جملۂ معترضہ
ابن الحسن کے کالموں کا ایک انتخاب ’’جملۂ معترضہ‘‘ کے عنوان سے فضلی سنز نے شایع کیا ہے
میجر ابن الحسن ''جملۂ معترضہ'' کے عنوان سے اخبار میں کالم لکھتے تھے۔ ان کے یہ ہفتہ وار کالم جب شروع ہوئے تو 1983 رخصت ہو رہا تھا، آٹھ سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان کا ہماری قومی، سیاسی اور سماجی زندگی سے گہرا تعلق تھا۔ انھوں نے جو کچھ لکھا وہ ایک گہری سوچ کا نتیجہ تھا اور اس نے قارئین پر اس کا تاثر چھوڑا۔
اپنے ایک کالم میں ابن الحسن لکھتے ہیں۔ ''اس ساری شکست و ریخت کے بعد جو پاکستان میں ہوتی رہی ہے اور جس کے ہم سب ہی ذمے دار ہیں۔
یہ کس طرح ممکن ہے کہ آج کے پاکستان میں بھی قومی سلامتی کے تقاضوں کا وہی فرسودہ تصور ہم اپنے سینوں سے لگائے رہیں جو ہمارے قومی سن بلوغ سے پہلے بیرونی سامراجی نظام کی ضروریات کے لیے رائج الوقت تھا۔ یہ تصور پندرہ بیس سال قبل ہی رد کیا جا چکا تھا۔
اسی بنا پر آج اگر کوئی اعلیٰ سرکاری افسر اپنے رتبے کے بل بوتے پر یہ کہے کہ چند افسروں کی غلط کاریوں کے منظر عام پر آجانے سے کسی ادارے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو اس سے بڑھ کر قومی مفاد کے منافی اور کیا تاویل ہو سکتی ہے۔ چند افسران کی بدعنوانیوں کو کسی ادارے کی بدعنوانیوں سے عبارت کر دینا ایک انتہائی درجہ پرفریب کوشش ہے۔ ''
ابن الحسن کے کالموں کا ایک انتخاب ''جملۂ معترضہ'' کے عنوان سے فضلی سنز نے شایع کیا ہے۔ اس میں 1983 سے 1991 تک شایع ہونے والے چوالیس کالم شامل ہیں۔ اس انتخاب کا کوئی مخصوص پیمانہ نہیں۔2 فروری 1991 کے کالم میں ابن الحسن لکھتے ہیں۔ '' پاکستان میں یہ دستور ہے کہ ایک دفعہ جو بات ہو جائے۔
اس کا عقل و فراست، اعتدال اور معقولیت سے خواہ کچھ بھی تعلق نہ ہو اور وہ نہایت مہمل اور مجہول ہی کیوں نہ ہو، فرض، سنت اور نفل کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے ، اگر ایک حکمران چالیس پچاس کا طائفہ لے کر بیرونی ممالک چلا جائے تو پھر ان کا ہر جانشین یہی کرے گا ، اگر ایک وزیر اعظم قوم کو اپنا ''چہرہ کرانے'' سے قبل اور مابعد قومی ترانے کا اہتمام کرائے گا تو اس بدبخت کو حکمرانی کی سنت میں داخل کرلیا جائے گا۔
تقاریب، مراتب، لباس، تحائف، ضیافت، سواری کی نوعیت، حفاظتی عملہ، دفتر، رہائش گاہ کی آرائش غرض ہر چیز کی حیثیت واجبات کی ہے۔ مجال نہیں کہ اس میں کوئی فرق آجائے، کوئی تبدیلی کردی جائے۔
ان بدعتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔''ابن الحسن کے کالموں پر اظہار رائے کرتے ہوئے مشفق خواجہ فرماتے ہیں کہ کالم نگاری کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لکھنے والا وسیع المطالعہ ہو۔ تاریخ ہی سے نہیں، ان تمام علوم سے بھی وہ واقف ہو جنھوں نے اس کے عہد کی سیاست کی صورت گری کی ہے اور یہ تاریخ و علوم بھی کسی جغرافیائی خطے تک محدود نہ ہوں بلکہ پورے کرہ ارض سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ موجودہ دور میں کسی بھی خطے کی صورت حال، کسی دوسرے بعید ترین خطے کی صورت حال کو متاثر کرسکتی ہے۔
