کراچی کے مسائل کے ذمے دار
کراچی سے حاصل کردہ ٹیکسوں سے وفاق ملک کو اور سندھ حکومت اندرون سندھ کی ترجیح کے ساتھ صوبہ چلا رہی ہے
کراچی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر سعید غنی نے کراچی کے مسائل کا ذمے دار صرف کراچی والوں کو قرار دے کر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے وفاداری کا ثبوت دے دیا ہے جس کا جواب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کسی حد تک درست دیا ہے۔
سعید غنی کراچی کے پیدائشی ایک مزدور رہنما کے وہ صاحبزادے ہیں جن کا تعلق کراچی کے کسی پوش علاقے سے نہیں تھا۔ انھوں نے پی پی سے تعلق رکھنے والے اپنے شہید والد کی طرح سیاست پیپلز پارٹی سے شروع کی تھی اور پی پی کے ٹکٹ پر محمود آباد کے علاقے سے کراچی کی پہلی سٹی حکومت میں یوسی ناظم منتخب ہوئے تھے پھر سینیٹر بنا دیے گئے اور پھر اپنے آبائی علاقے سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور محکمہ بلدیات، اطلاعات و تعلیم کے بعد محکمہ محنت کے وزیر ہیں اور کراچی کے مسائل کو سندھ کے اندرونی علاقوں سے تعلق رکھنے والے وزیروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔
سکھر سے تعلق رکھنے والے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے سعید غنی کے بیان کی تائید کی ہے جو خود ضلع نظام میں دو مرتبہ سکھر ضلع کے بااختیار ضلعی ناظم رہے اور انھیں بہت اچھی طرح پتا ہے کہ سندھ حکومت کے دیے گئے بے اختیار بلدیاتی نظام میں منتخب بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی کیا حیثیت ہے اور وہ کس طرح صوبائی حکومت، کمشنری نظام کے محتاج اور محدود اختیارات کے حامل ہیں اور وہ بھی سندھ حکومت کی طرح سمجھتے ہیں کہ کراچی کا میئر مالی و انتظامی طور پر کتنا کمزور ہے اور کراچی کے مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظام میں کراچی میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی دو بار اور پھر ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار ایک بار میئر رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بااختیار بلدیاتی نظام میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال بااختیار سٹی ناظم رہے اور دونوں کے دور میں آٹھ سالوں میں کراچی میں جتنی ترقی ہوئی تھی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
جنرل پرویز مشرف کا تعلق کراچی سے تھا جنھوں نے کراچی سے تعلق کا حق ادا کرکے کراچی کے لیے وفاق سے بہت زیادہ ترقیاتی فنڈ فراہم کیے تھے۔ فنڈز ملنے اور سٹی حکومت میں واٹر بورڈ، کے بی سی اے، تینوں ترقیاتی ادارے کراچی ماسٹر پلان، ٹرانسپورٹ، تعلیم و صحت کا نظام بھی سٹی حکومت میں شامل تھے جن کا سربراہ سٹی ناظم تھا۔ مالی و انتظامی اختیارات کے باعث سٹی حکومت میں کراچی نے بھرپور ترقی کی تھی۔
8 سال میں کراچی کی ترقی پیپلز پارٹی کو پسند نہیں آئی تھی اور اس نے بھی دیگر صوبوں کی طرح ضلعی نظام ختم کرکے جنرل ضیا الحق کے دور کا 1979کا بلدیاتی نظام اختیارات مزید کم کرکے بحال کردیا تھا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی سوا چودہ سال سے حکومت ہے جس میں صرف ایک بار متحدہ کا بے اختیار میئر کراچی رہا اور اب پیپلز پارٹی نے کراچی سے تعلق رکھنے والے اپنے رہنما اور ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کو بلدیہ عظمیٰ کا ایڈمنسٹریٹر بنا رکھا ہے جو کراچی کے متوقع میئر کے امیدوار بھی ہیں مگر وہ کراچی کے عوام کا ہمدرد اور ترجمان بننے کے بجائے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں جو بااختیار سرکاری ایڈمنسٹریٹر تو ہیں مگر ان کی کارکردگی کوئی خاص نہیں ،وہ کراچی کے لیے سندھ حکومت سے فنڈز حاصل کرنے کے بجائے کراچی والوں سے لے کر کراچی کو ترقیاتی فنڈز سے ترقی دلانے پر یقین رکھتے ہیں جس کا ثبوت بجلی بلوں میں شامل کرایا گیا کے ایم سی ٹیکس ہے۔
