عمران خان پر حملہ‘ قابل مذمت
حملے سے واضح ہوتا ہے کہ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں پر لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد سے گزرتے ہوئے کنٹینر پر براہ راست فائرنگ سے عمران خان سمیت متعدد افراد زخمی جب کہ ایک کارکن جاں بحق ہوا۔ بلاشبہ یہ ایک نہایت خطرناک حملہ تھا۔
اس حملے سے واضح ہوتا ہے کہ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان سمیت دیگر زخمی زیر علاج ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا، 1947 کے بعد سے اب تک کئی نامور سیاسی شخصیات پر قاتلانہ حملے ہوئے جن میں سے چند ان حملوں میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اﷲ کا لاکھ شکر ہے کہ اس حملے میں عمران خان کی جان بچ گئی۔
اس حملے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے ، ان کے حفاظتی اقدامات میں کوتاہی کھل کر سامنے آگئی ہے ، جس کی وجہ سے یہ انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا ، مبینہ ملزم کتنی آسانی سے لانگ مارچ میں داخل ہوا اور انتہائی دیدہ دلیری سے حملہ آور ہوا، اگر دو مستعد فعال اور بہادر کارکنان اسے روکنے کی کوشش نہ کرتے تو نہ جانے کتنا بڑا جانی نقصان ہوجاتا ، ان میں سے ایک کارکن ملزم کی موقعے پر گولی لگنے سے شہید ہوگیا۔
فائرنگ کے اس واقعے کے محرکات و اسباب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنیوالی قوتیں اس میں ملوث ہوسکتی ہیں ، یہ بہت بڑی اور گہری سازش ہوئی ہے ، جس کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے صدر عارف علوی ، وزیراعظم شہباز شریف سمیت تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے سربراہوں نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے ، عالمی سطح پر یورپی یونین ، کینیڈا اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کے سربراہوں نے بھی اس حملے کی پرزور مذمت کی ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ عمران خان اور ان کے حامیوں پر حملہ ناقابل قبول ہے اور وہ اس تشدد کی سختی سے مذمت کرتے ہیں کیونکہ سیاست، جمہوریت یا مغربی معاشرے میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما نے حملے کی خبر کو خوفناک قرار دیتے ہوئے عمران خان کے محفوظ ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا ہے۔
جب کہ سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے امن، استحکام اور ترقی کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کے خلاف پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
اس وقت عمران خان پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں ، ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے ملک بھر میں احتجاج کیا ، کارکنوں کے دھرنے دینے سے ٹریفک جام ہوا، بعض مشتعل کارکنوں نے جلاؤ گھیراؤ بھی کیا ، احتجاج کرنا کسی بھی جماعت کا جمہوری حق ہے ، لیکن قومی اور نجی املاک کو نقصان پہنچانا کسی بھی طور درست طرز عمل نہیں ہے ۔
عمران خان کچھ دنوں سے کہہ رہے تھے کہ ان کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ جب وہ ایسی خوفناک صورتحال کا عندیہ دے رہے تھے تو پنجاب حکومت کو ان کے جلوس کی حفاظت کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے چاہیے تھے۔
درحقیقت یہ براہ راست فائرنگ تھی، اگر اتفاق سے تحریک انصاف کا ایک کارکن پسٹل کو فوری نہ دیکھ لیتا، وہ چھلانگ لگا کر حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے پستول کو تھوڑا نیچے نہ کر دیتا تو زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ تھا۔ حملہ میں نائن ایم ایم پسٹل استعمال کیا گیا جو جدید اور نہایت خطرناک، طاقتور ہتھیار ہے۔ نائن ایم ایم پسٹل کے ساتھ تیرہ گولیوں کا میگزین لگتا ہے جو الگ ہوسکتا ہے۔
اس کی رینج سو میٹر تک کارگر جب کہ پچاس میٹر تک انتہائی موثر ہے۔ اس پسٹل کی گولیاں چھوٹی موٹی لوہے کی چادر اور اینٹ کی عام دیوار سے بھی گزر جاتی ہیں۔ انسانی جسم پر گولی لگے تو بہت اندر تک چلی جاتی ہے۔ یہ خاصا مہنگا ہتھیار ہے اور پاکستانی مارکیٹ میں چار پانچ لاکھ سے کم نہیں ملتا۔
قاتلانہ حملوں میں کبھی کوئی ایک فرد شامل ہوتا ہے تو کبھی دو یا ان سے زیادہ افراد کا ہونا بھی ممکن ہے۔ ان کے پیچھے کئی بار کوئی گروہ، سیاسی جماعت، کوئی ملک کی حکومت یا پھر کوئی دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ ہونا ممکن ہے۔ چونکہ یہ قتل دانستہ اور جان لیوا ہوتے ہیں، اس لیے ان کے پیچھے کافی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے۔ ہر قاتلانہ حملہ کامیاب نہیں ہوتا۔ ناکام حملوں کی صورت میں نشانہ بنایا گیا شخص زندہ بچ جاتا ہے۔