تاریخ ہمیشہ دو دائروں میں سفر کرتی ہے، ایک دائرہ مقامی تاریخ کا ہوتا ہے اور دوسرا دائرہ عالمی تاریخ کا۔ یہ دونوں دائرے ایک دوسرے کی حدوں میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ کالم نگار اگر ان دائروں کے باہمی ربط سے آگاہ نہیں ہوگا تو اس کی تحریر حقیقت کی عکاسی سے قاصر رہے گی۔ اگر مذکورہ بالا کڑے معیار سے ہم اردو اخبارات کے کالم نگاروں کو جانچیں تو دو ایک کالم نگاروں پر ہی ہماری نظر ٹھہرے گی۔ جناب ابن الحسن ہمارے ان ہی دو ایک کالم نگاروں میں سے ہیں۔
ان کی کالم نگاری کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس سارے تاریخی عمل پر نظر رکھتے ہیں جس کے ایک حصے کے طور پر یہ حالات اور واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ انداز نظر ان کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ ان کا مطالعہ تاریخ عالم، معاشیات، سماجیات اور سیاست سے لے کر ادیان عالم تک پھیلا ہوا ہے۔
اور ان کے مشاہدے کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مطالعاتی سفر کرچکے ہیں اور عہد حاضر کے بہت سے عالمی سیاست دانوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ اسی لیے ان کے کالموں میں جہاں ایک طرف موضوع کا سنجیدہ اور فکر انگیز تجزیہ ہوتا ہے، دوسری طرف ذاتی مشاہدات، اعتبار اور دلچسپی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ابن الحسن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ''سیاسی قیادت کے دعوے داروں اور خواہش مندوں کی ہمارے ملک میں ایک بڑی شکل ہے۔
جہاں اور بہت سی نہایت ابتدائی اور بنیادی باتوں کے متعلق انھوں نے کوئی واضح اور معقول فیصلہ نہیں کیا ہے اور جس طرح وہ دوسرے مسائل کے بارے میں ذہنی الجھن کا شکار ہیں اسی طرح وہ اپنے متعلق بھی یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ لوگ انھیں کیا سمجھیں۔شاید ہم اس بہت بڑے واقعے کی اہمیت اور حقیقت پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھتے جو 14 اگست 1947 کو ظہور پذیر ہوا تھا۔
اس دن ہم بحیثیت ایک آزاد قوم کے نمودار ہوئے تھے اور ہمارا آزاد اور خودمختار وطن معرض وجود میں آیا تھا۔ اس دن یہ سرزمین، اس کے وسائل، اس کا حال، اس کا مستقبل، ہر چیز ہماری تحویل میں آگئی تھی۔
ہم ہی اس کے محافظ تھے، ہم ہی اس کے مالک ہوگئے تھے اور ہم پر ہی اس کی ذمے داری عائد ہوگئی تھی کہ ہم چاہیں تو اسے تباہ کردیں اور چاہیں تو اسے تعمیر اور مستحکم کریں۔ اسے نقصان پہنچتا ہوا دیکھیں تو نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ روک دیں اور چاہیں تو اس میں خود بھی شریک ہو جائیں۔ اس میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ حاکم، محکوم، سیاست داں سب ہی اس ملک کے باشندے، اپنی قوم کے فرد ہیں، آزاد، خودمختار اور جواب دہ۔''
ابن الحسن کے کالموں پر حکیم محمد سعید کا یہ تبصرہ کہ ''ہر وہ جملہ جو طبع نازک پر گراں گزرے جملۂ معترضہ شمار ہوتا ہے مگر وہ جملہ کہ جو حقیقت سے عبارت ہو اور صداقت اس کا عنوان، تاریخ بن جاتا ہے۔
