بھیرہ کی گلیاں

ذکر بھیرہ کی تاریخی مساجد، عمارتوں اور اجڑ چکے ریلوے اسٹیشن کا

ذکر بھیرہ کی تاریخی مساجد، عمارتوں اور اجڑ چکے ریلوے اسٹیشن کا

نہ جانے مجھ میں یہ بات کچھ عرصے سے کیوںکر پیدا ہو چکی ہے کہ میں تنہا سفر پر نکل جانا پسند کرنے لگا ہوں۔ میں تنہائی پسند بالکل بھی نہیں ہوا، مگر سفر کے معاملے میں یقینی طور پر ہوچکا ہوں کہ زیادہ لوگوں کی موجودگی میں شاید آپ اپنے سفر کا وہ مزہ نہیں لے پاتے جو اصل میں سفر سے آپ کو ملنا چاہیے، کیوںکہ سفر بذاتِ خود ایک لطف اندوز ہونے والی چیز ہے۔

آپ دوستوں کے ساتھ کہیں بھی جا رہے ہوں، شاید آپ کو اتنا مزہ منزل پر پہنچ کر نہ آئے جتنا مزہ سفر کے دوران دوستوں کی سنگت میں آئے گا۔ یہ مت سوچیں کہ منڈے کا سویرے سویرے دماغ الٹ گیا ہے کہ پہلے میں سفر کی تنہائی کے بارے بات کر رہا تھا اور اب میں سفر میں دوستوں کو لے آیا ہوں۔

آپ بے فکر رہیں کہ سویرے سویرے منڈے کا دماغ نہیں الٹا۔ سفر کا اصل مزہ تو یاروں کی سنگت میں ہی ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ایسے دوست بس چند ایک ہی ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی تو ضروری نہیں کہ سب کا پلان ایک ساتھ ہی بنے۔

ایسے میں اگر تنہا سفر کیا جائے، اپنی ذات سے لطف اندوز ہوا جائے تو اس میں برائی کیا ہے کہ اگر آپ اپنی ذات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے تو پھر شاید دنیا کی کوئی بھی چیز آپ کو حقیقی خوشی نہیں دے سکتی۔ تنہا سفر کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ آزاد ہوتے ہیں۔

اپنے آپ سے بھی آزاد. جو جی چاہے کرو، جو جی نہ چاہے وہ نہ کرو۔ آپ ہیں اور صرف اور صرف آپ ہی ہیں۔ ساری ٹائم مینجمنٹ صرف اور صرف آپ ہی کے پاس ہے۔ بس جو بھی ہے، آپ کی ذات ہی ہے۔ باقی سب مائع ہے۔ آج کا سفر بھی کچھ انجان گلیوں میں ہی ہے۔ کچھ ایسی گلیاں جو جدید بھی ہیں اور قدیم بھی۔ یہ گلیاں نہ تو اتنی تنگ ہیں کہ سامنے سے آنے والے سے صرف نکاح کا فاصلہ بچتا ہے اور کھلی کتنی ہیں۔

اس کے بارے میں فی الحال نہیں جانتا کیوںکہ میں نے انھیں ابھی نہیں دیکھا، مگر سننے میں آیا ہے کہ یہ گلیاں کچھ کچھ شریف بھی ہیں یہاں کچھ بزرگانِ دین بھی رہے ہیں۔ یقیناً یہ گلیاں خوب صورت ہی ہوں گی کہ جن گلیوں کو جہلم کے پانی چھو جائیں، وہ کیوںکر عام ہونے لگیں۔

تو یہ کیسی گلیاں تھیں۔ یہ تو بس ایسی ہی گلیاں تھیںکہ جن میں، میں بہت عرصے سے جھانکتا رہا ہوں۔ ماضی کچھ کچھ دور میں، میں ان گلیوں کو پَرے سے دیکھ کر ہی کسی دوسری جانب رخ موڑ لیتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے یہ گلیاں بھلی نہیں لگتی تھیں بلکہ میں اس بات سے مکمل انجان تھا کہ یہ گلیاں کس قدر سحر انگیز ہیں۔ ایسی گلیاں جن کے ساتھ پھولوں کی سرزمین ہو، اور پھر میں نے بشرٹ بھی پھولوں والی پہنی ہو تو ذرا نہیں بلکہ پورا سوچیں کہ ان گلیوں میں سفر کیسا گزرے گا۔ باتوں باتوں میں دیکھیں پتا ہی نہیں چلا اور ہیڈ فقیراں گزر بھی گیا۔

گمان ہے کہ وہ گلیاں اب آئی ہی چاہتی ہیں۔ مجھے ان کی خوشبو آ رہی ہے۔ انہی ہیڈ فقیراں کے پانیوں کو اب میرے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے کوسٹر والے نے سالم انٹر چینج پر بریک لگایا۔ کوسٹر ٹھیک صبح چھ بجے سیالکوٹ سے اپنے سفر کے لیے روانہ ہوئی تھی جسے براستہ سالم سرگودھا جانا تھا۔ میرا ارادہ چوںکہ بھیرہ جانے کا تھا، جسے بزرگانِ دین کی وجہ سے بھیرہ شریف بھی کہا جاتا ہے تو میں راستے میں سالم انٹر چینج پر اتر گیا۔