اس کے بر عکس کامیاب حملوں میں شکار اشخاص مارے جاتے ہیں۔ جدید دور میں خود کش بمباروں کو بھی قاتلانہ حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو کسی قتل کے انجام دینے کے دوران خود بھی فنا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے فنا ہونے سے بھی ہر بار قتل کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ سیاست، تجارت اور کچھ زمینی رنجشوں کے معاملوں میں قاتلانہ حملے انجام پاتے ہیں یا کروائے جاتے ہیں۔
کروائے جانے کی صورت میں لازم ہے کہ باہر کا فریق بھی شامل ہوتا ہے جو محض مالی فائدے کے لیے قتل کو انجام دیتا ہے۔ قاتلانہ حملوں کے مقاصد اور کئی صیغہ راز میں رہنے والی باتیں کبھی منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی، پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور کئی بر سر آوردہ لوگ قتل تو کیے گئے، ان کے قتل کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات تو کی گئیں مگر کئی گوشے تشنہ رہ گئے اور بہت سے حقائق سامنے نہ آ سکے اور معاملات قیاس آرائیوں اور شبہات پر آ کر ختم ہو گئے۔
اسی طرح سے امریکی سیاہ فام قائد میلکم ایکس کا قتل ہے، جس کا شبہ امریکی خفیہ عہدیداروں پر کیا گیا ہے۔16 اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ 1988میں پاکستان کے صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق ایک ہوائی حادثہ کی نذر ہوگئے۔ 18 اکتوبر 2007 کو کراچی میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے آٹھ سال بعد واپسی پر ایک خودکش حملے اور ایک چھوٹے بم دھماکے میں 139 افراد سیاسی قتل کا شکار ہوئے۔
27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد وہاں سے رخصتی کے وقت ایک خودکش حملے اور پھر فائرنگ کے ایک واقعے میں پاکستان کی سابقہ وزیر اعظم پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا ۔ 2009میں بلوچستان کے صوبائی وزیر برائے تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں قتل کیا گیا ،2009 میں مذہبی عالم سرفراز احمد نعیمی کو قتل کیا گیا۔
2009ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین حسین علی یوسفی کو قتل کر دیا گیا۔ 2010میں بلوچ قوم پرست رہنما حبیب جالب کو بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ 2010 کو پشاور میں ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت علی خودکش حملے میں مارے گئے، 2 اگست 2010 کو سندھ میں حکمران اتحاد میں شامل جماعت ایم کیو ایم کے صوبائی رکن پارلیمان رضا حیدر کو کراچی میں گولی مار دی گئی۔
ان کے قتل کے بعد کراچی میں شروع ہونے والے خونریز واقعات میں 40 سے زائد افراد مارے گئے۔ 16 ستمبر 2010کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رکن اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے عمران فاروق کو برطانوی دار الحکومت میں قتل کر دیا گیا۔ دسمبر 2012 میں خیبر پختونخوا کے سینیئر وزیر بشیر احمد بلور پشاور میں خودکش دھماکے میں قتل ہوئے، اس کے علاوہ ملک سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ محفوظ رہے ۔
پاکستان تحریک انصاف اپنا لانگ مارچ جاری رکھنا چاہتی ہے ، تو اسے بھی چاہیے کہ تمام تر حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھے ، کیونکہ یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ، خدانخواستہ دوبارہ بھی ایسا ہوسکتا ہے ، لہٰذا فول پروف سیکیورٹی ضروری ہے۔
ان سطور کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں سے اپیل ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب برتیں ، تفتیشی اداروں کو تفتیش اور حقائق تک پہنچنے دیں ۔ یہ قومی نوعیت کا معاملہ ہے ، خدارا اس موقعے پر فہم و فراست اور تدبر کا مظاہر ہ کیا جائے ۔
اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لہٰذا صوبائی حکومت کی یہ ذمے داری ہے، وہ غیر جانبدارانہ تفتیش کرے۔ ملزم کے سیاسی، دینی، مسلکی رجحانات، دوستوں، سرپرستوں وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے معلومات جمع کی جائیں، شفاف تحقیقات ہوں جس سے پتہ چل سکے کہ ملزم کے ساتھ اور کون ہے اور کیا اس کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ بھی موجود ہے، پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے، یہاں پر اپنی مرضی کے قابل اعتماد پولیس افسروں سے تفتیش کرائی جا سکتی ہے۔
