یتامٰی کی پرورش اور نگہ داشت

یتیم بچے بھی باعزت جینے، تعلیم اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا کہ دیگر بچے

بخل اور مال کا لالچ جیسی بیماریوں سے نکال کر ان میں انفاق کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور یتیم و نادار اور لاوارث بچوں کی کفالت پر ابھارتا ہے۔

یتیم وہ ہوتا ہے جو اپنے بچپن میں اپنے والدین میں سے کسی ایک کو کھو چکا ہو۔ اس کا بچپن اسے کھیل کود، الفت و محبت اور پیار کے لیے مجبور کرتا ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ اس کا کوئی ہم درد ہو جو اس کے ساتھ پیار بھرا سلوک کرے، اس کی دل جوئی کرے ، ماں باپ اس کی اس خواہش اور فطری داعیے کو پورا کرتے ہیں، مگر باپ جو اس کا سہارا تھا، اس کی کفالت کرتا اس کی دل جوئی کرتا اور اس کے لاڈ پیار کو سہتا اور اس کی خواہش پوری کرنے میں اپنی بساط بھر کوشش کرتا تھا، اب جب کہ اس کے سر سے اس کا سایہ اٹھ چکا ہے۔

وہ اس پیار، محبت، شفقت اور رحمت کے لیے ترستا رہتا ہے اور جب کوئی شخص اسے باپ سا پیار دیتا ہے، باپ کی طرح لطف و کرم کا معاملہ کرتا ہے ، محبت بھری نگاہ اس پر ڈالتا ہے اور بڑے پیار و شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے تو بچہ اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور باپ کے کھونے کا غم ہلکا ہو جاتا ہے۔

وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے باپ کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اسے پوچھنے والا کوئی ہے جو اس کے ساتھ ہم دردی و دل جوئی کرسکتا ہے، اس کے غم کو ہلکا کرسکتا ہے، اس کے درد کو محسوس کرسکتا ہے اور اس کے خواہشات و جذبات کو سمجھ سکتا ہے۔ باپ کے ساتھ وہ کھیلتا کودتا، گھومتا، پھرتا، تفریح کرتا اور لاڈ پیار کرتا تھا، من چاہی چیزیں طلب کرتا اور نہ ملنے پر ضد کرتا تھا اور باپ اس کے سارے لاڈ پیار کو شوق و جذبے کے ساتھ سہتا تھا، مگر اچانک باپ کے وفات کے بعد اس کی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے، وہ آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر رہا تھا، اور اچانک زمین پر گر جاتا ہے۔

وہ اپنے سامنے دنیا کو تاریک پاتا ہے، وہ دوسرے بچوں کو جب اپنے ماں باپ کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے دیکھتا ہے تو اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے، اسے اپنا ماضی یاد آنے لگتا ہے اور پرانی باتیں اسے ستانے لگتی ہیں، مگر اس حال میں جب کوئی اسے غم گسار مل جاتا ہے جو باپ جیسی محبت تو نہیں دے سکتا مگر اس کا متبادل بن سکتا ہے تو اسی کو وہ بچہ اپنے لیے بڑا سہارا سمجھتا ہے، اسی لیے اسلام نے یتیموں کی خبر گیری و ہم دردی پر بڑی توجہ دلائی ہے اور اس کے لیے مختلف انداز میں ابھارا ہے۔ جو یتیموں کی کفالت کرتے ہیں، ان کے لیے بھرپور اجر و ثواب کا وعدہ کیا ہے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنے پر جنّت کا وعدہ کیا ہے۔

یتیم بچے بھی معاشرہ کا ایسے ہی حصہ ہیں جیسے عام بچے، انہیں بھی دنیا میں جینے، تعلیم حاصل کرنے اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دیگر بچوں کا ہے۔ لیکن ان کے قریبی رشتے دار اس جانب توجہ نہیں دیتے ہیں اور ہم میں سے اکثر لوگ اسے بوجھ سمجھ کر اس سے کتراتے ہیں۔

