جماعت اسلامی والے جذباتی نمائشی اور عقل وخرد سے عاری ہیں

2008 کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے لیے پیغامات ملنے لگے تھے کہ ہمیں مُلاؤں کی حکومت اور سیاست نہیں چاہیے۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰن نہ صرف انتہائی زیرک اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاست داں ہیں۔

بلکہ ان میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق پالیسی بنانا بھی جانتے ہیں اور اس پالیسی کو چلانا بھی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی جے یو آئی، ایم ایم اے کا حصہ تھی، لیکن جب جماعت اسلامی نے 2008 ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، تو مولانا فضل الرحمٰن نے اس کے فیصلے کو غلط قراردیتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور ان کے اس فیصلے کی تائید مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے کے اقدام نے کردی۔

انتخابات کے بعد مرکز میں حکومت سازی کے وقت مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کی جانب سے تشکیل دی جانے والی مخلوط حکومت کا حصہ بن گئے اور تین سال کا عرصہ انہوں نے حکومت میں گزارا، لیکن جب بعد میں اختلافات پیدا ہوئے، تو ان کی پارٹی حکومت سے الگ ہوگئی اور مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ گو کہ ایم ایم اے کا باب ایک عرصہ سے بند پڑا ہوا ہے، لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی اس بند باب کو کھولنے کے لیے کوشاں ہیں، کیوںکہ جے یو آئی نہیں چاہتی کہ آئندہ عام انتخابات میں مذہبی ووٹ بینک تقسیم ہو، لیکن جماعت اسلامی اب تک ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے جے یو آئی کے ساتھ متفق نہیں ہوسکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایم ایم اے کو جماعت اسلامی کے بغیر ہی بحال کرنے کی تجویز بھی زیرغور ہے۔ خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورت حال کیسے خراب ہوئی؟ قبائلی علاقہ جات میں امن کیسے قائم ہوگا؟ اور افغانستان میں امن کا قیام کیسے ممکن ہے؟ یہ سارے ایسے ایشوز ہیں جن کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن اپنا الگ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ ان تمام ایشوز کے حوالے سے ان کے خیالات جاننے کے لیے ایکسپریس نے مولانا فضل الرحمٰن سے انٹرویو کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ۔

انتخابات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملکی سیاست سے متعلق بہت کچھ ہورہا ہے۔ الیکشن آئین کے مطابق ہوں گے اور ہم الیکشن کی جانب جارہے ہیں۔ تمام پارٹیاں الیکشن کی تیاریاں کررہی ہیں۔ دسمبر جنوری ہمارے ملک میں الیکشن کا سیزن نہیں ہوتا، کیوںکہ سردی ہوتی ہے۔ کئی علاقوں میں برف باری ہورہی ہوتی ہے۔ الیکشن یا تو یا اکتوبر، نومبر یا پھر فروری، مارچ، اپریل میں ہوسکتے ہیں، کیوںکہ ان مہینوں میں پورے ملک کے عوام یکساں طور پر الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ کوئی اپنی آئینی مدت پوری کرے تو ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور اس وقت پیپلزپارٹی پر کوئی دبائو بھی نظر نہیں آرہا کہ وہ فوری طور پر الیکشن کرائے۔ ایسے حالات نہیں ہیں، اور بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔

اگر صدر آصف علی زرداری پر اعتراض ہے کہ الیکشن شفاف نہیں ہوں گے، تو پھر تو کسی بھی طور الیکشن شفاف نہیں ہوسکتے۔ اب تک وزیراعظم کو قبول نہیں کیا جارہا تھا اور اس کو گھر جانا پڑا۔ کل کو پھر صدر بھی تبدیل کرایا جائے گا۔ عدم تشدد اور برداشت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ صدر ہو یا وزیراعظم، چاہے لاکھ جانب دار ہوں وہ کبھی بھی انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ انتخابات پرجو لوگ اثر انداز ہوتے ہیں وہ کوئی اور ہوتے ہیں۔

اگر ہمارے ساتھ نگراں سیٹ اپ پر بات نہ کی گئی، تو ہم اپنے تحفظات برقراررکھیں گے۔ ہم فیصلے کو دیکھیں گے۔ ضروری نہیں کہ دو پارٹیوں کی رائے، ہماری رائے بھی ہو۔ تاہم جب کوئی حتمی بات ہوجائے تو اس پر بات کی جائے گی ۔

عدلیہ اور حکومت کے باہمی تعلق کی بابت ان کا کہنا ہے، ہم عدلیہ اور حکومت کے تصادم سے لاتعلق رہے اور اس کو ہم نے ہمیشہ ناپسندیدہ قراردیا۔ حکومت کی کم زوریوں کو سب ہائی لائٹ کرتے ہیں، تاہم عدلیہ کو بھی اپنے رویّے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، تاکہ یہ تاثر ختم ہوسکے کہ عدلیہ ایک پارٹی یا اس کی قیادت کے خلاف فیصلے دے رہی ہے، کیوںکہ یہ تاثر عدلیہ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ جج صاحبان ایسے بیانات دیتے ہیں جیسے سیاست داں، اور اس پر خوش بھی ہوتے ہیں۔ یہ کوئی اچھا پہلو نہیں۔

عدلیہ ہر حالت میں غیرجانب دار اور عدلیہ نظرآنی چاہیے اور جج صاحبان خود نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولیں۔ اب تک کئی فیصلے ہوئے، لیکن کوئی بھی انجام تک نہیں پہنچا، جبکہ عام آدمی کے عدلیہ کے حوالے سے جو مسائل ہیں، وہ بھی ویسے ہی رُل رہے ہیں، جیسے کہ پہلے تھے، اور لوگ کچہریوں میں ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ پوری قوم کی توجہ سب سے اونچی عدالت پر ہے۔ قوم اسی کی جانب دیکھ رہی ہے، کیوںکہ عام آدمی کو یہ محسوس نہیں ہورہا کہ عدلیہ کی جانب سے اسے جلد انصاف مل رہا ہے۔ یہ عدلیہ کا پلس پوائنٹ نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس کے بعض فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو اچھی بات نہیں ہے۔ تاہم ہم عدلیہ کے خیر خواہ ہیں۔

بھارتی وزیرِخارجہ ایس ایم کرشنا سے ملاقات نہ ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا، میرے خیال میں انڈیا کی وزارت خارجہ اور سفارت خانے نے عمداً میرے ساتھ بھارتی وزیر خارجہ کی ملاقات نہیں کرائی، حالاںکہ میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہوں۔ یہ مناسب نہیں تھا۔ دراصل کشمیر سلگتا ہوا ایشو ہے اور میں اس حوالے سے کھل کر بات کرتا، جو انڈیا کو بھاری گزرتا اس لیے ایسا نہیں کیا گیا اور نہ ہی وزارت خارجہ کے ایجنڈے میں کشمیر شامل تھا۔ شاید کہیں سرسری تذکرہ کیا گیا ہوگا۔ پاک بھارت مذاکرات کی ہم حمایت کرتے ہیں، کیوںکہ اس کی وجہ سے حالات بہتر ہوتے ہیں اور تنائو کم ہوتا ہے۔

اس سے بہتری آتی ہے اور پھر پُرامن بہتر پڑوسی کے طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہییں۔ یہ منزل تک پہنچنے کا راستہ ہوسکتا ہے۔ ہم مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم جہاں تک تجارت کی بات ہے، اصولی طور پر ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن ہمارے کچھ تحفظات ہیں۔ دریائوں پر بھارت کی جانب سے بند باندھنا اور پانی روکنا مناسب نہیں، کیوںکہ زراعت ہماری معیشت کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر پانی روکا گیا تو زرعی اور صنعتی بحران پیدا ہوگا۔ اس صورت میں تجارت کیسے ہوسکتی ہے؟ ایسی صورت میں بھارت پاکستان کو بلیک میل کرے گا۔ ہم نے وزارت تجارت کو خط لکھا ہے اور اس حوالے سے سرکاری پوزیشن معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ہمیں اب تک جواب موصول نہیں ہوا۔

فاٹا کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، فاٹا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہم اور ہمارا ملک بے بس ہے۔ ہم بین الاقوامی ایجنڈے کی پیروی کررہے ہیں۔ فاٹا میں امن بحال کرنے کے لیے وہاں کے عوام میں خوداعتماد ی پیدا کرنی ہوگی۔ ان کو ایسی پوزیشن میں لانا ہوگا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرسکیں۔

اسی لیے جے یو آئی نے فاٹا کے نمائندوں کا جرگہ کیا اور پھر بااختیار جرگہ تشکیل دیا، اور اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ قانونی اور آئینی ماہرین سے رائے لی جائے گی اور فاٹا میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی مشاورت کی جائے گی اور ہر علاقے میں حجرہ اور مسجد سے بھی رابطہ کیا جائے گا، تاکہ عوامی رائے حاصل کی جاسکے، جس کے لیے سولہ رکنی وفد تشکیل دیا گیا ہے، جس مین علماء اور عمائدین دونوں شامل ہیں۔ یہ وفد اسی مہینے سے قبائلی ایجنسیوں کا دورہ شروع کرے گا۔ یہ وفد اس حوالے سے ترجیحات سامنے رکھے گا، تاکہ قبائل میں اجتماعیت پیدا ہو اور یہ وفد قبائل کا نمائندہ بن سکے۔ عسکری تنظیمیں بھی سمجھیں اور حکومت بھی اس کی نمائندگی تسلیم کرے اور پشتون کلچر کا جرگہ نمائندہ جرگہ بن سکے۔ اس کے بعد فیصلہ کرنا آسان ہوگا۔

اصل بات یہ ہے کہ خود قبائل کو ہم اس مقام پر پہنچائیں کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کرسکیں۔ یہ ہماری کوشش ہے۔ یہ ہم اس لیے کررہے ہیںکہ قبائل نہ تو امن کی بھیک مانگیں اور نہ ہی طشتری میں امن رکھ کر انھیں دیا جائے بلکہ وہ خود امن کے قیام کے قابل ہوسکیں۔

قبائلی علاقوں میں آپریشن کے حوالے سے انہوں نے کہا، فوج نے صرف حکومتی کور لیا ہے۔ جیسے فوج اپنی مرضی سے آئی ہے، ویسے ہی اپنی مرضی سے جائے گی۔ چاہے کوئی چاہے یا نہ چاہے۔ قبائل کی نظر میں (آپریشن کے حوالے سے) قانون بس ایک سہارا یا حوالہ ہے، جس کی ان کے لیے اہمیت نہیں ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جیسے پہلے ہورہا تھا، ویسے ہی اب بھی ہورہا ہے۔

جب تک بین الاقوامی اور بیرونی مداخلت بند نہیں ہوگی، وہاں امن نہیں آسکتا۔ عالمی قوتوں نے وہاں کے امن کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اب ذمے داری بھی ان پر ہے کہ وہاں کے امن کو بحال کریں۔ افغانستان سے نکلنے سے پہلے وہ وہاں پر سیاسی مفاہمت کے لیے کردار ادا کریں، کیوںکہ اگر سوویت یونین کی طرح یہ درمیان ہی میں چھوڑ کر چلے گئے، تو اب کہ بھی افغانستان کے لیے انتہائی خراب صورت حال بنے گی۔ طالبان نے دانش مندی کا ثبوت دیا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔

تاہم اعتماد کی بحالی اصل مسئلہ ہے۔ امریکا کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ کس طرح افغانستان میں یہ اعتماد پیدا کرسکتا ہے کہ اگر وہ کسی سے مذاکرات کرے تو اس پر اعتماد کیا جائے۔ اس لیے کہ افغانستان میں امریکا اس پوزیشن میں نہیں۔ طالبان نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم قطر مذاکرات سے امریکا کے چہرے سے نقاب اتر گیا ہے۔

کراچی میں امن وامان کی صورت حال کے بارے میں اظہارِخیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، کراچی میں امن کی ذمے داری وہاں برسراقتدار پارٹیوں ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی پر عاید ہوتی ہے، جو اختیارات کا منبع بھی ہیں اور اقتدار میں شریک بھی ہیں۔ اس ماحول میں گینگ بنتے جارہے ہیں اور ہر گینگ فرقہ وارانہ یا اغواء برائے تاوان یا کسی بھی حوالے سے موجود ہے۔ انتظامیہ مکمل طور پر مفلوج ہوچکی ہے۔

