سوائن فلو، خنزیر سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ اس کا سبب عام طور پر انفلوئنزا اے وائرس کی قسم H1A1 ہے۔ یہ وائرس انسان میں منتقل ہو کر اس کے دفاعی نظام کو کم زور کر دیتا ہے اور سوائن فلو کا سبب بنتا ہے۔
سوائن فلو کسی بھی عمر کے فرد کو لاحق ہو سکتا ہے، لیکن حاملہ عورت، دو سال سے کم عمر بچے، فربہ اور سانس یا دل کی بیماری میں مبتلا افراد میں اس سے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سوائن فلو متاثرہ افراد کے کھانسنے یا چھینکنے سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔
سوائن فلو نے 1918 میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس واقعے کے تقریباً 12 سال بعد پہلی دفعہ انفلوئنزا وائرس کو ایک بیماری کے سبب کے طور پر پہچانا گیا۔ بعد میں اس وائرس کی مختلف اقسام سامنے آئیں۔ دراصل فلو کا وائرس انسانی قوت مدافعت کو دھوکا دینے کے لیے خود کو مسلسل تبدیل کرتا رہتا ہے۔ 1976 میں امریکا میں سوائن فلو کے خلاف ویکسین پروگرام کا آغاز کیا گیا، لیکن ویکسین دیے جانے کے بعد چند افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور یہ پروگرام بند کر دیا گیا۔ حالاں کہ ان افراد کی موت ویکسین سے نہیں ہوئی تھی۔ 1998 میں امریکا اور 2007 میں فلپائن کے لوگ اس وبا کا شکار ہوئے اور پھر 2009 میں میکسیکو اور امریکا میں یہ فلو دوبارہ نمودار ہوا۔
انسان میں سوائن فلو کی علامات عام فلو سے ملتی جلتی ہیں۔ ان میں بخار، کھانسی، گلے میں خراش، ناک کا بہنا، جسم درد، تھکاوٹ، سردی لگنا، متلی، الٹیاں اور چھینکیں آنا شامل ہیں۔ سوائن فلو کی شدت کی صورت میں سانس کا تیز تیز چلنا، جلد کا رنگ نیلا یا سرمئی ہو جانا، مستقل قے اور چڑ چڑے پن کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ سوائن فلو کی پیچیدگیوں میں نظام تنفس کا فیل ہو جانا، نمونیا، تیز بخار اور ڈی ہائیڈریشن شامل ہیں۔
سوائن فلو کی تشخیص کے لیے بیماری کے پہلے ہفتے میں مریض کے گلے اور ناک کی رطوبتوں کو لیبارٹری میں بھیجا جاتا ہے۔ ایک ٹیسٹ میں انفلوئنزا وائرس کی موجودگی جب کہ دوسرے میں اس کی قسم H1N1 کو چیک کیا جاتا ہے۔ فلو کی جلدی تشخیص سے نہ صرف مریض جلد ٹھیک ہو جاتا ہے بلکہ اس سے فلو کے دوسروں تک پھیلائو کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ فلو کے علاج کے لیے دافع وائرس ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ درج ذیل باتوں کا خیال کر کے مرض کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے ۔
ورزش کریں۔ لمبے لمبے سانس لیں۔ دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں اور پریشانی سے بچیں۔ ذہنی تناؤ اور الجھنیں جسم کی وائرس کے خلاف قوت مدافعت کو کم کر دیتی ہیں۔ میٹھے کا استعمال نہ کریں۔ اس سے خون کے سفید خلیوں کا کام متأثر ہوتا ہے جو کسی بھی بیماری کے خلاف اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ نیند لیں، کیوں کہ اس سے دماغ میں ایسا مادہ پیدا ہوتا ہے،جو قوت مدافعت بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ وٹامنز کی گولیاں لیں اور زیادہ وقت دھوپ میں بیٹھیں۔ اس سے جسم میں وٹامن ڈی پیدا ہوتا ہے اور یہ بھی قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔
اس بیماری کی روک تھام کے لیے تین قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے خنزیروں میں اس بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیے تدبیر کی جائے۔ اس کے لیے ویکسین اور جراثیم کُش ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی جانور کو یہ بیماری لگ جائے تو اسے دوسرے جانوروں سے فوراً الگ کر دیا جائے۔ دوسرے مرحلے میں اس فلو کو جانوروں سے انسانوں تک پھیلنے سے روکا جائے۔ اس مقصد کے لیے جانوروں کی دیکھ بھال پر مامور افراد منہ پر حفاظتی ماسک اور دستانوں کا استعمال کریں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس بیماری کو انسانوں کے درمیان پھیلنے سے روکا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متأثرہ شخص کو صحت یاب ہونے تک علیحدہ رکھا جائے۔ کھانستے اور چھینکتے ہوئے منہ پر رومال رکھا جائے تاکہ اس سے وائرس پھیلنے نہ پائے۔ کھانے سے پہلے صابن یا الکحل والے محلول سے اچھی طرح ہاتھ دھوئے جائیں۔