مچھر کالونی میں رونما غیر انسانی سانحہ
افواہیں اور غلط بیانی ان بھیانک واقعات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں
کچھ سانحے ایسے ہوتے ہیں جو ماضی کی یاد دلا دیتے ہیں۔ جیسے سیالکوٹ کے دو بھائیوں اور مشال خان کا واقعہ اور اسی تناظر میں کراچی کی مچھر کالونی میں ہونے والے بیہمانہ قتل کی واردات ہے۔ ایک مشتعل ہجوم نے دو نوجوانوں کی جان لے لی۔ ہجوم ان پر ڈنڈے برسا رہا تھا، پتھروں سے کچل رہا تھا اور بچوں اور نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ویڈیو بنا رہی تھی۔ کسی نے انھیں بچانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے بروقت پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ سب کھڑے تماشہ دیکھتے رہے۔
بے حسی اور کند ذہنی کی انتہا دیکھیے...
سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد اس ملک کے بچے اور نوجوان ذہنی مرض بن کر رہ گئے۔ ماؤں کی راتوں کی نیندیں چھن گئیں۔ مشال خان سے جڑا سانحہ بھی بہت تکلیف دے تھا۔ اس طرح کے غیر انسانی واقعات معاشرے میں خوف اور بے یقینی کا سبب بنتے ہیں۔
ہجوم کی نفسیات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ لوگ جو اکیلائی میں پرتشدد رویے نہیں اپناتے وہ ہجوم میں خون خرابہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر وینڈی جیمز کے مطابق: تین نفسیاتی نظریات بھیڑ کے رویے سے خطاب کرتے ہیں۔سب سے پہلے Contagion Theory ہے، جس کے مطابق ہجوم اپنے لوگوں پر ایک ہپنوٹک اثر ڈالتے ہیں، جس کے نتیجے میں غیر معقول اور جذباتی طور پر چارج شدہ رویے سامنے آتے ہیں۔
جنھیں ہجوم کا جنون کہا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں Convergence Theory ہے، جس کے مطابق ہجوم کا رویہ ہم خیال افراد کے اکٹھے ہونے کا نتیجہ ہے، اگر یہ پرتشدد ہو جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ بھیڑ نے تشدد کی حوصلہ افزائی کی بلکہ لوگ چاہتے تھے کہ یہ پرتشدد ہو اور ہجوم میں اکٹھے ہو جائیں۔ تیسرا ایمرجنٹ نارم تھیوری ہے جو مندرجہ بالا دونوں کو یکجا کرتا ہے اور یہ بحث کرتا ہے کہ یکساں سوچ رکھنے والے مشترکہ جذبات کا مجموعہ بھیڑ کے رویے کا باعث بنتا ہے۔
افواہیں اور غلط بیانی ان بھیانک واقعات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں رونما ہونے والا سانحہ ایسے ہی رویوں کا ردعمل دکھائی دیتا ہے۔ کچھ سماج افواہوں کی آکسیجن میں زندگی محسوس کرتے ہیں لہٰذا ایک بار پھر بپھرے ہجوم نے دو نوجوانوں کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ملازموں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا۔
یہ دو نوجوان ماؤں کے لال تھے۔ اپنے گھروں کا سہارا تھے چاہے یہ سندھی یا کوئی اور زبان بولتے ہوں، بنیادی طور پر اس ملک کے شہری تھے، جن کا تحفظ ریاست کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہے۔ جب سیلاب زدگان نے پناہ لینے کے لیے کراچی کا رخ کیا تو سیاستدانوں نے یہ بیانات دیے کہ سندھ کے ڈاکو اور لٹیرے آرہے ہیں۔ اس کے بعد لوگ ڈاکے کی وارداتوں کی وڈیوز شیئر کرنے لگے۔ یہ وڈیوز پرانی تھیں مگر انھیں موجودہ دور سے منسوب کرکے ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی کہ سیلاب متاثرین ان وارداتوں میں ملوث ہیں۔
اس واقعے میں قتل ہونے والا انجینئر ٹھٹہ کا باسی اٹھائیس سالہ ایمن جاوید، انتہائی شریف خاندان کا ہونہار بچہ تھا، جو کراچی کی ایک موبائل کمپنی کا ملازم تھا۔ نوکری کی غرض سے وہ نارتھ ناظم آباد میں مقیم تھا۔ اس کے ساتھ ڈرائیور اسحاق پنوھر تھا، جس کا تعلق نوشہرو فیروز سے ہے، وہ چند ماہ قبل کراچی آیا تھا اور اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک فرضی کرداروں پر ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص جس نے اجرک اور سندھی ٹوپی پہن رکھی ہے بچے کو اغوا کر کے لے جارہا تھا کہ لوگ اسے پکڑ لیتے ہیں۔ کراچی شہر میں کافی عرصے سے امن امان کی صورتحال خراب رہی ہے۔ اسٹریٹ کرائم و دیگر جرائم نے شہریوں کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ جھوٹ، نفرت اور تعصب سکہ رائج الوقت ہیں۔