اگر ہم اسلامی تعلیمات کو دیکھیں جس کی بنیاد ایثار، قربانی، شفقت و محبت اور حقوق کی پاس داری پر ہے تو معلوم ہوگا کہ اسلام انسانوں کو حرص و ہوس، بخل اور مال کا لالچ جیسی بیماریوں سے نکال کر ان میں انفاق کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور یتیم و نادار اور لاوارث بچوں کی کفالت پر ابھارتا ہے۔

اس نے اس ذمے داری کی انجام دہی اور اس معاشرتی حق کی ادائی کے لیے کئی راستے نکالے ہیں اور ناحق طریقے سے یتیموں کا مال ہڑپ کر لینے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے، تاکہ ان بے سہارا بچوں کو سہارا مل سکے اور ان کا مال ضایع نہ ہو۔ یتیموں کی کفالت اور ان کے ساتھ ہم دردی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر یتیموں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔

اﷲ تعالی کے فرمان کا مفہوم: ''پوچھتے ہیں، یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو! جس طرزِ عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو، وہی اختیار کرنا بہتر ہے۔ اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے، دونوں کا حال اﷲ پر روشن ہے۔ اﷲ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا، مگر وہ صاحبِ اختیار ہونے کے ساتھ صاحبِ حکمت بھی ہے۔'' (سورۃ البقرۃ)

نبی کریم ﷺ نے اپنے فرمودات کے ذریعے اور اپنے عمل سے بھی واضح کردیا ہے کہ یتیم معاشرے میں اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتے ہیں ان کا خیال رکھنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ دل کی قساوت اگر کسی چیز سے دور ہوتی ہے تو یتیموں کے سر پہ دست شفقت رکھنے سے ہوتی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے دل کی سختی و قساوت کی شکایت کی تو رسول اﷲ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ یتیم کے سر پر شفقت و محبت کا ہاتھ پھیرے، غریبوں و ناداروں کو کھانا کھلائے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ نہ تو یتیم کے ساتھ عزت کا سلوک کرتے ہو، اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کے ترغیب دیتے ہو۔'' (سورۃ الفجر)

حضرت ابُوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔'' (ابن ماجہ، سنن ابی داؤد)

نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ نہایت بدتر و بدبخت انسان وہ ہے جو یتیموں کے ساتھ بُرا سلوک کرے اور اس کے ساتھ نامناسب اور دل توڑنے والا برتاؤ کرے۔


اﷲ کے نبیؐ کی یہ اور اس طرح کی تعلیمات اسی لیے ہیں کہ یتیموں کے اولیاء ان کی کفالت کرنے والے اور مصیبت زدہ یتیموں پر مشتمل خاندان والے بددل و شکستہ خاطر نہ ہوں اور ان کے وجود سے الجھن و پریشانی محسوس نہ کریں بلکہ لوگ اسے آپس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا ذریعہ بنائیں اور بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کریں، سہارا بننے اور خبر گیری کرنے میں لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

رسول اﷲ ﷺ نے یتیموں سے متعلق تعلیمات سے ہمیں بہرہ ور کرکے یہ بتایا ہے کہ یتیم، سماج میں خیر و برکت اور سعادت و خوش بختی کا ذریعہ ہیں، وہ بوجھ نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اﷲ کے نبیؐ نے یتیموں کی کفالت کرنے والوں کو یہ خوش خبری بھی دی ہے کہ وہ جنّت میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ اور بالکل قریب ہوں گے۔

حضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنّت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور (آپؐ نے) اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔'' (بخاری)

حضرت ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا مقصد صرف اﷲ تعالی کی رضا حاصل کرنا تھا تو اس کے لیے ہر بال کے بدلے نیکیاں ہیں۔ جس نے اپنی زیر کفالت کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔'' (مسند احمد بن حنبل)

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نبی کریم ﷺ یتیموں کے ساتھ بے پناہ ہم دردی کرتے تھے، شفقت و محبت کا برتاؤ کرتے تھے، ان کی خبر گیری کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید و تلقین کرتے رہتے تھے۔ سماج کے پچھڑے ہوئے طبقے اور کم زور لوگ بہ طور خاص نبی کریمؐ کے پاس یتیموں کو لے کر آتے تھے تاکہ انہیں دیکھ کر رسول اﷲ ﷺ ان کے لیے بھی دعا کریں اور ان کے ساتھ ہم دردی کا سلوک کریں۔

لوگ جانتے تھے کہ رسول اﷲ ﷺ یتیموں کو کتنا چاہتے ہیں اور ان سے کس قدر ہم دردی رکھتے ہیں تو گویا لوگ رسول اﷲ ﷺ کی ہم دردی حاصل کرنے اور انس و محبت پانے کے لیے یتیموں کا سہارا لیتے تھے۔ اسلامی معاشرے میں رسول اﷲ ﷺ نے ہر مسلمان کو یتیم کے لیے مشفق باپ قرار دیا ہے۔

ا سلام نے ان ہدایات کے ذریعے خیر کے دائرے کو وسیع کردیا ہے تاکہ ہر امیر غریب اس میدان میں داخل ہو کر زیادہ سے زیادہ بھلائی کے عمل سے مستفید ہو سکے۔ اسلام نے ہر مفید و نافع عمل کو صدقہ قرار دیا ہے اس پر اجر و ثواب رکھے ہیں۔ اس طرح مال دار انفاق کے ذریعے اجر حاصل کرتا ہے اور جو مال دار نہیں وہ بھلی باتوں، میٹھی گفت گو اور ہم دردی کے جذبات کا اظہار کرکے اجر حاصل کرتا ہے۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے ہر بھلی بات اور نیک کام کو صدقہ قرار دیا ہے۔

ا س طرح اسلام نے سماج کی تعمیر اس کی خدمات اور اس کو بہتر بنانے میں ہر ایک کو شریک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اس عمل خیر میں حصہ لیں اور تعاون و دست گیری میں بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹائیں، یتیموں کے آنسوؤں کو پونچھیں، ان کے سر پر دست شفقت رکھ کر ان کے غم کو ہلکا کریں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سخاوت والا ہاتھ جو اﷲ کے دیے ہوئے مال ہی میں سے اﷲ کے راستے میں خرچ کرتا ہے، ان کا یہ عمل اس میٹھے پانی کی طرح ہے جو مردہ زمین کو سیراب کرنے کے بعد اسے نئی زندگی عطا کرتا ہے، پھر وہ زمین لہلہا اٹھتی ہے اور بیل بوٹے اور پودے و درخت اگا کر انسانوں اور جانوروں کو اپنے ثمرات سے مستفید کرتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب کھلے دل سے یتیم و بے سہارا افراد کے لیے اپنا دست تعاون دراز کریں، ہم دردی کے جذبات سے سرشار ہو کر یتیموں اور بے کسوں کا سہارا بنیں اور ہر لمحہ انہیں یاد رکھیں اور ان کی تعلیمی، معاشی اور ہر میدان میں بہتری کی فکر کریں تاکہ ان یتیموں کو اپنے شفیق باپ کی عدم موجودی کا احساس نہ ستائے، اور وہ اپنے مسلم معاشرے میں خود کو تنہا و بے سہارا محسوس نہ کریں۔

موجودہ دور میں مادہ پرستی کے غلبے نے یتیموں کی پرورش کو ناصرف مشکل بنا دیا ہے بلکہ اب اس کے بارے میں لوگ سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ اس طرح یتیم اور نادار بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے، پھر وہی بچے معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا ارشادات نبوی ﷺ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ اگر کوئی شخص یتیم کی کفالت کرے اور اس کی بہترین پرورش کرے تو وہ یقیناً جنت کا مستحق ہوگا جہاں اسے اﷲ کے رسول ﷺ کی رفاقت نصیب ہوگی اور یہ بچے اچھی پرورش کے نتیجے میں معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل کریں گے، جس سے معاشرہ پُرامن اور خوش حال ہوگا۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں یتیموں کی کفالت کے لیے قبول فرمائے اور ان کا دست و بازو بنائے۔ آمین
Load Next Story