امجد خان جنہوں نے ’’گبر سنگھ‘‘ کے کردار کو لازوال بنا دیا
بالی وڈ کے سب سے مقبول ولن کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ ہدایت کاری میں بھی نام کمایا
جب تک ہندی سینما کا ذکر ہوتا رہے گا یہ خود کو ''گبرسنگھ'' کی چھاپ سے آزاد نہیں کر پائے گا، اگرچہ یہ کردار بذات خود بھی جاندار تھا لیکن اس میں حقیقت کا رنگ امجد خان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں بھر سکتا تھا۔
کئی مناظر میں تو یوں بھی لگتا ہے کہ جیسے ایک پٹھان ہونے کے ناتے ان کے توانا جسم پر بندوق اور گولیوں کی پیٹی یوں سجتی ہے جیسے وہ فلم میں ڈاکو نہیں بلکہ جنگ آزادی کے ایک دلیر اور نڈر سپاہی ہوں، انہوں نے اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے پوری فلم پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، اسی لیے تو یہ امجد خان کی فلم کہلائی۔
اس سے قبل کہ ہم امجد خان کے حالات زیست کا تذکرہ کریں، یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کو شہرت کی بلندی پر پہنچانے والاکردارکس طرح ان کی جھولی میں آ گرا۔
اس سلسلے میں جب ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہدایت کار رمیش سپی کے دفترکا منظرگھومنے لگتا ہے جب رمیش سپی کے سامنے ان کے سکرپٹ رائٹر سلیم، جاوید پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے، ''میرا خیال ہے کہ امجد کی جگہ آپ کسی اور کا انتخاب کر لیں'' جاوید اختر نے کہا۔
''بالکل! کیونکہ جس قسم کا زور آور کردار ہے، اس کے مطابق امجد کی آواز میل نہیں کھا رہی'' ، سیلم خان نے بھی جاوید اختر سے اتفاق کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔
جاوید اختر نے سلیم خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ''صرف ایک یہ کردار کمزور ہوا تو پوری فلم بیٹھ جائے گی بلکہ ہماری ساکھ بھی داؤ پر لگ جائے گی'' سیلم خان بولے، لیکن دوسری جانب پرسکون اور مطمئن ہدایت کار رمیش سپی دلچسپی سے دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔
وہ مسکراتے ہوئے بولے، ''آپ کو اس نئے لڑکے کی پرفارمنس پر اعتماد کیوں نہیں؟ جہاں کم زوری یا خامی ہے، ہم دور بھی تو کرسکتے ہیں'' رمیش سپی کرسی سے اٹھتے ہوئے دونوں کے مقابل آکھڑے ہوئے، ''گھبرائیں نہیں، یہی کردار فلم کی شناخت بنے گا، میں کسی صورت اس کردار کے لیے اب کسی اور اداکار کا انتخاب نہیں کروں گا'' اور بالآخر امیتابھ بچن، دھرمیندر اور سنجیو کمارکے ہوتے ہوئے بھی یہ فلم امجد خان کی فلم کہلائی۔
امجد خان کا لب و لہجہ آنے والی دہائیوں تک بالی وڈ ولن کے لیے ایک مثال بن گیا،گبر سنگھ کے ادا کیے ہوئے مکالمے 'کتنے آدمی تھے؟' ، 'تیرا کیا ہوگا کالیا ؟ ، 'سوجا سوجا ورنہ گبرآ جائے گا' ، 'کتنا انعام رکھا ہے سرکار ہم پر؟' زبان زد عام ہوئے۔ امجد خان تک سلیم، جاوید کے خدشات پہنچ گئے تھے۔
