جامعہ کراچی میں اسکول آف لاء کی عمارت بھی خصوصی طلبہ کی سہولیات کے بغیر تیار
گراؤنڈ فلور تک رسائی کے لیے معذور افراد کیے لیے کوئی ڈھلان ramp نہیں بنائی گئی
جامعہ کراچی میں مزید ایک عمارت خصوصی طلبہ کے لیے درکار سہولت اور اس سلسلے میں کی گئی قانون سازی کے بغیر تیار کر دی گئی ہے جبکہ عمارت کا انفراسٹرکچر تیار ہے اور جامعہ کراچی کے اسکول آف لاء کی یہ عمارت اب تزئین و آرائش کے مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔
اس بات کا انکشاف چیئرمین ایچ ای سی اسلام آباد ڈاکٹر مختار احمد کے حال ہی میں کیے گئے جامعہ کراچی کے دورے کے موقع پر ہوا ہے۔ زمین کی سطح سے کافی بلند عمارت کے گراؤنڈ فلور تک رسائی کے لیے معذور افراد کیے لیے کوئی ڈھلان ramp نہیں بنائی گئی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے right of person with disability act 2020 کی منظوری دے چکی ہے جس کے تحت ملک میں سرکاری و نجی شعبے اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ پبلک بلڈنگ، اسپتالوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں خصوصی افراد کی رسائی کے لیے انھیں سہولیات فراہم کریں جبکہ پرانے انفراسٹرکچر کی حامل عمارتوں، سڑکوں اور فٹ پاتھ پر بھی ان افراد کو سہولیات دینے لیے لیے انفراسٹرکچر کو modify کریں تاہم اس کے برعکس جامعہ کراچی میں صورتحال مختلف ہے۔
گزشتہ کوئی بھی انتظامیہ اس سلسلے میں اقدامات کرنے سے قاصر رہی جبکہ موجودہ انتظامیہ کی بھی اس سلسلے میں دلچسپی نظر نہیں آتی
واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں مجموعی داخلہ نشستوں کا 2 فیصد خصوصی طلبہ کے لیے مختص ہے، ان نشستوں کی تعداد 280 ہیں تاہم ان کے لیے سہولیات موجود نہیں۔ یہی صورتحال اس نئی عمارت کی ہے۔ اسکول آف لاء کی نئی اور وسیع و عریض عمارت میں داخلے کے لیے تین مختلف داخلی راستے ہیں اور چونکہ عمارت زمین سے کئی فٹ بلندی پر بنائی گئی ہے لہٰذا پہلی ہی منزل پر پہنچنے کے لیے قریب ایک درجن سیڑھیاں چھڑنی ہونگی کسی بھی داخلی راستے پر سیڑھیوں کے ساتھ ramp موجود نہیں تاہم عمارت کے فرسٹ فلور پر جانے کے لیے سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ لفٹ کی تنصیب کی جگہ نکالی گئی ہے۔ ادھر بیت الخلاء کی تعمیر میں بھی معذور افراد کا خیال نہیں رکھا گیا۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے جب بحیثیت قائم مقام شیخ الجامعہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا تو وہ شعبہ تعلیم کی ایک خاتون استاد سے ان کی سہولت و احترام میں ملنے کے لیے سیکنڈ فلور پر قائم اپنے دفتر سے انتظامی عمارت کے گراونڈ فلور پر خود ملنے آگئے تھے تاہم اب جبکہ وہ مستقل حیثیت میں وائس چانسلر ہیں تو ان ہی کے دور میں خصوصی افراد کی سہولت دیے بغیر عمارت کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
علاوہ ازیں ''ایکسپریس'' نے چیئرمین ایچ ای سی کے دورے کے موقع پر عمارت میں ramp کی سہولت نہ ہونے کی نشاندہی کی جس پر شیخ الجامعہ کا کہنا تھا کہ یہ سہولت دے دی جائے گی۔
