زباں فہمی نمبر 162 نام کیسے پڑا
یہ سینہ گزٹ صریحاً غلط ہے کہ کراچی کسی بلوچ مائی کولاچی یا کلاچی کے نام سے موسوم یا منسوب ہے
یہ موضوع بھی دنیا بھر کی زبانوں میں دل چسپی کا باعث ہے کہ فُلاں شخص، جگہ یا ادارہ،فُلاں نام سے کیوں موسوم ہوا۔ اپنے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے قدیم شہر اُوچ (اوچ، اُچ) شریف کی بات کرتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ مختلف راویات میں مختلف بیان کی گئی۔ اس کا نام، پرانے تاریخی تذکروں (بشمول تاریخ فرشتہ)میں 'اوچھ' درج کیا گیا اور ماقبل، آریہ قوم کی آمد کے دور میں اسے "سپیدہ صبح کی دیوی" اُشاش[Ushas]سے منسوب کیا گیا جوتبدیل ہوتے ہوتے،اوچ اور اُوچ یا اُچ رہ گیا۔یہ روایت بالتحقیق غلط ثابت ہوئی کہ (ہمارے نانھیالی جد امجد)،سید جلال الدین سُرخ بخاری نے فتح کے بعد، اوچ رکھا جسے عرف ِعام میں اوچ مبارک کہا گیا۔(خدائے رحیم اُن پر رحمت نازل کرے)۔اس ضمن میں "خطہ پاک اوچ" از سید مسعود حسن شہابؔ دہلوی مرحوم کا مطالعہ مفید ہے۔
ایک قدیم ہندوستانی شہر، احمد آباد کی بات کرتے ہیں جو بھارتی ریاست (صوبے)گجرات کا سب سے بڑا شہر اور سابق دارالحکومت ہے۔کہاجاتا ہے کہ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد، سلطان احمد شاہ گجراتی کے حکم پر،اُس کے چارہم نام صوفیہ کرام نے رکھاتھا۔احمد آباد نامی شہر افغانستان، پاکستانی پنجاب اور ایران میں موجود ہے۔اسی نام کے تین گاؤں آذربائیجان میں، بہت سارے گاؤں ایران میں اور کم ازکم ایک ایک گاؤں گلگت بلتستان اور سوات میں موجود ہے، جبکہ سندھ کے قلعہ کوٹ ڈِیجی کا پرانا نام بھی قلعہ احمد آباد ہے۔
مغل تاجدار جلال الدین اکبر کے رَتن اور درباری مؤرخ،ابوالفضل کے لکھے ہوئے 'اکبرنامہ' کے بیان کے مطابق، اکبر ہی نے الہ آباد شہر بسایا تھا اور بقول مُلّا عبدالقادربدایونی و خواجہ نظام الدین احمدبخشی،اس کا نام اِلہ آ باس (خدائی شہر) یا الہ آباد رکھا۔ہمارے فاضل بزرگ معاصر ڈاکٹرشمس الرحمن فاروقی مرحوم نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں یہ نکتہ اُٹھایا کہ"اس شہر کو Allahabadیا Allah-Abadکے ہجے تو اِنگریز سرکار نے عطا کیے، ورنہ یہ تو کل بھی اِلہ آباد تھا اور آج بھی، اردو،ہندی، بھوج پوری، اَوَدھی اور پرتاپ گڑھی میں اسے سب اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ فرق یہ واضح ہے کہ "اِلہ" تو محض خدا کے لیے مستعمل ہے،عربی و فارسی واردومیں، جبکہ اللہ، خدائے واحدکا نام ہے"۔وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ متعصب ہندوؤں نے اس شہر کا نام بدل کر "پِریاگراج" رکھا تو یہ سوچ کر کہ ایک اسلامی نام تبدیل ہوگیا، حالانکہ اکبر نے عمومی معنی مراد لیے تھے۔[What's in a name?: 20 October 2018]
یہاں اُن سے چُوک ہوئی، جس طرح لفظ خدا، ربِ کائنات کے لیے(بھی) مستعمل ہے، اسی طرح اُس ذات ِ اقد س کو "اِلہ ُ العالمین" یعنی جہانوں کا خدا بھی کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں۔ایک ہندو مصنف اکشٹ لال کا دعویٰ ہے کہ دریائے گنگا، جمنا اور (گم شدہ دریا) سَرَسوَتی کے ملاپ کے مقام کو عہد ِ قدیم میں 'پریاگ' کہاجاتا تھا اور یہ بات بالمیکی(والمیکی) نے بھی رامائن میں لکھی ہے۔(تین دریاؤں کے ملاپ والی جگہ کو ''تِربِینی'' یا تِروِینی بھی کہتے ہیں جو ممتاز ہندوستانی شاعر گلزار کی ایجاد کردہ سہ مصرعی نظم کا نام بھی ہے)۔اس علاقے کا صدرمقام "کوشامبی" کہلاتا تھا، بعداَزآں، کڑہ نامی قصبہ آباد ہوا جو ایک مدت تک دِلّی اور جونپور کی سلطنت کا مرکز رہا اور پھر مغل بادشاہ اکبر نے ان دونوں مقامات کے درمیان نیا شہر "الہ آباد" تعمیر کیا۔[The Remnants of Akbar's Illahabas: 20 October 2018]۔یہاں ناواقف قارئین کرام کے لیے عرض کردو ں کہ پاکستانی پنجاب میں ایک شہر کا نام