کراچی سے حاصل کردہ ٹیکسوں سے وفاق ملک کو اور سندھ حکومت اندرون سندھ کی ترجیح کے ساتھ صوبہ چلا رہی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر پرویز مشرف کے علاوہ دیگر نے بھی کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا اور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کبھی 72 سالوں میں نہیں رہا جس کی وجہ سے کراچی کو کسی حکومت نے ترجیح دی نہ آئینی طور پر کراچی کو اس کا حق دیا۔
سعید غنی جیسی شکایات ماضی میں بھی رہیں کہ سیوریج لائنیں شہری چوک اور اسٹریٹ لائٹ بلب خود توڑ دیتے ہیں تو کیا کراچی میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر، ٹینکر مافیا کی سرپرستی اور پانی چوری، سڑکوں کی ناقص تعمیر، تعلیم و صحت اور بلدیاتی اداروں میں بڑے پیمانے پر غبن، ہر جگہ غیر ضروری اضافی بھرتی، کے فور منصوبہ سالوں سے معطل رکھنے کا کام بھی کراچی کے شہری کرتے آ رہے ہیں۔ کراچی میں جرائم میں اضافہ شہری خود کر رہے ہیں۔
کراچی کو پولیس کا دبئی اور ہر سرکاری محکمے میں رشوت کا فروغ بھی کراچی کے شہریوں نے کمائی کا گڑھ بنا رکھا ہے۔ کراچی کی زمینوں پر ناجائز قبضے شہری کر رہے ہیں۔ ڈکیتیوں میں مزاحمت پر سرعام شہری مارے جا رہے ہیں۔ کراچی جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ شہری روزانہ اسٹریٹ کرائم میں لٹ رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا معیار خود شہریوں نے تباہ کیا ہے۔
پانی چوری کے ذمے دار کیا کراچی کے شہری ہیں۔ کراچی والے کے الیکٹرک، بلدیاتی اداروں اور گیس کمپنی کے ہاتھوں لوٹے جا رہے ہیں۔
گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ، پانی کا فقدان، پارکوں و پلے گراؤنڈز سے محرومی اور پھر بھی کراچی کے مسائل کا ذمے دار بھی شہریوں کو قرار دینا ناانصافی و بے حسی نہیں بلکہ کراچی دشمنی ہے۔ حکومتوں کے نزدیک کراچی سونے کی چڑیا ہے جس کے شہری بے بس، امن و امان اور بنیادی سہولیات سے مکمل محروم اور صرف حکومتوں کا پیٹ، بدعنوانوں کی جیبیں بھرنے اور دکھ اٹھانے کے لیے رہ گئے ہیں۔
سعید غنی کراچی کے پیدائشی ایک مزدور رہنما کے وہ صاحبزادے ہیں جن کا تعلق کراچی کے کسی پوش علاقے سے نہیں تھا۔ انھوں نے پی پی سے تعلق رکھنے والے اپنے شہید والد کی طرح سیاست پیپلز پارٹی سے شروع کی تھی اور پی پی کے ٹکٹ پر محمود آباد کے علاقے سے کراچی کی پہلی سٹی حکومت میں یوسی ناظم منتخب ہوئے تھے پھر سینیٹر بنا دیے گئے اور پھر اپنے آبائی علاقے سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور محکمہ بلدیات، اطلاعات و تعلیم کے بعد محکمہ محنت کے وزیر ہیں اور کراچی کے مسائل کو سندھ کے اندرونی علاقوں سے تعلق رکھنے والے وزیروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔
سکھر سے تعلق رکھنے والے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے سعید غنی کے بیان کی تائید کی ہے جو خود ضلع نظام میں دو مرتبہ سکھر ضلع کے بااختیار ضلعی ناظم رہے اور انھیں بہت اچھی طرح پتا ہے کہ سندھ حکومت کے دیے گئے بے اختیار بلدیاتی نظام میں منتخب بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی کیا حیثیت ہے اور وہ کس طرح صوبائی حکومت، کمشنری نظام کے محتاج اور محدود اختیارات کے حامل ہیں اور وہ بھی سندھ حکومت کی طرح سمجھتے ہیں کہ کراچی کا میئر مالی و انتظامی طور پر کتنا کمزور ہے اور کراچی کے مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظام میں کراچی میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی دو بار اور پھر ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار ایک بار میئر رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بااختیار بلدیاتی نظام میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال بااختیار سٹی ناظم رہے اور دونوں کے دور میں آٹھ سالوں میں کراچی میں جتنی ترقی ہوئی تھی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
