علامہ اقبال کی فکر انگیز شاعری
علامہ اقبالؒ کی زندگی ذکر وفکر میں گزری،وہ عشق محمدﷺ میں سرشار رہتے
بہت سی ایسی شخصیات جن کے بارے میں لکھنا یا اُن کی فن وشخصیت پر بات کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا اُن کے فن اور کام کو سمجھنا ہوتا ہے۔
ایسی ہی کچھ کیفیت سے میں بھی دوچار ہوں کیونکہ میں اتنا صاحب علم تو نہیں جوحضرت علامہ اقبال کی فکر انگیز شاعری پر قلم اُٹھا سکوں۔ البتہ اُن کی شخصیت پہ لکھنے کی کوشش ضرور کر رہا ہوں۔ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں مگر بحیثیت آپ فلسفی شاعر، سیاستدان ،معلم اور قانون دان اُنکے حوالے سے نمایاں طور پر جانے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال اپنی شاعری کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے والے پہلے شاعر ثابت ہوئے۔ اسی لیے آپ کو'' شاعر مشرق ''بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے شاعری کی اصلاح ابتدا میں سیالکوٹ مشن کالج کے پروفیسر مہر حسن اور پھر برصغیر پاک وہند کے اُستاد شاعر داغ دہلوی سے لیتے رہے۔ اسی لیے آپ کے شعر پڑھنے کا انداز داغ دہلوی جیسا تھا۔
ڈاکٹر علامہ اقبالؒ جمعہ ذیقعدہ 1294 ھ بمطابق 9 نومبر1877 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ ونسب کشمیر کے اعلیٰ برہمن خاندان سے ملتا ہے۔ ''آثارِ اقبال '' کے صفحہ نمبر 66 پہ رقم الحروف علامہ اقبال خود فرماتے ہیں کہ'' میرے آبائو اجداد برہمن تھے انھوں نے اپنی عمریں اس سوچ میں گزار دیں کہ خدا کیا ہے؟ اور میں اپنی زندگی اس سوچ میں گزار رہا ہوں کہ انسان کیا ہے؟''
ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا جو ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ جنھیں تصوف سے گہرا لگائو تھا اور اکثر اپنے خدا کی یاد میں مشغول رہتے ۔ اسی نسبت علامہ اقبال کے خون میں خدا کا خوف اور عشق رسولﷺ کے علاوہ اولیاء کرام کی محبت سے سرشار رہتے تھے۔علامہ اقبال کو پنجابی، عربی، انگریزی، اُردو،فارسی جیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔
1991 ء کی بات ہے کہ فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال مرحوم ایک انٹرویومیںبتاتے ہیں کہ'' تنہائی میں تنہا رہنا انھیں اچھا لگتا تھا مگر وہ محفل کے آدمی تھے جس کے بغیر وہ تنہا رہنا پسندنہیں کرتے تھے۔ وہ عربی، انگریزی، فارسی کے پروفیسر ضرور رہے مگر وہ گھر میں اکثر اوقات میںہر کسی سے پنجابی زبان میں بات کرنا پسند کرتے تھے۔ کیونکہ انھیں صوفیائے کرام کی پنجابی شعری ترنم کے ساتھ سننے کا بہت شوق تھا۔''
کہاں ہے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
علامہ اقبالؒ انگریزی،فارسی کے علاوہ شعبہ عربی میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ انھوں نے میونخ یونیورسٹی جا کر فلسفہ ایران مابعد طبعیات پر ایک عالمانہ اور تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1923 ء میں آپ کو ''سر'' کے خطاب سے نوازا گیا۔
ایک جگہ اور ڈاکٹر جاوید اقبال رقم طراز ہے کہ''شعر کہنے سے پہلے ان کی حالت خراب ہو جاتی تھی اور اشعار لکھ لینے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور وہ لیٹ جایا کرتے تھے ،وجدان کا فیضان ان پر طاری ہو جاتا۔''
علامہ اقبالؒ کی شاعری ہمیں خودی کا پیغام دیتی ہیں ان کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ آج بھی ایک ایک فرد اور ہر نوجوان بچے کی زباں پہ جاری وساری ہیں۔آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں آپ نے بڑوں کے لیے اشعار کہے وہی بچوں کے لیے بھی نظمیں کہیں۔
خود کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبال کا ایک اور خوبصورت خیال ملاحظہ کیجیے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
