معاشی و اقتصادی اہداف کا تعین کیجیے

پہلا فرض تو یہ ہی ہے کہ دیانت داری کے ساتھ اپنا ٹیکس ادا کریں تاکہ حکومت کو حاصل ریونیو میں اضافہ ہو

پہلا فرض تو یہ ہی ہے کہ دیانت داری کے ساتھ اپنا ٹیکس ادا کریں تاکہ حکومت کو حاصل ریونیو میں اضافہ ہو۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور چین نے سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی آؤٹ ڈور نقل و حرکت کے دوران سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کرنے ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تفتیش کاروں کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے ۔ پاکستان اور چین کی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی) کے 11ویں اجلاس میں اس معاملے میں باہمی تبادلہ خیال کیا گیا ۔

سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کے لیے انتہائی اہم ترین منصوبہ ہے۔ اس منصوبے سے خطے کے دیگر ممالک کو بھی زبردست معاشی فائدہ ہوگا، لیکن پاکستان کے دشمن یہ خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہوسکے اور اپنے ان مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وہ چینی باشندوں کو پاکستان میں جاری ترقیاتی پروجیکٹس کے آس پاس نشانہ بناتے ہیں تاکہ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب ہوجائیں اور چین سی پیک کا منصوبہ ترک کر دے ، لیکن دشمن کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوسکے گی۔

چند روز پیشتر وزیراعظم شہباز شریف انتہائی کامیاب دورہ چین سے واپس لوٹے ہیں ، جس میں چین نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد فراہم کرے گا۔ دراصل پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی آرہی ہے جو ایک مثبت علامت ہے۔

توقع ہے کہ جب سی پیک منصوبے مکمل ہوجائیں گے اور خصوصی اکنامک زون میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی تو پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ سینٹرل ایشیا کے ممالک بھی پاکستان کے راستے یورپ اور مڈل ایسٹ تک اپنی مصنوعات بھیج سکتے ہیں۔

اس وقت دنیا کو افغانستان کی مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے ، پاکستان اپنے افغان بھائیوں کی بھر پور مدد کر رہا ہے، لیکن ہمارے وسائل محدود ہیں۔ امریکا ، برطانیہ اور یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ نئے سال میں افغانستان کو قحط سالی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں مہنگائی اور غربت بڑھتی جا رہی ہے ، جس کی وجہ سے خورو نوش کی اشیاء بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر نظر آتی ہیں اور غریب آدمی کے گھر کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں جو لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں آخر عوام کا قصور کیا ہے۔

ہمارے ہاں زیادہ تر ٹیکس چوری سرمایہ دار ، صنعت کار اور امراء کرتے ہیں۔ ملک میں بیروزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اسی لیے عوام کا رجحان ملک کے بجائے بیرون ملک جا کر نوکری کرنے کا بڑھتا جا رہا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا شمار زرعی ممالک میں ہوتا ہے، ہماری مٹی بہت زرخیز ہے ، ستر فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔

زرعی شعبے میں جدت لانے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم اپنے اہداف میں زرعی ترقی کو بھی شامل کرلیں تو آیندہ چند سال میں نہ صرف پاکستان کو زرعی شعبے میں خود کفیل کرسکتے ہیں بلکہ اجناس اور زرعی مصنوعات برآمد کرکے اربوں ڈالر بھی کما سکتے ہیں۔ اب ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ زراعت اور زندہ رہنے کے لیے پانی بہت ضروری ہے۔

دوسری طرف دنیا میں پانی کا بحران بھی بڑھ رہا ہے زیر زمین پانی مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ نئے ڈیمز کی جلد از جلد تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کئی کتابیں اور ریسرچ آرٹیکلز شایع ہوچکے ہیں جن میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پانی کا بحران اتنا بڑھ جائے گا کہ آیندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔ ہمارے پاس کسان بھی ہیں اور زمین بھی ، بس ہمت کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں توانائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

پٹرول ، گیس اور بجلی ، کارخانے اور زندگی کے معمولات چلانے کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔توانائی کا حصول آج بھی دنیا کی سیاست کا محور ہے۔

ہر سال اربوں روپے پٹرول اور ایل پی جی برآمد کرنے پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں توانائی کے متبادل ذرایع تلاش کرنے چاہئیں تاکہ مصنوعات پر آنے والی لاگت کو کم کیا جاسکے تو دوسری طرف ایکسپورٹ بل کو بھی نیچے لایا جائے ، اگر پٹرول اور ایل پی جی کی درآمد کابل آدھا ہوجائے تو اس سے زرمبادلہ کے بحران پرکافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔


ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو آیندہ چند سال تک پٹرول پر انحصار کم سے کم کردیں گے۔ اس کی سب سے بڑی مثال الیکٹرک اور شمسی کاریں ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے کچھ اداروں نے کام شروع کیا ہے جسے اس سال تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے قدرتی گیس کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہورہے ہیں ، یہ ایک بڑا چیلنج ہے اس لیے ہمیں بہت سنجیدگی کے ساتھ نئی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اس بات کا اشارہ ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، نئے کارخانے لگ رہے ہیں اور پیداوار بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ہمیں سب سے بڑا چیلنج معاشی مشکلات کاہے۔

وسائل کم ہوں تو بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، لیکن منصوبہ بندی کے ذریعے اسی آبادی کا رخ ملک و قوم کی ترقی کی طرف موڑا جاسکتا ہے ، آج کی دنیا میں ہمارے سامنے بڑی مثال ہمارے دوست ملک چین کی ہے ، اسی طرح برازیل اور برادر اسلامی ملک انڈونیشیا نے بھی منصوبہ بندی اور اپنی آبادی کے بل بوتے پر تیز رفتار معاشی ترقی کی۔

آج انڈونیشیا اور برازیل دونوں سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان 22 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، جب کہ ہر سال ایک اندازے کے مطابق آبادی میں چالیس سے پچاس لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050 تک ہماری آبادی چالیس کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔

اب اتنی بڑی آبادی کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے اور اس آبادی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہمارا جی ڈی پی یا ترقی کی رفتار بعض ترقی پذیرممالک سے کم ہے ، تاہم مثبت بات یہ ہے کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ، ان نوجوانوں کو مناسب تربیت دے کر معیشت کو ترقی دی جاسکتی ہے، اگر ہم اپنے لاکھوں نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں ہنرمند بناتے ہیں تو اس کا فائدہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو ہوگا۔ اس وقت ہم اپنی آبادی کی طاقت کا فائدہ نہیں اٹھا رہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔ ہمیں امریکی اور یورپی ماہرین نے پاکستان آ کر سافٹ ویئر کی تربیت فراہم کی اور اس پر کام کرنا سکھایا۔ کچھ ایسا ہی حال دیگر شعبوں کا ہے۔ اس لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اپنے نوجوانوں کو روایتی اوررٹا تعلیم دینے کے بجائے انھیں ان کے پسند کے شعبوں میں ہنرمند بنایا جائے۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

یہ لاکھوں پاکستانی نوجوان نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ یہ آئی ٹی کا دور ہے اور یہ نوجوان ہی ہیں جو اس شعبے میں کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ ہنگامی بنیادوں پر نوجوانوں کی تربیت کے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم کورسز شروع کروائے جاسکتے ہیں ، اچھی بات یہ ہے کہ سرکاری اورنجی اداروں نے اس بات کو محسوس کیا ہے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کمپیوٹر سمیت جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کررہی ہے ، اگر ہم دیکھیں تو ترقی یافتہ ممالک اور مختلف پرائیویٹ ادارے نئے نئے تجربات کررہے ہیں۔

فیس بک جیسا ادارہ میٹاورس پر کام کر رہا ہے، مختلف ممالک آنے والے دور کی کوانٹم کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کمپیوٹرٹیکنالوجی صرف یہاں نہیں رکے گی اس میں نئے تجربات ہورہے ہیں ، آنے والی دنیا ایک ایسی دنیا ہوگی جس کے بارے میں عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جس طرح کبھی ہم نے اسمارٹ موبائل فون کے بارے میں نہیں سوچا تھا ،آج اسمارٹ فون سے کیا کام نہیں لیا جارہا۔

ترقی اور جدت کا یہ سفر کبھی جمود کا شکار نہیں ہوگا ، ترقی کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہمیں خود کونہ صرف اس کے لیے تیار کرنا ہے بلکہ ہم کوشش کریں تو اس شعبے میں دنیا کی قیادت بھی کرسکتے ہیں۔

اس کے لیے صرف منصوبہ بندی اور عزم کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دوسرے ممالک سے قرضے لینے سے اجتناب کرے ، ملکی زر مبادلہ بڑھائیں ، ٹیکس کا نفاذ ہر عام و خاص پر کیا جائے اور نوکری میرٹ کی بنیاد پر دی جائے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمارے ملک کا نام روشن کریں گی ان تمام تر حالات و واقعات کے تناظر میں ضرورت و اہمیت اور وقت و حالات یہ بتاتے ہیں کہ ہم خود پاکستان کے ان تمام مسائل کے کافی حد تک ذمے دار ہیں۔

ہم ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس میں پہلا فرض تو یہ ہی ہے کہ دیانت داری کے ساتھ اپنا ٹیکس ادا کریں تاکہ حکومت کو حاصل ریونیو میں اضافہ ہو ، دوسرے اگر ہم کسی کاروبار سے منسلک ہیں تو ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان آئے۔ امپورٹ کو کم کریں اور ایکسپورٹ بڑھانے کی کوشش کریں۔

باہر سے ہمارے عزیز و اقارب جو پیسہ بھیجتے ہیں اگر وہ قانونی ذرایع سے بھیجیں تو اس سے بھی ملکی معیشت کوسہارا ملتا ہے جب کہ ہنڈی سے بھیجے گئے پیسوں کاملک کونقصان پہنچتا ہے۔ اسمگل شدہ چیزیں استعمال نہ کریں ، کوشش کریں میڈ ان پاکستان اشیاء خریدیں ، اس سے مقامی معیشت کا پہیہ چلنے میں مدد ملے گی۔
Load Next Story