جنہوں نے انہیں غلط ثابت کرنے کے لیے اپنے کردار پر ان تھک محنت کی اور اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ میں خوف اور دہشت کا پہلو شامل کیا۔ ڈاکوؤں کا لب و لہجہ کیسا ہوتا ہے؟ وہ کس طرح خوف زدہ کرتے ہیں؟ ان کا کیا انداز ہوتا ہے؟ یہ امجد خان نے جیا بچن کے والد کے اْس ناول کا مطالعہ کرکے بخوبی سیکھا جو انہوں نے چمبل کے ڈاکوؤں پر لکھا تھا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ گبرسنگھ کے کردار کو ایک نئی جہت دینے والے امجد خان کو اس دور میں خطیر سرمائے ایک کروڑ روپے سے تخلیق کیے جانے والے ''شعلے'' کے لیے صرف 10 ہزار روپے معاوضہ دیا گیا جو انہوں نے بخوشی قبول کیا۔
ممکن ہے کہ امجد خان کبھی بھی ''گبر سنگھ'' نہ بنتے، اگر فیروز خان اس کردار کے اولین انتخاب ڈینی کو اپنی فلم 'دھرآتما' کے علاوہ ''شعلے'' میں بھی کام کی اجازت دینے سے انکار نہ کرتے۔ ممکن ہے ایسا ہو جاتا تو امجد خان بھارتی فلموں کے اوسط درجے کے ولن ہی رہتے۔ اگر رمیش سپی، سیلم جاوید کے خدشات پر بھروسہ کر کے امجد خان کو فلم سے آؤٹ کر دیتے تو اس کردار کی چاہ رکھنے والے امیتابھ بچن کو یہ کردار مل جاتا۔
'شعلے' کی کامیابی کے بعد امجد خان نے صرف گبرسنگھ کے کردار تک خودکو محدود نہیں رکھا، آنے والے دنوں میں، 'خون پسینہ'، 'کالیہ'، 'دیش پریمی'، 'نصیب'، 'مقدر کا سکندر'، 'سہاگ'، 'ستے پہ ستہ' اور 'رام بلرام' کے منفی لیکن متنوع کردار ان کی اداکاری کو ایک نئے عہد میں شامل کر گئے۔
اسی طرح بھلا کون بھول سکتا ہے، ستیہ جیت رائے کی 'شطرنج کے کھلاڑی' کو جو 'شعلے' کی نمائش کے دو برس بعد سینما گھروں میں لگی لیکن اپنے سنجیدہ نوعیت کے کردار کی بنا پر امجد خان' واجد علی شاہ کے کردار میں چھا گئے۔ اسی طرح 'قربانی' کا انسپکٹر خان یا پھر 'چمیلی کی شادی' کا ایڈووکیٹ ہریش، یا پھر 'لو'، 'مالا مال' اور 'ہمت والا' کے ہلکے پھلکے مزاحیہ کردار امجد خان کی شان میں اور اضافہ کر گئے۔
خاندانی پس منظر
امجد خان کے والد ذکریا خان المعروف جینت بھی اپنے زمانے کے معروف فلمی اداکار تھے اور انہوں نے کئی ہٹ فلمیں ہندی سینما کو دیں۔ برصغیرکی فلم انڈسٹری کے خوبرو اور قدآور اداکار، جینت (فلمی نام) 15 اکتوبر 1914ء کو پشاور شہر کے علاقے اندرون ڈبگری گیٹ کے محلہ آفریدی خان میں پیدا ہوئے ، اصل نام ذکریاخان تھا۔
ان کے آباؤاجداد کا تعلق پشاورکے ایک نواحی گاؤں نواں کلی سے تھا، جو نقل مکانی کرکے پشاور میں آباد ہوئے۔ ذکریاخان کے والد ہندوستان کی ایک ریاست الور میں پولیس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ذکریا خان کا بچپن پشاور کی گلی کوچوں میں کھیلتے ہوئے گزرا، عالم شباب میں اپنے بھائی جہانگیرخان کے ہمراہ ریاست الور چلے گئے جہاں مہاراجہ الور کے حکم پر ان کو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی۔
ذکریاخان کو بچپن سے تھیٹر، فلمیں دیکھنے اور اس میں اداکاری کا شوق تھا چنانچہ ریاست کی نوکری سے استعفیٰ دے کر فلم نگری بمبئی چلے گئے، جہاں ان کی قابل رشک صحت اور مردانہ وجاہت کی بنا پر ایک فلمی ادارے''رائیل سنے ٹون'' میں آسانی سے ملازمت مل گئی، ان کی تنخواہ تیس روپے ماہوار مقرر کی گئی،کچھ عرصہ بعد یہ فلم کمپنی ایک اور فلمی ادارے ''پرکاش پکچرز'' میں مدغم ہوگئی۔
1934ء میں ذکریا نے پہلی بار پرکاش کی ایک فلم ''ایکٹرس'' میں ''جینت''کے فلمی نام سے بطور ہیروکام کیا، اس فلم کے ہدایت کار بلونت بھٹ اورموسیقار للوبھائی ماسٹرتھے، اداکاروں میں پنا، جینت، الکنندا، ماسٹر بچو، ہریش چند راؤ اور للو بھائی نمایاں تھے۔ جینت اپنی پہلی ہی فلم سے فلم بینوں میں بے حد مقبول ہوگئے۔
