کائنات دنیا اور ہم
پاکستان اگر اداروں کا عکس بنتا ہے یعنی یہاں آمریتی سوچ کی شکست ہوتی ہے تو چلے گا
یہ دھرتی کشتی کی مانند ہے اور کائنات ایک لامتناہی سمندر ہے جہاں وقت کا دریا بہتا جارہاہے نہ جانے کتنے کھربوں سالوں کا یہ گورکھ دھندا ہے، مگر ہر ایک آنکھ جیسے خود محور ہو اپنی سوچوں کے لامتناہی خیالوں کا، باتوں اور افکاروں کا ، دکھ کی نیا ہے زندگی، چلتی رہتی ہے، زرد پتوں کی مانند کسی اداس اماؤس میں اوڑھی شاہراہ پر گر جاتی ہے۔
ہوا کے جھونکے سے اڑتے ،گرتے گزر جاتی ہے زندگی۔ بالکل اسی طرح یہ سب جوبنی نوع ہے جو سمجھتی ہے کہ جیسے وہی ہے جس کے لیے یہ ساری دھرتی ہے، اس میں باقی جو اس کے ساتھ رہنے والے تھی، کئی طرح کے پرندے، جانور وغیرہ ان کا جیون محدود کردیا، بات پھر دور تلک چلی گئی کہ اب تو اس کی آوارگی نے پوری دنیا کو آلودہ کردیا، پہلے جنگوں کی وجہ سے ہجرتیں ہوتی تھیں، اب کے یہ ہجرتیں بے تحاشا ہورہی ہیں اور ہوں گی ، بارشوں، سمندر کی سطح بڑھنے کی وجہ سے۔
کتنی ساری ثقافتیں ہیں، زبانیں ہیں، ریاستیں و مذاہب ہیں،ہر کوئی خدا کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے، نکتہ وہی ہے مگر نگاہ مختلف،منزل وہی ہے مگر راستے الگ الگ، ہر ایک کا حق ہے کہ جس طرح رجوع کرے۔ اس کا ذاتی معاملہ ہے، بس ہم ایک دوسرے کے جو بھی عقیدے و اعتبار ہیں ان کا احترام کریں اور وہ ہمارا احترام کرے۔
بخار کی گولی کو کیا پتا کہ اسے کون کھائے گا کہ ہندو ، مسلمان یا عیسائی، کیونکہ اس ٹیبلٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کو بنانے والا کوئی بھی ہو مگر ہے وہ بنی نوع انسان کے لیے، بغیر کسی رنگ و نسل کے۔ اسی طرح برطانیہ، جس کا وزیر اعظم آج ہندو ہے، لندن کا میئر مسلمان ہے۔ سائنس کو کچھ نہیں پتہ کہ اسی کی کھوجنا میں رہنے والا کیا سکھ، ہندو، مسلمان یا عیسائی ہے۔
سب سائنسدان جس مذہب کے بھی ہوں ، سائنس کی ریسرچ کرتے وقت وہ سیکیولر ہوتے ہیں، یہ تقاضے سے سائنس ارتقا، بالکل اسی طرح ہمارا آئین بھی ایک سائنسی عرف بینی کے تسلسل سے نکلتا ہے ، وہ خود ایک سائنس ہے، جس نے برطانیہ میں ہندو کو وزیر اعظم کردیا ، جس کے اجداد گوجرانوالہ سے ہیں۔ جن کا جو زاویہ بنتا ہے وہ اس زاویہ سے دیکھتا ہے ،سوچتا ہے۔ کتنے سارے پھر مفادات بھی بنتے ہیں۔
سچ کیا ہے، یوں لگتا ہے جیسے آپ کی سوچ کا ، آپ کی نظر کا نکتہ ہے جو سچ ہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں truth is relative ، ہوسکتا ہے وہ سچ نہ ہو، سچ کی نفی ہو۔ وقت رد کرتا ہے، کل کے سچ کو، وقت آیندہ میں، آنے والے زمانوں میں اپنے آنکھیں گاڑے بیٹھا ہے اور ماضی اسی کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہی تو ہے وقت ، ماضی حال مستقبل کا مجموعہ ہے وقت، زمان و مکاں ہے وقت، stephen hawking اسے time and space کہتے تھے ۔ رومی اسے ''افسوں ز زماں و دررمانم''، بیروں ز مکاں در مکانم'' کہتا ہے۔
