یہ ملک کب سدھرے گا
اللہ تعالیٰ نے مایوسی کو کفر سے تعبیر کیا ہے اسی لیے یہ قوم اب بھی اچھے دنوں کی آس لگائے ہوئے ہے
پچھتر سال کسی بھی قوم کے لیے تھوڑے نہیں ہوتے۔ اس سے بہت ہی کم عرصے میں دنیا کی مختلف قوموں نے اپنے ملک کو ترقی دے کر اُسے خود مختار اور خود انحصار ملک بنا دیا لیکن ہم گزشتہ پچھتر برس سے اسی آس و اُمید پر زندگی گزار رہے ہیں کہ حالات اب اچھے ہوئے کہ تب ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے مایوسی کو کفر سے تعبیر کیا ہے اسی لیے یہ قوم اب بھی اچھے دنوں کی آس لگائے ہوئے ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی اس ناکامی کا رونا تو بہت روتے رہتے ہیں لیکن اس کے اسباب کی نشاندہی میں غیر جانبداری سے کام نہیں لیتے۔
ہر شخص کی اپنی اپنی سیاسی وابستگی اور نظریہ ہے اور وہ اُسی وابستگی اور پسند کی وجہ سے حق و انصاف کے ساتھ یہ طے نہیں کر پاتا کہ اس ملک کو اس حال میں پہنچانے والے اصل مجرم کون ہیں۔ جب وہ یہ طے ہی نہیں کر پاتا تو پھر اس کا علاج بھی تجویز نہیں کر پاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی اس بد حالی اور بد نصیبی کا ذمے دار اس ملک کے سیاستدانوں کو قرار دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ پہلی مرتبہ برسر اقتدار آنے کے لیے کسی ایسے سہارے کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جو انھیں صرف یک بار یہ موقعہ فراہم کر دے پھر اس کے بعد وہ جانے اور اس ملک کے عوام۔ حالیہ دنوں کی سیاست ہی کودیکھ لیجیے عمران خان صاحب 1996 سے سیاسی میدان میں اپنا گھوڑا دوڑا رہے تھے لیکن 2011 تک وہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔
بالآخر انھیں اُسی گیٹ نمبر 4 کا سہارا ڈھونڈنا پڑا جس کا ذکر لال حویلی کے مکین بڑے شدومد کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ شیخ رشید نے گیٹ نمبر چار سے محبت کا پرچار پرویز مشرف کے دورسے کرنا شروع کیا ورنہ اس سے پہلے وہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح سیاست میں غیر جمہوری مداخلت کے بڑے مخالف ہی رہے ہیں۔
مسلم لیگ نون سے پیار و محبت کا دم وہ اس وقت تک بھرتے رہے جب تک پارٹی نے انھیں فارغ نہیں کردیا۔ مشکل وقت میں پارٹی سے مخالفت کرنے اور پرویز مشرف کے کیمپ میں چلے جانے کی وجہ سے جب پارٹی نے انھیں 2002 میں ٹکٹ دینے سے انکارکر دیا تو پھر اُن کے پاس اس کے مخالف گروہ میں جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہا۔
وہ آج بھی PTI سے صرف اسی لیے جڑے ہوئے ہیں کہ میاں نوازشریف کو نیچا دکھانے کے لیے اُن کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حالانکہ عمران خان کے حالیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات سے وہ خود بڑے پریشان ہیں کہ خان اپنے ساتھ انھیں بھی لے ڈوبے گا ، مگر فی الحال اُن کے پاس کوئی دوسری پارٹی جوائن کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے لہٰذا وہ بادل ناخواستہ اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔
ملک کو حالیہ غیر یقینی صورت حال میں پہنچانے کا سہرا ہم کس کے سر باندھ سکتے ہیں۔ خان صاحب کے یا پھر حکمرانوں کے۔ حکمرانوں کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے خان کو عدم اعتماد کی تحریک سے بیدخل کیوں کیا۔ حالانکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی معرض وجود میں آئی تھی اور یہ ایسی کوئی غلط بات بھی نہ تھی۔
خود خان صاحب اگر اس وقت اپوزیشن میں ہوتے اور انھیں یہ موقعہ میسر آتا تو وہ بھی کبھی چوک نہیں کرتے ، لیکن بے دخل ہوجانے پر خان صاحب نے محاذ آرائی کو جو طریقہ اپنایا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے اس ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ عوامی حمایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ سب کچھ تہس نہس کر دیں۔