سوشل میڈیا کا بہت غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ جو نفرت و تعصب کو ہوا دینے میں پیش پیش رہا ہے۔ نفرت اور تعصب سے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ یہ رویے کئی نسلوں کی خوشیاں اور خوشحال زندگی کے خواب روند ڈالتے ہیں۔ کسی کو کچھ ہاتھ نہی آتا ماسوائے زندگیوں کے نقصان کے۔ سماجی نفسیات بدل چکی ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک نہج پر سفر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اکثر جھوٹ، افواہیں اور غلط بیانی جرائم کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں ۔
لوگ اب قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ کئی مرتبہ چور اور لٹیروں کو پکڑ کر مار ڈالتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ وہ ایک غلط عمل کو دوسرے غلط عمل سے ٹھیک ہونے کا جواز پیش کرتے ہیں، جو کہ غیر انسانی اور انتہائی خطرناک رجحان ہے۔
موجودہ واقعے کی تفصیل یوں ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن کے ملازمین کو شکایت موصول ہوئی کہ اس ایریا کے انٹرنیٹ سگنلز کام نہیں کررہے لہٰذا وہ اپنی ذمے داریوں جو نبھانے نکل کھڑے ہوئے۔ جیسے مچھر کالونی میں پہنچے تو ان کی شناخت معلوم کی گئی۔ جب لوگوں کو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ سندھی ہیں تو انھوں نے شور مچادیا کہ یہ لوگ اغواکار ہیں اور لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا اور انھیں مارنے لگے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک اس حوالے سے کوئی قانون نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی ہیلپ لائن نمبر دستیاب ہے۔ اس سلسلے میں سخت قوانین کو وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ورنہ یہ سلسلا آگے بھی جاری رہے گا۔ ان واقعات میں ملوث افراد کو فوری سزا سنا دینی چاہیے بجائے اس کے کہ کیسز سالہا سال چلتے رہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے قانون کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔
نفرت واشتعال پھیلانے والی وڈیوز و دیگر معلومات کو سوشل میڈیا سے ہٹادینا چاہیے۔ ہمارے پاس سوشل میڈیا منفی طور پر استعمال ہوتے ہیں جب کہ کچھ اداروں کو اسے وقت پر معلومات فراہم کرلینے کا ذریعہ بنانا چاہیے ، جس میں پولیس کا شعبہ شامل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پولیس کا ایک بالا افسر اس طرح کی معلومات دے رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وڈیوز رکھ کر انھیں حالیہ واقعات سے منسوب کیا جاتا ہے ، یہ ایک بہت اچھا قدم تھا۔ ان دو نوجوانوں پر جس طرح تشدد کیا گیا، ان کے چہروں کو سیمنٹ کے بڑے بلاک رکھ کر کچلا گیا۔
ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی جو انتہائی شرمناک واقعہ اور اس ملک کی تاریخ پر سیاہ دھبہ ہے، جس کے زخموں ہمیشہ خون رستا رہے گا۔ نوجوان کی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اس طرح کے پرتشدد واقعات سے لاقانونیت کے ہاتھ مضبوط ہونے کا خطرہ لاحق ہوجا تا ہے۔ منیب اور مغیث، مشال خان، ارشاد، ناظم اور ایمن جاوید، اسحاق پنھور و دیگر واقعات سے سماج میں خوف اور تشویش کی کیفیات جنم لیتی ہیں۔ اداروں کو اپنے ملازمین کو ایسے حساس ایریاز کی طرف بھیجتے وقت حفاظتی اقدامات کرلینے چاہئیں۔ انھیں ایڈریس وغیرہ سمجھا کر بھیجا جائے تاکہ ایسے بھیانک واقعات جنم نہ لے سکیں۔
دنیا بہت بدل گئی ہے۔ یہ اب دن بدن غفلت کی گہری کھائی بنتی جارہی ہے لہٰذا ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جانا چاہیے۔ مچھر کالونی کے واقعے میں معصوم اور بے گناہ دو نوجوانوں کو جلد ازجلد انصاف فراہم کیا جائے۔ ہجوم کا پرتشدد رویہ اس دور کے انتہائی سنگین واقعات کا تسلسل ہے، جس میں پولیس اور قانون کو مل کر کوئی حتمی حل تلاش کرنا چاہیے۔
بے حسی اور کند ذہنی کی انتہا دیکھیے...
سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد اس ملک کے بچے اور نوجوان ذہنی مرض بن کر رہ گئے۔ ماؤں کی راتوں کی نیندیں چھن گئیں۔ مشال خان سے جڑا سانحہ بھی بہت تکلیف دے تھا۔ اس طرح کے غیر انسانی واقعات معاشرے میں خوف اور بے یقینی کا سبب بنتے ہیں۔
ہجوم کی نفسیات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ لوگ جو اکیلائی میں پرتشدد رویے نہیں اپناتے وہ ہجوم میں خون خرابہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر وینڈی جیمز کے مطابق: تین نفسیاتی نظریات بھیڑ کے رویے سے خطاب کرتے ہیں۔سب سے پہلے Contagion Theory ہے، جس کے مطابق ہجوم اپنے لوگوں پر ایک ہپنوٹک اثر ڈالتے ہیں، جس کے نتیجے میں غیر معقول اور جذباتی طور پر چارج شدہ رویے سامنے آتے ہیں۔
جنھیں ہجوم کا جنون کہا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں Convergence Theory ہے، جس کے مطابق ہجوم کا رویہ ہم خیال افراد کے اکٹھے ہونے کا نتیجہ ہے، اگر یہ پرتشدد ہو جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ بھیڑ نے تشدد کی حوصلہ افزائی کی بلکہ لوگ چاہتے تھے کہ یہ پرتشدد ہو اور ہجوم میں اکٹھے ہو جائیں۔ تیسرا ایمرجنٹ نارم تھیوری ہے جو مندرجہ بالا دونوں کو یکجا کرتا ہے اور یہ بحث کرتا ہے کہ یکساں سوچ رکھنے والے مشترکہ جذبات کا مجموعہ بھیڑ کے رویے کا باعث بنتا ہے۔
افواہیں اور غلط بیانی ان بھیانک واقعات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں رونما ہونے والا سانحہ ایسے ہی رویوں کا ردعمل دکھائی دیتا ہے۔ کچھ سماج افواہوں کی آکسیجن میں زندگی محسوس کرتے ہیں لہٰذا ایک بار پھر بپھرے ہجوم نے دو نوجوانوں کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے ملازموں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا۔
یہ دو نوجوان ماؤں کے لال تھے۔ اپنے گھروں کا سہارا تھے چاہے یہ سندھی یا کوئی اور زبان بولتے ہوں، بنیادی طور پر اس ملک کے شہری تھے، جن کا تحفظ ریاست کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہے۔ جب سیلاب زدگان نے پناہ لینے کے لیے کراچی کا رخ کیا تو سیاستدانوں نے یہ بیانات دیے کہ سندھ کے ڈاکو اور لٹیرے آرہے ہیں۔ اس کے بعد لوگ ڈاکے کی وارداتوں کی وڈیوز شیئر کرنے لگے۔ یہ وڈیوز پرانی تھیں مگر انھیں موجودہ دور سے منسوب کرکے ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی کہ سیلاب متاثرین ان وارداتوں میں ملوث ہیں۔
اس واقعے میں قتل ہونے والا انجینئر ٹھٹہ کا باسی اٹھائیس سالہ ایمن جاوید، انتہائی شریف خاندان کا ہونہار بچہ تھا، جو کراچی کی ایک موبائل کمپنی کا ملازم تھا۔ نوکری کی غرض سے وہ نارتھ ناظم آباد میں مقیم تھا۔ اس کے ساتھ ڈرائیور اسحاق پنوھر تھا، جس کا تعلق نوشہرو فیروز سے ہے، وہ چند ماہ قبل کراچی آیا تھا اور اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔
کچھ عرصہ پہلے ایک فرضی کرداروں پر ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص جس نے اجرک اور سندھی ٹوپی پہن رکھی ہے بچے کو اغوا کر کے لے جارہا تھا کہ لوگ اسے پکڑ لیتے ہیں۔ کراچی شہر میں کافی عرصے سے امن امان کی صورتحال خراب رہی ہے۔ اسٹریٹ کرائم و دیگر جرائم نے شہریوں کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ جھوٹ، نفرت اور تعصب سکہ رائج الوقت ہیں۔
