سیاست یا کاروبار

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے کے بعد ان کی نظر اور سماعت کمزور ہو جاتی ہے

جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کامیاب وکیل ، بزنس مین اور سیاست دان تھے مگر وہ اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے اور انھیں صرف وکیل ہی دیکھنا چاہتے تھے،انھیں لاٹھی اور جیل سے بچائے رکھنا چاہتے تھے،والد نے ان کی نوابوں جیسی پرورش کی تھی۔

کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور یہ جب بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انھیں الٰہ آباد میں اچھے کلا ئنٹس لے کر دیے، لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے اور سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے۔ والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو ایک دن موتی لال نے جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی۔

کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیاگیا۔ فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا ''تم کل سے صاحب زادے کو جیل کی طرز پر کھانا پکا کر کھلائو گے ''بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا گیا ۔ جب جواہر لا ل نہرو نے اپنے کمرے میں جاکر یہ منظر دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے ۔ بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول ''War & Peace'' پڑھ رہے تھے۔

بیٹے نے پوچھا ''آپ مجھ سے خفا ہیں'' موتی لال نے نظریں کتاب سے اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا ''میں تم سے ناراض ہو نے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا۔'' چھوٹے نہرو نے پوچھا ''پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا'' والد نے بیٹے سے کہا ''صاحب زادے تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل' بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے میں چاہتاہوں کہ تم آج سے ہی ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو۔

دوسرا غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں، تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہی بنناہوگا ۔ تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔ میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے۔

چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے ہی پیسے خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں یا عموماً ہوا کرتے ہیں۔ فرمانبردار جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اورپھر مرتے دم تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں ہی جیسا سادہ کھانا کھایا۔

میں نہیں جانتا اس کہانی میں کتنا سچ ہے لیکن جواہر لال نہرو کی سیاسی زندگی کامطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ساری زندگی ایسی ہی گذاری۔ جو سبق موتی لال نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کو دیا وہ شاید آج تک کسی اور سیاستدان نے اپنی اولاد کو نہیں دیا ہو گا۔ آج کی سیاست کا مطالعہ کریں تو کرپشن کی ایسی ایسی ہوشربا داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ آج کل سیاست کو ایک بزنس کی طرح لیا جاتا ہے۔ جتنی انویسٹمنٹ کریں گے اتنا ہیـ


''منافع'' بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ حاصل ہوگا۔سندھ میں ایک بڑی پارٹی نے کوشش کی اور متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کو ٹکٹ دے کے اسمبلیوں میں بھیجا لیکن ان ممبران کی اکثریت جاگیرداری نظام کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور ان میں سے بیشتراپنا پارٹی منشور بھول گئے اور کرپشن کے دریا میں بہتے چلے گئے ۔ ان میں سے زیادہ تر اب ''اپر کلاس'' میں شمارہوتے ہیں۔

یقیناً تمام کے تمام سیاستدان بھی کرپٹ نہیں ہیں لیکن اگر ان اصول پسند اور ایماندار سیاستدانوں کی گنتی کی جائے تو شاید پانچ یا دس فیصد بھی نہ مل سکیں۔ دولت کمانے کے لیے کرپشن کے ایسے ایسے طریقے کہ جنھیں جان کر دماغ کی بتی جل جائے۔مہنگی سے مہنگی کاریں،بنگلے ، بیش قیمت گھڑیاں اور برانڈڈ پرس اور جوتے رکھنا اب ایک فیشن بن چکا ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کو توسادگی اور ملک کی محبت دل میں رکھنے کا سبق دیتے ہیں لیکن خود ان کی اولادیں ملک سے باہر مہنگے ترین کالجز اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہوتی ہے۔ ایئرکنڈیشنڈ دفاتر ، گھر اور حتی کے اب تو باتھ رومز تک میں ائیر کنڈیشن کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں جن کی ٹھنڈک لوڈ شیڈنگ کے دوران بھی جاری رہتی ہے کیونکہ ان کو آن رکھنے کے لیے '' ہیوی ڈیوٹی اسٹینڈ بائی جنریٹرز'' موجود ہیں۔

اس لیے انھیں کیسے احساس ہو کہ لوڈ شیڈنگ کب ہوتی ہے اور اس کا عذاب ایک عام آدمی کیسے جھیلتا ھے؟لاکھوں روپے کے جوتے پہننے والے، کروڑوں روپے اپنی گھڑیوں پر خرچ کرنے والے، روزانہ ہزاروں روپے کا صرف کھاناکھانیوالے اور لاکھوںکے پرس اور چپلیں رکھنے ـ''والیاںــ '' کیسے جان سکتی ہیں کہ بھوک ، بے روزگاری اور مفلسی انسان کو روزانہ زندہ کرتی ہے اور روزانہ مرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں چندبڑے خاندانوں کی اجارہ داری ہے جو کسی طور ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی، اگر والدین سیاست سے الگ ہوئے( خود سے الگ کم ہی ہوتے ہیں، الگ کر دیے جاتے ہیں) تو اس کی جگہ اس کی بیٹی یا بیٹے نے لے لی اور ہم ٹہرے غلام ابن غلام کہ ان کے والدین کے بعد ان کی اولادوں کو پوجنا شروع کر دیتے ہیں اور انھیں اپنا مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں اور ''آوے ہی آوے'' کے فلک شگاف نعرے لگا لگا کر خود ہی دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان نوعمر سیاستدانوں کے والدین نے ایک عام آدمی کو اب تک کیا دیا جو ان کی ناز و نعم میں پلنے والی اولادیں ہمیں دے پائیں گی۔

سادگی نام کا پاکستان میں اب صرف کتابوں میں ہی ملتا ہے اور یہ سادگی کا درس بھی صرف عام آدمی کے لیے ہی ہے ۔ جیسا کہ پچھلے دنوں ایک وزیر موصوف نے کہا'' ٹماٹر مہنگا ہو گیا ہے تو دہی استعمال کریں۔'' دوسرے وزیر ان سے بڑھ کر بولے کہ '' چینی مہنگی ہو گئی ہے تو بنا چینی کے چائے پئیں یا دو کی جگہ ایک چمچ چینی استعمال کریں۔'' اگر ان سے پوچھا جائے کہ خود آپ بھی اس پر عمل کریں گے تو بغلیں جھانکنے لگیں۔

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے کے بعد ان کی نظر اور سماعت کمزور ہو جاتی ہے اس لیے نہ انھیں عوام کے مسائل نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کی دلدوز چیخیں سنائی دیتی ہیں اور جب کبھی انھیں اقتدار سے الگ کر دیا جائے تو واپسی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔ معذرت کے ساتھ، ہماری ملکی سیاست میں اخلاقیات اب نا پید ہو چکی ہے۔ اس لیے اقتدار میں واپسی کے لیے انھیں اسٹبلشمنٹ سے چاہیے کیسی ہی ڈیل کرنی پڑے کر لیتے ہیں۔

جرمن فلاسفرکارل مارکس نے کہا تھا '' وہ جنھوں نے سردی ، گرمی صرف کھڑکیوں سے ہی دیکھی اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو، عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے۔'' اور یہ قول ہماری ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں پر لاگو ہوتا ہے۔
Load Next Story