اندھیر نگری چوپٹ راج

لوٹ مار تو کجا چوری چکاری کی واردات کی بھی کسی میں جرات نہ تھی

S_afarooqi@yahoo.com

وطن عزیز پاکستان کا معرض وجود میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ تائید خداوندی اور بابائے قوم کی بصیرت، دور اندیشی اور بے مثل قیادت کے علاوہ برصغیر کے مسلمانوں کی بے دریغ قربانیوں کا ثمر ہے۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی عنایت کی گئی بصیرت اور دور اندیشی نے اْن پر یہ عقدہ کھول دیا کہ جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ ہندو قیادت کی ایک گہری چال ہے اور اگر یہ چال کامیاب ہوگئی تو انگریزوں کی غلامی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی کرنا پڑے گی چناچہ ہندوؤں کی چال کو بھانپنے کے بعد قائد اعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو موتیوں کی ایک لڑی میں پرو کر مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹھا کرکے ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا تھا۔

اس وقت یہ نعرہ تھا ''مسلم ہے تو لیگ میں آ'' قائد اعظم کی سیاسی بصیرت نے کانگریس کی ہندو لیڈرشپ کو بوکھلا کر رکھ دیا اور سیاست کا پانسہ پلٹ دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ مسلمانوں کی ایک ناقابل تسخیر جماعت بن گئی اور کانگریسی قیادت کا اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور ہوگیا۔

قائد اعظم کی پرخلوص اور پرعزم قیادت نے سارا نقشہ ہی پلٹ دیا اور 14 اگست 1947 کو پاکستان ایک خواب سے حقیقت بن کر دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ہمارے ملک و قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ قائد کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ قیامِ پاکستان کے تھوڑے ہی عرصہ بعد رحلت کر کے ہمیں ناپختہ چھوڑ گئے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جیسے کسی باپ کا سایہ اولاد کے سر سے اچانک اٹھ جائے اور اولاد ناپختہ اور نا تجربہ کار ہو تو اْسے کافی دشواریاں پیش آتی ہیں چناچہ ہم حالات کے نرغہ میں پھنس گئے۔اقتدار کی بھوکی قوتوں نے قائد اعظم کی ہمشیرہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے طاقت کے بل بوتے پر ملک و قوم کی عظمت کے لیے آگے بڑھنے سے روک دیا۔

اس کے بعد میوزیکل چیئرز کا جو کھیل شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا سوائے اْن دس برسوں کے جب اقتدار جنرل ایوب خان کے ہاتھوں میں آیا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں ملک و قوم نے ترقی کی کئی منزلیں طے کیں اور زراعت اور صنعتی ترقی کا عروج ہوا۔ملک و قوم نے عشرہ ترقی کا جشن منایا۔


قطعہ نظر اس کے کہ جمہوری تھا یا غیر جمہوری اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وطن ِ عزیز نے خوشحالی کے بہت سے ثمرات حاصل کیے اور عوام نے سکھ چین سے اپنی زندگی گزاری جسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ حکومت چاہے جو بھی ہو اور اْس کے اوپر کوئی بھی لیبل لگا ہوا ہو مگر اْس کی اچھائی برائی یا کامیابی و ناکامی کی کسوٹی یہ ہے کہ عوام الناس سکھ چین سے ہوں اور وہ اطمینان کا سانس لے رہے ہوں۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جہاں بادشاہی ہونے کے باوجود رعایا کی جان و مال، عزت و آبرو اور امن و سکون کے ساتھ گزرتی تھی۔

مثال کے طور پر شیر شاہ سوری کی حکمرانی کے دور کو لے لیجیے۔ اْس زمانہ میں نہ کوئی روڈ رولر اور نہ کوئی ایسی مشینیں تھیں جو آج کے دور میں باآسانی دستیاب تھیں۔جنگل بیابان، خاردار کانٹے اور خونخوار جانور آزادی سے گھومتے پھرتے تھے لیکن تمام مشکلات کے باوجود بادشاہِ وقت نے پشاور سے لے کر کلکتہ تک وہ تاریخی شاہراہ بنوا دی جسے گرانٹ ٹرنک روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

ذرا غور فرمائیے کہ یہ کتنا بڑا کارنامہ ہے۔ شیر شاہ سوری نے نہ صرف یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا بلکہ اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ رات دن کے کسی بھی پہر یہ سڑک ہر طرح سے محفوظ تھی۔ انتہا یہ کہ اگر رات کے کسی بھی پہر کوئی عورت زیورات سے لدی پھندی تن تنہا اِس سڑک پہ سے گزر رہی ہو تو کسی مائی کے لال کی یہ مجال نہ تھی کہ اْس کے نزدیک بھی پھٹک سکے چہ جائیکہ چھیڑ چھاڑ کرسکے یا اْسے گزند پہنچا سکے۔

لوٹ مار تو کجا چوری چکاری کی واردات کی بھی کسی میں جرات نہ تھی، اگر کسی جگہ کوئی واردات ہوجائے تو اْس علاقہ کے نگراں کی خیر نہ تھی کیونکہ ساری ذمے داری اْسی پر عائد ہوتی تھی۔ آج عالم یہ ہے کہ جس علاقہ میں کوئی واردات ہوجائے تو تھانیدار کی کوئی گرفت نہیں ہوتی۔دوسری مثال علاؤالدین خلجی کے دور حکمرانی کی ہے۔اْس زمانہ میں نہ موٹر گاڑیاں تھیں اور نہ ٹیلیفون کا نظام تھا۔ آمد و رفت بہت مشکل اور وقت طلب تھیں۔

شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ مملکت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اشیاء ضرورت کی قیمتیں یکساں ہوتی تھیں اور فروخت کرنے والے کی ہمت نہ تھی کہ وہ کوئی چیز مہنگی فروخت کر سکے یا ناجائز منافع کما سکے۔

اْس دور کا مقابلہ آج کے ترقی یافتہ دور کے ساتھ کریں جس پر جمہوریت کا لیبل چسپاں ہے اور اندھیر نگری چوپٹ راج کا عالم یہ ہے کہ ہر چیز کی قیمت بے لگا ہے اور کسی کو نہ خدا کا خوف ہے اور نہ پکڑے جانے کا خطرہ۔سب سے خراب حربہ یہ ہے کہ جس چیز کی قیمت بڑھانی ہو اْسے بازار سے غائب کردیا جاتا ہے۔اِس میں زندگی بچانے والی ادویات تک شامل ہیں جس کا ہمیں بذاتِ خود تجربہ ہے جو دوائیں چند روز قبل باآسانی ملا کرتی تھیں وہ نہ صرف کمیاب ہیں بلکہ بہت مشکل سے تگ و دو کرنے کے بعد دگنی اور چوگنی قیمت پر دستیاب ہیں۔
Load Next Story