سوشل میڈیا کا کردار
لوگوں کے حافظے اتنے خراب نہیں کہ اس بھارتی ڈرامے کو یاد نہ رکھ سکیں
گزشتہ کالم '' مڈل کلاس مینٹیلیٹی '' پر احباب اور جاننے والوں کے بہت سے فون آئے، جن میں شکوہ تھا کہ کالم تشنہ ہے اور اس میں بہت سے پہلوؤں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
ان کا فرمانا اور اعتراض بجا، لیکن کالم کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اس کا اختصار ہی اس کا حسن ہے۔ مضمون اور کالم کا بنیادی فرق بھی یہی ہے، بہرحال جو پہلو رہ گئے تھے اسے آج موضوع سخن بنا لیتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی ڈراموں کی، ان کی پروڈکشن ٹیم پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ صرف دو یا تین پروڈکشن ہاؤس ہیں جو ڈرامے بنا کر چینلز کو فروخت کرتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ موضوعات کی شدت سے کمی ہے یا تو دو نوجوان کسی ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جس نوجوان کو لڑکی لفٹ نہیں کراتی وہ دشمن بن جاتا ہے اور لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے یا پھر دو لڑکیاں کسی ایک ہی شخص کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور جو لڑکی نوجوان کی توجہ حاصل نہیں کر پاتی وہ اس کی شادی ہونے کے بعد بھی اس کے پیچھے لگی رہتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ نوجوان اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ ایسے ایسے احمقانہ ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں کہ برداشت کرنا مشکل ہے۔
اگر کسی چینل کا کوئی ڈرامہ ناظرین میں پسند کیا جا رہا ہے تو دوسرا چینل بھی اسی کی طرزکا ڈرامہ لکھوا کر پیش کردیتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک ڈرامے میں ایک ملازم مالکوں کی بیٹی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے، لڑکی اس کی ہمت افزائی نہیں کرتی، نوکر نہایت امیر کبیر زمیندار گھرانے کی لڑکی کو جب حاصل نہیں کر پاتا تو اسے بد دعائیں دیتا ہے۔
اسے پریشان کرتا ہے، پھر اپنے ماں باپ تک اپنی موت کی جھوٹی خبر پہنچوا کر جوگ لے لیتا ہے، بیراگی بن جاتا ہے اور ایک مزار پر ڈیرہ جما لیتا ہے۔ ایک دوسرے ڈرامے والوں نے بھی ایک پیروں کے گھرانے کے لڑکے کو ایک گانے والی کے عشق میں مبتلا کروا دیا۔ ایک اور ڈرامہ بالکل بھارتی ڈرامے کی نقل ہے۔
لوگوں کے حافظے اتنے خراب نہیں کہ اس بھارتی ڈرامے کو یاد نہ رکھ سکیں۔ مجھے میری کولیگ عذرا نے جب یاد دلایا تو مجھے بھی یاد آگیا۔
گزشتہ دو عشروں سے جو ڈرامہ ہمیں دکھایا جا رہا ہے وہ کمرشل ازم کا شکار ہے۔ پہلے جب ایک پی ٹی وی تھا اور بلیک اینڈ وائٹ تھا تب بڑے زبردست ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ لکھنے والوں کو آزادی بھی تھی لکھنے کی اور ذمے داری کا احساس بھی کہ یہ فیملی ڈرامہ ہے اور اسے خواتین، لڑکیاں اور بچے بھی دیکھیں گے۔
کیسے کیسے لاجواب ڈرامے ہمیں دیکھنے کو ملے اور کیسے کیسے مہذب اداکار اور اداکاراؤں نے ہم سب کے دلوں کو جیت لیا جیسے ، روحی بانو، خالدہ ریاست، ثمینہ پیرزادہ، شہناز شیخ، عثمان پیرزادہ، خالد سعید بٹ، انور سجاد وغیرہ وغیرہ۔ آج تک ان کا کام ذہنوں میں محفوظ ہے۔ لیکن آج معاملہ برعکس ہے۔