ہمیں امید کرنی چاہیے کہ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اگلے ایک دو دنوں میں باقاعدہ ابتدائی انکوائری رپورٹ بھی میڈیا سے شیئر کریں گی تاکہ اصل حقائق قوم کے سامنے آسکیں ۔
اس حملے سے واضح ہوتا ہے کہ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان سمیت دیگر زخمی زیر علاج ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا، 1947 کے بعد سے اب تک کئی نامور سیاسی شخصیات پر قاتلانہ حملے ہوئے جن میں سے چند ان حملوں میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اﷲ کا لاکھ شکر ہے کہ اس حملے میں عمران خان کی جان بچ گئی۔
اس حملے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے ، ان کے حفاظتی اقدامات میں کوتاہی کھل کر سامنے آگئی ہے ، جس کی وجہ سے یہ انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا ، مبینہ ملزم کتنی آسانی سے لانگ مارچ میں داخل ہوا اور انتہائی دیدہ دلیری سے حملہ آور ہوا، اگر دو مستعد فعال اور بہادر کارکنان اسے روکنے کی کوشش نہ کرتے تو نہ جانے کتنا بڑا جانی نقصان ہوجاتا ، ان میں سے ایک کارکن ملزم کی موقعے پر گولی لگنے سے شہید ہوگیا۔
فائرنگ کے اس واقعے کے محرکات و اسباب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنیوالی قوتیں اس میں ملوث ہوسکتی ہیں ، یہ بہت بڑی اور گہری سازش ہوئی ہے ، جس کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے صدر عارف علوی ، وزیراعظم شہباز شریف سمیت تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے سربراہوں نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے ، عالمی سطح پر یورپی یونین ، کینیڈا اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کے سربراہوں نے بھی اس حملے کی پرزور مذمت کی ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ عمران خان اور ان کے حامیوں پر حملہ ناقابل قبول ہے اور وہ اس تشدد کی سختی سے مذمت کرتے ہیں کیونکہ سیاست، جمہوریت یا مغربی معاشرے میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما نے حملے کی خبر کو خوفناک قرار دیتے ہوئے عمران خان کے محفوظ ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا ہے۔
جب کہ سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے امن، استحکام اور ترقی کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں کے خلاف پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
اس وقت عمران خان پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں ، ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے ملک بھر میں احتجاج کیا ، کارکنوں کے دھرنے دینے سے ٹریفک جام ہوا، بعض مشتعل کارکنوں نے جلاؤ گھیراؤ بھی کیا ، احتجاج کرنا کسی بھی جماعت کا جمہوری حق ہے ، لیکن قومی اور نجی املاک کو نقصان پہنچانا کسی بھی طور درست طرز عمل نہیں ہے ۔
عمران خان کچھ دنوں سے کہہ رہے تھے کہ ان کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ جب وہ ایسی خوفناک صورتحال کا عندیہ دے رہے تھے تو پنجاب حکومت کو ان کے جلوس کی حفاظت کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے چاہیے تھے۔
درحقیقت یہ براہ راست فائرنگ تھی، اگر اتفاق سے تحریک انصاف کا ایک کارکن پسٹل کو فوری نہ دیکھ لیتا، وہ چھلانگ لگا کر حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے پستول کو تھوڑا نیچے نہ کر دیتا تو زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ تھا۔ حملہ میں نائن ایم ایم پسٹل استعمال کیا گیا جو جدید اور نہایت خطرناک، طاقتور ہتھیار ہے۔ نائن ایم ایم پسٹل کے ساتھ تیرہ گولیوں کا میگزین لگتا ہے جو الگ ہوسکتا ہے۔
اس کی رینج سو میٹر تک کارگر جب کہ پچاس میٹر تک انتہائی موثر ہے۔ اس پسٹل کی گولیاں چھوٹی موٹی لوہے کی چادر اور اینٹ کی عام دیوار سے بھی گزر جاتی ہیں۔ انسانی جسم پر گولی لگے تو بہت اندر تک چلی جاتی ہے۔ یہ خاصا مہنگا ہتھیار ہے اور پاکستانی مارکیٹ میں چار پانچ لاکھ سے کم نہیں ملتا۔
قاتلانہ حملوں میں کبھی کوئی ایک فرد شامل ہوتا ہے تو کبھی دو یا ان سے زیادہ افراد کا ہونا بھی ممکن ہے۔ ان کے پیچھے کئی بار کوئی گروہ، سیاسی جماعت، کوئی ملک کی حکومت یا پھر کوئی دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ ہونا ممکن ہے۔ چونکہ یہ قتل دانستہ اور جان لیوا ہوتے ہیں، اس لیے ان کے پیچھے کافی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے۔ ہر قاتلانہ حملہ کامیاب نہیں ہوتا۔ ناکام حملوں کی صورت میں نشانہ بنایا گیا شخص زندہ بچ جاتا ہے۔
اس کے بر عکس کامیاب حملوں میں شکار اشخاص مارے جاتے ہیں۔ جدید دور میں خود کش بمباروں کو بھی قاتلانہ حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو کسی قتل کے انجام دینے کے دوران خود بھی فنا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے فنا ہونے سے بھی ہر بار قتل کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ سیاست، تجارت اور کچھ زمینی رنجشوں کے معاملوں میں قاتلانہ حملے انجام پاتے ہیں یا کروائے جاتے ہیں۔
کروائے جانے کی صورت میں لازم ہے کہ باہر کا فریق بھی شامل ہوتا ہے جو محض مالی فائدے کے لیے قتل کو انجام دیتا ہے۔ قاتلانہ حملوں کے مقاصد اور کئی صیغہ راز میں رہنے والی باتیں کبھی منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی، پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور کئی بر سر آوردہ لوگ قتل تو کیے گئے، ان کے قتل کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات تو کی گئیں مگر کئی گوشے تشنہ رہ گئے اور بہت سے حقائق سامنے نہ آ سکے اور معاملات قیاس آرائیوں اور شبہات پر آ کر ختم ہو گئے۔
اسی طرح سے امریکی سیاہ فام قائد میلکم ایکس کا قتل ہے، جس کا شبہ امریکی خفیہ عہدیداروں پر کیا گیا ہے۔16 اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ 1988میں پاکستان کے صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق ایک ہوائی حادثہ کی نذر ہوگئے۔ 18 اکتوبر 2007 کو کراچی میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے آٹھ سال بعد واپسی پر ایک خودکش حملے اور ایک چھوٹے بم دھماکے میں 139 افراد سیاسی قتل کا شکار ہوئے۔
27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد وہاں سے رخصتی کے وقت ایک خودکش حملے اور پھر فائرنگ کے ایک واقعے میں پاکستان کی سابقہ وزیر اعظم پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا ۔ 2009میں بلوچستان کے صوبائی وزیر برائے تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ میں قتل کیا گیا ،2009 میں مذہبی عالم سرفراز احمد نعیمی کو قتل کیا گیا۔
2009ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین حسین علی یوسفی کو قتل کر دیا گیا۔ 2010میں بلوچ قوم پرست رہنما حبیب جالب کو بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ 2010 کو پشاور میں ایف سی کے کمانڈنٹ صفوت علی خودکش حملے میں مارے گئے، 2 اگست 2010 کو سندھ میں حکمران اتحاد میں شامل جماعت ایم کیو ایم کے صوبائی رکن پارلیمان رضا حیدر کو کراچی میں گولی مار دی گئی۔
ان کے قتل کے بعد کراچی میں شروع ہونے والے خونریز واقعات میں 40 سے زائد افراد مارے گئے۔ 16 ستمبر 2010کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رکن اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے عمران فاروق کو برطانوی دار الحکومت میں قتل کر دیا گیا۔ دسمبر 2012 میں خیبر پختونخوا کے سینیئر وزیر بشیر احمد بلور پشاور میں خودکش دھماکے میں قتل ہوئے، اس کے علاوہ ملک سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ محفوظ رہے ۔
پاکستان تحریک انصاف اپنا لانگ مارچ جاری رکھنا چاہتی ہے ، تو اسے بھی چاہیے کہ تمام تر حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھے ، کیونکہ یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ، خدانخواستہ دوبارہ بھی ایسا ہوسکتا ہے ، لہٰذا فول پروف سیکیورٹی ضروری ہے۔
ان سطور کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں سے اپیل ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب برتیں ، تفتیشی اداروں کو تفتیش اور حقائق تک پہنچنے دیں ۔ یہ قومی نوعیت کا معاملہ ہے ، خدارا اس موقعے پر فہم و فراست اور تدبر کا مظاہر ہ کیا جائے ۔
اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لہٰذا صوبائی حکومت کی یہ ذمے داری ہے، وہ غیر جانبدارانہ تفتیش کرے۔ ملزم کے سیاسی، دینی، مسلکی رجحانات، دوستوں، سرپرستوں وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے معلومات جمع کی جائیں، شفاف تحقیقات ہوں جس سے پتہ چل سکے کہ ملزم کے ساتھ اور کون ہے اور کیا اس کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ بھی موجود ہے، پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے، یہاں پر اپنی مرضی کے قابل اعتماد پولیس افسروں سے تفتیش کرائی جا سکتی ہے۔
ہمیں امید کرنی چاہیے کہ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اگلے ایک دو دنوں میں باقاعدہ ابتدائی انکوائری رپورٹ بھی میڈیا سے شیئر کریں گی تاکہ اصل حقائق قوم کے سامنے آسکیں ۔