں اور عوام کے خدمتگار ہیں اور عوام اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اپنا بھی دن آئے گا لیکن ہر دن مہنگائی کی نوید لے کر آیا پاکستان نے انیس سو اٹھاسی کے بعد سخت شرائط پر قرض لیا اس سے قبل قرض پر شرائط نہ ہونے کے برابر تھیں قرض بڑھتا گیا شرائط سخت ہوتی گئیں یعنی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
حزب اقتدار اور مخالف کی سیاسی کشمکش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں نے عوام کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح اٹھائیس فی صد ہے جو مستقبل قریب میں پینتیس سے چالیس فی صد ہوجائے گی ۔
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی صورتحال سے کاروباری طبقہ پریشان ہے۔ عمران خان احتجاجی مارچ کر رہے ہیں جب کہ اتحادی حکومت بھی اپنے موقف پر پوری طرح ڈٹی ہوئی ہے۔ملک کے اندر جمہوری کلچر انتہائی کمزور ہو چکا ہے' حکومت کی تبدیلی کے لیے آئین میں ایک طریقہ کار درج ہے لیکن اس کو فالو کرنے کی بجائے گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کو مسائل کا حل سمجھ لینا جمہوریت دوستی نہیں ہے۔
پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں تاحال ناکام چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ داخلی سطح پر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے درپیش ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جوڑ توڑ کی سیاست میں مصروف ہے جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران ختم ہونے میں نہیں آ رہا جب اہم معاملات آئین میں درج ہیں تو تمام سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ آئین میں دیے گئے اصولوں اور قوانین کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں اور اپنے اپنے جماعتی منشور کی بنیاد پر سیاسی سرگرمیاں کریں۔
پرامن احتجاج بھی سیاسی جماعت کا حق ہے بلکہ پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق بھی کچھ پابندیوں اور فرائض کے ساتھ مخصوص ہے ' کوئی سیاسی جماعت اگر کسی معاملے پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنا چاہتی ہے تو اس کے پاس ایک سولڈ گراؤنڈ ہونی چاہیے' مخالفت برائے مخالفت کے نام پر احتجاج کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔
احتجاج کا طریقہ کار باقاعدہ طور پر واضح ہونا چاہیے اور اس کی حکومت کو مکمل طور پر آگاہی ہونی چاہیے اور اس کی منظوری ہونی چاہیے تاکہ کسی قسم کی کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہو۔ سیاسی جماعتیں اگر خود کو جمہوری حدود میں رکھیں گی تو ریاستی ادارے بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے کیونکہ سیاسی قیادت کی کمزوریاں ہی ریاستی اداروں کو مداخلت پر مجبور کرتی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف عوامی جمہوریہ چین کے اہم دورے پر ہیں۔ ان مثبت اشاریوں کے معیشت پر تو اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن ان کے ثمرات اس طرح سامنے نہیں آرہے ہیں جیسے آنے چاہیے۔
اس کی وجہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے۔جب تک سیاسی عدم استحکام دور نہیں ہوتا، ملکی معیشت بھی پوری رفتار سے ترقی نہیں کرسکتی۔بلاشبہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں موجودہ حکومت کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدہ کر کے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بھی حاصل کیا۔
حالیہ سیلاب کی وجہ سے دوست ممالک نے بھی پاکستان کی دل کھول کر مدد کی، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ نہیں پڑا ۔ اب پاکستان کے لیے یورپی ممالک سے تجارت کی راہیں بھی کھل جائیں گی ، ملک کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو اپنی برآمدات کی شرح بڑھانے کی از حد ضرورت ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی کے سوال پر ماہرین ِمعاشیات میں اِختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو کوریا کی مثال سامنے رکھنی چاہیے اور ماضی میں 1960سے 1965 کے پانچ سالہ دور میں ایسا کرنے کی ایک کوشش بھی کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات کا دوسرا طبقہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو خدمات کے شعبے کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے لیکن اگر خدمات کسی معیشت کی بنیاد ہوں جیسا کہ ٹرانسپورٹ اور مواصلات ، خوردہ اور تھوک ، صحت کی خدمات ، کاروباری خدمات (کمپیوٹر ، اِنٹرنیٹ وغیرہ) حکومت اور انتظامی امور یہ سب براہ راست یا بالواسطہ طور پر اشیاء کی پیداوار پر منحصر ہیں۔
اس کا سب سے واضح مظاہرہ فنانس ، انشورنس اور رئیل اسٹیٹ صنعتوں سے ہوتا ہے۔ یہ باقی معیشت کے ذریعے پیدا ہونے والی اشیاء کو مختلف شعبوں میں منتقل کرتے ہیں۔
مہنگائی کی شرح بھی بہت زیادہ بلند ہوچکی ہے ، عام آدمی کے لیے کچن کا خرچہ پورا کرنا بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے، حکومت کو ڈسٹرکٹ کی سطح پر قائم سرکاری اداروں کو فعال کرنا ہوگا ،جو منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی کرسکیں۔ مہنگائی پر قابو پانا حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پاکستان کو معاشی اور خارجہ امور کے محاذ پر کامیابی ملی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے سخت محنت اور عالمی توازن کی ضرورت ہے۔پاکستان کو مالیاتی ڈسپلن کی اشد ضرورت ہے' ملکی معیشت اور مالیاتی شعبے کو نگرانی کے بغیر ریگولرائز کرنا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کر کے مالی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔ افغانستان کی نرم سرحد پاکستانی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔وفاقی حکومت اور اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو پاک افغان سرحد کے ذریعے ہونے والی غیر قانونی تجارت کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے ساتھ تجارت ضرور ہونی چاہیے لیکن یہ تجارت مسلمہ بین الاقوامی اصولوں اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیرف وغیرہ کی مد میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کو مالی فائدہ پہنچے۔ اس طریقے سے غیر قانونی تجارت کا بھی خاتمہ ہو گا اور کالے دھن پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