عدالت بھی کہہ رہی ہے کہ وہاں پر حکومت مفلوج ہے۔ سندھ کے اندر وڈیروں کا راج ہے۔ لوگ اغواء اور قتل ہورہے ہیں، تو یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے اور اگر ایسا ہے تو ریاست کی بقاء کا سوال پیدا ہوتا ہے، جو لوگ موجود ہیں ان سے جان چھڑانی چاہیے، تاکہ لوگوں کو امن کی جانب لے جایا جاسکے۔ یہ تو ڈلیور نہیں کرسکے۔ بیرونی دنیا کی ان سے وابستہ توقعات بھی پوری نہیں ہوسکیں۔ عالمی آقا بھی ان سے مطمیئن نہیں ہیں اور نہ ہی عوام۔ امن اولین چیز ہے، یہ نہیں تو کاروبار، اسپتال اور تعلیم کچھ بھی نہیں ہوگا۔


بلوچستان میں بدامنی کی بابت ان کا کہنا ہے، دو چیزوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بلوچستان کی صورت حال اکبر بگٹی کے بعد انتہائی خراب ہوئی، جس سے وہاں بغاوت نے جنم لیا۔ اس طرح عسکریت پسندی یا طالبانائزیشن میں لال مسجد کے واقعہ کا بڑا کردار ہے۔ یہ مشرف حکومت کی بہت بڑی غلطیاں ہیں کہ پورے ملک کو دائو پر لگادیا گیا، جس کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑکی ہے، جسے بجھانا مشکل لگتا ہے اور جب یہ بجھے گی اس وقت تک ملک کا کیا بنے گا؟ پھر نظریاتی اختلاف بھی موجود ہے، کیوںکہ ہم افغانستان کو مقبوضہ علاقہ کہتے ہیں، لیکن ہمارے کچھ لوگ اسے آزاد افغانستان کہتے ہیں۔ تاہم ہمیں اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے امن قائم کرنا ہوگا ۔

عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، مفتی محمود اور ولی خان کے خاندان میں احترام کا رشتہ تھا، جو ہم نے برقرار رکھا ہے۔ تاہم جہاں تک سیاسی سوچ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے وقت کے ساتھ بہت سی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ جس وقت یہ دونوں جماعتیں امریکا مخالفت ا ور مغربی استعمار کی مخالف تھیں، تو دونوں میں سیاسی قرب تھا، لیکن جب سے انہوں نے اپنا قبلہ تبدیل کیا اور امریکا اور مغربی استعمار کے تحفظ میں پرانے مسلم لیگیوں سے بھی آگے نکل گئے، ایسے میں جے یو آئی ان کے ساتھ کیسے چل سکتی ہے۔

ہمارا نظریہ آج بھی برقرار ہے، جو شدت اور بغاوت سے پاک ہے۔ ہمارے اکابرین کا نظریہ برقرار ہے۔ شیخ الہند نے جو نظریہ باچاخان نے کو دیا اور ہمارے اکابرین کو دیا ہم اس پر کاربند ہیں، لیکن اے این پی میں ماضی کا کوئی تصور نہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جیسے ان کا ''خدا'' مرگیا اور وہ نئے ''خدا'' کی تلاش میں ہیں۔ یہی تبدیلی ہے جس سے ہمارا اختلاف ہے۔

قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورت حال کی بحالی کے لیے اپنی جماعت کا کردار بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا، پاکستان میں پہلی مشکل جنوبی وزیرستان میں پیدا ہوئی۔ ہم نے وہاں پر امن معاہدہ کرایا۔ پھر شمالی وزیرستان میں امن خراب کیا گیا۔ وہاں بھی ہم نے اور ہماری حکومت نے امن معاہدہ کرایا۔ ہم نے فضل اﷲ کو سوات میں بٹھا کر پابند کیا کہ نہ تو اسلحہ اٹھانا ہے اور نہ ہی ایف ایم پر تحریک کی باتیں کرنی ہیں اور ان کو اسلحہ سے لاتعلق کیا۔

جب تک ہم تھے، وہ اٹھ نہ سکا، لیکن پھر امریکا نے جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملہ کرکے وہ معاہدہ خراب کیا۔ پھر یہی کچھ شمالی وزیرستان میں کیا گیا اور پھرگورنر خیبرپختونخوا کو امریکا بلایا گیا اور معاہدہ ختم کیا گیا، لیکن جنہوں نے معاہدہ کیا وہ اس پر کاربند ہیں۔ یہ ساری صوت حال اس وقت خراب ہوئی، جب امریکا کی پالیسیاں آئیں۔ ہم امن لائے، انہوں نے امن کو تباہ کیا۔ آج اس حکومت نے ناکے ہی ناکے بنارکھے ہیں، جوہمارے دور میں نہیں تھے اور لوگ بے خوف سفر کرتے تھے۔ اب عام آدمی محفوظ نہیں۔ بدامنی ہے۔ یہ سارے معاملات ہمارے دور میں نہیں تھے، بلکہ امریکا کے افغانستان میں آنے سے پیدا ہوئے۔