مہذب معاشرے میں آئین و دستور کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ اور فساد برپا کر کے نہیں۔ آئین سے انحراف کرنے کی وجہ سے یہ ملک آج تک ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن نہیں ہو پایا ہے۔ خان صاحب نے چھ مہینوں سے سڑکوں اور میدانوں میں جلسے جلوس نکال کر ساری قوم کو اضطراب میں مبتلا کر کے رکھا ہوا ہے۔ وہ سیاسی استحکام پیدا ہی کرنا نہیں چاہتے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کا باعث ہوتا ہے اور وہ شاید اسی وجہ سے سیاسی عدم استحکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
2022 اختتام پذیر ہے اور وہ اس سال تو الیکشن نہیں کروا سکے۔ چالیس پچاس جلسے بھی کر کے دیکھ لیے اور دو لانگ مارچوں سے بھی کچھ نہیں ہو پایا ہے۔
انھیں اب صبر سے کام لیتے ہوئے دستور کے مطابق مقررہ وقت میں انتخابات کا انتظار کرنا چاہیے۔ ویسے بھی وہ یہ بات جان چکے ہیں کہ اگلے دس مہینوں سے پہلے الیکشن ناممکن ہے۔ پھر چند مہینے کیوں سکون سے گذار نہیں سکتے ہیں۔ ملک کو مشکل حالات سے باہر نکلنے دیجیے۔ یہ ملک باقی رہے گا تو سیاست بھی چلتی رہے گی۔ انارکی اور بدامنی پھیلا کے وہ کیوں ساری قوم کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
مسلسل لڑائی اور محاذ آرائی وقتی طور پر اپنے ارادوں اور عزائم میں کامیابی تو دلاسکتی ہے لیکن یہ کامیابی دیرپا اور دائمی نہیں ہوتی۔ حقیقت بالآخر سب پر عیاں ہو ہی جاتی ہے۔ عدم استحکام پیدا کر کے اپنی انا کی تسکین کا ساماں تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کی خدمت نہیں کی جاسکتی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے پاس بھی عوام کی زبردست طاقت موجود تھی اور وہ چاہتے تو انھیں بھی سڑکوں پر لا کر فساد اور انارکی پھیلا سکتے تھے لیکن وہ پھانسی پر چڑھ گئے مگر ملک و قوم کو عدم استحکام سے دوچار نہیں کیا۔
خان کو شکر کرنا چاہیے کہ اُسے وہ حالات نہیں ملے، جواس ملک کے کچھ دوسرے سیاستدانوں کے مقدر میں لکھ دیے گئے ، وہ تو ابھی تک سیاسی قیدی بھی نہیں بنائے گئے ہیں ، ورنہ یہاں تو کئی وزیراعظم مسند اقتدار سے سیدھے اٹک جیل یا کسی نامعلوم مقام پر کئی کئی مہینوں کے لیے قید کردیے گئے جہاں سے اُن کی آواز بھی اُن کے خاندان والوں اور دیگر چاہنے والوں کو سنائی نہیں دی۔
مطلق العنان حکمرانوں نے صحافیوں کے سوالات پر اُن کی خیریت بتانے کے بجائے یہی کہا کہ جہاں بھی ہے آپ کو اس سے کیا غرض۔ فوری فیصلے کرنے والی عدالتوں سے یک طرفہ طور پر مقدمے چلا کے انھیں موت اور عمر قید کی سزائیں تک سنا دی گئیں لیکن انھوں نے یہ سب کچھ قبول کر لیا مگر عوام کو سڑکوں پر لا کر لاشیں گرانے کا سوچا تک نہیں۔
خان صاحب خوش قسمت ہیں کہ اُن کی معزولی کسی مارشل لاء کے نتیجے میں نہیں ہوئی ورنہ 10اپریل 2022 کو اُن کی یہ غلط فہمی بھی دور ہو جاتی کہ عوام سڑکوں پر نکل کر اُن کے حق میں مظاہرے کرتے یا مٹھائیاں تقسیم کررہے ہوتے۔
ہم سب کے لیے اب یہی بہتر ہے کہ سیاست کو سیاسی اُصولوں کے مطابق چلایا جائے ۔ بنگلہ دیش کو مثال بناکر سوچا جائے کہ وہاں کس طرح سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی استحکام پیدا کیا گیا۔ حسینہ واجد نے ایک عورت ہو کر وہاں کیسے کامیابی حاصل کی۔
انارکی اور بد امنی پھیلا کے یا پھر جمہوری اور آئینی طریقے اپنا کے۔ کرپشن اور مالی بدعنوانی کے الزامات تو اُن پر لگائے گئے لیکن انھوں نے کیسے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ انھوں نے اپنے مخالفوں کو نہ گالیاں دیں اور نہ جیلوں میں بند کیا۔ نہ بھڑکیں ماریں اور نہ شور مچایا بس اپنے کاموں اور کارکردگی سے بنگلہ دیش کوایک خود مختار اور خود انحصار ملک بنا ڈالا۔
اللہ تعالیٰ نے مایوسی کو کفر سے تعبیر کیا ہے اسی لیے یہ قوم اب بھی اچھے دنوں کی آس لگائے ہوئے ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی اس ناکامی کا رونا تو بہت روتے رہتے ہیں لیکن اس کے اسباب کی نشاندہی میں غیر جانبداری سے کام نہیں لیتے۔
ہر شخص کی اپنی اپنی سیاسی وابستگی اور نظریہ ہے اور وہ اُسی وابستگی اور پسند کی وجہ سے حق و انصاف کے ساتھ یہ طے نہیں کر پاتا کہ اس ملک کو اس حال میں پہنچانے والے اصل مجرم کون ہیں۔ جب وہ یہ طے ہی نہیں کر پاتا تو پھر اس کا علاج بھی تجویز نہیں کر پاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی اس بد حالی اور بد نصیبی کا ذمے دار اس ملک کے سیاستدانوں کو قرار دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ پہلی مرتبہ برسر اقتدار آنے کے لیے کسی ایسے سہارے کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جو انھیں صرف یک بار یہ موقعہ فراہم کر دے پھر اس کے بعد وہ جانے اور اس ملک کے عوام۔ حالیہ دنوں کی سیاست ہی کودیکھ لیجیے عمران خان صاحب 1996 سے سیاسی میدان میں اپنا گھوڑا دوڑا رہے تھے لیکن 2011 تک وہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔
بالآخر انھیں اُسی گیٹ نمبر 4 کا سہارا ڈھونڈنا پڑا جس کا ذکر لال حویلی کے مکین بڑے شدومد کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ شیخ رشید نے گیٹ نمبر چار سے محبت کا پرچار پرویز مشرف کے دورسے کرنا شروع کیا ورنہ اس سے پہلے وہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح سیاست میں غیر جمہوری مداخلت کے بڑے مخالف ہی رہے ہیں۔
مسلم لیگ نون سے پیار و محبت کا دم وہ اس وقت تک بھرتے رہے جب تک پارٹی نے انھیں فارغ نہیں کردیا۔ مشکل وقت میں پارٹی سے مخالفت کرنے اور پرویز مشرف کے کیمپ میں چلے جانے کی وجہ سے جب پارٹی نے انھیں 2002 میں ٹکٹ دینے سے انکارکر دیا تو پھر اُن کے پاس اس کے مخالف گروہ میں جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہا۔
وہ آج بھی PTI سے صرف اسی لیے جڑے ہوئے ہیں کہ میاں نوازشریف کو نیچا دکھانے کے لیے اُن کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حالانکہ عمران خان کے حالیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات سے وہ خود بڑے پریشان ہیں کہ خان اپنے ساتھ انھیں بھی لے ڈوبے گا ، مگر فی الحال اُن کے پاس کوئی دوسری پارٹی جوائن کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے لہٰذا وہ بادل ناخواستہ اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔
ملک کو حالیہ غیر یقینی صورت حال میں پہنچانے کا سہرا ہم کس کے سر باندھ سکتے ہیں۔ خان صاحب کے یا پھر حکمرانوں کے۔ حکمرانوں کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے خان کو عدم اعتماد کی تحریک سے بیدخل کیوں کیا۔ حالانکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی معرض وجود میں آئی تھی اور یہ ایسی کوئی غلط بات بھی نہ تھی۔
خود خان صاحب اگر اس وقت اپوزیشن میں ہوتے اور انھیں یہ موقعہ میسر آتا تو وہ بھی کبھی چوک نہیں کرتے ، لیکن بے دخل ہوجانے پر خان صاحب نے محاذ آرائی کو جو طریقہ اپنایا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے اس ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ عوامی حمایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ سب کچھ تہس نہس کر دیں۔