علامہ اقبال جہاں ایک فلسفی شاعر اور نقاد تھے وہی اپنے دور کے ایک زبردست سیاسی مفکر بھی تھے۔اسی لیے بانی پاکستان قائداعظم جیسے ماہر سیاستدان نے ان کو عملی سیاستدان کہا۔1926 ء میں آپ پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوئے، جس کے بعد آپ تا دم آخر مسلمانوں کے ملی مطالبات اور جداگانہ انتخابات کے حامی رہے۔
دسمبر 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت بھی علامہ اقبالؒ نے فرمائی۔ اُس وقت ان کے صدارتی کلمات کچھ یوں تھے کہ''وہ خیالات کی وسعت وبلندی،لہجے کی صداقت،زبان کی دلفریبی اور مطالب سیاسی کی فراوانی کے اعتبار سے دستاویز ہے۔''
حسن اتفاق دیکھیے یہی وہ تقریر تھی جس میں علامہ اقبال نے ایک الگ ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ جس میں انھوں نے فرمایا''مجھے یقین ہے کہ یہ اجتماع ان تمام مطالبات کی نہایت شدومد سے تائید کرے گا جو اس قرار داد میں موجود ہیں ذاتی طور پر تو میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں میری خواہش ہے کہ پنجاب، سرحد،سندھ اور صوبہ بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے یا باہر رہ کر، مجھے تو نظر آتا ہے کہ اور انھیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔''
یہ وہ خواب تھا جسے علامہ اقبالؒ کی آنکھوں نے دیکھا جس کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ اقبال نے اپنی چشم باطن سے ایک آزاد مسلم پاکستانی قوم کو اس کے ظہور سے کئی سال پہلے دیکھ لیا تھا لیکن یہ پیش گوئی کرنے والا شاعر قیام پاکستان سے نو سال قبل اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ علامہ اقبال نے قائداعظم کو 1937 ء میں ایک خط میں لکھا ''موجودہ حالات میں بہتری کی واحد شکل یہ ہے کہ نسلی،دینی اور لسانی بنیادوں پر ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے۔''
یہی وجہ ہے قائداعظم بڑے فخر سے یہ کہا کرتے تھے کہ''اقبال میرا دوست تھا،رہبر تھا،فلسفی تھا۔'' قائداعظم کو اقبال کی خود اعتمادی پر یقین تھا وہ ہر معاملے میں ان سے مدد لیتے اور انھیں اپنا دست راست سمجھتے تھے۔ قائد اعظم نے اپنے پیغام تعزیت میں بھی جاوید اقبال کو یوں لکھا''وہ میرے ایک دانش مند دوست اور رہنما تھے مسلم لیگ کے نازک ترین اوقات میں وہ ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے اور کبھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔''
علامہ اقبالؒ کی زندگی ذکر وفکر میں گزری،وہ عشق محمدﷺ میں سرشار رہتے اور ہر ایک چیز کو یہی عینک لگا کر دیکھتے تھے کہ دنیا کہ ہر چیز کسی نہ کسی اُمید سے زندہ ہے۔اقبال کے قوتِ عشق کی منظر کشی دیکھے ۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے
علامہ اقبالؒ کی زندگی کے متنوع پہلوئوں میں سے ایک بحیثیت وہ وکالت سے بھی وابستہ رہے۔انھیں قانون کے شعبے سے جوانی سے ہی لگائو اور دلچسپی تھی۔اقبالؒ بحیثیت ایک ایماندار اور دیاندار شخص تھے ۔اقبال کوئی ایسا کیس نہ لیتے جس میں انھیں محسوس ہوتا کہ وہ اپنے موکل کی کوئی مدد نہیں کرسکتے ۔علامہ اقبال کے فن و شخصیت پر بہت کچھ لکھنا ابھی باقی ہے بہرحال انکی وفات 21 اپریل 1938 ء کو ہوئی۔
ڈاکٹر عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے وقت فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں ۔آخر میںاتنا ضرور کہوں گا کہ ہمیں آج بھی علامہ اقبال کی فکر انگیز شاعری کی دولت نیند سے بیدار ہونے کی اشد ضرورت ہے۔وگرنہ وہی ہو گا جو پچھلے 75 برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ چند اشعار پیش کرتا چلوں کہ:
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
......