مزید بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ہم ملک مین شریعت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کا مطالبہ کرتے ہیں، کیوںکہ 1973 ء سے اب تک اس پر عمل نہیں ہوا، تو اندازہ لگالیں کہ نئی نسل کو عسکریت پسندی کی جانب کون لے جارہا ہے؟ این جی اوز کے بنائے ہوئے قوانین کو تو پارلیمنٹ میں لایا جاتا ہے اور آئین پر عمل نہیں کیا جاتا، تولوگ مایوس ہوکر عسکریت پسندی کی جانب ضرور جائیں گے۔ یہ نظام کا بگاڑ ہے۔ ارباب اختیار کی وجہ سے یہ صورت حال بنی ہے۔

وزیرستان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ہمیشہ ایک مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے، اس کو ہوا دی جاتی ہے۔ امریکا نے کہا کہ اسامہ بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کو اتنا بڑا مسئلہ بنایا کہ اس کے بہانے افغانستان پر حملہ کردیا۔ پھر صدام کو خطرہ بنایا گیا اور اس پر حملہ کرکے ماردیا گیا۔ پھر لال مسجد کو چھے، سات مہینے خطرہ بنائے رکھا گیا، پھر اس پر کارروائی ہوئی۔ پھر سوات اور فضل اﷲ کو ہَوّا بناکر پیش کیا گیا، مختلف کارروائیاں کروائی گئیں اور یہ سیکیوریٹی فورسز کے سامنے ہوتا رہا، لیکن انہوں نے کوئی کاروائی نہ کی۔ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کس نے کی؟ جب عوام میں نفرت پیدا ہو تو پھر کارروائی کی جائے، یہ پالیسی کا حصہ ہے۔

اسی طرح شمالی وزیرستان کے حوالے سے بھی صورت حال کو ہوا دی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہیں جن سے ہمیں نکلنا چاہیے، جس کے بارے میں پارلیمنٹ نے کہہ دیا ہے، لیکن یہ کیسی بالادستی ہے، جسے تسلیم نہیں کیا جاتا، حالاں کہ باربار قراردادیں پاس ہوتی رہیں۔ پارلیمنٹ کے ارکان نے تو بالغ نظری کا ثبوت دیا، تو پھر ان قراردادوں پر عمل کیوں نہیں ہورہا ہے، کیوںکہ امریکا ان کو روک رہا ہے، جو قراردادوں پر عمل نہیں کرنے دیتا۔ وہ فنڈز روک دیتا ہے، جس کے بعد یہاں پر حالات خراب ہوتے ہیں، شیعہ، سُنی مارے جاتے ہیں اور پھر فنڈز جاری ہوجاتے ہیں۔

متحدہ مجلسِ عمل کی بحالی کے بارے میں انہوں نے کہا، ایم ایم اے کو فعال رہنا چاہیے تھا، لیکن جماعت اسلامی نے اپنا بیڑا بھی غرق کیا اور ہمارا بھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ (جماعت اسلامی) منظم اور نظریاتی جماعت ہے، لیکن ایسا نہیں، یہ جذباتی اور نمایشی لوگ ہیں، جو بس نعرہ بازی کرنا جانتے ہیں۔ یہ عقل وخرد سے عاری ہیں۔ ان کو تو ہم نے اپنے ساتھ چلایا، کیوںکہ یہ اپنی پالیسی تک وضع نہیں کرسکتے۔

انہوں نے اس توقع پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا کہ مسلم لیگ (ن) بھی بائیکاٹ کرے گی، لیکن نون لیگ نے الیکشن میں حصہ لیا، کیوںکہ میاں نواز شریف باہر سے الیکشن میں حصہ لینے ہی آئے تھے، جس کا اظہار میں نے جب میاں نواز شریف سے ملاقات میں کیا، تو وہ ناراض بھی ہوئے، لیکن ایک ہفتے کے بعد انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ جب وہ بائیکاٹ کے لیے آئے تھے، تو ان کو ایئرپورٹ ہی سے واپس کردیا گیا تھا۔ پوری جماعت اسلامی کی سوچ عمران خان کی سطح کی ہے۔ ایک مذہبی جماعت عقل وخرد کے لحاظ سے اتنی پست ہوگی، مجھے یہ توقع نہیں تھی۔

انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا، لیکن ہر ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور ان کی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ ہر جگہ پر ایسا ہوا ہے، لیکن ہم پھر بھی چاہتے ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہوجائے، لیکن وہ شرائط پر شرائط پیش کررہے ہیں۔

جماعت اسلامی کی قیادت کے بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ان کو انٹرویو اور بیان دینا نہیں آتا۔ ایک بار امیر جماعت اسلامی منور حسن نے کہا کہ مجھے الفاظ کا انتخاب نہیں آتا، تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں جماعت اسلامی کو بچوں کی طرح آمادہ کررہا ہوں ۔2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا جہاں تک تعلق ہے، تو بات فیصلے کی نہیں ہے، اوپر سے پیغامات آنے لگے تھے، اشارے مل رہے تھے کہ اب آنے والا دور پی پی پی اور اے این پی کا ہے اور ہمیں ملائوں کی حکومت اور سیاست نہیں چاہیے۔

ان کا خیال تھا کہ آقا تو وہی ہیں، تو جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کردیا، لیکن ہم ڈٹ گئے، حالاںکہ ایجنسیوں نے ہمارے ساتھ کیا کچھ کیا، ہمیں معلوم ہے، لیکن ہم ڈٹے رہے اور ہم نے ضمنی الیکشن جیتے، جس پر ایک لیڈر نے کہا کہ ضمنی الیکشن جیتنے کا سلسلہ بند کردو، کیوںکہ اس پر سودے بازی ہورہی ہے کہ ملا پھر آرہے ہیں۔ ڈی آئی خان میں الیکشن سے ایک دن قبل ہمارے دفتر پر حملہ کیا گیا، فوج آگئی، ہیلی کاپٹر آگئے، مولانا عطاء الرحمٰن فوج کے ساتھ الجھ گئے، لیکن اس کے باوجود گیارہ ہزار ناجائز ووٹ ڈال کر بھی پیپلز پارٹی کا امیدوار صرف دو ہزار ووٹوں سے جیتا۔

اب پھر جماعت اسلامی والے کہتے ہیں کہ پچاس، پچاس نشستیں دی جائیں، اگر یہ سوچ ہوتو ایسے میں معاملہ کیسے طے ہوگا۔ ان کے لیے سیدھا راستہ ہے کہ یہ قوم سے معافی مانگیں اور ایم ایم اے میں واپس آجائیں۔ ہم زیادہ بات اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں اتنی تلخی نہ آجائے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے قابل ہی نہ رہیں ۔ جماعت اسلامی کے بغیر بھی ایم ایم اے بحال ہوسکتی ہے، جس پر بات کی جائے گی، کیوںکہ ایک تاریخ مقرر ہو اور وہ نہ آئیں تو ان کے ساتھ کیا کیا جاسکتا ہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کی سیاست کے ماضی اور حال کی بابت اظہارِخیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، گریٹر پختونستان کا تصور پُرانا ہے، جو اب قابل قبول نہیں رہا، کیوںکہ ہر ملک میں مختلف قومیں رہتی ہیں۔ افغانستان میں بھی اور یہاں پر بھی۔ یہاں اسی لیے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری دی گئی، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا، گریٹر پختونستان کا تصور پاکستان کی نفی کے ساتھ ہے اور پاکستان کی نفی ہمیں کسی طور پر تسلیم نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں، اگر ان میں جغرافیائی تقسیم ہے، تو پھر قومیت کے اعتبار سے بھی تقسیم ہوسکتی ہے، تاہم ہم تو مسلمانوں اور پختونوں کے خیرخواہ ہیں، وہ جہاں بھی ہوں ۔

انتخابی اتحاد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، الیکشن میں ایڈجسٹمینٹ کے تصور سے ہم انکار نہیں کرتے، یہ ہم نے متعارف کرایا تھا، جو اتحاد سے ذرا کم ہے، جو ہر جگہ پر ہوسکتی ہے، جس کا فائدہ دونوں پارٹیوں کو ہوتا ہے۔ اس سے سہولت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سے تو انکار نہیں، لیکن جہاں تک مسلم لیگ (ن) کے ساتھ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمینٹ کرنے کا تعلق ہے، تو ابھی ہمارے مسلم لیگ (ن) سے کوئی رابطے نہیں ہوئے۔

تحریک انصاف کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا، تحریک انصاف کے سربراہ کے ساتھ ہماری کوئی شخصی مخالفت نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ہمارا مزاج ہے۔ تاہم پاکستان کے اندر جو بین الاقوامی قوتیں مداخلت کررہی ہیں یا بیرونی قوتوں کو لانے کے لیے کام کررہی ہیں، ہم ان کے مخالف ہیں۔ مغرب اور تاج برطانیہ کے اثرات کو ہم ختم کرنا چاہتے ہیں اور اب اگر ایک نئی لابی، یہودی لابی کھلاڑیوں کے ذریعے داخل ہونا چاہے، تو ہم ردعمل ضرور ظاہر کریں گے۔ یہ پاکستان کے کلچر اور اس کے تصور کے خلاف ہے۔ یہ وزیرستان کا دورہ بھی اس لیے کررہے ہیں کہ یہ ان کے (سابق) برادرنسبتی کی فرمائش ہے، جو گولڈ اسمتھ کا بیٹا اور یہودی ہے، تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ قبائل عمران خان کو کتنا پسند کرتے ہیں۔

یہ شمالی وزیرستان سے جنوبی وزیرستان آئے، حالاںکہ ڈرون حملے تو شمالی وزیرستان میں ہورہے ہیں اور پھر جنوبی وزیرستان میں مرکزی جگہ وانا کے بجائے یہ کوٹکے جارہے ہیں، جہاں فوج کا کنٹرول ہے۔ اگر یہاں فوج اور باہر سے یہودیت کا کور انھیں حاصل ہوگا، تو ہم ردعمل کیوں نہیں دیں گے۔ ان کے بچے یہودیوں کے پاس پرورش پارہے ہیں کیا ایسا شخص وزیراعظم بن سکتا ہے؟ یہ ہماری تہذیب کے لیے ڈرون حملہ ہے اور ہمیں یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی یے ہم نے انھیں بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی مخالفت کررہے ہیں، کیوںکہ ہم یہودی لابی کو یہاں نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی کسی کو اس کے لیے زمین ہموار کرنے دیں گے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا مخالفت کا نعرہ لگایا اور سوشلسٹ بن کر آئے، مائوزے تنگ کی وردی پہنی، لیکن کیا آج پی پی پی اینٹی امریکا یا اینٹی سی آئی اے ہے؟ اب یہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی جماعت ہے، لیکن بھٹو صاحب ایک سیاسی پس منظر کے آدمی تھے اور ان کا ویژن تھا، جب کہ عمران خان کے پاس تو نہ تو ذہانت ہے اور نہ ہی ویژن، سوائے مخالفیں کو گالی دینے کے اور ان کے پاس کیا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے راہ نما مولانا محمد خان شیرانی کو نگراں وزیراعظم بنانے کی خبر پر انہوں نے کہا، مولانا محمد خان شیرانی کو نگراں وزیراعظم بنانے کی خبر میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ صرف خبریں ہیں، اگر سیاسی جماعتوں کے نمایاں لیڈر ہی نگران حکومت میں ہوں گے تو پھر الیکشن کیسے ہوں گے، اور اگر یہی ہونا ہے تو پھر راجا پرویز اشرف پر اعتراض کیوں؟ یہی نگراں وزیراعظم رہیں۔

وزیراعظم کو سوئس کیس میں خط لکھنے کے عدالتی حکم کے بارے میں انہوں نہ کہا، راجا پرویز اشرف کے حوالے سے عدلیہ شاید کوئی دوسرا فیصلہ کرے، کیوںکہ روزانہ وزرائے اعظم کو گھر بھیجنا ٹھیک نہیں اور یہ صورت حال عدلیہ کے لیے بھی درست نہیں۔ فیصلہ تو عدلیہ کو کرنا ہے۔ تاہم میرا یہ خیال نہیں ہے۔
Load Next Story