الہ آباد ہے، جبکہ سُوات میں بھی ایک چھوٹی سی جگہ کا نام الہ آباد ہے۔
دکن،ہندوستان کامشہور شہر، اَورَنگ آباد، مغل تاجداراَورنگزیب عالمگیر سے منسوب ہے، جبکہ کراچی کا اَورَنگی ٹاؤن بھی غالباً اسی سے نسبت رکھتا ہے۔ایک روایت کے مطابق جب اُنھیں اپنے والد شاہجہاں کی طرف سے1652/1653ء میں،دوسری بار، دکن کا صوبے دار مقررکیا گیا تو خود اُنھو ں نے یا والد گرامی نے اس شہر کویہ نیا نام دیا۔ماقبل اس شہر کے متعدد نام رہے;مرہٹہ ہندو انِتہا پسند،اب اس کا نام تبدیل کرکے "سمبھاجی نگر" رکھنا چاہتے ہیں جو اُن کے بیان کے مطابق، اورنگزیب کے حریف، شِیواجی کا رکھا ہوا نام تھا۔
تاشقند: ممتاز مسلم سائنس داں، ریاضی داں، مؤرخ ابوریحان البِیرونی کے بیان کے مطابق، یہ نام ترکی لفظ تاش (پتھر) اور کنت /کند/قند(شہر) کا مجموعہ (یعنی پتھر کا شہر) ہے۔(ویسے ترکی زبان میں لفظ شہر بھی موجودہے)۔ایرانی زبان وتاریخ کے ایک ماہر[Iranologist]، اِیلیا گرشے وِچ[Ilya Gershevitch] (1914ء تا 2001ء)نے اس نام کی جڑیں قدیم ایرانی زبانوں اور چینی میں تلاش کیں۔
حیدرآباد،دکن کے متعلق دو مختلف اور متضاد، روایات ملتی ہیں۔ایک تو یہ کہ بانی سلطان قلی قطب شاہ (اولین صاحب ِدیوان اردوشاعر)نے اپنی محبوبہ بھاگ متی کے نام پر اول اول اسے 'بھاگ نگر' کانام دیا اور پھر اُس کے قبول اسلام کے بعد جب 'حیدرمحل' کا لقب عطاکیا تو شہر کا نام بھی بدل دیا، دوسری کہانی یہ ہے کہ سلطان کے فرزند حیدر کے نام پر یہ نام رکھاگیا۔تیسری روایت یا حکایت یہ ہے کہ یہ نام، حضرت علی بن ابوطالب کے(خدا ئے بزرگ وبرتر اُن سے راضی ہو) ،والد کی طرف سے دیے گئے،تیسرے نام کی نسبت سے رکھا گیا، یہی روایت، حیدرآباد (سندھ) کی وجہ تسمیہ بھی بیان کی جاتی ہے۔
تاجِکستان (تاجیکستان) کے صدرمقام دُوشنبے [Dushanbe]کا نام، دُوشنبہ یعنی پِیر کا دن اس لیے پڑا کہ یہاں قدیم دورمیں اسی دن منڈی لگا کرتی تھی۔
سندھ ہمارے صوبے اور ملک کے سب سے بڑے دریا کانام ہے۔یہ کبھی "سپت سندھودیش" (سنسکِرِت)یعنی سات دریاؤں کی سرزمین تھا، لفظ سندھ کا مطلب دریا (سندھی میں ندی)ہے اور یہی بدل کر پہلے 'ہند' ہوا اور پھر 'انڈس' اور 'انڈیا'۔
کلکتہ کا نام ہماری ادبی تاریخ میں بھی معتبر ہے اور آج جبکہ اُسے بنگلہ تلفظ میں کول کاٹا/کاتا کہاجارہاہے، اب تک پرانے لوگوں کی زبان پر وہی نام ہے۔اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق کوئی مستند بیان محفوظ نہیں۔ کہاجاتا ہے کہ یہ "کالی" دیوی کے گاؤں کے طور پر کالی کٹہ کہلاتا تھا، کالی گھاٹ بھی ممکن ہے، جبکہ ایک سینہ گزٹ یہ بھی ہے کہ جب انگریز پہلے پہل یہاں ساحل پر لنگرانداز ہوئے تو وہاں درخت کٹے پڑے تھے۔ایک انگریز نے کسی مقامی شخص سے جگہ کا نام پوچھا تو وہ سمجھا کہ درختوں کے بارے میں سوال کیا ہے کہ کب کٹے۔اُس نے کہا، "کل کٹا"۔انگریزیہ سمجھا کہ یہی نام ہوگا: Calcutta۔لطف کی بات یہ ہے کہ اسی نام سے موسوم تین شہر، ریاست ہائے متحدہ امریکا میں، ایک Surinameمیں اور ایک گاؤں Belize(بے لِیز)میں واقع ہے۔