مہذب معاشرے میں آئین و دستور کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ اور فساد برپا کر کے نہیں۔ آئین سے انحراف کرنے کی وجہ سے یہ ملک آج تک ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن نہیں ہو پایا ہے۔ خان صاحب نے چھ مہینوں سے سڑکوں اور میدانوں میں جلسے جلوس نکال کر ساری قوم کو اضطراب میں مبتلا کر کے رکھا ہوا ہے۔ وہ سیاسی استحکام پیدا ہی کرنا نہیں چاہتے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کا باعث ہوتا ہے اور وہ شاید اسی وجہ سے سیاسی عدم استحکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
2022 اختتام پذیر ہے اور وہ اس سال تو الیکشن نہیں کروا سکے۔ چالیس پچاس جلسے بھی کر کے دیکھ لیے اور دو لانگ مارچوں سے بھی کچھ نہیں ہو پایا ہے۔
انھیں اب صبر سے کام لیتے ہوئے دستور کے مطابق مقررہ وقت میں انتخابات کا انتظار کرنا چاہیے۔ ویسے بھی وہ یہ بات جان چکے ہیں کہ اگلے دس مہینوں سے پہلے الیکشن ناممکن ہے۔ پھر چند مہینے کیوں سکون سے گذار نہیں سکتے ہیں۔ ملک کو مشکل حالات سے باہر نکلنے دیجیے۔ یہ ملک باقی رہے گا تو سیاست بھی چلتی رہے گی۔ انارکی اور بدامنی پھیلا کے وہ کیوں ساری قوم کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
مسلسل لڑائی اور محاذ آرائی وقتی طور پر اپنے ارادوں اور عزائم میں کامیابی تو دلاسکتی ہے لیکن یہ کامیابی دیرپا اور دائمی نہیں ہوتی۔ حقیقت بالآخر سب پر عیاں ہو ہی جاتی ہے۔ عدم استحکام پیدا کر کے اپنی انا کی تسکین کا ساماں تو پیدا کیا جاسکتا ہے لیکن عوام کی خدمت نہیں کی جاسکتی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے پاس بھی عوام کی زبردست طاقت موجود تھی اور وہ چاہتے تو انھیں بھی سڑکوں پر لا کر فساد اور انارکی پھیلا سکتے تھے لیکن وہ پھانسی پر چڑھ گئے مگر ملک و قوم کو عدم استحکام سے دوچار نہیں کیا۔
خان کو شکر کرنا چاہیے کہ اُسے وہ حالات نہیں ملے، جواس ملک کے کچھ دوسرے سیاستدانوں کے مقدر میں لکھ دیے گئے ، وہ تو ابھی تک سیاسی قیدی بھی نہیں بنائے گئے ہیں ، ورنہ یہاں تو کئی وزیراعظم مسند اقتدار سے سیدھے اٹک جیل یا کسی نامعلوم مقام پر کئی کئی مہینوں کے لیے قید کردیے گئے جہاں سے اُن کی آواز بھی اُن کے خاندان والوں اور دیگر چاہنے والوں کو سنائی نہیں دی۔
مطلق العنان حکمرانوں نے صحافیوں کے سوالات پر اُن کی خیریت بتانے کے بجائے یہی کہا کہ جہاں بھی ہے آپ کو اس سے کیا غرض۔ فوری فیصلے کرنے والی عدالتوں سے یک طرفہ طور پر مقدمے چلا کے انھیں موت اور عمر قید کی سزائیں تک سنا دی گئیں لیکن انھوں نے یہ سب کچھ قبول کر لیا مگر عوام کو سڑکوں پر لا کر لاشیں گرانے کا سوچا تک نہیں۔
خان صاحب خوش قسمت ہیں کہ اُن کی معزولی کسی مارشل لاء کے نتیجے میں نہیں ہوئی ورنہ 10اپریل 2022 کو اُن کی یہ غلط فہمی بھی دور ہو جاتی کہ عوام سڑکوں پر نکل کر اُن کے حق میں مظاہرے کرتے یا مٹھائیاں تقسیم کررہے ہوتے۔
ہم سب کے لیے اب یہی بہتر ہے کہ سیاست کو سیاسی اُصولوں کے مطابق چلایا جائے ۔ بنگلہ دیش کو مثال بناکر سوچا جائے کہ وہاں کس طرح سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی استحکام پیدا کیا گیا۔ حسینہ واجد نے ایک عورت ہو کر وہاں کیسے کامیابی حاصل کی۔
انارکی اور بد امنی پھیلا کے یا پھر جمہوری اور آئینی طریقے اپنا کے۔ کرپشن اور مالی بدعنوانی کے الزامات تو اُن پر لگائے گئے لیکن انھوں نے کیسے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ انھوں نے اپنے مخالفوں کو نہ گالیاں دیں اور نہ جیلوں میں بند کیا۔ نہ بھڑکیں ماریں اور نہ شور مچایا بس اپنے کاموں اور کارکردگی سے بنگلہ دیش کوایک خود مختار اور خود انحصار ملک بنا ڈالا۔