عالمی سیاسی تصادم کے بڑھتے امکانات

اس وقت دنیا میں بالکل وہی حالات ہیں جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے قبل بن چکے تھے

چینی صدر شی جن پنگ تیسری مرتبہ چین کے صدر منتخب ہوکر نہ صرف چین بلکہ دنیا کے سب سے طاقتور رہنما بن کر ابھرے ہیں، اس سے بیشتر چین کا کوئی بھی رہنما تیسری مدت کے لیے منتخب نہیں ہوسکا۔

صدر شی جن پنگ نے چین پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور شاید ان کی حکومت اب غیر معینہ مدت تک ہوسکتی ہے، اگرچہ ملکی سطح پر شی جن پنگ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر صورتحال بہت غیر مستحکم ہو چکی ہے۔

دوسری طرف امریکا میں وسط مدتی انتخابات صدر جوبائیڈن کی دوسری مدت صدارت کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات ، توانائی اور معاشی بحران کے اثرات سے لگ رہا ہے کہ وسط مدتی انتخابات میں امریکی عوام دوبارہ ری پبلکن پارٹی کو ووٹ دیں گے۔

چینی صدر شی جن پنگ اندرونی معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پوری یکسوئی سے امریکا کے ساتھ تائیوان اور تجارتی جنگ کے معاملات پر توجہ مرکوز کریں گے۔ روس اور یوکرین کی لڑائی بین الاقوامی استحکام میں وہ دراڑ پیدا کرچکی ہے جو شاید آگے چل کرکسی بڑے ٹکراؤ کی صورت اختیارکر لے۔

اس وقت دنیا میں بالکل وہی حالات ہیں جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے قبل بن چکے تھے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی بڑی وجہ خفیہ عسکری اتحاد تھے۔ اس مرتبہ خفیہ اتحاد تو نہیں بلکہ امریکا کی کھلم کھلا نیٹو کی مشرقی یورپ تک توسیع اس ٹکراؤ کی وجہ وجہ بنی ہے اور اس کا ذمے دار صرف امریکا ہے۔

روس کے بار بار خبردار کرنے کے باوجود کہ مشرقی یورپ اس کی سلامتی کے لیے ریڈ لائن ہے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔رومانیہ میں امریکی افواج کے دستے بھیجنے کے بعد لڑائی کی شدت اور دائرہ بڑھنے کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔

اس وقت صرف یورپ نہیں بلکہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں عدم استحکام یا جنگ جیسا ماحول ہے۔ مختلف ممالک مل کر نئے اتحاد تشکیل دے رہے ہیں اور ماضی کے حریف حلیف بن رہے ہیں اور حلیف دشمن۔ دنیا کا سب سے اہم ترین خطہ مشرقی وسطی جو کہ عالمی تجارت اور توانائی کی ترسیل کا سب سے بڑا مرکز ہے اب امریکا کے اثرورسوخ سے نکل کر روس اور چین کی طرف جھکاؤ کر رہا ہے۔

ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی میں ناکامی کے بعد امریکا ایران کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ یورپ میں خوراک اور توانائی کا اتنا بڑا بحران پیدا ہوچکا ہے کہ فرانس جیسے ملک میں توانائی بچانے کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرنا مجبوری بن چکی ہے۔ دوسری طرف سعودی ارامکو اس سال اب تک تیل کی پیداوار سے 130 ارب ڈالر نفع کما چکی ہے جو کہ گزشتہ سال نسبت 53 ارب ڈالر زیادہ ہے۔

سردی کی آمد کے ساتھ یورپ میں گیس اور توانائی کا بحران سنگین ہو چکا ہے۔ توانائی کی بڑھتی قیمتوں اور افراط زرکے باعث یورپی ممالک کی حکومتوں پر اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے۔


سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس کے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کے بعد توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے امریکا اور یورپی ممالک کے پاس موجود آپشنز مزید محدود ہوچکے ہیں۔دوسری طرف روس نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ترکی اور یوکرین کے ساتھ خوراک کی ترسیل کا معاہدہ توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپ کو ممکنہ طور پر اب انرجی خوراک کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