سیالکوٹ سے سرگودھا جاتے ہوئے بھیرہ راستے میں نہیں پڑتا البتہ سالم ضرور آتا ہے جو بھیرہ کے بالکل ساتھ ہی ہے، تو سالم اترنا پڑا ورنہ میں بھیرہ ہی اترتا، جس کسی نے بھی موٹر وے پر سفر کیا ہے، وہ بھیرہ کے نام سے ضرور آشنا ہوگا کہ بھیرہ موٹر وے پر سب یہ مشہور فوڈ جنکشن ہے۔ یہاں پر تقریباً ہر مشہور فوڈ چین کی فرنچائز موجود ہے۔ یہ لاہور اور اسلام آباد کے بالکل درمیان میں ہے۔

مگر آج ہمیں کھانے پینے کی کوئی بات نہیں کرنی اور چپ چاپ بھیرہ چلے جانے جہاں ایک مختصر سے علاقے میں تاریخ بکھری پڑی ہے، جہاں شیر شاہ سوری کے دور کی مساجد بھی ہیں اور سکھوں کا ایک بہت بڑا گوردوارہ بھی۔ یہاں ہندوؤں کے شیوا بھگوان کا شیوالا مندر بھی ہے اور جین مذہب کے ماننے والوں کا جین مندر بھی، اور سب سے بڑی بات کہ اس سرزمین کو دریائے جہلم کے پانی چھوتے ہیں۔ ایسا ہے میرا بھیرہ۔

مگر نہ جانے کیوں میرا بھیرہ جانا اس بار بڑا مشکل ہو گیا تھا۔ کچھ ہفتوں سے بھیرہ جانے کی تیاری ہو رہی تھی مگر ہر بار عین وقت پر کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا کہ ساری کی ساری تیاری دھری کی دھری رہ جاتی اور میں اپنا منہ سا لے کر رہ جاتا۔ ایک بار تو سب ٹھیک جا رہا تھا مگر رات بھر ایسی بارش رہی کہ صبح سویرے نکلنا ناممکن قرار پایا۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم سب کیا ہیں؟ ہماری اوقات کیا ہے؟ پہلے میں حضرتِ انسان کو کیڑے مکوڑے ہی گردانتا تھا مگر اب جب کہ ہبل سمیت پتا نہیں کون کون سی دوربین خلا سے پرے جا چکی ہے تو انسان کی حیثیت اس کائنات میں ایک ذدے کے برابر بھی نہیں رہ جاتی۔ ہم جو ایک لمبے عرصے سے سوچتے رہتے ہیں، اپنے پلانز کرتے ہیں کہ اس اس طرح فلاں دن اپنی فلاں سرگرمی سرانجام دیں گے۔

اپنی ساریcalculations پوری رکھتے ہیں کہ اگر فلاں دن مجھے صبح سویرے اٹھ کر فلاں شخص سے ملنا ہے اور اس سے ملنے کے واسطے ساری تیاری بھی پوری ہو تو عین وقت پر پتا چلتا ہے کہ اپنی ساری calculations میں ہم نے ایک اہم فیکٹر تو گنا ہی نہیں تھا اور وہ تھا قدرت کا فیکٹر۔ نہ جانے ہم جب کسی بھی کام کی پلاننگ ایک خاص وقت سے کر رہے ہوں اور پھر اس میں بہت سے تکلفات بھی شامل ہوجائیں اور قدرت کی طرف سے ایک ہلکا سا ہوا کا جھونکا آ جائے کہ ہیلو مسٹر۔۔۔کتھے۔۔۔چلو شاباش، نکلو یہاں سے۔ ایسے حالات میں انسان یہ بھی نہیں سوچنا چاہتا کہ یہ سب بھی زندگی کا حصہ ہے۔

آپ جو پلان کرتے ہیں لازمی نہیں کہ وہ پورے بھی ہوں اور اگر ہو جاتے تو کسی کا کیا بگڑ جاتا۔ اچھی بات یہ تھی کہ کئی ہفتوں کے انتظار کے بالاٰخر مجھے بھیرہ کی سرزمین دے بلاوا آ گیا تھا اور اب بھیرہ کی گلیوں کی گلیوں کو دیکھنے کے لیے میں سالم انٹرچینج پر کھڑا اپنے ایک راہ نما کا منتظر تھا جسے سات سمندر پار سے حکم دیا گیا تھا کہ اے اچھے راہ نما تم نے ایک آوارہ بٹ کے ساتھ آج کا دن بھیرہ کی گلیوں میں لُور لُور پھرنا ہے ورنہ اس کی روح کو سکون نہیں ملنے والا۔ میرا وہ راہ نما بھی اتنا اچھا تھا کہ اس نے سات سمندر پار سے آئے اس حکم نامے پر سر تسلیمِ خم کیا اور پھلروان سے سالم انٹر چینج پر میرے واسطے ٹھیک نو بجے پہنچ گیا۔ میں تب تک چائے ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا۔ میرے اس رہنما کا نام عدنان تھا۔