سب سے پہلے لباس اور میک اپ کو لیجیے۔ ہیروئن اور دوسری خاتون اداکارائیں جب نماز پڑھنے کھڑی ہوتی ہیں تو چہرہ میک اپ سے لتھڑا ہوا ہوتا ہے۔ لپ اسٹک چہکتی ہوئی، لگتا ہے آٹے کی بوری میں منہ ڈال کر اور رخساروں پر برش سے بلش آن لگا کر آئی ہے۔
ایک بار ایکسپو سینٹر میں کتابوں کی نمائش کے دوران ایک جاننے والے صحافی سے ملاقات ہوئی جن کا تعلق ٹیلی وژن سے بھی تھا۔ میں اور میرے شوہر اختر جوناگڑھی بھی ساتھ تھے۔
وہ صحافی جن کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا، باتیں کرنے لگے۔ چند منٹ بعد ایک لڑکی ہاتھ میں چند کتابیں لیے آن پہنچی۔ موصوف نے ہمارا تعارف اس لڑکی سے کروایا اور پوچھا کہ وہ کون کون سی کتابیں لائی ہے۔
اس نے پانچ کتابیں انھیں دکھائیں تو ان میں دو کتابیں میری تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا۔ تب وہ صحافی بولے ''میڈم! اس بچی کو لکھنے کا شوق ہے۔
ہم اس سے ڈرامہ لکھوانا چاہ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کچھ کتابیں خرید رہی ہے۔ آپ اس کی ہیلپ کردیں اور کچھ کتابیں اور دلوا دیں افسانوں کی۔ میں اس لڑکی کے ساتھ کتابوں کی دکانوں کی طرف چلی گئی اور اس سے پوچھا کہ وہ یہ کتابیں کیوں خرید رہی ہے؟ اس پر وہ بولی '' میڈم ! سر کہہ رہے تھے کہ افسانوں کی کتابیں پڑھو، تمہیں آئیڈیاز ملیں گے پھر تھوڑا بہت ان افسانوں سے مدد لے کر کہانی لکھو۔''
کہانی کی چوری عام ہے۔ اچھا لکھنے والوں سے ڈرامہ نہیں لکھوایا جاتا، نہ ان کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے۔ یہاں بھی پیسہ اور سفارش چلتی ہے۔
لوگوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اپنے ''ہونہار سپوت'' کو لانچ کرنے کے لیے ڈرامہ بنا رہا ہے، وہی پرانی گھسی پٹی عام سی کہانی۔ ہر چیز کی زیادتی اس کی افادیت اور حسن کھو دیتی ہے۔ یہی چینلز کے ساتھ ہوا۔ پرائم ٹائم میں پروگرام دکھا کر اگلے دن سے وہ بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ گنے کی طرح جب تک پھوک نہ نکل آئے وہ پروگرام جان نہیں چھوڑتا۔
یاد کیجیے پی ٹی وی کا سنہرا دور۔ ہفتے میں ایک ڈرامہ آتا تھا، پرائم ٹائم میں نو بجے ایک ڈرامہ دکھایا جاتا تھا، اسی دن رات کو وہ ڈرامہ دوبارہ دکھایا جاتا تھا اور پھر اس سے اگلے دن کسی وقت بھی اسے دہرا دیا جاتا تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ نیوز ہمیشہ اپ ڈیٹ ہوتی تھیں، خبروں کا کچومر نہیں نکالا جاتا تھا۔
خبریں لکھی ہوئی بھی آتی ہیں۔ آواز کے ساتھ بھی سنائی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ٹیکر (Ticker) بھی چلتے رہتے ہیں۔ اب آدمی خبر پڑھے، سنے یا دیکھے۔ ایک چوں چوں کا مربہ ہوتا ہے خبرنامہ جس میں اور تو سب کچھ ہوتا ہے البتہ خبر غائب ہو جاتی ہے۔
پی ٹی وی ادب پر مبنی پروگرام بھی پیش کرتا تھا۔ ہمارے ساتھی تاجدار عادل نے بڑے اچھے ادب کے پروگرام پیش کیے ہیں۔
ان کے علاوہ طنز و مزاح پر مبنی پروگرام سرے سے نہیں ہوتے یا تو نہایت رونے دھونے والے پروگرام ہوتے ہیں یا نچلے درجے کے سطحی ذہنیت کے مزاحیہ پروگرام نظر آتے ہیں۔
انور مقصود جیسا حس مزاح سے لبریز پروقار شخص کا ایک جملہ باذوق اور اعلیٰ سطح کی حس مزاح رکھنے والوں کو قہقہہ لگانے پر بے ساختہ مجبور کردیتا ہے۔ اس ملک میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو انور مقصود کے مزاح سے بھرپور پروگرام دیکھنا چاہتے ہیں لیکن انھیں موقعہ نہیں دیتے۔کوئی معلوماتی پروگرام بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ گیتوں اور غزلوں کو تو سرے سے دیس نکالا مل گیا ہے۔ بس رویے زار زار کیوں؟
ان کا فرمانا اور اعتراض بجا، لیکن کالم کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اس کا اختصار ہی اس کا حسن ہے۔ مضمون اور کالم کا بنیادی فرق بھی یہی ہے، بہرحال جو پہلو رہ گئے تھے اسے آج موضوع سخن بنا لیتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی ڈراموں کی، ان کی پروڈکشن ٹیم پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ صرف دو یا تین پروڈکشن ہاؤس ہیں جو ڈرامے بنا کر چینلز کو فروخت کرتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ موضوعات کی شدت سے کمی ہے یا تو دو نوجوان کسی ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جس نوجوان کو لڑکی لفٹ نہیں کراتی وہ دشمن بن جاتا ہے اور لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے یا پھر دو لڑکیاں کسی ایک ہی شخص کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور جو لڑکی نوجوان کی توجہ حاصل نہیں کر پاتی وہ اس کی شادی ہونے کے بعد بھی اس کے پیچھے لگی رہتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ نوجوان اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ ایسے ایسے احمقانہ ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں کہ برداشت کرنا مشکل ہے۔
اگر کسی چینل کا کوئی ڈرامہ ناظرین میں پسند کیا جا رہا ہے تو دوسرا چینل بھی اسی کی طرزکا ڈرامہ لکھوا کر پیش کردیتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک ڈرامے میں ایک ملازم مالکوں کی بیٹی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے، لڑکی اس کی ہمت افزائی نہیں کرتی، نوکر نہایت امیر کبیر زمیندار گھرانے کی لڑکی کو جب حاصل نہیں کر پاتا تو اسے بد دعائیں دیتا ہے۔
اسے پریشان کرتا ہے، پھر اپنے ماں باپ تک اپنی موت کی جھوٹی خبر پہنچوا کر جوگ لے لیتا ہے، بیراگی بن جاتا ہے اور ایک مزار پر ڈیرہ جما لیتا ہے۔ ایک دوسرے ڈرامے والوں نے بھی ایک پیروں کے گھرانے کے لڑکے کو ایک گانے والی کے عشق میں مبتلا کروا دیا۔ ایک اور ڈرامہ بالکل بھارتی ڈرامے کی نقل ہے۔
لوگوں کے حافظے اتنے خراب نہیں کہ اس بھارتی ڈرامے کو یاد نہ رکھ سکیں۔ مجھے میری کولیگ عذرا نے جب یاد دلایا تو مجھے بھی یاد آگیا۔
گزشتہ دو عشروں سے جو ڈرامہ ہمیں دکھایا جا رہا ہے وہ کمرشل ازم کا شکار ہے۔ پہلے جب ایک پی ٹی وی تھا اور بلیک اینڈ وائٹ تھا تب بڑے زبردست ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ لکھنے والوں کو آزادی بھی تھی لکھنے کی اور ذمے داری کا احساس بھی کہ یہ فیملی ڈرامہ ہے اور اسے خواتین، لڑکیاں اور بچے بھی دیکھیں گے۔
کیسے کیسے لاجواب ڈرامے ہمیں دیکھنے کو ملے اور کیسے کیسے مہذب اداکار اور اداکاراؤں نے ہم سب کے دلوں کو جیت لیا جیسے ، روحی بانو، خالدہ ریاست، ثمینہ پیرزادہ، شہناز شیخ، عثمان پیرزادہ، خالد سعید بٹ، انور سجاد وغیرہ وغیرہ۔ آج تک ان کا کام ذہنوں میں محفوظ ہے۔ لیکن آج معاملہ برعکس ہے۔
سب سے پہلے لباس اور میک اپ کو لیجیے۔ ہیروئن اور دوسری خاتون اداکارائیں جب نماز پڑھنے کھڑی ہوتی ہیں تو چہرہ میک اپ سے لتھڑا ہوا ہوتا ہے۔ لپ اسٹک چہکتی ہوئی، لگتا ہے آٹے کی بوری میں منہ ڈال کر اور رخساروں پر برش سے بلش آن لگا کر آئی ہے۔
ایک بار ایکسپو سینٹر میں کتابوں کی نمائش کے دوران ایک جاننے والے صحافی سے ملاقات ہوئی جن کا تعلق ٹیلی وژن سے بھی تھا۔ میں اور میرے شوہر اختر جوناگڑھی بھی ساتھ تھے۔
وہ صحافی جن کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا، باتیں کرنے لگے۔ چند منٹ بعد ایک لڑکی ہاتھ میں چند کتابیں لیے آن پہنچی۔ موصوف نے ہمارا تعارف اس لڑکی سے کروایا اور پوچھا کہ وہ کون کون سی کتابیں لائی ہے۔
اس نے پانچ کتابیں انھیں دکھائیں تو ان میں دو کتابیں میری تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا۔ تب وہ صحافی بولے ''میڈم! اس بچی کو لکھنے کا شوق ہے۔
ہم اس سے ڈرامہ لکھوانا چاہ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کچھ کتابیں خرید رہی ہے۔ آپ اس کی ہیلپ کردیں اور کچھ کتابیں اور دلوا دیں افسانوں کی۔ میں اس لڑکی کے ساتھ کتابوں کی دکانوں کی طرف چلی گئی اور اس سے پوچھا کہ وہ یہ کتابیں کیوں خرید رہی ہے؟ اس پر وہ بولی '' میڈم ! سر کہہ رہے تھے کہ افسانوں کی کتابیں پڑھو، تمہیں آئیڈیاز ملیں گے پھر تھوڑا بہت ان افسانوں سے مدد لے کر کہانی لکھو۔''
کہانی کی چوری عام ہے۔ اچھا لکھنے والوں سے ڈرامہ نہیں لکھوایا جاتا، نہ ان کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے۔ یہاں بھی پیسہ اور سفارش چلتی ہے۔
لوگوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اپنے ''ہونہار سپوت'' کو لانچ کرنے کے لیے ڈرامہ بنا رہا ہے، وہی پرانی گھسی پٹی عام سی کہانی۔ ہر چیز کی زیادتی اس کی افادیت اور حسن کھو دیتی ہے۔ یہی چینلز کے ساتھ ہوا۔ پرائم ٹائم میں پروگرام دکھا کر اگلے دن سے وہ بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ گنے کی طرح جب تک پھوک نہ نکل آئے وہ پروگرام جان نہیں چھوڑتا۔
یاد کیجیے پی ٹی وی کا سنہرا دور۔ ہفتے میں ایک ڈرامہ آتا تھا، پرائم ٹائم میں نو بجے ایک ڈرامہ دکھایا جاتا تھا، اسی دن رات کو وہ ڈرامہ دوبارہ دکھایا جاتا تھا اور پھر اس سے اگلے دن کسی وقت بھی اسے دہرا دیا جاتا تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ نیوز ہمیشہ اپ ڈیٹ ہوتی تھیں، خبروں کا کچومر نہیں نکالا جاتا تھا۔
خبریں لکھی ہوئی بھی آتی ہیں۔ آواز کے ساتھ بھی سنائی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ٹیکر (Ticker) بھی چلتے رہتے ہیں۔ اب آدمی خبر پڑھے، سنے یا دیکھے۔ ایک چوں چوں کا مربہ ہوتا ہے خبرنامہ جس میں اور تو سب کچھ ہوتا ہے البتہ خبر غائب ہو جاتی ہے۔
پی ٹی وی ادب پر مبنی پروگرام بھی پیش کرتا تھا۔ ہمارے ساتھی تاجدار عادل نے بڑے اچھے ادب کے پروگرام پیش کیے ہیں۔
ان کے علاوہ طنز و مزاح پر مبنی پروگرام سرے سے نہیں ہوتے یا تو نہایت رونے دھونے والے پروگرام ہوتے ہیں یا نچلے درجے کے سطحی ذہنیت کے مزاحیہ پروگرام نظر آتے ہیں۔
انور مقصود جیسا حس مزاح سے لبریز پروقار شخص کا ایک جملہ باذوق اور اعلیٰ سطح کی حس مزاح رکھنے والوں کو قہقہہ لگانے پر بے ساختہ مجبور کردیتا ہے۔ اس ملک میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو انور مقصود کے مزاح سے بھرپور پروگرام دیکھنا چاہتے ہیں لیکن انھیں موقعہ نہیں دیتے۔کوئی معلوماتی پروگرام بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ گیتوں اور غزلوں کو تو سرے سے دیس نکالا مل گیا ہے۔ بس رویے زار زار کیوں؟