کاف تک بات پہنچ ہی گئی ہے تو اپنا محبوب شہر، کراچی کیوں نظر انداز ہو۔ترتیب میں تو اِسے کلکتہ سے پہلے ہی لکھنا چاہیے تھا، مگر بوجوہ اس کا ذکرِ خیر بعدمیں کررہاہوں۔کراچی کو، بلدیہ کراچی کے اشتہارات میں ماضی قریب میں متعدد مختلف اور نئے القاب دینے والے اس"اختراع نگار"[Creative Copywriter]نے اس شہر ِ بے مثل کی تاریخ و جغرافیہ سے متعلق کئی کتب کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ، دو کتب کی تصحیح وتدوین،نیز ترمیم واضافہ، نظر ثانی کی خدمات انجام دی ہیں، جن میں ایک کراچی سے شایع ہوچکی ہے اور دوسری، بیرون ملک، اشاعت کی منتظر ہے۔انتہائی تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ ان تمام کتب کے مصنفین، مؤلفین، مرتبین ومترجمین نے کراچی کی وجہ تسمیہ پر لسانی بنیاد پر اس طرح کام نہیں کیا کہ کوئی حتمی رائے قایم کی جاسکے۔جدید تاریخ کی رُو سے شہر کراچی کی بِناء،ایک اور قدیم بندرگاہ کھارک /کھڑک بندر (دریائے حب کے نزدیک) کے اُجڑنے کے بعد، 1729ء میں سیٹھ بوجھومَل نے ڈالی، مگر یہ ایک بندرگاہ اور بستی کے طور پر کم وبیش چارہزار سال سے موجودہے۔ایک تحقیق تو یہ بھی کہتی ہے کہ کراچی کی جگہ پر موئن جو دَڑو سے بھی پانچ سو سال پہلے آبادی موجودتھی،جبکہ یہاں اب تک(محدودپیمانے پر)کی جانے والی تحقیق کے مطابق، یہ جگہ پتھر کے دور میں بھی آباد تھی جس کے آ ثار، صفورہ چوک، گلستان جوہر، ملیر، گزری، کلفٹن اور حب میں دریافت ہوچکے ہیں۔
خاکسارنے خود 1998ء میں صفورہ کے قریب، واقع سٹی ولاز میں مکان کی منتقلی کے کچھ عرصے کے بعد، وہاں ایسے قدیم پتھر دیکھے جن پر موجود آبی گزرگاہ کے نشانات اس اَمرکا ثبوت تھے کہ یہ علاقہ صدیوں پہلے دریا کے نیچے تھا۔اس بات کی تصدیق میرے عزیز دوست، ارضیات داں، سید آصف کمال نے بھی کی تھی۔(یہاں راقم ایک تاریخی انکشاف کرتا چلے۔روحانی ذرایع بشمول ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم کراچی کے ایک مقام پر، عہد بنی اسرائیل کی ایک ماہی گیر بستی کے آثاراور ایک نبی کی قبر کی موجودگی کا انکشاف کرچکے ہیں۔یہ مقام آج بھی موجود اور محفوظ ہے، مگر مصلحتا ً اس کا پرچارنہیں کیا جاسکتا۔مجھے ایک روحانی شخصیت نے اُن نبی کا نام بھی بتادیا تھا۔حساب لگائیں تویہ دوربھی کم وبیش چار سے پانچ ہزارسال پرانا ہی ہوگا)۔
کراچی کے تقریباً تیس قدیم ناموں میں کروکالا[Krokola](زمانہ ماقبل مسیح علیہ السلام، بشمول عہد اسکندراعظم یونانی)،ککرولا،ککرالو، بَاربَری کون(Barbarikon)،بَربَرِیس(Barbarice)، رأ س الکرازی، راس کراشی،کوراشی[Kaurashi]، خراچی، کلاچی، کلاچی جو کَن،(کلاچی نامی میر بحر یعنی ماہی گیر/ملاح کا ذخیرہ آب کے لیے کھودا ہوا گڑھا)، کلاچی جو گوٹھ، Nawa Nar،Rambagh،Kurruck،Karak Bander،Auranga Bandar،Minnagara،کریچی،کراچے ٹاؤن،کھوراجی،کُوراچی(Kurrachee) اورکرانچی شامل ہیں۔عربی میں مذکورناموں رأ س الکرازی، راس کراشی اور ترکی میں کوراشی کے ساتھ ساتھ، موجودہ عربی نام 'کراتشی' پر غور کریں تو بہت مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ اس شہر کو، ایرانی سیاحوں نے قدیم دورمیں، گدھا گاڑی کی نسبت سے 'خراچی' کہا تھا۔البتہ یہ سینہ گزٹ صریحاً غلط ہے کہ کراچی کسی بلوچ مائی کولاچی یا کلاچی کے نام سے موسوم یا منسوب ہے۔ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اس مشہور عام پرچارکی واضح طور پر تردید کی تھی کہ یہ نام کسی بلوچ خاتون کاہے یا اس کی اصل بلوچی ہے۔یہاں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں:
ا)۔ اس بستی اور شہر کے قدیم ترین باشندوں میں شامل، موہانے یا ماہی گیر /ملاح، سندھ سے آئے تھے اور انھیں میر بحر بھی کہتے ہیں۔
ب)۔ انھی کا ایک قبیلہ آج بھی کراچو۔یا۔قلاچو/کلاچو کہلاتا ہے۔
جب ہم بلوچ نژاد سندھی، اردو محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تردید پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کی جڑیں کہیں اور ہیں۔