یہ کون تھا، کیا کرتا تھا، مجھے کچھ پتا نہیں تھا اور نہ اسے بھیرہ کی تاریخ کے بارے کچھ علم تھا۔ اسے تو بس میرے لیے مقرر کیا گیا تھا اور ہم دونوں نے اس حکم نامے کو چپ چاپ تسلیم کر لیا تھا۔ میں نے موبائل سے بھیرہ کے مقامات کی فہرست نکالی جو مجھے شفان صاحب نے بنا کر دی تھی اور عدنان کو بتا دیا کہ سب سے پہلے ہمیں بھیرہ کے گنج منڈی دروازہ جانا تھے۔ شفان صاحب بنیادی طور پر بھیرہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر بسلسلہ روزگار اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ دو ہفتے پہلے ان ہی کے ساتھ بھیرہ دیکھنے کا پلان بنا تھا جو کہ پورا نہ ہوسکا۔

حالاںکہ وہ میرے کسی مامے چاچے کے کچھ نہیں لگتے مگر موصوف پھر بھی صرف میرے لیے اسلام آباد سے بھیرہ چلے آئے مگر ہائے میری قسمت کہ جس دن میرا ان کے ساتھ جانا طے تھا تو نہ صرف ساری رات وقفے وقفے سے بارش جا رہی بلکہ صبح تک ہوتی رہی۔ مجھے بے حد افسوس اس بات کا تھا کہ ایک شخص میرے لیے اسلام آباد سے بھیرہ آئے بیٹھا ہے اور میں بارش کے باعث یہاں سیالکوٹ سے نکل ہی نہیں پایا۔ بہرحال شفان صاحب نے کمال محبت کی اور مجھے ایک فہرست مرتب کر دی کہ میں نے بھیرہ میں کس کس مقام پر جانا ہے۔

اس فہرست میں نہ صرف مقامات کا تعین تھا بلکہ یہاں تک راہ نمائی کی گئی تھی کہ مقامات ترتیب کے ساتھ دئیے گئے تھے۔ جس سے ہمارا کافی سارا وقت بچ گیا۔ شفان صاحب کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق ہماری پہلی منزل گنج منڈی دروازہ تھا۔ بھیرہ شہر کے کل سات دروازے تھے جن میں سے تین جزوی یا مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ دریائے جہلم کی طرف سے اگر آپ شہر میں آئیں تو آپ ''چڑی چوگ دروازہ'' کی طرف سے شہر میں داخل ہوں گے۔

اگر آپ لاہور کی طرف سے بھیرہ شہر میں داخل ہونے لگیں تو آپ کا استقبال بھیرہ شہر کا لاہوری دروازہ کرے گا جسے 1869 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں کن ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر لاہوری دروازے کا نام تبدیل کر کے گنج منڈی دروازہ رکھ دیا گیا ہے۔ ملتان کی طرف سے آنے پر آپ ملتانی دروازے سے بھیرہ شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ جسے 1863 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ چوتھے دروازے کا نام میں بڑے بڑے بینرز آویزاں ہونے کی وجہ سے نہیں دیکھ سکا۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ چنیوٹی دروازہ ہے۔

بھیرہ کے ان چار دروازوں میں سے بھی صرف گنج منڈی دروازہ آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہے جب کہ باقی تین دروازوں کو بعد میں ازسرِنو تعمیر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ کشمیری دروازہ اور کابلی دروازہ بھی تھا جو ماضی کے پنوں کے نیچے دب چکا ہے۔ تاریخ میں بہت سے شہر تعمیر ہوئے. جن میں سے کچھ تو مسلسل چلے آ رہے ہیں جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی نہ کسی آفت یا بیرونی حملے کی وجہ سے وقتی طور پر تو تباہ ہوگئے مگر بعد میں انھیں پھر تعمیر کیا گیا۔ جن شہروں کی قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

ان کی تہذیب منوں مٹی تلے دب گئی۔ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جو شہر تباہ ہو جانے کے باوجود باربار تعمیر ہوتے رہے، ان میں سے بھیرہ بھی ایک ہے۔ بھیرہ شہر کی بنیاد کم از کم چار سو سال قبل از مسیح رکھی گئی۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق پہلے اس شہر کا نام کچھ اور تھا۔ شیر شاہ سوری نے جو جی ٹی روڈ بنائی تو بھیرہ شہر اس سے کافی دور تھا۔

اس لیے اسے ''بے راہ'' کہا گیا جو بعد میں بگڑ کر بھیرہ بن گیا۔ بھیرہ اور ملکوال کے درمیان میانی شہر ہے جہاں راجاپورس نے سکندر یونانی کے خلاف اپنی افواج کو یکجا کیا تھا مگر دونوں افواج کا ٹکراؤ منڈی بہاؤالدین کے قریب ٹبہ مونگ میں ہی ہوا تھا، جس طرح ہر قدیم شہر کسی دریا کے کنارے ہی آباد کیا گیا، اسی طرح بھیرہ شہر کو بھی دریائے جہلم کے کنارے آباد کیا گیا تھا۔

قدیم بھیرہ دریائے جہلم کے مشرق کی طرف تھا جو کہ جنگ جوؤں کی گزرگاہ تھی۔ شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست تو دے دی مگر وہ مغلوں سے اس قدر مرعوب تھا کہ فاتح ہونے کے باوجود خوشاب میں چھپا رہا۔ وہی سے شیر شاہ سوری نے قلعہ روہتاس اور بھیرہ کو دریا کی مشرقی طرف سے مغربی طرف منتقل کرنے کا حکم دیا جس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ آئندہ کے لیے بھیرہ بیرونی حملوں سے بچ سکے۔ شیر شاہ سوری نے شہر میں سڑکیں اور مساجد تعمیر کروائیں۔

بھیرہ شہر میں لکڑی کا خوب صورت کام ہوتا ہے۔ مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے سونے اور چاندی کے سکے بنانے کے لیے اپنی پہلی ٹکسال بھیرہ میں ہی قائم کی تھی۔ بھیرہ والے اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ برمنگھم پلیس کے مرکزی دروازے پر لکڑی کے کام کے لیے بھیرہ ہی سے کاریگر برطانیہ گے تھے۔ بھیرہ کی گلیاں گھومتے ہوئے آپ کو ہر دوسرا مکان دو تین سو سال پرانا معلوم ہوتا ہے۔

اندرونِ بھیرہ کے بہت سے پرانے مکان گر چکے ہیں یا گرنے کے بہتر قریب ہیں، جب کہ کچھ کی حالت اچھی ہے جہاں لوگ رہائش پذیر ہیں۔ سچ پوچھیں تو بھیرہ جیسا قدیم شہر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ لکڑی کی بالکونی، دروازوں پر لکڑی کا خوب صورت کام بھیرہ والوں کے لکڑی کے کام سے خاص اُنس رکھنے کا پتا دیتا ہے۔ بھیرہ کے بہت سے مکانوں کو جہاں تقسیم سے پہلے ہندو، سکھ یا جین مذہب کے ماننے والے آباد تھے، خزانے کے لالچ میں گرا دیا گیا۔ ہر زبان پر ایک ہی کہانی تھی کہ جانے والے اپنا قیمتی مال و متاع اپنے گھروں میں چھپا گئے تھے۔

کسی حد تک یہ سچ بھی تھا کہ کچھ گھروں سے قیمتی سامان، سونا، زیورات ملے بھی مگر سب جگہوں سے ملنا تو نا ممکن تھا مگر لالچ کی چوںکہ کوئی حد نہیں، اس لیے بہت سے گھروں یہاں تک کے عبادت گاہوں کی بھی کھدائی کی گئی کہ شاید کچھ مل جائے مگر اِکا دُکا چیزوں کے علاوہ کسی کو کچھ نہ مل سکا۔ بازار کے بیچوں بیچ ہوتے ہوئے ہم امام بارگاہ پہنچے۔

یہ امام بارگاہ تقسیم سے پہلے ایک گوردوارہ تھی مگر جب گوردوارہ کے پجاری یہاں سے چلے گئے تو محمکۂ اوقاف کی جانب سے اسے امام بارگاہ قرار دے دیا گیا۔ ہمارے ہاں محکمہ اوقاف دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک مسلم محکمہ اوقاف ہے جو مسلم مذہبی عمارات کی دیکھ بھال اور دوسرے امور دیکھتا ہے جب کہ ایک غیرمسلم محکمہ اوقاف ہے جو غیرمسلم مذہبی عمارات اور ان کے دوسرے امور دیکھتا ہے۔

سننے میں یہی آیا ہے کہ محکمہ اوقاف مختلف عمارات کو 99 سال کے لیے کرائے پر دے سکتا ہے لہٰذا اس گوردوارے کو بھی 99 سال کے لیے غیر مسلم محکمہ اوقاف سے کرائے پر حاصل کیا گیا ہے۔ کرائے کتنا ہے اور کتنا نہیں، کوئی نہیں جانتا، کرایہ دیا جاتا ہے یا نہیں، اس بارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات تو سچ ہے کہ گوردوارے کا مینار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ خاص کر اس کا مینار بے حد درجہ خوب صورت ہے۔ آپ اس مینار پر چڑھ کر پورے بھیرہ شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

مینار کے اوپر لوہے کا ایک سریا لگا ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہاں ایسا کچھ تھا جو اس عمارت کو گوردوارہ ظاہر کرتا تھا۔ اب وہ نشانی اتار دی گئی ہے۔ چھت پر عَلم لگا دیا گیا ہے اور ایک دوسری بلند جگہ پر اسٹیل سے بڑا سا اللہ لگا دیا گیا ہے۔ گوردوارہ سے ہو کر ہم نے قاضیاں والی مسجد کا پتا کیا تو معلوم پڑا کہ ہم اسے پیچھے ہی چھوڑ آئے ہیں۔ مسجد تو یہ بھی بہت قدیم ہے مگر اس مسجد کے ساتھ ایک دھوکہ ہوگیا۔ قاضیاں والی مسجد کو بابا جلال شاہ نے بنوایا تھا، جن کی قبر بھی یہی مسجد میں بنی ہوئی ہے۔