غیرقانونی تجارت پاکستان ہی کی معیشت نہیں بلکہ افغانستان کی معیشت کو بھی تباہ کررہی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کنٹرول کو سخت کرے تاکہ انھیں بھی ٹیکسوں کی مد میں خطیر رقم مل سکے۔
اس وقت افغانستان اور ایران کی سرحد کے ذریعے اربوں روپے کی تجارت ہورہی ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ غیرقانونی تجارت پر مشتمل ہے۔ جس کا فائدہ نہ پاکستان کو ہے اور نہ ہی افغانستان اور ایران کو ہے۔ لہٰذا اس غیرقانونی تجارت کا خاتمہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔
بلاشبہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو خاصا نقصان ہوا ہے ۔ پاکستانی معیشت دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے۔ سیلاب سے کل کاشت شدہ اراضی کے 22 ملین ہیکٹر میں سے 7 ملین ہیکٹر زیر آب آچکے ہیں جو تقریباً 33 فی صد ہے۔
موسمیاتی تبدیلی 21ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ یہ موسم کے پیٹرن میں تبدیلیوں اور موسمی درجہ حرارت میں تبدیلیوں سے مراد ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا زراعت پر گہرا اثر پڑتا ہے اور خوراک کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔
پاکستان درجہ حرارت اور موسم کی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کا اثر وسیع ہے جیسے کہ زراعت کی پیداوار میں کمی، مسلسل خشک سالی، ساحلی کٹاؤ اور اوسط سے زیادہ بارش۔ آج ملک میں سیلاب کی صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ ہے جس نے ہزاروں ایکڑ اراضی کو تباہ اور لاکھوں افراد کو جانوں کے ضیاع کے ساتھ بے گھر کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک پر ملکی اور غیرملکی قرضوں کا انبار ہے ،یہ قرضے معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ، توانائی کا بحران بھی شدید سے شدید تر ہورہا ہے۔
بجلی کا ٹرانسمیشن سسٹم فرسودہ ہوچکا ہے ،ہم نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈیمز بنانے کی طرف کبھی توجہ نہ دی، بجلی کے نرخ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب متوسط طبقہ بجلی کے بل ادا کرتا ہے تو گھر کا کچن چلانا مشکل ہوجاتا ہے اور تیسری بات یہ کہ ہمیشہ سے ہمارا مقصد اقتدار بچاؤ تو رہا غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح نہ رہا۔
ہم ہمیشہ اقتدار میں آنے کے لیے یہ تاثر دیتے رہے کہ پرانی حکومتیں غیر جمہوری تھیں ہم حکومت کے اصل وارث ہیں اور عوام کے خدمتگار ہیں اور عوام اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اپنا بھی دن آئے گا لیکن ہر دن مہنگائی کی نوید لے کر آیا پاکستان نے انیس سو اٹھاسی کے بعد سخت شرائط پر قرض لیا اس سے قبل قرض پر شرائط نہ ہونے کے برابر تھیں قرض بڑھتا گیا شرائط سخت ہوتی گئیں یعنی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
حزب اقتدار اور مخالف کی سیاسی کشمکش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں نے عوام کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح اٹھائیس فی صد ہے جو مستقبل قریب میں پینتیس سے چالیس فی صد ہوجائے گی ۔
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی صورتحال سے کاروباری طبقہ پریشان ہے۔ عمران خان احتجاجی مارچ کر رہے ہیں جب کہ اتحادی حکومت بھی اپنے موقف پر پوری طرح ڈٹی ہوئی ہے۔ملک کے اندر جمہوری کلچر انتہائی کمزور ہو چکا ہے' حکومت کی تبدیلی کے لیے آئین میں ایک طریقہ کار درج ہے لیکن اس کو فالو کرنے کی بجائے گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کو مسائل کا حل سمجھ لینا جمہوریت دوستی نہیں ہے۔
پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں تاحال ناکام چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ داخلی سطح پر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے درپیش ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جوڑ توڑ کی سیاست میں مصروف ہے جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران ختم ہونے میں نہیں آ رہا جب اہم معاملات آئین میں درج ہیں تو تمام سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ آئین میں دیے گئے اصولوں اور قوانین کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں اور اپنے اپنے جماعتی منشور کی بنیاد پر سیاسی سرگرمیاں کریں۔
پرامن احتجاج بھی سیاسی جماعت کا حق ہے بلکہ پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق بھی کچھ پابندیوں اور فرائض کے ساتھ مخصوص ہے ' کوئی سیاسی جماعت اگر کسی معاملے پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنا چاہتی ہے تو اس کے پاس ایک سولڈ گراؤنڈ ہونی چاہیے' مخالفت برائے مخالفت کے نام پر احتجاج کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔
احتجاج کا طریقہ کار باقاعدہ طور پر واضح ہونا چاہیے اور اس کی حکومت کو مکمل طور پر آگاہی ہونی چاہیے اور اس کی منظوری ہونی چاہیے تاکہ کسی قسم کی کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہو۔ سیاسی جماعتیں اگر خود کو جمہوری حدود میں رکھیں گی تو ریاستی ادارے بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے کیونکہ سیاسی قیادت کی کمزوریاں ہی ریاستی اداروں کو مداخلت پر مجبور کرتی ہیں۔