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
......
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
ایسی ہی کچھ کیفیت سے میں بھی دوچار ہوں کیونکہ میں اتنا صاحب علم تو نہیں جوحضرت علامہ اقبال کی فکر انگیز شاعری پر قلم اُٹھا سکوں۔ البتہ اُن کی شخصیت پہ لکھنے کی کوشش ضرور کر رہا ہوں۔ مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں مگر بحیثیت آپ فلسفی شاعر، سیاستدان ،معلم اور قانون دان اُنکے حوالے سے نمایاں طور پر جانے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال اپنی شاعری کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے والے پہلے شاعر ثابت ہوئے۔ اسی لیے آپ کو'' شاعر مشرق ''بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے شاعری کی اصلاح ابتدا میں سیالکوٹ مشن کالج کے پروفیسر مہر حسن اور پھر برصغیر پاک وہند کے اُستاد شاعر داغ دہلوی سے لیتے رہے۔ اسی لیے آپ کے شعر پڑھنے کا انداز داغ دہلوی جیسا تھا۔
ڈاکٹر علامہ اقبالؒ جمعہ ذیقعدہ 1294 ھ بمطابق 9 نومبر1877 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ ونسب کشمیر کے اعلیٰ برہمن خاندان سے ملتا ہے۔ ''آثارِ اقبال '' کے صفحہ نمبر 66 پہ رقم الحروف علامہ اقبال خود فرماتے ہیں کہ'' میرے آبائو اجداد برہمن تھے انھوں نے اپنی عمریں اس سوچ میں گزار دیں کہ خدا کیا ہے؟ اور میں اپنی زندگی اس سوچ میں گزار رہا ہوں کہ انسان کیا ہے؟''
ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا جو ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ جنھیں تصوف سے گہرا لگائو تھا اور اکثر اپنے خدا کی یاد میں مشغول رہتے ۔ اسی نسبت علامہ اقبال کے خون میں خدا کا خوف اور عشق رسولﷺ کے علاوہ اولیاء کرام کی محبت سے سرشار رہتے تھے۔علامہ اقبال کو پنجابی، عربی، انگریزی، اُردو،فارسی جیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔
1991 ء کی بات ہے کہ فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال مرحوم ایک انٹرویومیںبتاتے ہیں کہ'' تنہائی میں تنہا رہنا انھیں اچھا لگتا تھا مگر وہ محفل کے آدمی تھے جس کے بغیر وہ تنہا رہنا پسندنہیں کرتے تھے۔ وہ عربی، انگریزی، فارسی کے پروفیسر ضرور رہے مگر وہ گھر میں اکثر اوقات میںہر کسی سے پنجابی زبان میں بات کرنا پسند کرتے تھے۔ کیونکہ انھیں صوفیائے کرام کی پنجابی شعری ترنم کے ساتھ سننے کا بہت شوق تھا۔''
کہاں ہے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
علامہ اقبالؒ انگریزی،فارسی کے علاوہ شعبہ عربی میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دیے۔ انھوں نے میونخ یونیورسٹی جا کر فلسفہ ایران مابعد طبعیات پر ایک عالمانہ اور تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1923 ء میں آپ کو ''سر'' کے خطاب سے نوازا گیا۔
ایک جگہ اور ڈاکٹر جاوید اقبال رقم طراز ہے کہ''شعر کہنے سے پہلے ان کی حالت خراب ہو جاتی تھی اور اشعار لکھ لینے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور وہ لیٹ جایا کرتے تھے ،وجدان کا فیضان ان پر طاری ہو جاتا۔''
علامہ اقبالؒ کی شاعری ہمیں خودی کا پیغام دیتی ہیں ان کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ آج بھی ایک ایک فرد اور ہر نوجوان بچے کی زباں پہ جاری وساری ہیں۔آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں آپ نے بڑوں کے لیے اشعار کہے وہی بچوں کے لیے بھی نظمیں کہیں۔
خود کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبال کا ایک اور خوبصورت خیال ملاحظہ کیجیے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