اس کے بعد جینت نے پرکاش کی متعدد سٹنٹ فلموں بمبئی کی سیٹھانی، بامبے میل، لال چٹھی، سنہ لتا اورچیلنج میں راج کماری، شمشیرعرب اورآزاد ویر، پاسنگ شو میں بدمابائی ، توپ کاگولہ میں نورجہان، ہزہائی نس، خواب کی دنیا اور سٹیٹ ایکسپریس میں سردار اختر، مسٹرایکس میں رتن بائی، ہیرونمبرون میں گلاب، سردارمیں پرمیلا اور مالا میں مس روز کے ساتھ مرکزی کردار ادا کئے۔
ان فلموں کی تکمیل کے بعد جینت بمبئی سے پشاور آگئے تو والدین نے ان کی بڑی دھوم دھام سے شادی خانہ آبادی کرا دی ، ان کی شادی پشاورکے ایک معززدرانی خاندان میں ہوئی (ان کے برادرنسبتی کریم اللہ جان درانی پشاورہائی کورٹ سے بطورچیف جسٹس ریٹائرہوئے تھے) ، شادی کے بعد جینت اپنی اہلیہ کے ہمراہ پشاور سے بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے رہائش کے لیے ایک فلیٹ حاصل کیا اور اپنی معمول کی فلمی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔
ذکریا خان ہر سال اپنے اہل خانہ کے ہمراہ عزیز واقارب سے ملنے پشاورآیا کرتے تھے، 1962ء میں جب وہ اپنے بچوں امجد خان اور امتیازخان کے ہمراہ پشاور آئے تو پشاور کے ایک سینما مالک اور ان کے دوست جان محمد خان نے اپنے سینما پکچرہاؤس میں انہیں چائے پر مدعوکیا۔
پشاور کے کابلی دروازے کے باہر ان کے ہم زلف عبدالعزیز کا ''ریاض فوٹو سٹوڈیو'' تھا جہاں وہ اکثر شام کے وقت آجاتے۔ جینت 1965ء تک باقاعدگی سے پشاور آتے رہے، فرزند پشاور ذکریا خان (جینت) کا انتقال 2 جون 1975ء کو بمبئی میں ہوا۔ جینت کے چھوٹے بھائی جہانگیر خان نومبر 1938ء میں بمبئی میں گاڑی کے ایک حادثہ میں فوت ہوگئے تھے، ان کے دوسرے بھائی نذیر خان زیری ساٹھ کی دہائی میں پاکستان آگئے۔
انہوں نے کراچی میں چند فلمیں آنچ اور درد دل وغیرہ بنائیں، ان کاانتقال 22 جون 1998ء کو پشاورمیں ہوا۔ والد جینت کی دیکھا دیکھی ان کے صاحبزادے امجد خان اورامتیاز خان نے بھی فلموں میں طبع آزمائی کی اور انڈین فلموں کے مقبول ترین اداکار کہلائے۔ امجد خان کی شہرت کا آغاز رمیش سپی کی فلم ''شعلے'' سے ہوا تھا جس میں انہوں نے گبرسنگھ کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا لیکن جینت اپنے بیٹے کی شہرت اور ناموری دیکھنے سے قبل ہی انتقال کرگئے تھے۔
حالات زیست
سرزمین پشاور سے تعلق رکھنے والے نامورفلمی ستارے جینت (ذکریاخان)کے صاحبزادے اداکار امجدخان 21 اکتوبر 1940کو حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوئے، بمبئی کے سینٹ تھریسیاہائی سکول باندرہ سے تعلیم حاصل کی،گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین کے ہمراہ اپنے دھدیال پشاور آجاتے، جہاں ان کے عزیزواقارب رہتے تھے۔ پشاور کے کابلی دروازے کے باہر امجد خان کے خالو عبدالعزیزکا ریاض فوٹوسٹوڈیوتھا۔
امجد خان کی اپنے خالہ زاد بھائی ریاض سے گہری دوستی تھی، دونوں کرائے پر سائیکل لے کر شامی روڈ چلے جاتے جہاں ان دنوں اونچی نیچی گھاٹیاں ہوتی تھیں۔ دونوں دوست اس علاقے میں سائیکل چلانا سیکھتے، امجد خان 1965ء تک پشاورآتے رہے، انہوں نے بمبئی کے آرڈی نیشنل کالج سے گریجویش کی، وہ اپنے کالج میں بے حد مقبول طالب علم تھے اور اپنی صحت مند جسامت کی بنا پر طلبہ میں ''دادا'' کہلاتے تھے۔
کئی مناظر میں تو یوں بھی لگتا ہے کہ جیسے ایک پٹھان ہونے کے ناتے ان کے توانا جسم پر بندوق اور گولیوں کی پیٹی یوں سجتی ہے جیسے وہ فلم میں ڈاکو نہیں بلکہ جنگ آزادی کے ایک دلیر اور نڈر سپاہی ہوں، انہوں نے اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے پوری فلم پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، اسی لیے تو یہ امجد خان کی فلم کہلائی۔
اس سے قبل کہ ہم امجد خان کے حالات زیست کا تذکرہ کریں، یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کو شہرت کی بلندی پر پہنچانے والاکردارکس طرح ان کی جھولی میں آ گرا۔
اس سلسلے میں جب ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہدایت کار رمیش سپی کے دفترکا منظرگھومنے لگتا ہے جب رمیش سپی کے سامنے ان کے سکرپٹ رائٹر سلیم، جاوید پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے، ''میرا خیال ہے کہ امجد کی جگہ آپ کسی اور کا انتخاب کر لیں'' جاوید اختر نے کہا۔
''بالکل! کیونکہ جس قسم کا زور آور کردار ہے، اس کے مطابق امجد کی آواز میل نہیں کھا رہی'' ، سیلم خان نے بھی جاوید اختر سے اتفاق کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔
جاوید اختر نے سلیم خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ''صرف ایک یہ کردار کمزور ہوا تو پوری فلم بیٹھ جائے گی بلکہ ہماری ساکھ بھی داؤ پر لگ جائے گی'' سیلم خان بولے، لیکن دوسری جانب پرسکون اور مطمئن ہدایت کار رمیش سپی دلچسپی سے دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔
وہ مسکراتے ہوئے بولے، ''آپ کو اس نئے لڑکے کی پرفارمنس پر اعتماد کیوں نہیں؟ جہاں کم زوری یا خامی ہے، ہم دور بھی تو کرسکتے ہیں'' رمیش سپی کرسی سے اٹھتے ہوئے دونوں کے مقابل آکھڑے ہوئے، ''گھبرائیں نہیں، یہی کردار فلم کی شناخت بنے گا، میں کسی صورت اس کردار کے لیے اب کسی اور اداکار کا انتخاب نہیں کروں گا'' اور بالآخر امیتابھ بچن، دھرمیندر اور سنجیو کمارکے ہوتے ہوئے بھی یہ فلم امجد خان کی فلم کہلائی۔
امجد خان کا لب و لہجہ آنے والی دہائیوں تک بالی وڈ ولن کے لیے ایک مثال بن گیا،گبر سنگھ کے ادا کیے ہوئے مکالمے 'کتنے آدمی تھے؟' ، 'تیرا کیا ہوگا کالیا ؟ ، 'سوجا سوجا ورنہ گبرآ جائے گا' ، 'کتنا انعام رکھا ہے سرکار ہم پر؟' زبان زد عام ہوئے۔ امجد خان تک سلیم، جاوید کے خدشات پہنچ گئے تھے۔
جنہوں نے انہیں غلط ثابت کرنے کے لیے اپنے کردار پر ان تھک محنت کی اور اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ میں خوف اور دہشت کا پہلو شامل کیا۔ ڈاکوؤں کا لب و لہجہ کیسا ہوتا ہے؟ وہ کس طرح خوف زدہ کرتے ہیں؟ ان کا کیا انداز ہوتا ہے؟ یہ امجد خان نے جیا بچن کے والد کے اْس ناول کا مطالعہ کرکے بخوبی سیکھا جو انہوں نے چمبل کے ڈاکوؤں پر لکھا تھا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ گبرسنگھ کے کردار کو ایک نئی جہت دینے والے امجد خان کو اس دور میں خطیر سرمائے ایک کروڑ روپے سے تخلیق کیے جانے والے ''شعلے'' کے لیے صرف 10 ہزار روپے معاوضہ دیا گیا جو انہوں نے بخوشی قبول کیا۔
ممکن ہے کہ امجد خان کبھی بھی ''گبر سنگھ'' نہ بنتے، اگر فیروز خان اس کردار کے اولین انتخاب ڈینی کو اپنی فلم 'دھرآتما' کے علاوہ ''شعلے'' میں بھی کام کی اجازت دینے سے انکار نہ کرتے۔ ممکن ہے ایسا ہو جاتا تو امجد خان بھارتی فلموں کے اوسط درجے کے ولن ہی رہتے۔ اگر رمیش سپی، سیلم جاوید کے خدشات پر بھروسہ کر کے امجد خان کو فلم سے آؤٹ کر دیتے تو اس کردار کی چاہ رکھنے والے امیتابھ بچن کو یہ کردار مل جاتا۔
'شعلے' کی کامیابی کے بعد امجد خان نے صرف گبرسنگھ کے کردار تک خودکو محدود نہیں رکھا، آنے والے دنوں میں، 'خون پسینہ'، 'کالیہ'، 'دیش پریمی'، 'نصیب'، 'مقدر کا سکندر'، 'سہاگ'، 'ستے پہ ستہ' اور 'رام بلرام' کے منفی لیکن متنوع کردار ان کی اداکاری کو ایک نئے عہد میں شامل کر گئے۔
اسی طرح بھلا کون بھول سکتا ہے، ستیہ جیت رائے کی 'شطرنج کے کھلاڑی' کو جو 'شعلے' کی نمائش کے دو برس بعد سینما گھروں میں لگی لیکن اپنے سنجیدہ نوعیت کے کردار کی بنا پر امجد خان' واجد علی شاہ کے کردار میں چھا گئے۔ اسی طرح 'قربانی' کا انسپکٹر خان یا پھر 'چمیلی کی شادی' کا ایڈووکیٹ ہریش، یا پھر 'لو'، 'مالا مال' اور 'ہمت والا' کے ہلکے پھلکے مزاحیہ کردار امجد خان کی شان میں اور اضافہ کر گئے۔
خاندانی پس منظر
امجد خان کے والد ذکریا خان المعروف جینت بھی اپنے زمانے کے معروف فلمی اداکار تھے اور انہوں نے کئی ہٹ فلمیں ہندی سینما کو دیں۔ برصغیرکی فلم انڈسٹری کے خوبرو اور قدآور اداکار، جینت (فلمی نام) 15 اکتوبر 1914ء کو پشاور شہر کے علاقے اندرون ڈبگری گیٹ کے محلہ آفریدی خان میں پیدا ہوئے ، اصل نام ذکریاخان تھا۔
ان کے آباؤاجداد کا تعلق پشاورکے ایک نواحی گاؤں نواں کلی سے تھا، جو نقل مکانی کرکے پشاور میں آباد ہوئے۔ ذکریاخان کے والد ہندوستان کی ایک ریاست الور میں پولیس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ذکریا خان کا بچپن پشاور کی گلی کوچوں میں کھیلتے ہوئے گزرا، عالم شباب میں اپنے بھائی جہانگیرخان کے ہمراہ ریاست الور چلے گئے جہاں مہاراجہ الور کے حکم پر ان کو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی۔
ذکریاخان کو بچپن سے تھیٹر، فلمیں دیکھنے اور اس میں اداکاری کا شوق تھا چنانچہ ریاست کی نوکری سے استعفیٰ دے کر فلم نگری بمبئی چلے گئے، جہاں ان کی قابل رشک صحت اور مردانہ وجاہت کی بنا پر ایک فلمی ادارے''رائیل سنے ٹون'' میں آسانی سے ملازمت مل گئی، ان کی تنخواہ تیس روپے ماہوار مقرر کی گئی،کچھ عرصہ بعد یہ فلم کمپنی ایک اور فلمی ادارے ''پرکاش پکچرز'' میں مدغم ہوگئی۔
1934ء میں ذکریا نے پہلی بار پرکاش کی ایک فلم ''ایکٹرس'' میں ''جینت''کے فلمی نام سے بطور ہیروکام کیا، اس فلم کے ہدایت کار بلونت بھٹ اورموسیقار للوبھائی ماسٹرتھے، اداکاروں میں پنا، جینت، الکنندا، ماسٹر بچو، ہریش چند راؤ اور للو بھائی نمایاں تھے۔ جینت اپنی پہلی ہی فلم سے فلم بینوں میں بے حد مقبول ہوگئے۔