کروکالا اوربَاربَری کون دونوں ہی کراچی کے قریب واقع قدیم بندرگاہیں تھیں، جبکہ منوڑا کو "Morontobara" (Woman's Harbour) اور عربی تواریخ میں مناہرہ کہاجاتاتھا۔بعض پرانی کتب میں کراچی کو سہواً دیبل اور بھنبھور بھی قراردیا گیا کیونکہ اب تک کی تحقیق کے مطابق، فاتح سندھ محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) کے جہاز،پانی کے راستے یہاں، کراچی کے قریب، بھنبھور پہنچ کر لنگر اَنداز ہوئے، جسے دیبل کا اصل مقام کہاجاتا ہے، خود سپہ سالار، ایران سے خشکی کے راستے، لسبیلہ (بلوچستان) ہوتے ہوئے پہنچے تھے۔اُن کے عہد میں کراچی بستی کا وجود، کہیں آس پاس ہونا بعید اَ ز قیاس نہیں کہ اُن کی آمد کے بھی کوئی آٹھ سو سال بعد کے عرب مؤرخ نے "رأ س الکرازی" کا ذکر کیا ہے۔
کھارادَرکو فارسی میں خارادر۔اور۔خرادَر کہاجاتا ہے، کچھ بعید نہیں کہ قدیم دورمیں بھی یہی نام ہو اوراسے کچھی،گجراتی یا قدیم سندھی میں بگاڑ کر کھارادرکیا گیا ہو۔اس کی وجہ تسمیہ تو ظاہر ہے کہ نمکین پانی سے ہے، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب 1792ء میں اسی علاقے،بلکہ پورے کراچی میں، اولین آغاخانی داعی (مبلغ) غلام علی شاہ کا انتقال ہوا تو اُنھیں تدفین کے لیے،کِرا۔ یا۔ کِڑا(Kera)، لے جایا گیا۔یہ قدیم گاؤں کَچھ، گجرات (بھارت) کے تعلقہ بھوج[Bhuj Taluka of Kutch district of Gujarat] میں واقع ہے۔غور کریں تو صوتی اعتبار سے یہ نام بھی کراچی سے قریب ہے۔
کراچی کے گردونواح میں زمانہ قدیم سے چُونے کے ذخائر موجودہیں اور اِسے سفید چونے کے پتھر کی نسبت سے 'کراشہر' بھی کہاجاتا تھا۔یہ ابھی تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ "کرا" کس زبان کا لفظ ہے۔اس سے ایک قدم آگے کی بات خاکسار نے دریافت کی۔ترکی زبان میں چُونے کو"کِریچ"(Kireç) اور کلے[Kalay] کہتے ہیں، بِشناق یعنی بوسنیائی زبان میں بھی ہجے کے فرق سے یہی نام(krec)ہے، جبکہ باسک زبان میں یہ لفظ Karea(کری) ہے۔یہاں رُک کرمیرا لسانی قیاس بھی ملاحظہ فرمائیں۔ممکن ہے کہ "کرا" بمعنی چُونے کا پتھر اور "چی" بمعنی حامل، والا(ترکی) ملاکریہ نام، کراچی معرض وجودمیں آیا ہویعنی چُونے کے پتھر والا شہریا علاقہ۔
ایک طویل مدت تک مختلف ناموں اور مختلف ہجوں کے ساتھ پکارے جانے والے اس شہر کو، 1860ء میں کراچی ایوان صنعت وتجارت
کے قیام کے بعد، اُسی کے ایماء پر کراچی [Karachi]کہا اور لکھا جانے لگا۔اس سے قبل، اس بستی کے بطور شہر ترقی کا آغاز، انگریز کے قبضے کے بعد ہوا۔پہلے یہاں بلوچ حکمراں تھے جنھیں سیٹھ ناؤں مَل ہوت چند (1804ء تا1878ء) کی غداری کے طفیل، ایسٹ انڈیا کمپنی نے شکست دی۔سیٹھ کی یادداشتوں کا مجموعہ اُس کے پوتے، رائے بہادر اَلُو مَل ٹریکم داس کے انگریزی ترجمے کے طفیل 1915ء میں شایع ہوا، 1968ء میں اس کا ترجمہ سندھی میں اور ایک طویل مدت کے بعد، اردومیں ہوا۔
بندہ"کراچی کی ماں" لیاری کے متعلق بھی بہت دل چسپ ومتنوع علمی وادبی مواد فراہم ہوسکتا ہے، مگر بوجوہ اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس علاقے کی وجہ تسمیہ پر بحث ابھی طے نہیں ہوسکی، البتہ دیگر آراء سے قطع نظر، 'وادی لیاری' کے محقق، مدیر ومؤلف، محترم حمید ناضر صاحب کی یہ تحقیق،قرینِ قیاس ہے کہ یہ نام ایک جھاڑی 'لئی' سے منسوب ہے جسے اردو میں جھاؤ اور عربی میں غابہ کہاجاتا ہے۔قدیم دریائے لیاری(اور موجودہ لیاری ندی) کے ساتھ ساتھ اور شہر کے بعض دیگر مقامات پر بھی یہ جھاڑی پائی جاتی ہے۔(غابہ کا ذکر ہماری اسلامی تاریخ میں یوں بھی اہم ہے کہ ایک اہم غزوہ بھی اسی سے موسوم ہے۔سن سات ہجری میں غزوہ خیبر سے فقط تین دن پہلے پیش آنے والے اس غزوہ کو غزوہ ذی قرد بھی کہتے ہیں)۔