علامہ اقبال جہاں ایک فلسفی شاعر اور نقاد تھے وہی اپنے دور کے ایک زبردست سیاسی مفکر بھی تھے۔اسی لیے بانی پاکستان قائداعظم جیسے ماہر سیاستدان نے ان کو عملی سیاستدان کہا۔1926 ء میں آپ پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوئے، جس کے بعد آپ تا دم آخر مسلمانوں کے ملی مطالبات اور جداگانہ انتخابات کے حامی رہے۔
دسمبر 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت بھی علامہ اقبالؒ نے فرمائی۔ اُس وقت ان کے صدارتی کلمات کچھ یوں تھے کہ''وہ خیالات کی وسعت وبلندی،لہجے کی صداقت،زبان کی دلفریبی اور مطالب سیاسی کی فراوانی کے اعتبار سے دستاویز ہے۔''
حسن اتفاق دیکھیے یہی وہ تقریر تھی جس میں علامہ اقبال نے ایک الگ ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ جس میں انھوں نے فرمایا''مجھے یقین ہے کہ یہ اجتماع ان تمام مطالبات کی نہایت شدومد سے تائید کرے گا جو اس قرار داد میں موجود ہیں ذاتی طور پر تو میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں میری خواہش ہے کہ پنجاب، سرحد،سندھ اور صوبہ بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے یا باہر رہ کر، مجھے تو نظر آتا ہے کہ اور انھیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔''
یہ وہ خواب تھا جسے علامہ اقبالؒ کی آنکھوں نے دیکھا جس کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ اقبال نے اپنی چشم باطن سے ایک آزاد مسلم پاکستانی قوم کو اس کے ظہور سے کئی سال پہلے دیکھ لیا تھا لیکن یہ پیش گوئی کرنے والا شاعر قیام پاکستان سے نو سال قبل اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ علامہ اقبال نے قائداعظم کو 1937 ء میں ایک خط میں لکھا ''موجودہ حالات میں بہتری کی واحد شکل یہ ہے کہ نسلی،دینی اور لسانی بنیادوں پر ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے۔''
یہی وجہ ہے قائداعظم بڑے فخر سے یہ کہا کرتے تھے کہ''اقبال میرا دوست تھا،رہبر تھا،فلسفی تھا۔'' قائداعظم کو اقبال کی خود اعتمادی پر یقین تھا وہ ہر معاملے میں ان سے مدد لیتے اور انھیں اپنا دست راست سمجھتے تھے۔ قائد اعظم نے اپنے پیغام تعزیت میں بھی جاوید اقبال کو یوں لکھا''وہ میرے ایک دانش مند دوست اور رہنما تھے مسلم لیگ کے نازک ترین اوقات میں وہ ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے اور کبھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔''
علامہ اقبالؒ کی زندگی ذکر وفکر میں گزری،وہ عشق محمدﷺ میں سرشار رہتے اور ہر ایک چیز کو یہی عینک لگا کر دیکھتے تھے کہ دنیا کہ ہر چیز کسی نہ کسی اُمید سے زندہ ہے۔اقبال کے قوتِ عشق کی منظر کشی دیکھے ۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے
علامہ اقبالؒ کی زندگی کے متنوع پہلوئوں میں سے ایک بحیثیت وہ وکالت سے بھی وابستہ رہے۔انھیں قانون کے شعبے سے جوانی سے ہی لگائو اور دلچسپی تھی۔اقبالؒ بحیثیت ایک ایماندار اور دیاندار شخص تھے ۔اقبال کوئی ایسا کیس نہ لیتے جس میں انھیں محسوس ہوتا کہ وہ اپنے موکل کی کوئی مدد نہیں کرسکتے ۔علامہ اقبال کے فن و شخصیت پر بہت کچھ لکھنا ابھی باقی ہے بہرحال انکی وفات 21 اپریل 1938 ء کو ہوئی۔
ڈاکٹر عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے وقت فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں ۔آخر میںاتنا ضرور کہوں گا کہ ہمیں آج بھی علامہ اقبال کی فکر انگیز شاعری کی دولت نیند سے بیدار ہونے کی اشد ضرورت ہے۔وگرنہ وہی ہو گا جو پچھلے 75 برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ چند اشعار پیش کرتا چلوں کہ:
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
......
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
......
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب