فوری انتخابات بمقابلہ شفاف انتخابات

ملک کی انتخابی تاریخ میں کوئی بھی الیکشن شفافیت کی ساکھ قائم نہیں رکھ سکا


سلمان عابد November 04, 2022
[email protected]

پاکستان کی سیاسی اورانتخابی تاریخ میں ایک بنیادی نقطہ صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا ہے۔ شفاف انتخابات محض ایک سیاسی نعرہ نہ ہو بلکہ پوری قوم کو یہ عمل واقعی شفاف بنیادوں پر نظر بھی آنا چاہیے کیونکہ جمہوریت کی کنجی شفافیت پر مبنی انتخابات ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شفاف انتخابات کی منزل بہت دور ہے اورآج بھی شفاف انتخابات موضوع بحث ہیں۔ ملک کی انتخابی تاریخ میں کوئی بھی الیکشن شفافیت کی ساکھ قائم نہیں رکھ سکا۔ دوئم ہمارے جیسے ملکوںمیں اپنی شکست کو تسلیم نہ کرنے کی بھی روایت بھی موجود ہے جو ہماری سیاسی و جمہوری اخلاقیات اور طرز عمل سے جڑے کمزور پہلوؤں کی بھی نشاندہی کرتا ہے ۔

شفاف انتخابات کی کنجی الیکشن کمیشن سمیت دیگر تمام ریاستی و حکومتی اداروں، سیاسی جماعتوں اور شہریوں سے جڑی ہوتی ہے۔الیکشن کمیشن کی خود مختاری پر بہت زیادہ بات ہوتی ہے مگر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بیشتر انتخابی سیاسی و قانونی ریفارمز کے باوجود الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔

آج بھی قومی سیاست میں الیکشن کمیشن کی صلاحیت یا قابلیت سمیت ان کی کارکردگی پر بہت سے لوگ بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھارہے ہیں۔الیکشن کمیشن کے تناظر میں سیاسی اور غیر سیاسی مداخلتوں کا کھیل بھی ہمیشہ عروج پر تھا۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا پورا سیاسی نظام ہی یرغمال نظر آتا ہے ۔

انتخابی عمل کو پانچ مراحل میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اول، انتخابی مہم کا ماحول، دوئم پولنگ کا دن اور نتائج کی شفافیت ، سوئم، انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل کے مراحل، چہارم انتخابی نظام میں ریاستی اداروں کا کردار اور پنجم انتخابی قوانین پر عملدرآمد کے نظام کو دیکھنا ہوگا۔

یہ جو منطق دی جاتی ہے کہ یہاں انتخابات سے پہلے ہی بہت سے ایسے فیصلے طاقت ور حلقوں میں کسی کی حمایت یا مخالف میں ہوتے ہیں اس کو روکے بغیر کیسے انتخابی نظام کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہاں اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت ایک حقیقت ہے ۔ اس کا علاج تلاش کیے بغیر بھی شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکتا ۔

اس وقت بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں فوری انتخابات کی بحث ہے۔ عمران خان اگلے برس مارچ یا اپریل میں انتخابات چاہتے ہیں جب کہ حکومت اور ان کے اتحادیوں کے بقول انتخابات اگلے برس ستمبر یا اکتوبر میں ہی ہوں گے۔

لیکن بنیادی سوال جہاں انتخابات کے انعقاد کا ہے وہیں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہونا چاہیے کہ انتخابات کی حیثیت ''شفافیت پر مبنی انتخابات یا سمجھو توں پر مبنی انتخابات '' میں سے کس کو برتری حاصل ہوگی ۔

ایک بڑا مسئلہ پورے انتخابی نظام میں کارپوریٹ انتخابی نظام کا ہے۔ یعنی جمہوری نظام میں دولت کے استعمال نے شفافیت کے معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ایسے میں دولت کے بڑھتے ہوئے کھیل میں انتخابی نظام سے جڑے قوانین کی بھی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

جب الیکشن کمیشن اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو ایسے میں شفافیت کے نعرے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں حکمران طبقہ ہو ،ریاست کے ادارے یا الیکشن کمیشن سمیت وہ ادارے جو براہ راست انتخابات کی شفافیت سے جڑے ہیں وہ ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا جدیدیت کی طرف بڑھ رہی ہے کہ جب کہ ہمارا انتخابی نظام ابھی بھی پرانے خیالات او رطور طریقوں کے ساتھ کھڑا ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کرنے کے بجائے پرانے اور فرسودہ طور طریقوں پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے ۔

اب بھی وقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک کے شفاف انتخابات کے حوالے سے سرجوڑ کر بیٹھیں۔ سیاسی جماعتوں سمیت الیکشن کمیشن اور انتخابات کی شفافیت پر کام کرنے والے سول سوسائٹی کے ادارے یا علمی یا فکری ماہرین جو انتخابی اصلاحات رکھتے ہیں یا پہلے سے جو بھی انتخابی اصلاحات کی تجاویز ہمارے سامنے ہیں ان کو بنیاد بنا کر جدید اور شفاف انتخابی نظام میں اصلاحات کریں۔

اس پر عملدرآمد کے موثر نظام کو بھی ادارہ جاتی سطح پر ممکن بنائیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنی مرضی کے انتخابی نتائج کے حصول کے لیے پس پردہ قوتوں سے سازباز کرنے کے بجائے عوامی مینڈیٹ جو شفافیت پر مبنی ہوکو اختیار کریں۔

اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی ماضی کی غلطیوں کا بھی اعادہ کرے او رکسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز سے گریز کرکے عوام کو ہی فیصلہ کرنے دے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ایسا ماحول بنایا جائے جو سب کے لیے نہ صرف قابل قبول ہو بلکہ اس نظام پر ان کو مکمل یقین بھی ہو۔

مسئلہ ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کرنا ہے کہ ریاستی ادارے اور الیکشن کمیشن سمیت ایک نقطہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ پہلے ہی اس ملک میں لوگوں کا اعتماد سیاست، جمہوریت اور انتخابات کی شفافیت کے نظام سے اٹھ رہا ہے یا بداعتمادی پیدا کررہا ہے۔ اس کاایک نتیجہ ہم کم ٹرن آوٹ یا لوگوں کی عدم دلچسپی کے طو رپر بھی دیکھ رہے ہیں ۔

اس لیے اگر ہم نے اپنے سیاسی نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے تو ہمیں شفافیت کے نظام کی طرف بڑھنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوری نظام کی کنجی شفافیت کے نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر ہم نے نئے انتخابات بھی پرانی روش، پرانے کھیل یعنی بدعنوانی کی بنیاد پر کروانے ہیں تو یہ مشق بحران کو حل نہیں بلکہ اس میں مزید بگاڑ پیدا کرے گی ۔

جمہوری نظام کی بقا کا دارومدار شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی جمہوری اقدار اور روایات کا پابند ہونا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں کو گھیراؤ جلاؤ کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کے بجائے اپنے منشور کی بنیاد پر عوام کو قائل کرنے کے لیے جلسے جلوس کرنے چاہئیں جب کہ احتجاج کا مقصد حزب اقتدار کو یہ احساس دلانے کے لیے ہونا چاہیے کہ اس کی پالیسیاں ملک کے لیے یا عوام کے مفادات کے مطابق نہیں ہیں تاکہ حکومت اپنی اصلاح کر سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں