کسان پیکیج اور اس کے مضمرات… سرسری جائزہ
3 لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر پینلز پر منتقل کرنے کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں گے
ہمارے ملک کا ہاری و کسان اپنے چھوٹے بڑے قطعہ اراضی پرکاشت کاری کے لیے انتہائی مشکل ترین مراحل طے کرتا ہے، جس کے لیے اس کا صبح صادق کے آس پاس کا اٹھنا، سخت سردی ہو یا بارش کھیتوں تک پہنچنا، اپنے مال مویشیوں کو ہنکا کر ساتھ لے جانا، دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں بھی زمین کو زیر کاشت لانا، کڑکڑاتی سردی میں بھی راتوں کو اٹھ کر کھیتوں کو پانی لگانا، یہ اس کا معمول ہے۔
کسان بیجوں کو مٹی میں چھپا کر اور نظروں کو آسمان کی وسعتوں تک لے جا کر من ہی من میں امید کے دیے روشن کر لیتا ہے کہ اب کے بہار آئے گی، اس کی فصل لہلہائے گی اور بھاری بھرکم پیداوار حاصل ہوگی، لیکن کبھی سیلاب اس کی امیدوں کے گلشن کو اجاڑ دیتا ہے۔ کبھی پودوں کی بیماریاں ان پر حملہ آور ہو کر کھیتوں کو ویران کردیتی ہیں۔ کبھی مہنگی اور کم کھاد اور جعلی ادویات اس کے کھیتوں کو گہنا دیتے ہیں۔
طرح طرح کے مسئلے مسائل جن میں قرض کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بادل ناخواستہ مہنگے داموں بلیک میں کم کھاد خرید کر کھیتوں کی تشفی نہ کرپانا، انتہائی قلیل پانی دے کر کھیتوں کی سیرابی کا خشک رہنے پر دل مسموم ہو کر رہ جانا۔ انھی سخت پتھریلے اور جان لیوا مسائل کے ساتھ نبھا کرتے کرتے پون صدی گزار دیے۔
ان مسائل کے حل کے لیے ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں میں چکر بھی لگاتے رہے۔ اپنے مطالبات کے کتبے بھی اٹھاتے رہے، کبھی کسی حکومت نے ان کے کاسہ گدائی میں چند سکے گرا دیے اور کسی نے زبانی وعدے کرلیے۔ حکومت نے چند مطالبات منظور تو کرلیے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے مثبت نتائج کیا برآمد ہوں گے۔
آج کی نشست میں حکومت وقت کا حالیہ کسان پیکیج کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے پیکیج میں اعلان کیا ہے کہ ڈی اے پی کھاد کی فی بوری قیمت میں ڈھائی ہزار روپے کی کمی کردی گئی ہے۔
پاکستان میں مختلف حکومتیں اپنے دورانیے میں کھاد کی قیمت پر کمی کرتے ہوئے اسے سبسڈی سے بھی نوازتی ہیں، لیکن عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ ایک خاص قسم کا مافیا ان کھاد کی بوریوں کو غائب کردیتا ہے۔ بعض اوقات علاقوں سے کھاد ہی غائب ہو جاتی ہے اور یہ ایک ایسا مرض ہے جو صرف کھاد ہی نہیں ادویات کو بھی زیادہ لگتا ہے۔ پھر کھانے پینے کی اشیا جیساکہ گزشتہ دنوں آٹا بھی غائب ہوتا رہا۔
اور پہلی دہائی کے آخر میں چینی ایسی غائب ہوئی کہ جب منظر عام پر آئی تو 36 روپے فی کلو کی چینی 90 روپے فی کلو ہو کر خریدنے والوں کے لیے باعث فخر بن گئی۔ چینی خریداروں کا کہنا تھا کہ 90 روپے فی کلو ہونے پر بھی ہم نے مہنگی چینی خریدی ہے۔
بہرحال ضرورت کے دنوں میں کھاد کے ٹرکوں کے ٹرک غائب ہو کر بلیک میں کھاد کہیں دو سو روپے کہیں 500 یا 1000 روپے فی بوری اضافی قیمت پر فروخت ہو رہی ہوتی ہے لہٰذا مہنگی کھاد بلیک میں مجبوراً کسان کم خریدتے ہیں۔
ان دنوں ملک کے کئی علاقوں میں سیلاب کے باعث زمینداروں میں اب سکت نہیں رہی کہ وہ رقم خرچ کرکے اپنی زمینیں آباد کریں۔ ان میں کاشتکاری کریں، ایسے میں سب سے زیادہ متاثر پریشان حال مفلوک الحال افراد ان ہاریوں پر مشتمل ہیں جو بے زمین ہاری کہلاتے ہیں۔
حکومت نے ان کے لیے 5ارب روپے کے بلاسود قرضوں کی فراہمی کا اعلان کیا ہے جو اگرچہ خوش آیند ہے لیکن رقم تھوڑی ہے۔ لہٰذا بقدر ضرورت اضافے کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح گندم کے بیج کے 12 لاکھ تھیلے بھی فراہم کیے جائیں گے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ 1994 میں جب سے حکومت نے گیس تیل کے ذریعے بجلی کی پیداوار شروع کی ہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
جس کے باعث بھاری مالیت کے بجلی بلوں کی ساخت بدل کر صارفین کے لیے بجلی بم بن کر پھٹتے چلے جا رہے ہیں جس سے کسان طبقہ بھی سب سے زیادہ متاثر تھا۔
بجلی کا استعمال کم سے کم کرتے تھے لیکن پھر بھی بجلی فی یونٹ ریٹ بڑھنے کے باعث کسان طبقہ اس صورت حال سے نالاں ہو کر زخم خوردہ ہو چکے تھے حکومت نے قدرے اضافے کے لیے معمولی مرہم رکھتے ہوئے فی الحال 13 روپے فی یونٹ فکسڈ کیا ہے۔
کسان پیکیج میں پہلی مرتبہ سب سے اہم قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ 3 لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر پینلز پر منتقل کرنے کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں گے، لیکن اس سلسلے میں چند مشکلات موجود ہیں لیکن اس کا حل سولر کمپنیز تلاش کرسکتی ہیں۔
لہٰذا ملک میں کام کرنے والی کئی اہم سولر کمپنیز کو میرا یہ مشورہ ہے کہ اپنے ایسے نمایندگان کا تقرر کریں جو حصول قرض کے تمام مراحل کو باآسانی طے کرا سکیں۔ ان کی رسائی بینکوں تک ہو تاکہ وہ کسانوں کو بلاسود قرض دلوائیں اور ان کے ٹیوب ویلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کردیں۔
اس طرح حکومت کی طرف سے فراہم کردہ اس پیکیج پر جلد ازجلد عملدرآمد ہو کر کسانوں کے لیے کھیتوں کو پانی کی فراہمی کا مرحلہ آسان اور سستا بھی ہوگا اور کمپنی کی طرف سے تمام تر تکنیک اور سولر پینلز کی تنصیب اور دیگر مراحل باآسانی طے ہوجائیں گے۔
کسان بینکوں سے بلاسود قرض کے حصول کے لیے مشکل مراحل سے گزرنے سے بھی بچ جائیں گے۔ الغرض کسان پیکیج کا سرسری جائزہ لیا جائے تو کسانوں کی مکمل طور پر تشفی تو نہیں ہوتی البتہ کچھ اقدامات ایسے ہیں جن پر عملدرآمد سے پیداوار میں اضافہ ہوکر مستقبل کے لیے کسانوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے جیساکہ ٹیوب ویلوں کے لیے سولر پینلز کی تنصیب کے لیے بلاسود قرض کا ملنا۔
اگرچہ بجلی ریٹ فی یونٹ میں کمی ہوئی ہے لیکن اس میں تبدیلی لاتے ہوئے اس کا نفاذ پورے پاکستان کے لیے اس طرح سے ہو کہ اس وقت 300 یونٹ پر کچھ سبسڈی ہے جسے بڑھا کر 400 یونٹ سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