یاد رہے کہ یہ عمارت بوہری کمیونٹی کی جانب سے تعلیمی و سول خدمات کے طور پر جامعہ کراچی کو تیار کرکے دی جا رہی ہے۔ ''ایکسپریس'' نے جب اس معاملے پر عمارت کی تعمیر سے متعلق قائم بورڈ کے فوکل پرسن کریم حاتم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد اس سلسلے کی وائس چانسلر سے ملیں گے اور اگر عمارت کی تعمیر میں کچھ کمی بیشی ہے تو اسے یقینا دور کیا جائے گا۔
ماضی کی دہائیوں میں تعمیر کی گئی جامعہ کراچی کی 80 فیصد سے زائد عمارتوں میں خصوصی افراد کے لیے سہولیات موجود نہیں ہیں۔ فیکلٹیز کی شعبہ جات کی عمارتیں اور ان کی راہداریوں کی سیڑھیوں کے ساتھ معزور افراد کے لیے ڈھلان ramp بنے ہوئے ہیں جن سے وہ گراؤنڈ فلور تک پہنچ سکیں اور نہ ہی بالائی منازل تک پہنچنے کے لیے کسی قسم کی لفٹ یا ramp کی سہولیات ہیں۔
گزشتہ تمام انتظامیہ اپنی عدم توجہی کے سبب معذور کوٹے پر داخلہ لینے والے طلبہ کو سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہے جس کے سبب ان طلبہ کو جامعہ کراچی میں اپنی آمد و رفت اور تعلیم کے حصول میں مسلسل اذیت و دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں کی گئی نئی تعمیرات میں سے بھی اکثر میں ایسے طلبہ کے لیے سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ان بنیادی سہولیات میں عمارت میں داخلے کے لیے ڈھلان ramp، خصوصیت کے ساتھ تیار کیا گیا علیحدہ بیت الخلاء، لفٹ جبکہ کسی بھی عمارت میں براہ راست فرسٹ فلور تک رسائی کے لیے ramp شامل ہوتی ہے۔
جامعہ کراچی میں گزشتہ 20 برس میں جو عمارتیں بنائی گئی ہیں ان میں سے اکثر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور ڈاکٹر محمد قیصر کے دور میں تعمیر ہوئیں۔ ان عمارتوں میں 90 فیصد سے زائد میں گراونڈ فلور پر ramp ہے نہ لفٹ ہیں اور نہ ہی معذور افراد کے لیے خصوصی بیت الخلاء ہیں۔ ان عمارتوں میں جامعہ کراچی کا نیا انتظامی بلاک بھی شامل ہے جو ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے دور میں تعمیر ہوا۔
اس بات کا انکشاف چیئرمین ایچ ای سی اسلام آباد ڈاکٹر مختار احمد کے حال ہی میں کیے گئے جامعہ کراچی کے دورے کے موقع پر ہوا ہے۔ زمین کی سطح سے کافی بلند عمارت کے گراؤنڈ فلور تک رسائی کے لیے معذور افراد کیے لیے کوئی ڈھلان ramp نہیں بنائی گئی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے right of person with disability act 2020 کی منظوری دے چکی ہے جس کے تحت ملک میں سرکاری و نجی شعبے اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ پبلک بلڈنگ، اسپتالوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں خصوصی افراد کی رسائی کے لیے انھیں سہولیات فراہم کریں جبکہ پرانے انفراسٹرکچر کی حامل عمارتوں، سڑکوں اور فٹ پاتھ پر بھی ان افراد کو سہولیات دینے لیے لیے انفراسٹرکچر کو modify کریں تاہم اس کے برعکس جامعہ کراچی میں صورتحال مختلف ہے۔
گزشتہ کوئی بھی انتظامیہ اس سلسلے میں اقدامات کرنے سے قاصر رہی جبکہ موجودہ انتظامیہ کی بھی اس سلسلے میں دلچسپی نظر نہیں آتی
واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں مجموعی داخلہ نشستوں کا 2 فیصد خصوصی طلبہ کے لیے مختص ہے، ان نشستوں کی تعداد 280 ہیں تاہم ان کے لیے سہولیات موجود نہیں۔ یہی صورتحال اس نئی عمارت کی ہے۔ اسکول آف لاء کی نئی اور وسیع و عریض عمارت میں داخلے کے لیے تین مختلف داخلی راستے ہیں اور چونکہ عمارت زمین سے کئی فٹ بلندی پر بنائی گئی ہے لہٰذا پہلی ہی منزل پر پہنچنے کے لیے قریب ایک درجن سیڑھیاں چھڑنی ہونگی کسی بھی داخلی راستے پر سیڑھیوں کے ساتھ ramp موجود نہیں تاہم عمارت کے فرسٹ فلور پر جانے کے لیے سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ لفٹ کی تنصیب کی جگہ نکالی گئی ہے۔ ادھر بیت الخلاء کی تعمیر میں بھی معذور افراد کا خیال نہیں رکھا گیا۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے جب بحیثیت قائم مقام شیخ الجامعہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا تو وہ شعبہ تعلیم کی ایک خاتون استاد سے ان کی سہولت و احترام میں ملنے کے لیے سیکنڈ فلور پر قائم اپنے دفتر سے انتظامی عمارت کے گراونڈ فلور پر خود ملنے آگئے تھے تاہم اب جبکہ وہ مستقل حیثیت میں وائس چانسلر ہیں تو ان ہی کے دور میں خصوصی افراد کی سہولت دیے بغیر عمارت کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
علاوہ ازیں ''ایکسپریس'' نے چیئرمین ایچ ای سی کے دورے کے موقع پر عمارت میں ramp کی سہولت نہ ہونے کی نشاندہی کی جس پر شیخ الجامعہ کا کہنا تھا کہ یہ سہولت دے دی جائے گی۔
یاد رہے کہ یہ عمارت بوہری کمیونٹی کی جانب سے تعلیمی و سول خدمات کے طور پر جامعہ کراچی کو تیار کرکے دی جا رہی ہے۔ ''ایکسپریس'' نے جب اس معاملے پر عمارت کی تعمیر سے متعلق قائم بورڈ کے فوکل پرسن کریم حاتم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد اس سلسلے کی وائس چانسلر سے ملیں گے اور اگر عمارت کی تعمیر میں کچھ کمی بیشی ہے تو اسے یقینا دور کیا جائے گا۔
ماضی کی دہائیوں میں تعمیر کی گئی جامعہ کراچی کی 80 فیصد سے زائد عمارتوں میں خصوصی افراد کے لیے سہولیات موجود نہیں ہیں۔ فیکلٹیز کی شعبہ جات کی عمارتیں اور ان کی راہداریوں کی سیڑھیوں کے ساتھ معزور افراد کے لیے ڈھلان ramp بنے ہوئے ہیں جن سے وہ گراؤنڈ فلور تک پہنچ سکیں اور نہ ہی بالائی منازل تک پہنچنے کے لیے کسی قسم کی لفٹ یا ramp کی سہولیات ہیں۔
گزشتہ تمام انتظامیہ اپنی عدم توجہی کے سبب معذور کوٹے پر داخلہ لینے والے طلبہ کو سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہے جس کے سبب ان طلبہ کو جامعہ کراچی میں اپنی آمد و رفت اور تعلیم کے حصول میں مسلسل اذیت و دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں کی گئی نئی تعمیرات میں سے بھی اکثر میں ایسے طلبہ کے لیے سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ان بنیادی سہولیات میں عمارت میں داخلے کے لیے ڈھلان ramp، خصوصیت کے ساتھ تیار کیا گیا علیحدہ بیت الخلاء، لفٹ جبکہ کسی بھی عمارت میں براہ راست فرسٹ فلور تک رسائی کے لیے ramp شامل ہوتی ہے۔
جامعہ کراچی میں گزشتہ 20 برس میں جو عمارتیں بنائی گئی ہیں ان میں سے اکثر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور ڈاکٹر محمد قیصر کے دور میں تعمیر ہوئیں۔ ان عمارتوں میں 90 فیصد سے زائد میں گراونڈ فلور پر ramp ہے نہ لفٹ ہیں اور نہ ہی معذور افراد کے لیے خصوصی بیت الخلاء ہیں۔ ان عمارتوں میں جامعہ کراچی کا نیا انتظامی بلاک بھی شامل ہے جو ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے دور میں تعمیر ہوا۔