میجر ابن الحسن کے جملہ ہائے معترضہ آج حالات حاضر اور رفتار زمانہ کے عکاس ہیں مگر کل ان کی حیثیت پاکستان کی سیاست، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی تاریخ ہوگی'' کس قدر صحیح ہے۔
اپنے ایک کالم میں ابن الحسن لکھتے ہیں۔ ''اس ساری شکست و ریخت کے بعد جو پاکستان میں ہوتی رہی ہے اور جس کے ہم سب ہی ذمے دار ہیں۔
یہ کس طرح ممکن ہے کہ آج کے پاکستان میں بھی قومی سلامتی کے تقاضوں کا وہی فرسودہ تصور ہم اپنے سینوں سے لگائے رہیں جو ہمارے قومی سن بلوغ سے پہلے بیرونی سامراجی نظام کی ضروریات کے لیے رائج الوقت تھا۔ یہ تصور پندرہ بیس سال قبل ہی رد کیا جا چکا تھا۔
اسی بنا پر آج اگر کوئی اعلیٰ سرکاری افسر اپنے رتبے کے بل بوتے پر یہ کہے کہ چند افسروں کی غلط کاریوں کے منظر عام پر آجانے سے کسی ادارے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو اس سے بڑھ کر قومی مفاد کے منافی اور کیا تاویل ہو سکتی ہے۔ چند افسران کی بدعنوانیوں کو کسی ادارے کی بدعنوانیوں سے عبارت کر دینا ایک انتہائی درجہ پرفریب کوشش ہے۔ ''
ابن الحسن کے کالموں کا ایک انتخاب ''جملۂ معترضہ'' کے عنوان سے فضلی سنز نے شایع کیا ہے۔ اس میں 1983 سے 1991 تک شایع ہونے والے چوالیس کالم شامل ہیں۔ اس انتخاب کا کوئی مخصوص پیمانہ نہیں۔2 فروری 1991 کے کالم میں ابن الحسن لکھتے ہیں۔ '' پاکستان میں یہ دستور ہے کہ ایک دفعہ جو بات ہو جائے۔
اس کا عقل و فراست، اعتدال اور معقولیت سے خواہ کچھ بھی تعلق نہ ہو اور وہ نہایت مہمل اور مجہول ہی کیوں نہ ہو، فرض، سنت اور نفل کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے ، اگر ایک حکمران چالیس پچاس کا طائفہ لے کر بیرونی ممالک چلا جائے تو پھر ان کا ہر جانشین یہی کرے گا ، اگر ایک وزیر اعظم قوم کو اپنا ''چہرہ کرانے'' سے قبل اور مابعد قومی ترانے کا اہتمام کرائے گا تو اس بدبخت کو حکمرانی کی سنت میں داخل کرلیا جائے گا۔
تقاریب، مراتب، لباس، تحائف، ضیافت، سواری کی نوعیت، حفاظتی عملہ، دفتر، رہائش گاہ کی آرائش غرض ہر چیز کی حیثیت واجبات کی ہے۔ مجال نہیں کہ اس میں کوئی فرق آجائے، کوئی تبدیلی کردی جائے۔
ان بدعتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔''ابن الحسن کے کالموں پر اظہار رائے کرتے ہوئے مشفق خواجہ فرماتے ہیں کہ کالم نگاری کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لکھنے والا وسیع المطالعہ ہو۔ تاریخ ہی سے نہیں، ان تمام علوم سے بھی وہ واقف ہو جنھوں نے اس کے عہد کی سیاست کی صورت گری کی ہے اور یہ تاریخ و علوم بھی کسی جغرافیائی خطے تک محدود نہ ہوں بلکہ پورے کرہ ارض سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ موجودہ دور میں کسی بھی خطے کی صورت حال، کسی دوسرے بعید ترین خطے کی صورت حال کو متاثر کرسکتی ہے۔
