اب وگرنہ کبھی نہیں
اگرریاست کے تمام ادارے ریاستی امورکو درست پٹڑی پرڈالنے کے لیے ایک صفحے پراس طرح آجائیں کہ کسی کوکسی پر کوئی شبہ نہ رہے
عمران خان پر حملے کی حقیقت کیا ہے، یہ سوال بھی اہم ہے لیکن اس واقعے کے بعد رونما ہونے والے چند واقعات زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہی وہ اہم واقعات ہیں جو آنے والے دنوں میں قومی سیاست کا کوئی رخ متعین کریں گے۔
عمران خان کہا کرتے تھے کہ انھوں نے ایک وڈیو ریکارڈ کر رکھی ہے جس میں انھوں نے ان تمام کرداروں کو بے نقاب کر دیا ہے جو انھیں نقصان پہنچانے کے ذمے دار ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے بار بار یہ اعلان کیا تھا کہ کسی حادثاتی صورت حال میں اس وڈیو کو ریلیز کر دیا جائے گا۔
وزیر آباد کے اللہ والا چوک پر رونما ہونے والے فائرنگ کے واقعہ کی نوعیت ایسی ہی تھی جس کے بعد عمران خان کو اپنے اعلان کے مطابق وڈیو جاری کر دی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
وڈیو جاری کیوں نہیں کی گئی؟ کیا اس وڈیو کی حقیقت عمران خان کے دیگر اعلانات کی طرح محض ایک جھکاوا یا ڈراوا تھی یا ابھی اس کے جاری کرنے کا وقت نہیں آیا۔ یہ وضاحت تو عمران خان ہی کر سکتے ہیں لیکن اسی صورت میں اگر وہ اپنے منتخب کردہ صحافیوں کے علاوہ کسی آزاد صحافی کے سوال کا جواب دینا پسند کریں۔
وڈیو تو سامنے نہ آ سکی لیکن اسد عمر دستیاب ہو گئے جنھوں نے مبینہ طور پر عمران خان کی ہدایت پر وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور سیکیورٹی فورسز سے وابستہ ایک سینئر افسر کو وزیر آباد کے تشویش ناک واقعے کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔
عمران خان یا پی ٹی آئی کا یہی وہ الزام ہے جو مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ آیندہ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کیا بنے گا، اس کا دار و مدار اسی سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔
یہ سوال کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ مسلح افواج کے ترجمان کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ سلامتی کے اداروں کے تمام افسروں اور جوانوں کا تحفظ کیا جائے گا اور کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ان پر کیچڑ اچھالے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس طرز عمل کے خلاف کارروائی کرے۔ قومی سلامتی کے اداروں کی درخواست معمولی نہیں۔
اس لیے حکومت یقینی طور پر اسی درخواست کی روشنی میں کچھ اقدامات کرے گی۔ یہ اقدامات کس قدر موثر ثابت ہوں گے، اس کا انحصار چند امور پر ہے۔
یہ درست ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے فل کورٹ پر مشتمل کمیشن کے قیام کی درخواست کر دی ہے۔ فل کورٹ کے قیام کا فیصلہ موجودہ صورت حال میں ناگزیر تھا۔ عمران خان نے حکومت سے محروم ہونے کے بعد جس قسم کا طرز عمل اختیار رکھا ہے اور اپنے سیاسی مقاصد کے لیے وہ نہ ملک کے کسی ادارے کو بخشنے کو تیار ہیں اور کسی شخصیت کو۔ موجودہ حالات میں اس قسم کے غیر ذمے دارانہ اور جارحانہ رویے سے نمٹنے کے لیے اتنا بڑافورم ہی مناسب ہو سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ کرنا اہم اور مؤثر ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ وزیر اعظم کی اسی پریس کانفرنس میں ہو گیا جس میں کمیشن بنانے کے فیصلے کا اعلان ہو گیا۔ اس پریس کانفرنس میں معذرت خواہی کی حد تک عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے چند صحافیوں کی تلملاہٹ دیدنی تھی۔
چناں چہ وزیر اعظم سے کہا گیا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن کا قیام مناسب ہوتا۔ فل بینچ کے مقابلے میں تین رکنی کمیشن کا مطالبہ واضح کرتا ہے کہ فل بینچ پر مشتمل کمیشن کس فریق کے لیے پریشانی پیدا کر سکتا ہے؟
وزیر اعظم نے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات بھی اسی کمیشن کے سپرد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ یہ درست انداز فکر ہے۔ بہتر ہو کہ وزیر آباد حملے کے علاوہ سینیٹر اعظم سواتی کے الزامات کی تحقیقات بھی اسی کمیشن کے سپرد کردی جائیں تاکہ لوگوں کی ذاتی زندگی سے متعلق شرم ناک وڈیوز یا تصاویر کو ظاہر کرنے کے شرم ناک رجحان کا ہمیشہ کے لیے تدارک ہو سکے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران میں شہباز گل اور فواد چوہدری جیسے لیڈروں کی طرف سے مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے، وہ بھی معاشرے میں بے چینی پیدا کرتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔ حکومت چاہے تو یہ معاملہ بھی اسی کمیشن کے سپرد کر دے یا علیحدہ سے اس معاملے کا جائزہ لیا جائے۔
عمران خان کی تازہ مہم جوئی اور ان کی طرف سے لگائے گئے سنگین الزامات کی تحقیقات کے لیے فل بینچ پر مشتمل کمیشن کے قیام کے باوجود ریاست مخالف سرگرمیوں کے سدباب کے لیے جس قسم کی یکسوئی کی ضرورت ہوگی، اس کے لیے خصوصی اقدامات کی انتہائی ضرورت ہو گی۔
اس نوعیت کے خصوصی اقدامات صرف اسی صورت میں یقینی بنائے جاسکتے ہیں، اگر ریاست کے تمام ادارے ریاستی امور کو درست پٹڑی پر ڈالنے کے لیے ایک صفحے پر اس طرح آ جائیں کہ کسی کو کسی پر کوئی شبہ نہ رہے۔
یہ کام ریاست کی سلامتی اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ اس معاملے میں ذرا سی بھی تاخیر ناقابل یقین خرابی کا ذریعہ بن جائے گی۔رہ گئے عمران خان انھوں نے دانش مندانہ سیاست کرنے کے بجائے الطاف حسین کی طرز سیاست کی پیروی کی ہے۔ اب ان کی سیاست بھی الطاف حسین والے انجام سے دوچارہونے جارہی ہے۔