جنرل پرویز مشرف کا تعلق کراچی سے تھا جنھوں نے کراچی سے تعلق کا حق ادا کرکے کراچی کے لیے وفاق سے بہت زیادہ ترقیاتی فنڈ فراہم کیے تھے۔ فنڈز ملنے اور سٹی حکومت میں واٹر بورڈ، کے بی سی اے، تینوں ترقیاتی ادارے کراچی ماسٹر پلان، ٹرانسپورٹ، تعلیم و صحت کا نظام بھی سٹی حکومت میں شامل تھے جن کا سربراہ سٹی ناظم تھا۔ مالی و انتظامی اختیارات کے باعث سٹی حکومت میں کراچی نے بھرپور ترقی کی تھی۔
8 سال میں کراچی کی ترقی پیپلز پارٹی کو پسند نہیں آئی تھی اور اس نے بھی دیگر صوبوں کی طرح ضلعی نظام ختم کرکے جنرل ضیا الحق کے دور کا 1979کا بلدیاتی نظام اختیارات مزید کم کرکے بحال کردیا تھا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی سوا چودہ سال سے حکومت ہے جس میں صرف ایک بار متحدہ کا بے اختیار میئر کراچی رہا اور اب پیپلز پارٹی نے کراچی سے تعلق رکھنے والے اپنے رہنما اور ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کو بلدیہ عظمیٰ کا ایڈمنسٹریٹر بنا رکھا ہے جو کراچی کے متوقع میئر کے امیدوار بھی ہیں مگر وہ کراچی کے عوام کا ہمدرد اور ترجمان بننے کے بجائے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں جو بااختیار سرکاری ایڈمنسٹریٹر تو ہیں مگر ان کی کارکردگی کوئی خاص نہیں ،وہ کراچی کے لیے سندھ حکومت سے فنڈز حاصل کرنے کے بجائے کراچی والوں سے لے کر کراچی کو ترقیاتی فنڈز سے ترقی دلانے پر یقین رکھتے ہیں جس کا ثبوت بجلی بلوں میں شامل کرایا گیا کے ایم سی ٹیکس ہے۔
کراچی سے حاصل کردہ ٹیکسوں سے وفاق ملک کو اور سندھ حکومت اندرون سندھ کی ترجیح کے ساتھ صوبہ چلا رہی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر پرویز مشرف کے علاوہ دیگر نے بھی کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا اور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کبھی 72 سالوں میں نہیں رہا جس کی وجہ سے کراچی کو کسی حکومت نے ترجیح دی نہ آئینی طور پر کراچی کو اس کا حق دیا۔
سعید غنی جیسی شکایات ماضی میں بھی رہیں کہ سیوریج لائنیں شہری چوک اور اسٹریٹ لائٹ بلب خود توڑ دیتے ہیں تو کیا کراچی میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر، ٹینکر مافیا کی سرپرستی اور پانی چوری، سڑکوں کی ناقص تعمیر، تعلیم و صحت اور بلدیاتی اداروں میں بڑے پیمانے پر غبن، ہر جگہ غیر ضروری اضافی بھرتی، کے فور منصوبہ سالوں سے معطل رکھنے کا کام بھی کراچی کے شہری کرتے آ رہے ہیں۔ کراچی میں جرائم میں اضافہ شہری خود کر رہے ہیں۔
کراچی کو پولیس کا دبئی اور ہر سرکاری محکمے میں رشوت کا فروغ بھی کراچی کے شہریوں نے کمائی کا گڑھ بنا رکھا ہے۔ کراچی کی زمینوں پر ناجائز قبضے شہری کر رہے ہیں۔ ڈکیتیوں میں مزاحمت پر سرعام شہری مارے جا رہے ہیں۔ کراچی جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ شہری روزانہ اسٹریٹ کرائم میں لٹ رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا معیار خود شہریوں نے تباہ کیا ہے۔
پانی چوری کے ذمے دار کیا کراچی کے شہری ہیں۔ کراچی والے کے الیکٹرک، بلدیاتی اداروں اور گیس کمپنی کے ہاتھوں لوٹے جا رہے ہیں۔
گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ، پانی کا فقدان، پارکوں و پلے گراؤنڈز سے محرومی اور پھر بھی کراچی کے مسائل کا ذمے دار بھی شہریوں کو قرار دینا ناانصافی و بے حسی نہیں بلکہ کراچی دشمنی ہے۔ حکومتوں کے نزدیک کراچی سونے کی چڑیا ہے جس کے شہری بے بس، امن و امان اور بنیادی سہولیات سے مکمل محروم اور صرف حکومتوں کا پیٹ، بدعنوانوں کی جیبیں بھرنے اور دکھ اٹھانے کے لیے رہ گئے ہیں۔