اب وطن عزیز کے دوسرے بڑے شہر لاہورکی بات ہوجائے۔اس کی وجہ تسمیہ ابھی تک یہی کہی جاتی رہی ہے کہ یہ رام چندرجی کے بیٹے 'لوہ' سے منسوب ہے۔نویں صدی عیسوی کے مسلم مؤرخ الاِدریسی نے اسے لَہاوَر لکھااور کوئی دوصدیوں بعد، نامور سائنس داں،البِیرونی نے اسے 'لوہارو' قراردیا، جبکہ سلطان محمود غزنوی کے دورمیں یہ ایک چھوٹا سا صوبہ بعنوان 'محمود پور' بھی ہوا کرتا تھا۔
ایک قدیم ہندوستانی شہر، احمد آباد کی بات کرتے ہیں جو بھارتی ریاست (صوبے)گجرات کا سب سے بڑا شہر اور سابق دارالحکومت ہے۔کہاجاتا ہے کہ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد، سلطان احمد شاہ گجراتی کے حکم پر،اُس کے چارہم نام صوفیہ کرام نے رکھاتھا۔احمد آباد نامی شہر افغانستان، پاکستانی پنجاب اور ایران میں موجود ہے۔اسی نام کے تین گاؤں آذربائیجان میں، بہت سارے گاؤں ایران میں اور کم ازکم ایک ایک گاؤں گلگت بلتستان اور سوات میں موجود ہے، جبکہ سندھ کے قلعہ کوٹ ڈِیجی کا پرانا نام بھی قلعہ احمد آباد ہے۔
مغل تاجدار جلال الدین اکبر کے رَتن اور درباری مؤرخ،ابوالفضل کے لکھے ہوئے 'اکبرنامہ' کے بیان کے مطابق، اکبر ہی نے الہ آباد شہر بسایا تھا اور بقول مُلّا عبدالقادربدایونی و خواجہ نظام الدین احمدبخشی،اس کا نام اِلہ آ باس (خدائی شہر) یا الہ آباد رکھا۔ہمارے فاضل بزرگ معاصر ڈاکٹرشمس الرحمن فاروقی مرحوم نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں یہ نکتہ اُٹھایا کہ"اس شہر کو Allahabadیا Allah-Abadکے ہجے تو اِنگریز سرکار نے عطا کیے، ورنہ یہ تو کل بھی اِلہ آباد تھا اور آج بھی، اردو،ہندی، بھوج پوری، اَوَدھی اور پرتاپ گڑھی میں اسے سب اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ فرق یہ واضح ہے کہ "اِلہ" تو محض خدا کے لیے مستعمل ہے،عربی و فارسی واردومیں، جبکہ اللہ، خدائے واحدکا نام ہے"۔وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ متعصب ہندوؤں نے اس شہر کا نام بدل کر "پِریاگراج" رکھا تو یہ سوچ کر کہ ایک اسلامی نام تبدیل ہوگیا، حالانکہ اکبر نے عمومی معنی مراد لیے تھے۔[What's in a name?: 20 October 2018]
یہاں اُن سے چُوک ہوئی، جس طرح لفظ خدا، ربِ کائنات کے لیے(بھی) مستعمل ہے، اسی طرح اُس ذات ِ اقد س کو "اِلہ ُ العالمین" یعنی جہانوں کا خدا بھی کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں۔ایک ہندو مصنف اکشٹ لال کا دعویٰ ہے کہ دریائے گنگا، جمنا اور (گم شدہ دریا) سَرَسوَتی کے ملاپ کے مقام کو عہد ِ قدیم میں 'پریاگ' کہاجاتا تھا اور یہ بات بالمیکی(والمیکی) نے بھی رامائن میں لکھی ہے۔(تین دریاؤں کے ملاپ والی جگہ کو ''تِربِینی'' یا تِروِینی بھی کہتے ہیں جو ممتاز ہندوستانی شاعر گلزار کی ایجاد کردہ سہ مصرعی نظم کا نام بھی ہے)۔اس علاقے کا صدرمقام "کوشامبی" کہلاتا تھا، بعداَزآں، کڑہ نامی قصبہ آباد ہوا جو ایک مدت تک دِلّی اور جونپور کی سلطنت کا مرکز رہا اور پھر مغل بادشاہ اکبر نے ان دونوں مقامات کے درمیان نیا شہر "الہ آباد" تعمیر کیا۔[The Remnants of Akbar's Illahabas: 20 October 2018]۔یہاں ناواقف قارئین کرام کے لیے عرض کردو ں کہ پاکستانی پنجاب میں ایک شہر کا نام
الہ آباد ہے، جبکہ سُوات میں بھی ایک چھوٹی سی جگہ کا نام الہ آباد ہے۔