یہ جو زماں و مکاں آج اس وقت اس دھرتی پر پڑا ہے جو مجھے دکھائی دے رہا ہے وہ کسی کو کیوں دکھائی نہیں دیتا، یہ کڑا وقت، جب درجہ حرارت اس دھرتی کا بڑھ رہا ہے، برف پگھل رہی ہے، یہ آٹھ ارب کی آبادی ان کے لیے کھانے پینے کا سامان سکڑ رہا ہے، یہ دھرتی جو ایک کشتی کی مانند ہے جہاں زندگی ہے وابستہ، زندگی کے دامن سے شعور ہے وابستہ۔جہاں ہزاروں لاکھوں سالوں بعد یہ سب نہیں ہوگا، ہوسکتا ہے، شانت ہوجائے، خاموشی، مارس کی طرح، اس سے پہلے بنی نوع انسان نے ہجرت کرنی ہے جاتے جاتے مایوس تھے کہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔
وہ ہجرت کر بھی سکے گا کہ نہیں۔ ہزاروں سالوں سے انسان فقط اپنے آپ سے ہی جنگ میں مصروف ہے، اتنا تو جانور بھی آپس میں نہیں لڑتے۔ یہ جنگ بند نہیں ہوگی کہ بنی نوع انسان کا وجود خطرے میں ہے ، اس کے ساتھ سب تحقیق فلسفہ ، کائنات کی وسعتوں میں جو بھی کچھ تنکہ برابر انسان جو جان سکا ہے وہ بھسم ہوجائیگا۔
اس بشر میں جتنی محبت بھری ہوئی ہے اتنی نفرت بھی۔ طرح طرح کے وسوسے ہیں، بیانیہ ہے نظریات ہیں اور سب کے سب آپس میں ٹکرائو رکھتے ہیں۔ ان کی آپس میں گھمسان کی جنگ لگی ہے۔ لہو ہے جو دجلا، فرہاد سے ابھی سوکا نہیں، ہزاروں سال پڑنے کے بعد بھی کہ چنگیز خان اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
اتنا بھیانک بیانیہ تھا بولسنارو کا، دنیا کے گھنے ترین جنگل میں ، وہاں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا اس خوبصورت برازیل جیسے ان جنگلوں کو آگ لگی ویسے بولسنارو کے بیانیہ سے بھی برازیل کو آگ لگی۔ اور کوئی کیوں، دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کے دعویدار امریکا میں چھ جنوری اس سال ٹرمپ نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کردیا تھا، اور یہ امریکا میں پہلی بار تھا کہ شب خوں مارا گیا مگر ناکام رہا، لیکن اب بھی اس کی باز گشت اس کے رگوں میں ہے۔ ہندوستان میں مودی نے بھی گاندھی کی جمہوریت کو یرغمال کردیا۔
ہمارے پاس اگر جمہوریت تھی بھی تو لولی لنگڑی تھی، وہ بھی جب پہلی بار عدم اعتماد کی تحریک سے، آئینی طریقے سے ایک شخص کو ہٹایا گیا، وہ اترنے سے انکار کردیتا ہے، وہ بغاوت پر اترتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جسے برازیل کے بولسنارو کی طرح پہلے وزریر اعظم کو اقامہ میں کورٹ کے فیصلے کے تحت اتارا جاتا ہے اور پھر 2018 کی الیکشن میں دھاندلی کرکے اس کو جتوایا جاتا ہے اور اب وہ بالکل تمام حدیں پار کرگیا ہے۔
اسے اب اسٹیبلشمنٹ کی کوئی مدد حاصل نہیں اس نے وہ کام کیے کہ خود اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کرنے سے بھی توبہ کرلی لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اسے اب بھی حمایت حاصل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے وہ لوگ جو ریٹائر ہو گئے ہیں، وہ ان کے ساتھ ہیں۔ خان صاحب جھنجلاہٹ اور مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں جو بات اس کے چاہنے والوں کو نظر نہیں آتی،جس بیانیہ کو ہم 75 سال سے لے کے چلے وہ یہی تھا۔ جو خان صاحب کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔
ہم نہ بن سکے جو ہندوستان بنا یا بنگلہ دیش بنا، بھلے کتنے بھی مودی وہاں ہوں اس کی شکست لازم ہے کہ ہندوستان کے پاس سسٹم ہے، ادارے ہیں۔ اب جو ہزار سالوں سے ایران کی تہذیب نے جو ایک تاریخ اس کے رہنے والوں میں سمائی تھی، وہ لاشعور ایران کا چالیس سال پرانے انقلاب کا گھیرائو کررہا ہے اور اس بہت بڑی تبدیلی کی قیادت کوئی اور نہیں عورت کررہی ہے، یہ خبر افغانستان کے طالبان کے لیے اچھی نہیں ، دنیا کا واحد ملک ہے افغانستان جہاں لڑکیوں کے تعلیم پر پابندی ہے۔کب تک؟
پاکستان اگر اداروں کا عکس بنتا ہے یعنی یہاں آمریتی سوچ کی شکست ہوتی ہے تو چلے گا اور اگر نہیں بنتا تو پھر اس کے بکھرنے کو صرف ایک بہانہ درکار ہوگا۔ یہ دنیا جن تضادات سے گذر رہی ہے اس سے ہم بھی جڑے ہوئے ہیں۔
یہ دنیا اگر چلی جاتی ہے آمریتوں کے پاس، بولسنارو ، پیوٹن ، مودی اور ٹرمپ کے پاس تو ہم بھی اس کی نذر ہوں گے، یہاں جمہوریت پھر سے اپنی جنگ ہار جائے گی، اور خان صاحب اس جنگ سے سرخرو ہوکے نکلیں گے اور اگر ان آمریتوں کو دنیا کی سطح پر شکست ہوجاتی ہے تو خان صاحب صرف ایک ماضی ہے جسے ایک سیاہ باب کی شکل میں ہم یاد کریں گے،اور کبھی بے نظیر ،بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو کی صف میں نہیں کھڑا ہوگا۔
وہ کھڑا ہوگا ، جنرل ضیاء ، جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ اور جنرل مشرف کے ساتھ۔ تاریخ سے بڑا بے رحم اور کوئی بھی نہیں ۔ وہ چلی کا پنوشے ہو یا جرمنی کا ہٹلر یا اٹلی کا مسولینی جس کے ساتھ جو ہوا وہ الگ ۔ مگر تاریخ میں یاد ایک سیاہ باب کی طرح کیے جاتے ہیں۔
ہوا کے جھونکے سے اڑتے ،گرتے گزر جاتی ہے زندگی۔ بالکل اسی طرح یہ سب جوبنی نوع ہے جو سمجھتی ہے کہ جیسے وہی ہے جس کے لیے یہ ساری دھرتی ہے، اس میں باقی جو اس کے ساتھ رہنے والے تھی، کئی طرح کے پرندے، جانور وغیرہ ان کا جیون محدود کردیا، بات پھر دور تلک چلی گئی کہ اب تو اس کی آوارگی نے پوری دنیا کو آلودہ کردیا، پہلے جنگوں کی وجہ سے ہجرتیں ہوتی تھیں، اب کے یہ ہجرتیں بے تحاشا ہورہی ہیں اور ہوں گی ، بارشوں، سمندر کی سطح بڑھنے کی وجہ سے۔
کتنی ساری ثقافتیں ہیں، زبانیں ہیں، ریاستیں و مذاہب ہیں،ہر کوئی خدا کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے، نکتہ وہی ہے مگر نگاہ مختلف،منزل وہی ہے مگر راستے الگ الگ، ہر ایک کا حق ہے کہ جس طرح رجوع کرے۔ اس کا ذاتی معاملہ ہے، بس ہم ایک دوسرے کے جو بھی عقیدے و اعتبار ہیں ان کا احترام کریں اور وہ ہمارا احترام کرے۔
بخار کی گولی کو کیا پتا کہ اسے کون کھائے گا کہ ہندو ، مسلمان یا عیسائی، کیونکہ اس ٹیبلٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کو بنانے والا کوئی بھی ہو مگر ہے وہ بنی نوع انسان کے لیے، بغیر کسی رنگ و نسل کے۔ اسی طرح برطانیہ، جس کا وزیر اعظم آج ہندو ہے، لندن کا میئر مسلمان ہے۔ سائنس کو کچھ نہیں پتہ کہ اسی کی کھوجنا میں رہنے والا کیا سکھ، ہندو، مسلمان یا عیسائی ہے۔
سب سائنسدان جس مذہب کے بھی ہوں ، سائنس کی ریسرچ کرتے وقت وہ سیکیولر ہوتے ہیں، یہ تقاضے سے سائنس ارتقا، بالکل اسی طرح ہمارا آئین بھی ایک سائنسی عرف بینی کے تسلسل سے نکلتا ہے ، وہ خود ایک سائنس ہے، جس نے برطانیہ میں ہندو کو وزیر اعظم کردیا ، جس کے اجداد گوجرانوالہ سے ہیں۔ جن کا جو زاویہ بنتا ہے وہ اس زاویہ سے دیکھتا ہے ،سوچتا ہے۔ کتنے سارے پھر مفادات بھی بنتے ہیں۔
سچ کیا ہے، یوں لگتا ہے جیسے آپ کی سوچ کا ، آپ کی نظر کا نکتہ ہے جو سچ ہے۔ اس لیے تو کہتے ہیں truth is relative ، ہوسکتا ہے وہ سچ نہ ہو، سچ کی نفی ہو۔ وقت رد کرتا ہے، کل کے سچ کو، وقت آیندہ میں، آنے والے زمانوں میں اپنے آنکھیں گاڑے بیٹھا ہے اور ماضی اسی کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہی تو ہے وقت ، ماضی حال مستقبل کا مجموعہ ہے وقت، زمان و مکاں ہے وقت، stephen hawking اسے time and space کہتے تھے ۔ رومی اسے ''افسوں ز زماں و دررمانم''، بیروں ز مکاں در مکانم'' کہتا ہے۔
یہ جو زماں و مکاں آج اس وقت اس دھرتی پر پڑا ہے جو مجھے دکھائی دے رہا ہے وہ کسی کو کیوں دکھائی نہیں دیتا، یہ کڑا وقت، جب درجہ حرارت اس دھرتی کا بڑھ رہا ہے، برف پگھل رہی ہے، یہ آٹھ ارب کی آبادی ان کے لیے کھانے پینے کا سامان سکڑ رہا ہے، یہ دھرتی جو ایک کشتی کی مانند ہے جہاں زندگی ہے وابستہ، زندگی کے دامن سے شعور ہے وابستہ۔جہاں ہزاروں لاکھوں سالوں بعد یہ سب نہیں ہوگا، ہوسکتا ہے، شانت ہوجائے، خاموشی، مارس کی طرح، اس سے پہلے بنی نوع انسان نے ہجرت کرنی ہے جاتے جاتے مایوس تھے کہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔
وہ ہجرت کر بھی سکے گا کہ نہیں۔ ہزاروں سالوں سے انسان فقط اپنے آپ سے ہی جنگ میں مصروف ہے، اتنا تو جانور بھی آپس میں نہیں لڑتے۔ یہ جنگ بند نہیں ہوگی کہ بنی نوع انسان کا وجود خطرے میں ہے ، اس کے ساتھ سب تحقیق فلسفہ ، کائنات کی وسعتوں میں جو بھی کچھ تنکہ برابر انسان جو جان سکا ہے وہ بھسم ہوجائیگا۔
اس بشر میں جتنی محبت بھری ہوئی ہے اتنی نفرت بھی۔ طرح طرح کے وسوسے ہیں، بیانیہ ہے نظریات ہیں اور سب کے سب آپس میں ٹکرائو رکھتے ہیں۔ ان کی آپس میں گھمسان کی جنگ لگی ہے۔ لہو ہے جو دجلا، فرہاد سے ابھی سوکا نہیں، ہزاروں سال پڑنے کے بعد بھی کہ چنگیز خان اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
اتنا بھیانک بیانیہ تھا بولسنارو کا، دنیا کے گھنے ترین جنگل میں ، وہاں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا اس خوبصورت برازیل جیسے ان جنگلوں کو آگ لگی ویسے بولسنارو کے بیانیہ سے بھی برازیل کو آگ لگی۔ اور کوئی کیوں، دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کے دعویدار امریکا میں چھ جنوری اس سال ٹرمپ نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کردیا تھا، اور یہ امریکا میں پہلی بار تھا کہ شب خوں مارا گیا مگر ناکام رہا، لیکن اب بھی اس کی باز گشت اس کے رگوں میں ہے۔ ہندوستان میں مودی نے بھی گاندھی کی جمہوریت کو یرغمال کردیا۔