اس کے بعد جینت نے پرکاش کی متعدد سٹنٹ فلموں بمبئی کی سیٹھانی، بامبے میل، لال چٹھی، سنہ لتا اورچیلنج میں راج کماری، شمشیرعرب اورآزاد ویر، پاسنگ شو میں بدمابائی ، توپ کاگولہ میں نورجہان، ہزہائی نس، خواب کی دنیا اور سٹیٹ ایکسپریس میں سردار اختر، مسٹرایکس میں رتن بائی، ہیرونمبرون میں گلاب، سردارمیں پرمیلا اور مالا میں مس روز کے ساتھ مرکزی کردار ادا کئے۔
ان فلموں کی تکمیل کے بعد جینت بمبئی سے پشاور آگئے تو والدین نے ان کی بڑی دھوم دھام سے شادی خانہ آبادی کرا دی ، ان کی شادی پشاورکے ایک معززدرانی خاندان میں ہوئی (ان کے برادرنسبتی کریم اللہ جان درانی پشاورہائی کورٹ سے بطورچیف جسٹس ریٹائرہوئے تھے) ، شادی کے بعد جینت اپنی اہلیہ کے ہمراہ پشاور سے بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے رہائش کے لیے ایک فلیٹ حاصل کیا اور اپنی معمول کی فلمی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔
ذکریا خان ہر سال اپنے اہل خانہ کے ہمراہ عزیز واقارب سے ملنے پشاورآیا کرتے تھے، 1962ء میں جب وہ اپنے بچوں امجد خان اور امتیازخان کے ہمراہ پشاور آئے تو پشاور کے ایک سینما مالک اور ان کے دوست جان محمد خان نے اپنے سینما پکچرہاؤس میں انہیں چائے پر مدعوکیا۔
پشاور کے کابلی دروازے کے باہر ان کے ہم زلف عبدالعزیز کا ''ریاض فوٹو سٹوڈیو'' تھا جہاں وہ اکثر شام کے وقت آجاتے۔ جینت 1965ء تک باقاعدگی سے پشاور آتے رہے، فرزند پشاور ذکریا خان (جینت) کا انتقال 2 جون 1975ء کو بمبئی میں ہوا۔ جینت کے چھوٹے بھائی جہانگیر خان نومبر 1938ء میں بمبئی میں گاڑی کے ایک حادثہ میں فوت ہوگئے تھے، ان کے دوسرے بھائی نذیر خان زیری ساٹھ کی دہائی میں پاکستان آگئے۔
انہوں نے کراچی میں چند فلمیں آنچ اور درد دل وغیرہ بنائیں، ان کاانتقال 22 جون 1998ء کو پشاورمیں ہوا۔ والد جینت کی دیکھا دیکھی ان کے صاحبزادے امجد خان اورامتیاز خان نے بھی فلموں میں طبع آزمائی کی اور انڈین فلموں کے مقبول ترین اداکار کہلائے۔ امجد خان کی شہرت کا آغاز رمیش سپی کی فلم ''شعلے'' سے ہوا تھا جس میں انہوں نے گبرسنگھ کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا لیکن جینت اپنے بیٹے کی شہرت اور ناموری دیکھنے سے قبل ہی انتقال کرگئے تھے۔
حالات زیست
سرزمین پشاور سے تعلق رکھنے والے نامورفلمی ستارے جینت (ذکریاخان)کے صاحبزادے اداکار امجدخان 21 اکتوبر 1940کو حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوئے، بمبئی کے سینٹ تھریسیاہائی سکول باندرہ سے تعلیم حاصل کی،گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین کے ہمراہ اپنے دھدیال پشاور آجاتے، جہاں ان کے عزیزواقارب رہتے تھے۔ پشاور کے کابلی دروازے کے باہر امجد خان کے خالو عبدالعزیزکا ریاض فوٹوسٹوڈیوتھا۔
امجد خان کی اپنے خالہ زاد بھائی ریاض سے گہری دوستی تھی، دونوں کرائے پر سائیکل لے کر شامی روڈ چلے جاتے جہاں ان دنوں اونچی نیچی گھاٹیاں ہوتی تھیں۔ دونوں دوست اس علاقے میں سائیکل چلانا سیکھتے، امجد خان 1965ء تک پشاورآتے رہے، انہوں نے بمبئی کے آرڈی نیشنل کالج سے گریجویش کی، وہ اپنے کالج میں بے حد مقبول طالب علم تھے اور اپنی صحت مند جسامت کی بنا پر طلبہ میں ''دادا'' کہلاتے تھے۔