دکن،ہندوستان کامشہور شہر، اَورَنگ آباد، مغل تاجداراَورنگزیب عالمگیر سے منسوب ہے، جبکہ کراچی کا اَورَنگی ٹاؤن بھی غالباً اسی سے نسبت رکھتا ہے۔ایک روایت کے مطابق جب اُنھیں اپنے والد شاہجہاں کی طرف سے1652/1653ء میں،دوسری بار، دکن کا صوبے دار مقررکیا گیا تو خود اُنھو ں نے یا والد گرامی نے اس شہر کویہ نیا نام دیا۔ماقبل اس شہر کے متعدد نام رہے;مرہٹہ ہندو انِتہا پسند،اب اس کا نام تبدیل کرکے "سمبھاجی نگر" رکھنا چاہتے ہیں جو اُن کے بیان کے مطابق، اورنگزیب کے حریف، شِیواجی کا رکھا ہوا نام تھا۔
تاشقند: ممتاز مسلم سائنس داں، ریاضی داں، مؤرخ ابوریحان البِیرونی کے بیان کے مطابق، یہ نام ترکی لفظ تاش (پتھر) اور کنت /کند/قند(شہر) کا مجموعہ (یعنی پتھر کا شہر) ہے۔(ویسے ترکی زبان میں لفظ شہر بھی موجودہے)۔ایرانی زبان وتاریخ کے ایک ماہر[Iranologist]، اِیلیا گرشے وِچ[Ilya Gershevitch] (1914ء تا 2001ء)نے اس نام کی جڑیں قدیم ایرانی زبانوں اور چینی میں تلاش کیں۔
حیدرآباد،دکن کے متعلق دو مختلف اور متضاد، روایات ملتی ہیں۔ایک تو یہ کہ بانی سلطان قلی قطب شاہ (اولین صاحب ِدیوان اردوشاعر)نے اپنی محبوبہ بھاگ متی کے نام پر اول اول اسے 'بھاگ نگر' کانام دیا اور پھر اُس کے قبول اسلام کے بعد جب 'حیدرمحل' کا لقب عطاکیا تو شہر کا نام بھی بدل دیا، دوسری کہانی یہ ہے کہ سلطان کے فرزند حیدر کے نام پر یہ نام رکھاگیا۔تیسری روایت یا حکایت یہ ہے کہ یہ نام، حضرت علی بن ابوطالب کے(خدا ئے بزرگ وبرتر اُن سے راضی ہو) ،والد کی طرف سے دیے گئے،تیسرے نام کی نسبت سے رکھا گیا، یہی روایت، حیدرآباد (سندھ) کی وجہ تسمیہ بھی بیان کی جاتی ہے۔
تاجِکستان (تاجیکستان) کے صدرمقام دُوشنبے [Dushanbe]کا نام، دُوشنبہ یعنی پِیر کا دن اس لیے پڑا کہ یہاں قدیم دورمیں اسی دن منڈی لگا کرتی تھی۔
سندھ ہمارے صوبے اور ملک کے سب سے بڑے دریا کانام ہے۔یہ کبھی "سپت سندھودیش" (سنسکِرِت)یعنی سات دریاؤں کی سرزمین تھا، لفظ سندھ کا مطلب دریا (سندھی میں ندی)ہے اور یہی بدل کر پہلے 'ہند' ہوا اور پھر 'انڈس' اور 'انڈیا'۔
کلکتہ کا نام ہماری ادبی تاریخ میں بھی معتبر ہے اور آج جبکہ اُسے بنگلہ تلفظ میں کول کاٹا/کاتا کہاجارہاہے، اب تک پرانے لوگوں کی زبان پر وہی نام ہے۔اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق کوئی مستند بیان محفوظ نہیں۔ کہاجاتا ہے کہ یہ "کالی" دیوی کے گاؤں کے طور پر کالی کٹہ کہلاتا تھا، کالی گھاٹ بھی ممکن ہے، جبکہ ایک سینہ گزٹ یہ بھی ہے کہ جب انگریز پہلے پہل یہاں ساحل پر لنگرانداز ہوئے تو وہاں درخت کٹے پڑے تھے۔ایک انگریز نے کسی مقامی شخص سے جگہ کا نام پوچھا تو وہ سمجھا کہ درختوں کے بارے میں سوال کیا ہے کہ کب کٹے۔اُس نے کہا، "کل کٹا"۔انگریزیہ سمجھا کہ یہی نام ہوگا: Calcutta۔لطف کی بات یہ ہے کہ اسی نام سے موسوم تین شہر، ریاست ہائے متحدہ امریکا میں، ایک Surinameمیں اور ایک گاؤں Belize(بے لِیز)میں واقع ہے۔
کاف تک بات پہنچ ہی گئی ہے تو اپنا محبوب شہر، کراچی کیوں نظر انداز ہو۔ترتیب میں تو اِسے کلکتہ سے پہلے ہی لکھنا چاہیے تھا، مگر بوجوہ اس کا ذکرِ خیر بعدمیں کررہاہوں۔کراچی کو، بلدیہ کراچی کے اشتہارات میں ماضی قریب میں متعدد مختلف اور نئے القاب دینے والے اس"اختراع نگار"[Creative Copywriter]نے اس شہر ِ بے مثل کی تاریخ و جغرافیہ سے متعلق کئی کتب کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ، دو کتب کی تصحیح وتدوین،نیز ترمیم واضافہ، نظر ثانی کی خدمات انجام دی ہیں، جن میں ایک کراچی سے شایع ہوچکی ہے اور دوسری، بیرون ملک، اشاعت کی منتظر ہے۔انتہائی تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ ان تمام کتب کے مصنفین، مؤلفین، مرتبین ومترجمین نے کراچی کی وجہ تسمیہ پر لسانی بنیاد پر اس طرح کام نہیں کیا کہ کوئی حتمی رائے قایم کی جاسکے۔جدید تاریخ کی رُو سے شہر کراچی کی بِناء،ایک اور قدیم بندرگاہ کھارک /کھڑک بندر (دریائے حب کے نزدیک) کے اُجڑنے کے بعد، 1729ء میں سیٹھ بوجھومَل نے ڈالی، مگر یہ ایک بندرگاہ اور بستی کے طور پر کم وبیش چارہزار سال سے موجودہے۔ایک تحقیق تو یہ بھی کہتی ہے کہ کراچی کی جگہ پر موئن جو دَڑو سے بھی پانچ سو سال پہلے آبادی موجودتھی،جبکہ یہاں اب تک(محدودپیمانے پر)کی جانے والی تحقیق کے مطابق، یہ جگہ پتھر کے دور میں بھی آباد تھی جس کے آ ثار، صفورہ چوک، گلستان جوہر، ملیر، گزری، کلفٹن اور حب میں دریافت ہوچکے ہیں۔
خاکسارنے خود 1998ء میں صفورہ کے قریب، واقع سٹی ولاز میں مکان کی منتقلی کے کچھ عرصے کے بعد، وہاں ایسے قدیم پتھر دیکھے جن پر موجود آبی گزرگاہ کے نشانات اس اَمرکا ثبوت تھے کہ یہ علاقہ صدیوں پہلے دریا کے نیچے تھا۔اس بات کی تصدیق میرے عزیز دوست، ارضیات داں، سید آصف کمال نے بھی کی تھی۔(یہاں راقم ایک تاریخی انکشاف کرتا چلے۔روحانی ذرایع بشمول ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم کراچی کے ایک مقام پر، عہد بنی اسرائیل کی ایک ماہی گیر بستی کے آثاراور ایک نبی کی قبر کی موجودگی کا انکشاف کرچکے ہیں۔یہ مقام آج بھی موجود اور محفوظ ہے، مگر مصلحتا ً اس کا پرچارنہیں کیا جاسکتا۔مجھے ایک روحانی شخصیت نے اُن نبی کا نام بھی بتادیا تھا۔حساب لگائیں تویہ دوربھی کم وبیش چار سے پانچ ہزارسال پرانا ہی ہوگا)۔
کراچی کے تقریباً تیس قدیم ناموں میں کروکالا[Krokola](زمانہ ماقبل مسیح علیہ السلام، بشمول عہد اسکندراعظم یونانی)،ککرولا،ککرالو، بَاربَری کون(Barbarikon)،بَربَرِیس(Barbarice)، رأ س الکرازی، راس کراشی،کوراشی[Kaurashi]، خراچی، کلاچی، کلاچی جو کَن،(کلاچی نامی میر بحر یعنی ماہی گیر/ملاح کا ذخیرہ آب کے لیے کھودا ہوا گڑھا)، کلاچی جو گوٹھ، Nawa Nar،Rambagh،Kurruck،Karak Bander،Auranga Bandar،Minnagara،کریچی،کراچے ٹاؤن،کھوراجی،کُوراچی(Kurrachee) اورکرانچی شامل ہیں۔عربی میں مذکورناموں رأ س الکرازی، راس کراشی اور ترکی میں کوراشی کے ساتھ ساتھ، موجودہ عربی نام 'کراتشی' پر غور کریں تو بہت مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ایک روایت یہ ہے کہ اس شہر کو، ایرانی سیاحوں نے قدیم دورمیں، گدھا گاڑی کی نسبت سے 'خراچی' کہا تھا۔البتہ یہ سینہ گزٹ صریحاً غلط ہے کہ کراچی کسی بلوچ مائی کولاچی یا کلاچی کے نام سے موسوم یا منسوب ہے۔ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اس مشہور عام پرچارکی واضح طور پر تردید کی تھی کہ یہ نام کسی بلوچ خاتون کاہے یا اس کی اصل بلوچی ہے۔یہاں دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں:
ا)۔ اس بستی اور شہر کے قدیم ترین باشندوں میں شامل، موہانے یا ماہی گیر /ملاح، سندھ سے آئے تھے اور انھیں میر بحر بھی کہتے ہیں۔
ب)۔ انھی کا ایک قبیلہ آج بھی کراچو۔یا۔قلاچو/کلاچو کہلاتا ہے۔
جب ہم بلوچ نژاد سندھی، اردو محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تردید پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نام کی جڑیں کہیں اور ہیں۔
کروکالا اوربَاربَری کون دونوں ہی کراچی کے قریب واقع قدیم بندرگاہیں تھیں، جبکہ منوڑا کو "Morontobara" (Woman's Harbour) اور عربی تواریخ میں مناہرہ کہاجاتاتھا۔بعض پرانی کتب میں کراچی کو سہواً دیبل اور بھنبھور بھی قراردیا گیا کیونکہ اب تک کی تحقیق کے مطابق، فاتح سندھ محمد بن قاسم (رحمۃ اللہ علیہ) کے جہاز،پانی کے راستے یہاں، کراچی کے قریب، بھنبھور پہنچ کر لنگر اَنداز ہوئے، جسے دیبل کا اصل مقام کہاجاتا ہے، خود سپہ سالار، ایران سے خشکی کے راستے، لسبیلہ (بلوچستان) ہوتے ہوئے پہنچے تھے۔اُن کے عہد میں کراچی بستی کا وجود، کہیں آس پاس ہونا بعید اَ ز قیاس نہیں کہ اُن کی آمد کے بھی کوئی آٹھ سو سال بعد کے عرب مؤرخ نے "رأ س الکرازی" کا ذکر کیا ہے۔