تاریخ ہمیشہ دو دائروں میں سفر کرتی ہے، ایک دائرہ مقامی تاریخ کا ہوتا ہے اور دوسرا دائرہ عالمی تاریخ کا۔ یہ دونوں دائرے ایک دوسرے کی حدوں میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ کالم نگار اگر ان دائروں کے باہمی ربط سے آگاہ نہیں ہوگا تو اس کی تحریر حقیقت کی عکاسی سے قاصر رہے گی۔ اگر مذکورہ بالا کڑے معیار سے ہم اردو اخبارات کے کالم نگاروں کو جانچیں تو دو ایک کالم نگاروں پر ہی ہماری نظر ٹھہرے گی۔ جناب ابن الحسن ہمارے ان ہی دو ایک کالم نگاروں میں سے ہیں۔
ان کی کالم نگاری کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس سارے تاریخی عمل پر نظر رکھتے ہیں جس کے ایک حصے کے طور پر یہ حالات اور واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ انداز نظر ان کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ ان کا مطالعہ تاریخ عالم، معاشیات، سماجیات اور سیاست سے لے کر ادیان عالم تک پھیلا ہوا ہے۔
اور ان کے مشاہدے کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مطالعاتی سفر کرچکے ہیں اور عہد حاضر کے بہت سے عالمی سیاست دانوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ اسی لیے ان کے کالموں میں جہاں ایک طرف موضوع کا سنجیدہ اور فکر انگیز تجزیہ ہوتا ہے، دوسری طرف ذاتی مشاہدات، اعتبار اور دلچسپی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ابن الحسن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ''سیاسی قیادت کے دعوے داروں اور خواہش مندوں کی ہمارے ملک میں ایک بڑی شکل ہے۔
جہاں اور بہت سی نہایت ابتدائی اور بنیادی باتوں کے متعلق انھوں نے کوئی واضح اور معقول فیصلہ نہیں کیا ہے اور جس طرح وہ دوسرے مسائل کے بارے میں ذہنی الجھن کا شکار ہیں اسی طرح وہ اپنے متعلق بھی یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ لوگ انھیں کیا سمجھیں۔شاید ہم اس بہت بڑے واقعے کی اہمیت اور حقیقت پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھتے جو 14 اگست 1947 کو ظہور پذیر ہوا تھا۔
اس دن ہم بحیثیت ایک آزاد قوم کے نمودار ہوئے تھے اور ہمارا آزاد اور خودمختار وطن معرض وجود میں آیا تھا۔ اس دن یہ سرزمین، اس کے وسائل، اس کا حال، اس کا مستقبل، ہر چیز ہماری تحویل میں آگئی تھی۔
ہم ہی اس کے محافظ تھے، ہم ہی اس کے مالک ہوگئے تھے اور ہم پر ہی اس کی ذمے داری عائد ہوگئی تھی کہ ہم چاہیں تو اسے تباہ کردیں اور چاہیں تو اسے تعمیر اور مستحکم کریں۔ اسے نقصان پہنچتا ہوا دیکھیں تو نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ روک دیں اور چاہیں تو اس میں خود بھی شریک ہو جائیں۔ اس میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ حاکم، محکوم، سیاست داں سب ہی اس ملک کے باشندے، اپنی قوم کے فرد ہیں، آزاد، خودمختار اور جواب دہ۔''
ابن الحسن کے کالموں پر حکیم محمد سعید کا یہ تبصرہ کہ ''ہر وہ جملہ جو طبع نازک پر گراں گزرے جملۂ معترضہ شمار ہوتا ہے مگر وہ جملہ کہ جو حقیقت سے عبارت ہو اور صداقت اس کا عنوان، تاریخ بن جاتا ہے۔
میجر ابن الحسن کے جملہ ہائے معترضہ آج حالات حاضر اور رفتار زمانہ کے عکاس ہیں مگر کل ان کی حیثیت پاکستان کی سیاست، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی تاریخ ہوگی'' کس قدر صحیح ہے۔