لولی لنگڑی حکومت بھی قبول ہے
ایف آئی آر کے تنازعے نے پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی ایک بحران میں مبتلا کر دیا ہے
سیاسی جماعتیں اپنے نظریے اور منشور پر اقتدار حاصل کرتی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منشورکو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتی ہیں۔
لوگ سیاسی جماعت کے نظریے اور منشور کو ہی ووٹ دیتے ہیںاور اقتدار کے بعد اپنے نظریے اور منشور کو عملی جامہ پہنانا ہی سیاسی جماعت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، جو سیاسی جماعت اقتدار میں آکر اپنے نظریے اور منشور سے ہٹ جائے' اسے دوبارہ ووٹ مانگنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔
میں عمران خان کی باتوں پر نہیں ان کے عمل پر نظر رکھتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ان کی گفتگو اور عمل آپس میں مطابقت نہیں رکھتے تو تنقید کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ یہی اصول دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ہے۔
اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان نے بیانیہ بنایا کہ وہ ایک بے اختیار وزیر اعظم تھے اس لیے اپنے نظرئیے اور عوام سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کر سکے۔ انھوں نے متعدد بار کہا کہ ان کے پاس طاقت نہیں تھی۔ وہ مجبور تھے۔
حالانکہ مجھے ان کے اس موقف سے بھی اختلاف تھا' انھیں اپنے دور اقتدار میں یہ بات کرنی چاہیے تھی۔ اقتدار سے نکل کر یہ بات کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ۔ وہ دوران اقتدار کہتے رہے این آر او نہیں دونگا اور اقتدار سے نکل کر کہنے لگے میرے پاس تو این آر او دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، وہ بطور وزیر اعظم نیب کی کامیابیاں گنواتے تھکتے نہیں تھے اور اب اقتدار سے نکل کر کہہ رہے ہیں نیب میرے کنٹرول میں تھا ہی نہیں۔ قائد حزب اختلاف کی گرفتاری پر تالیاں اور جشن منانے والے عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔
لیکن پھر بھی ان کے حامیوں کی اکثریت نے یہ بات مان لی کہ ان کے پاس اختیار نہیں تھا۔ اس لیے وہ اپنے منشور اور نظریے پر عمل نہیں کرسکے حالانکہ وہ بطور وزیر اعظم یہ بھی کہتے رہے کہ یوٹرن لینا ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہے، اور اپنے تمام تر یوٹرن کو جائز قرار دیتے رہے۔
بہر حال عمران خان کے حامیوں کی یہ بھی دلیل ہے کہ پرانی بات نہ کی جائے اقتدار سے نکلنے کے بعد ایک نئے عمران خان کا جنم ہوا ہے۔
اب وزیر آباد واقعہ کو ہی دیکھ لیں۔ ویسے تو سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو چوبیس گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس میں یہ آپشن بھی دیا گیا ہے کہ ریاست اپنی مدعیت میں بھی ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں ایف آئی آر کا معاملہ حل ہو گیا ہے، لیکن آئی جی نے سپریم کورٹ کو بتا دیا کہ ایف آئی آر کیوں درج نہیں ہوئی ہے۔
عمران خان اپنی پسند کی ایف آئی آر درج نہیں کروا سکے ہیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اتنے بے بس ہیں کہ ایک ایف آئی درج نہیں کروا سکتے۔ لیکن اتنا بے بس اور لولا لنگڑا اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں۔ یہ کیا سیاسی حکمت عملی ہے کہ آپ اپنی ہی حکومت میں اپنی ہی بے بسی پر رو رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں روزانہ سیکڑوں جھوٹی ایف آئی آر درج ہوتی ہیں۔ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 154میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سیکشن 154 کی موجودہ شکل جھوٹی ایف آئی آر کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں۔ یہ پابند کرتی ہے کہ مدعی جو بھی کہے وہ بطور ایف آئی آر درج کیا جائے۔ چاہے مدعی جھوٹ ہی بول رہا ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی وجہ سے ہمارے ملک میں نوے فیصد سے زائد ایف آئی آر جھوٹی درج ہوتی ہیں۔ عدالتیں بھی جھوٹی ایف آئی آر کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔
وہ یہ موقف دیتی ہے کہ اگر جھوٹیٰ ہو گی تو خارج ہو جائے گی۔ تفتیش ہونے دیں۔ پولیس کے ضابطہ میں ایف آئی آر کے بعد تفتیش ہوتی ہے جب کہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن میں پہلے تفتیش ہوتی ہے پھر ایف آئی آر ہوتی ہے۔ اس لیے عمران خان جو ایف آئی آر درج کروانا چاہتے ہیں اس کو قانون کے مطابق نہیں روکا جا سکتا۔ اس لیے ان کی بے بسی اور بے اختیاری لا جواب ہے۔
اس وقت تحریک انصاف سارا غصہ آئی جی پر نکال رہی ہے۔آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے وفاقی حکومت کو خط لکھا ہے کہ انھیں پنجاب سے مرکز میں واپس بلا لیا جائے۔ لیکن وفاق نے ان کے خط کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لیے وہ بدستور آئی جی پنجاب ہیں۔ پنجاب حکومت تو پی ٹی آئی کی اپنی ہے۔ آئی جی کو ہٹانے کے بجائے خود حکومت چھوڑنے کی بات کرنی چاہیے۔ اگر آپ کے پاس اختیار نہیں ہے تو اقتدار سے چمٹے رہنے کا کیا جواز ہے۔ ذرایع یہی بتارہے ہیں کہ حکومت کے اندر بھی لڑائی جاری ہے۔
بے شک اوپر سے آئی جی ہی نشانے پر ہے، لیکن اندر اتحاد میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہے۔ بے شک تحریک انصاف نے اپنے لوگوں کو وزیر اعلیٰ کا نام لینے سے منع کیا ہے۔ لیکن ڈرائنگ رومز میں وزیر اعلیٰ ہی نشانے پر ہیں۔ اعجاز چوہدری کے بیان نشانے پر ہیں۔ معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن سیاسی محفلوں میں کہانی سب پر عیاں ہے۔ تا ہم عمران خان حکومت چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ حکومت میں بیٹھے رہنا چاہتے ہیں۔
میں نہیں سمجھتا عمران خان کبھی پنجاب حکومت نہیں چھوڑیںگے۔ وہ خود بے شک اسٹبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ چلا رہے ہوں۔ لیکن انھیں چوہدری پرویز الٰہی اس لیے قبول ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ہینڈل کرنا جانتے ہیں۔ لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر چوہدری پرویز الٰہی قبول ہیں تو فیصل وواڈا کیوں قبول نہیں'وہ بھی تو اسٹبلشمنٹ کی ہی بات کر رہے تھے۔
ایف آئی آر کے تنازعے نے پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی ایک بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ وفاق اور پنجاب کی لڑائی نے افسر شاہی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ چیف سیکریٹری چھٹی پر ہیں۔ آئی جی جانے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی آنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے سب ٹھیک نہیں۔
کیا چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کی اسمبلی توڑ دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں جیسا تنازعہ پیدا ہو گیا ہے اب عمران خان کہیں گے تب بھی وہ نہیں توڑیں گے۔
اس لیے عمران خان کمزور ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ پنجاب میں بھی اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔ لیکن عمران خان یہ نہیں کریں گے۔ انھیں علم ہے کہ پنجاب حکومت لولی لنگڑی ہی سہی اپنی تو ہے۔ اگر چلی گئی تو چھپنے کی جگہ بھی نہیں رہے گی۔ اس لیے بات کہنا آسان ہے اس پر عمل کرنا مشکل ۔ انھیں کل بھی لولا لنگڑا اقتدار قبول تھا۔ آج بھی قبول ہے۔کل بھی قبول ہو گا ۔ یہی حقیقت ہے۔