کھارادَرکو فارسی میں خارادر۔اور۔خرادَر کہاجاتا ہے، کچھ بعید نہیں کہ قدیم دورمیں بھی یہی نام ہو اوراسے کچھی،گجراتی یا قدیم سندھی میں بگاڑ کر کھارادرکیا گیا ہو۔اس کی وجہ تسمیہ تو ظاہر ہے کہ نمکین پانی سے ہے، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب 1792ء میں اسی علاقے،بلکہ پورے کراچی میں، اولین آغاخانی داعی (مبلغ) غلام علی شاہ کا انتقال ہوا تو اُنھیں تدفین کے لیے،کِرا۔ یا۔ کِڑا(Kera)، لے جایا گیا۔یہ قدیم گاؤں کَچھ، گجرات (بھارت) کے تعلقہ بھوج[Bhuj Taluka of Kutch district of Gujarat] میں واقع ہے۔غور کریں تو صوتی اعتبار سے یہ نام بھی کراچی سے قریب ہے۔
کراچی کے گردونواح میں زمانہ قدیم سے چُونے کے ذخائر موجودہیں اور اِسے سفید چونے کے پتھر کی نسبت سے 'کراشہر' بھی کہاجاتا تھا۔یہ ابھی تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ "کرا" کس زبان کا لفظ ہے۔اس سے ایک قدم آگے کی بات خاکسار نے دریافت کی۔ترکی زبان میں چُونے کو"کِریچ"(Kireç) اور کلے[Kalay] کہتے ہیں، بِشناق یعنی بوسنیائی زبان میں بھی ہجے کے فرق سے یہی نام(krec)ہے، جبکہ باسک زبان میں یہ لفظ Karea(کری) ہے۔یہاں رُک کرمیرا لسانی قیاس بھی ملاحظہ فرمائیں۔ممکن ہے کہ "کرا" بمعنی چُونے کا پتھر اور "چی" بمعنی حامل، والا(ترکی) ملاکریہ نام، کراچی معرض وجودمیں آیا ہویعنی چُونے کے پتھر والا شہریا علاقہ۔
ایک طویل مدت تک مختلف ناموں اور مختلف ہجوں کے ساتھ پکارے جانے والے اس شہر کو، 1860ء میں کراچی ایوان صنعت وتجارت
کے قیام کے بعد، اُسی کے ایماء پر کراچی [Karachi]کہا اور لکھا جانے لگا۔اس سے قبل، اس بستی کے بطور شہر ترقی کا آغاز، انگریز کے قبضے کے بعد ہوا۔پہلے یہاں بلوچ حکمراں تھے جنھیں سیٹھ ناؤں مَل ہوت چند (1804ء تا1878ء) کی غداری کے طفیل، ایسٹ انڈیا کمپنی نے شکست دی۔سیٹھ کی یادداشتوں کا مجموعہ اُس کے پوتے، رائے بہادر اَلُو مَل ٹریکم داس کے انگریزی ترجمے کے طفیل 1915ء میں شایع ہوا، 1968ء میں اس کا ترجمہ سندھی میں اور ایک طویل مدت کے بعد، اردومیں ہوا۔
بندہ"کراچی کی ماں" لیاری کے متعلق بھی بہت دل چسپ ومتنوع علمی وادبی مواد فراہم ہوسکتا ہے، مگر بوجوہ اختصار سے کام لیتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس علاقے کی وجہ تسمیہ پر بحث ابھی طے نہیں ہوسکی، البتہ دیگر آراء سے قطع نظر، 'وادی لیاری' کے محقق، مدیر ومؤلف، محترم حمید ناضر صاحب کی یہ تحقیق،قرینِ قیاس ہے کہ یہ نام ایک جھاڑی 'لئی' سے منسوب ہے جسے اردو میں جھاؤ اور عربی میں غابہ کہاجاتا ہے۔قدیم دریائے لیاری(اور موجودہ لیاری ندی) کے ساتھ ساتھ اور شہر کے بعض دیگر مقامات پر بھی یہ جھاڑی پائی جاتی ہے۔(غابہ کا ذکر ہماری اسلامی تاریخ میں یوں بھی اہم ہے کہ ایک اہم غزوہ بھی اسی سے موسوم ہے۔سن سات ہجری میں غزوہ خیبر سے فقط تین دن پہلے پیش آنے والے اس غزوہ کو غزوہ ذی قرد بھی کہتے ہیں)۔
اب وطن عزیز کے دوسرے بڑے شہر لاہورکی بات ہوجائے۔اس کی وجہ تسمیہ ابھی تک یہی کہی جاتی رہی ہے کہ یہ رام چندرجی کے بیٹے 'لوہ' سے منسوب ہے۔نویں صدی عیسوی کے مسلم مؤرخ الاِدریسی نے اسے لَہاوَر لکھااور کوئی دوصدیوں بعد، نامور سائنس داں،البِیرونی نے اسے 'لوہارو' قراردیا، جبکہ سلطان محمود غزنوی کے دورمیں یہ ایک چھوٹا سا صوبہ بعنوان 'محمود پور' بھی ہوا کرتا تھا۔