سوشل میڈیا کا بہت غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ جو نفرت و تعصب کو ہوا دینے میں پیش پیش رہا ہے۔ نفرت اور تعصب سے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ یہ رویے کئی نسلوں کی خوشیاں اور خوشحال زندگی کے خواب روند ڈالتے ہیں۔ کسی کو کچھ ہاتھ نہی آتا ماسوائے زندگیوں کے نقصان کے۔ سماجی نفسیات بدل چکی ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک نہج پر سفر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اکثر جھوٹ، افواہیں اور غلط بیانی جرائم کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں ۔
لوگ اب قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ کئی مرتبہ چور اور لٹیروں کو پکڑ کر مار ڈالتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ وہ ایک غلط عمل کو دوسرے غلط عمل سے ٹھیک ہونے کا جواز پیش کرتے ہیں، جو کہ غیر انسانی اور انتہائی خطرناک رجحان ہے۔
موجودہ واقعے کی تفصیل یوں ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشن کے ملازمین کو شکایت موصول ہوئی کہ اس ایریا کے انٹرنیٹ سگنلز کام نہیں کررہے لہٰذا وہ اپنی ذمے داریوں جو نبھانے نکل کھڑے ہوئے۔ جیسے مچھر کالونی میں پہنچے تو ان کی شناخت معلوم کی گئی۔ جب لوگوں کو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ سندھی ہیں تو انھوں نے شور مچادیا کہ یہ لوگ اغواکار ہیں اور لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا اور انھیں مارنے لگے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک اس حوالے سے کوئی قانون نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی ہیلپ لائن نمبر دستیاب ہے۔ اس سلسلے میں سخت قوانین کو وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ورنہ یہ سلسلا آگے بھی جاری رہے گا۔ ان واقعات میں ملوث افراد کو فوری سزا سنا دینی چاہیے بجائے اس کے کہ کیسز سالہا سال چلتے رہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے قانون کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔
نفرت واشتعال پھیلانے والی وڈیوز و دیگر معلومات کو سوشل میڈیا سے ہٹادینا چاہیے۔ ہمارے پاس سوشل میڈیا منفی طور پر استعمال ہوتے ہیں جب کہ کچھ اداروں کو اسے وقت پر معلومات فراہم کرلینے کا ذریعہ بنانا چاہیے ، جس میں پولیس کا شعبہ شامل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پولیس کا ایک بالا افسر اس طرح کی معلومات دے رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وڈیوز رکھ کر انھیں حالیہ واقعات سے منسوب کیا جاتا ہے ، یہ ایک بہت اچھا قدم تھا۔ ان دو نوجوانوں پر جس طرح تشدد کیا گیا، ان کے چہروں کو سیمنٹ کے بڑے بلاک رکھ کر کچلا گیا۔
ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی جو انتہائی شرمناک واقعہ اور اس ملک کی تاریخ پر سیاہ دھبہ ہے، جس کے زخموں ہمیشہ خون رستا رہے گا۔ نوجوان کی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، ان کے ساتھ اس طرح کے پرتشدد واقعات سے لاقانونیت کے ہاتھ مضبوط ہونے کا خطرہ لاحق ہوجا تا ہے۔ منیب اور مغیث، مشال خان، ارشاد، ناظم اور ایمن جاوید، اسحاق پنھور و دیگر واقعات سے سماج میں خوف اور تشویش کی کیفیات جنم لیتی ہیں۔ اداروں کو اپنے ملازمین کو ایسے حساس ایریاز کی طرف بھیجتے وقت حفاظتی اقدامات کرلینے چاہئیں۔ انھیں ایڈریس وغیرہ سمجھا کر بھیجا جائے تاکہ ایسے بھیانک واقعات جنم نہ لے سکیں۔
دنیا بہت بدل گئی ہے۔ یہ اب دن بدن غفلت کی گہری کھائی بنتی جارہی ہے لہٰذا ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جانا چاہیے۔ مچھر کالونی کے واقعے میں معصوم اور بے گناہ دو نوجوانوں کو جلد ازجلد انصاف فراہم کیا جائے۔ ہجوم کا پرتشدد رویہ اس دور کے انتہائی سنگین واقعات کا تسلسل ہے، جس میں پولیس اور قانون کو مل کر کوئی حتمی حل تلاش کرنا چاہیے۔