ہمارے پاس اگر جمہوریت تھی بھی تو لولی لنگڑی تھی، وہ بھی جب پہلی بار عدم اعتماد کی تحریک سے، آئینی طریقے سے ایک شخص کو ہٹایا گیا، وہ اترنے سے انکار کردیتا ہے، وہ بغاوت پر اترتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جسے برازیل کے بولسنارو کی طرح پہلے وزریر اعظم کو اقامہ میں کورٹ کے فیصلے کے تحت اتارا جاتا ہے اور پھر 2018 کی الیکشن میں دھاندلی کرکے اس کو جتوایا جاتا ہے اور اب وہ بالکل تمام حدیں پار کرگیا ہے۔
اسے اب اسٹیبلشمنٹ کی کوئی مدد حاصل نہیں اس نے وہ کام کیے کہ خود اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کرنے سے بھی توبہ کرلی لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اسے اب بھی حمایت حاصل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے وہ لوگ جو ریٹائر ہو گئے ہیں، وہ ان کے ساتھ ہیں۔ خان صاحب جھنجلاہٹ اور مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں جو بات اس کے چاہنے والوں کو نظر نہیں آتی،جس بیانیہ کو ہم 75 سال سے لے کے چلے وہ یہی تھا۔ جو خان صاحب کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔
ہم نہ بن سکے جو ہندوستان بنا یا بنگلہ دیش بنا، بھلے کتنے بھی مودی وہاں ہوں اس کی شکست لازم ہے کہ ہندوستان کے پاس سسٹم ہے، ادارے ہیں۔ اب جو ہزار سالوں سے ایران کی تہذیب نے جو ایک تاریخ اس کے رہنے والوں میں سمائی تھی، وہ لاشعور ایران کا چالیس سال پرانے انقلاب کا گھیرائو کررہا ہے اور اس بہت بڑی تبدیلی کی قیادت کوئی اور نہیں عورت کررہی ہے، یہ خبر افغانستان کے طالبان کے لیے اچھی نہیں ، دنیا کا واحد ملک ہے افغانستان جہاں لڑکیوں کے تعلیم پر پابندی ہے۔کب تک؟
پاکستان اگر اداروں کا عکس بنتا ہے یعنی یہاں آمریتی سوچ کی شکست ہوتی ہے تو چلے گا اور اگر نہیں بنتا تو پھر اس کے بکھرنے کو صرف ایک بہانہ درکار ہوگا۔ یہ دنیا جن تضادات سے گذر رہی ہے اس سے ہم بھی جڑے ہوئے ہیں۔
یہ دنیا اگر چلی جاتی ہے آمریتوں کے پاس، بولسنارو ، پیوٹن ، مودی اور ٹرمپ کے پاس تو ہم بھی اس کی نذر ہوں گے، یہاں جمہوریت پھر سے اپنی جنگ ہار جائے گی، اور خان صاحب اس جنگ سے سرخرو ہوکے نکلیں گے اور اگر ان آمریتوں کو دنیا کی سطح پر شکست ہوجاتی ہے تو خان صاحب صرف ایک ماضی ہے جسے ایک سیاہ باب کی شکل میں ہم یاد کریں گے،اور کبھی بے نظیر ،بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو کی صف میں نہیں کھڑا ہوگا۔
وہ کھڑا ہوگا ، جنرل ضیاء ، جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ اور جنرل مشرف کے ساتھ۔ تاریخ سے بڑا بے رحم اور کوئی بھی نہیں ۔ وہ چلی کا پنوشے ہو یا جرمنی کا ہٹلر یا اٹلی کا مسولینی جس کے ساتھ جو ہوا وہ الگ ۔ مگر تاریخ میں یاد ایک سیاہ باب کی طرح کیے جاتے ہیں۔