جدت کے نام پر اور ایصالِ ثواب کے چکر میں اس مسجد کو ٹائل پتھر سے مزین کردیا گیا ہے۔ اب اس کے دروازے، الماری اور منبر کے علاوہ اور کوئی شے ایسی نہیں جو اس کے قدیم ہونے کا ثبوت دے۔ مسجد کے باہر ایک کنواں بھی ہے جسے اب بھر دیا گیا ہے۔ یقیناً اس کا پانی خشک ہوگیا ہوگا۔

اب کنواں میں اہلِ محلہ کا کوڑا کرکٹ پڑا ہے۔ بھیرہ شہر میں ایک شیخ حسن گزرے ہیں جو ناصرف مال و دولت کے اعتبار سے رئیس تھے بلکہ دل کے بھی رئیس تھے۔ بھیرہ شہر میں ایک مشہور محلہ شیخاں والا محلہ بھی ہے جہاں ایک بلند ٹیلا تھا۔ شیخ صاحب کے ہاں چوںکہ مال و دولت کی فراوانی تھی لہٰذا انھوں نے اس ٹیلا پر ایک مسجد بنانے کا فیصلہ کیا جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور بھیرہ کے شیخاں والہ محلہ میں شیخاں والی مسجد کے نام سے جانی جاتی تھی۔ شیخاں والی یہ مسجد عام آبادی سے ذرا بلندی پر ہے۔

ایک منفرد ساخت دینے کے لیے اس کے چاروں طرف قلعے کی مانند مینار بھی بنائے گئے ہیں۔ شیخ حسن صاحب نے ناصرف یہ مسجد بنوائی بلکہ اس میں طلباء کی رہائش اور باقاعدہ تعلیم کا بھی بندوبست کیا۔ دوردراز سے آنے والے طلباء کی رہائش کا بندوبست مسجد کے ساتھ ہی ایک بڑی حویلی میں کیا گیا جسے سرائے کہا جاتا تھا۔ بھیرہ میں بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے بگویہ خاندان سے بڑھ کر اور کوئی نہ تھا جو آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ سے ہجرت کر کے پنجاب آیا تھا۔ شیخاں والی مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ احمد الدین بگویہ نے شروع کیا۔

محی الدین بگویہ کے دو بیٹوں عبدالعزیز بگویہ اور غلام محمد بگویہ نے بھی اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کی۔ رنجیت سنگھ نے بادشاہی مسجد لاہور اور شیر شاہ سوری مسجد دونوں مساجد کو گھوڑوں کے اصطبل، توپ خانے اور دوسرے بہت سے محکموں میں تبدیل کیا۔


یقیناً اور بھی مساجد کے ساتھ ایسا کیا گیا ہوگا۔ دونوں مساجد کو حاصل کرنے اور ان کی رونقیں پھر سے بحال کرنے میں بگویہ خاندان نے اہم کردار ادا کیا۔ محی الدین بگویہ کے بیٹے عبدالعزیز بگویہ نے شیخاں والی مسجد سے تدریس کا سلسلہ جامع مسجد شیر شاہ سوری میں منتقل کیا جب کہ محی الدین بگویہ کے دوسرے بیٹے غلام محمد بگویہ شاہی مسجد لاہور تشریف لے گئے اور مسجد کے معاملات سنبھالے۔

انھی کے نسل سے آگے ظہور احمد بگویہ بھی ہوئے جنھوں نے آل انڈیا حزب انصار کی بنیاد رکھی۔ شیخاں والی مسجد سے ہو کر ہم دریائے جہلم کی جانب نکل پڑے کہ بھیرہ شہر میں آ کر اگر دریائے جہلم کا یہ چوڑا پاٹ نہ دیکھا تو پھر کیا دیکھا۔ ابھی دریا کے آثار نظر آنا شروع نہیں ہوئے تھے کہ ایک سڑک کنارے محلہ چوپڑاں منڈی میں باؤلی والا مندر سے ملاقات ہوگئی۔

ہندی زبان میں تو پاگل عورت کو باؤلی کہتے ہیں۔ لیکن اردو میں ایک ایسے لمبے اور چوڑے کنواں جس میں سیڑھیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں، باؤلی کہلاتا ہے۔ باؤلی کی تعریف انتہائی قدیم ہے۔ ماضی میں یہ مذہبی حیثیت کے تالابوں کو کہا جاتا تھا۔ اس مندر کے نیچے بھی سیڑھیاں اتر رہی تھیں، اس لیے اسے بھی باؤلی والا مندر کہا جاتا ہے۔ مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا پر کسی دا دل نہ ڈھاویں، رب دلاں وچ رہندا آپ میں سے ہر کسی نے زندگی میں کوئی نہ کوئی مندر ضرور دیکھا ہو گا اور مساجد تو دن کئی کئی بار دیکھتے ہیں بس اندر جانے سے اکثر گھبرا جاتے ہیں مگر آپ نے کسی مندر اور مسجد کو اتنا قریب بلکہ ساتھ ساتھ نہیں دیکھا ہوگا۔

یہ بھیرہ شہر کا مندر ہے جو شہر سے بالکل ہٹ کر دریائے جہلم کو جاتے راستے میں پڑتا ہے۔ مندر تو متروک ہو ہی چکا ہے مگر کسی بہت ہی زیادہ دردِدل رکھنے والے نے مندر کے بالکل ساتھ یا شاید یوں کہہ لیں کہ مندر کے ہی کسی تھڑے پر دو تین جائے نماز رکھ کر اسے مسجد کی شکل دے دی ہے۔ مندر میں تو ویسے ہی کوئی نہیں آتا تھا کہ اس خدا کے پجاری اب یہاں نہیں رہے۔ آباد مسجد بھی نہیں کہ آس پاس کوئی آبادی نہیں اور اس راستے پر بھی صرف وہی آتا ہے جس نے سیر کے واسطے دریائے جہلم جانا ہے۔

دوسرے کسی شخص کا یہاں کوئی کام نہیں. مندر کے داخلی راستے پر ہی آپ کو ذرا منفرد مٹی پڑی ملے گی۔ دراصل یہاں ایک تالاب تھا جسے آپ اشنان گاہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جسے کچھ عرصہ پہلے مٹی ڈال کر بند کر دیا گیا۔ ایک طرف دو ہینڈ پمپ بھی لگے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اس جیسا نلکا نہ گیڑا ہو (اب معلوم نہیں کہ میں نے یہ لفظ ''گیڑنا'' درست لکھا ہے یا غلط) مگر یہ نلکے ہماری تہذیب و تمدن کا حصہ رہے ہیں۔

ہمارے بہت سے دیہات میں آج بھی یہ نلکے کام کر رہے ہیں۔ ان نلکوں کو گیڑنا بھی کسی آرٹ سے کم نہیں۔ آپ پہلے ایک ہاتھ سے اس نل کا منہ بند کرتے ہیں، دو تین بار نلکا گیڑتے ہیں، جس سے کافی مقدار میں پانی جمع ہوجاتا ہے اور پھر جب نل کے منہ سے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو زیادہ پانی باہر آتا ہے۔ یقیناً اس نلکے کے نیچے بیٹھ کر نہانے کا بھی ایک الگ ہی مزہ ہو گا۔

چوںکہ زیادہ گرمی نہیں تھی اور میں نے پہنی بھی جینز ہوئی تھی تو یہاں نہانے سے گریز کیا۔ اگر ہمیشہ کی طرح پاجامہ پہنا ہوتا تو میں اسی نلکے کو گیڑتے ہوئے نہا بھی لیتا۔ کتنا مزہ آتا کہ ایک ہاتھ سے نلکا گیڑتے جاؤ اور اسی نلکے کے نیچے بیٹھ کر نہاتے جاؤ، نہاتے جاؤ، نہاتے جاؤ۔ کچھ عرصہ پہلے walled city bhera کی بات چلی تھی۔ مندر کے احاطے میں ہی اب دو نئے بینچ پڑے ہیں کہ کوئی اگر بھولے سے اس طرف آ نکلے تو بینچ پر بیٹھ کر کچھ دیر سستا سکے۔ ایسے ہی بینچ میں نے بھیرہ ریلوے اسٹیشن پر بھی دیکھے تھے۔

افسوس کہ ایسا شان دار پروجیکٹ فائلوں میں ہی دب کر رہ گیا۔ یقینی طور پر فنڈر کی شدید کمی کے باعث walled city Bhere جیسا فضول پروجیکٹ بند کرنا پڑا ہوگا۔ ایسے فضول پروجیکٹ کا بند ہوجانا ہی اچھا ہے مبادا اس سے ہماری قوم میں کچھ شعور اجاگر ہو سکتا تھا۔

دریائے جہلم سے واپس ہوئے تو ہماری منزل بھیرہ کا اجڑ چکا ریلوے اسٹیشن تھا۔ ریلوے اسٹیشن کا نام سنتے ہی جو کیفیت ذہن میں آتی ہے وہ وصل اور ہجر کی ہے۔ ریل شاید ایک نوزائیدہ بچے کی مانند ہے اور ریلوے اسٹیشن اس وقتی دنیا کی مانند کہ ریل جب بھی اسٹیشن کے پلیٹ فارم میں داخل ہوتی ہے تو پلیٹ فارم پر سب منتظر مسافر ایسے ہی خوش ہوتے ہیں جیسے کسی بچے کے اس دنیا میں آنے پر اردگرد کے سب احباب خوش ہوتے ہیں۔ ریل بھی بچے کی طرح اپنا مقرر وقت پلیٹ فارم پر گزرتی ہے اور پھر اپنی اصل منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے ہم اپنا مقررہ وقت اس فانی دنیا میں گزارتے ہیں اور پھر اپنی اصل منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر جانے والے سب مسافر نہیں ہوتے، جس طرح محلے کے بہت سے لوگ جن کا آپ سے کوئی خونی تعلق نہیں ہوتا، صرف ایک نوزائیدہ بچے کو دیکھنے کے لیے چل پڑتے ہیں بالکل اسی طرح کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جن کا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، انھیں کہیں بھی جانا نہیں ہوتا مگر پھر وہ صرف ریل کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتے ہیں کہ اگر کسی کو دو گھڑی جی بھر کر دیکھ لینے سے راحت کا کچھ سامان میسر آتا ہے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔

ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر جہاں ایک طرف آپ کو ہجر کی خوشی میں نہال لوگ ملتے ہیں، وہیں دوسری جانب وصل میں مبتلا اداس چہرے بھی آپ کو دیکھنے کے لیے ملتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن وہ جگہ ہے جہاں آپ وقت گزاری کے لیے بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ آپ مسافروں کو آتے جاتے دیکھیں، ہر موسم میں لطف اندوز ہوں۔

مناسب سمجھیں تو کسی اتوار ناشتہ لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچ جائیں اور کسی پرانے بینچ پر بیٹھ کر ناشتہ کریں یا پھر کسی شام کی چائے اپنے کسی پسندیدہ شخص کے ساتھ بیٹھ کر ایک پلیٹ فارم پر نوش فرمائیں۔ چھوٹے شہروں کے لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں کہ انھیں ریلوے اسٹیشن قدرے کم مصروف ملتے ہیں۔ بعض اوقات وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر حکومتوں کو ریلوے اسٹیشن بند کرنا پڑتے ہیں۔ ایسے میں آس پاس کے کچھ باسیوں کا مسکن وہ ریلوے سٹیشن ہی بن جاتا ہے۔

خواہ وہ کچھ باسی انسان ہو یا پھر چرند پرند۔ جہاں حکومتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ کم مصروف ریلوے اسٹیشن کو بند کر دیں وہی ان کی یہ مجبوری بھی ہوتی ہے کہ وہ پرانی عمارتیں، درخت، ریل کی پٹری اکھاڑ کر کہیں نہیں لے جا سکتے۔ ایسی جگہوں سے فائدہ اٹھانا یقیناً آس پاس کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔

آیا کہ آپ اس جگہ کو کچرے کا ڈھیر بنا دیتے ہیں یا پھر خوب صورت پَل بیتائے جانے کی جگہ۔ نہ جانے آپ نے ایسا کوئی ریلوے اسٹیشن دیکھا ہے یا نہیں دیکھا مگر میں نے بھیرہ کا وہ ریلوے اسٹیشن دیکھا ہے جو کچھ کے لیے تو متروک ہو چکا ہے جب کہ کچھ کے نزدیک بھیرہ کی سب سے خوب صورت جگہ اس کا اجڑ چکا ریلوے اسٹیشن ہی ہے جو اب ان کے دلوں میں آباد ہے۔ بھیرہ کا ریلوے اسٹیشن 1881 میں تعمیر ہوا۔

بھیرہ بنیادی طور پر مین ریلوے ٹریک سے ہٹ کر ہے جو سرگودھا، بھلوال، پھلروان سے ہوتا ہوا منڈی بہاؤالدین، ملکوال اور لالہ موسیٰ کو چلا جاتا ہے۔ بھیرہ، میانی کے لوگوں کو بھی بہتر ذرائع آمدورفت فراہم کرنے کے لیے بھیرہ تا ملکوال تک اسپیشل ریلوے لائن بچھائی گئی تھی، جہاں ایک پیسنجر ٹرین چلا کرتی تھی۔ چوںکہ یہ ٹریک شروع ہی بھیرہ سے ہوتا تھا، اس لیے یہاں انجن کا رخ موڑنے کے لیے ایک turn table بنا ہوا تھا جسے ریلوے کے ملازمین ہاتھ سے چلاتے تھے۔

ٹرین جب ملکوال سے مسافروں اور ان کے مال مویشی کو لے کر بھیرہ آتی تو اسی turn table کی مدد سے انجن کو موڑا جاتا اور انجن کا رخ دوبارہ ملکوال کی جانب کردیا جاتا۔ بھیرہ اور ملکوال کے درمیان 2005 تک تو آمدورفت اسی ریلوے ٹریک کے ذریعے ہوتی رہی مگر پھر ریلوے اور ملک کے حالات کچھ بگڑے تو بھیرہ اور ملکوال کے درمیان نہ صرف ٹرین کو بند کردیا گیا بلکہ بھیرہ کا ریلوے اسٹیشن بھی اجڑ گیا۔

اب یہاں جن کمروں میں کچھ عرصہ پہلے تک مسافر بیٹھا کرتے تھے، وہاں آپ کو جانور بندھے ملتے ہیں۔ ٹکٹ گھر پر ایک زنگ آلود تالا پڑا ہے جو شاید اب کبھی نہیں کھلے گا۔ ایسے زنگ آلود تالے صرف وہی کھول سکتا ہے جس کی آنکھوں میں وحشت اور دماغ میں فتور ہو۔ بھیرہ کی نئی پروان چڑھنے والی نسل اس بات سے قطعی انجان ہے کہ یہاں کوئی ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔

جو یہ جانتے بھی ہیں، انھوں نے کبھی وہاں جاکر نہیں دیکھا کہ بھیرہ کا ریلوے اسٹیشن کیسا تھا۔ بھیرہ کا یہ ریلوے اسٹیشن کسی ٹرین کا منتظر ہو یا نہ ہو مگر وہ بھیرہ والوں کا منتظر ضرور ہے کہ بھیرہ والے وہاں آئیں گے، اس کے پلیٹ فارم نمبر 1 پر اُگی لمبی گھاس کو کاٹیں گے کہ ریلوے اسٹیشن کی اصل پہچان اس کے ریلوے ٹریک سے ہی ہوتی ہے۔ بھیرہ ایک تاریخی شہر ہے، مگر اس شہر کی تاریخ یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔

بھیرہ کی تاریخ جب بھی یکجا ہوگی، اس کی شروعات یقینی طور پر بھیرہ ریلوے اسٹیشن سے ہی ہوگی۔ بھیرہ کا ذکر مسجد شیرشاہ سوری کے ذکر کے بنا ادھورا ہے۔ سلطان الہند شیر شاہ سوری نے خوشاب سے ہی بھیرہ میں ایک بڑی مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا، جسے 1541ء میں مکمل کیا گیا اور جامع مسجد شیر شاہ سوری کا نام دیا گیا۔ مسجد کا کُل رقبہ 2976 مربع فٹ ہے جب کہ اس میں یک وقت پندرہ سے بیس ہزار نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ مسجد کا طرزِتعمیر لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد جیسا ہی ہے۔

یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ جامع مسجد شیرشاہ سوری ہمایوں کے دور میں تعمیر ہو رہی تھی۔ جب یہ مسجد مکمل ہوئی تو ہمایوں کو شکست ہوچکی تھی اور شیرشاہ سوری دہلی کے تحت پر براجمان ہوچکا تھا۔ یہ مسجد بھی شاہی مسجد کی طرح مکمل طور پر لال پتھروں سے بنی تھی جس پر انتہائی خوب صورت نقش و نگاری تھی مگر جب پنجاب رنجیت سنگھ کے قبضے میں گیا تو اس نے مسجد کو بہت نقصان پہنچا۔ نقش و نگاری کو خراب کیا گیا۔ انگریز جب برصغیر پر قابض ہوئے تو انھوں نے مسجد کو دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کیا۔

مسجد کی مرمت کے دوران گنبد کو سفید چونا کر دیا گیا۔ مسجد کے صحن میں ایک بڑا حوض ہے جہاں ایک فوارہ لگا ہے مگر بنیادی طور پر یہ وضو کرنے کی جگہ تھی۔ مسجد کی دیکھ بھال ایک لمبے عرصے سے بگویہ خاندان کر رہا ہے جن کے بزرگوں نے آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ سے پنجاب کی جانب ہجرت کی تھی۔ مسجد کے بائیں جانب ایک کمرے میں بگویہ علمائے کرام کی قبریں بھی موجود ہیں۔

مسجد میں طلباء کی تدریس کے لیے ایک بڑا ہال بھی بنا ہوا ہے جب کہ دور دراز کے طلباء کے لیے ہاسٹل کا انتظام بھی مسجد میں ہی کیا گیا ہے۔ بگویہ خاندان کی بدولت ہی اسے جامع مسجد بگویہ بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں بھیرہ شہر کے متعلق دستاویزات اور عام استعمال کی چیزیں رکھی گئی ہیں۔

اوچے برج نیں بھیرہ دے جدے نال وگیندا جہلم
اے دھرتی پیار محبت دی، ایدی شان ودیندا جہلم

اک پاسے ایدے رہندے سنی، اک پاسے رہن حسینی
اک پاسے ایدے رہندے ہندی، اک پاسے وسن جینی

اک پاسے ایدے کوکے انجن، اک پاسیوں لنگے لاری
جہڑی پڑھی تریخ کتاباں وچ، ایتھے نظریں آوے ساری

ایتھے آئے خلجی، گزر گئے تے، نالے وسے سوری
ایتھے بیٹھ کسے نئیں رہنا، جانا سب دی مجبوری

اک پاسے ایدے وسے شیوا، اک پاسے حق خدا
جہڑا نظر نئیں آوندا اکھ تائیں او دسدا جابجا

اوچے برج نیں بھیرہ دے جدے نال وگیندا جہلم
اے دھرتی پیار محبت دی، ایدی شان ودیندا جہلم

دنیا اتے شہر ہزاراں میرا سوہنا شہر اے بھیرہ
توں سجنا پھر کے ویکھ لے ہور ایس جیا اے کہڑا

غلام قادر
Load Next Story