روس اور یوکرین جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل کو تو کسی مرحلے پر کنٹرول کرنا ممکن ہے، لیکن اس جنگ کے نتیجے میں توانائی بحران سے جنم لینے والا معاشی دباؤ فریقین کو ایسی غلطی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں روس ، امریکا یا یورپی طاقتیں براہ راست تصادم کا شکار ہوسکتی ہیں ، یعنی دنیا بھر میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں کسی بھی وقت بڑے تصادم کی صورت اختیار کرسکتی ہیں۔

دنیا کی اکلوتی عالمی طاقت ہونے ناتے پوری دنیا میں امن و امان اور استحکام قائم رکھنا امریکا کی ذمے داری ہے لیکن موجودہ عالمی حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ امریکا سپر پاور کے طور پر اپنی ذمے داریاں نبھانے میں قطعی طور پر ناکام ہورہا ہے بلکہ عالمی حالات کا کنٹرول بھی امریکا کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔ امن اور استحکام صرف دنیا کے لیے نہیں بلکہ امریکا کے بھی مفاد میں ہے۔

حالیہ عالمی تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت اس لیے بھی زیادہ تشویشناک ہے کہ اس وقت دنیا کے بہت سارے ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ کوئی بھی غلطی اور تناؤ میں اضافہ دنیا کو ایک ایسی ان دیکھی تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے جس کا اندازہ لگانا بھی شاید ممکن نہ ہو۔

موجودہ عالمی حالات میں سب سے مثبت اور بہترین کردار چین کا نظر آرہا ہے۔ چین نے دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور عالمی طاقت ہونے کے باوجود کبھی براہ راست امریکا کے دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے کردار کو چیلنج نہیں کیا۔ نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے وقت چین کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ امریکا کو ایک نئی جنگ میں الجھا کر اپنی بے پناہ عسکری طاقت کا مظاہرہ کر سکتا تھا۔

وسائل اور طاقت ہونے کے باوجود چینی قیادت نے امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریزکیا۔ چین نے دنیا کے سامنے یہ بھی واضح کردیا کہ وہ کسی کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے لیکن اپنی سالمیت اور سلامتی کی ریڈ لائن کراس کرنے کی اجازت کسی ملک کو بھی نہیں دیں گے۔ چین کو بھی امریکا نے تائیوان کے معاملے پر روس کی طرح اشتعال دلانے کی کوشش کی۔

چین کا ردعمل اور رویہ امریکا اور مغرب کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ٹکراؤ اور تصادم کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ ریاستوں کا کام اپنی عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لیے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے نہ کہ سیکیورٹی اور قومی سلامتی کے نام پر جنگوں کے ذریعے عوام کو مصائب اور تکالیف میں مبتلا کرنا۔ عالمی رہنماؤں کی ضد اور انا کی قیمت اس وقت دنیا بھر کی عوام مہنگائی، بجلی اور گیس کی بندش اور بے روزگاری کی صورت میں چکا رہی ہے۔

ریاستیں افراد کی فلاح وبہبود کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں نہ کہ قومی سلامتی کے نام پر چھیڑی گئی جنگوں کے نتیجے میں اسلحے کے بیوپاریوں اور بڑی کارپوریشنوں کے نفع میں اضافے کی صورت تجوریاں بھرنا۔ مذاکرات اور بات چیت وہ واحد راستہ ہے جو اس عالمی تصادم اور ٹکراؤ کو روک سکتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی قیام امن کے لیے عالمی طاقتوں نے مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کیا تھا اور سرد جنگ کے دوران کیوبن میزائل بحران جیسے معاملات بھی مذاکرات کے نتیجے میں ہی حل ہوئے۔

مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے روس اور یوکرین کی لڑائی بھی ختم کرنا ممکن ہے اور بات چیت کے آغاز کے لیے چین بطور نیوٹرل طاقت اپنا کردار ادا کر سکتی ہے ، اگر معاملات عالمی طاقتوں کے کنٹرول سے باہر ہوئے تو دنیا کو دوسری جنگ عظیم سے بھی بڑے تصادم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
Load Next Story