ساس اپنی بہو کی خدمت نہیں کرسکتی
ہمیں ’حسن اخلاق‘ کے ذریعے ’خدمت‘ کے روایتی دائروں سے باہر آنا ہوگا
''امی پلیز میرے لیے بھی سینڈوچ بنا دیں۔''
زارا نے امی کو بھائی کے لیے ناشتا بناتے ہوئے دیکھا تو کہہ دیا ۔
طبیعت ٹھیک ہے تمہاری ؟ امی بنائیں گی تمھارے لیے ناشتا۔۔۔؟ بہ جائے اس کے کہ تم امی کے لیے بناؤ۔''امی کے کچھ جواب دینے سے پہلے ہی اس کے بھائی معاذ نے ایک ناگواری سے کہا ۔
''تو تمھارے لیے بھی تو بناہی رہی ہیں نا ں، میرے لیے بھی بنادیں گی تو کیا ہوگا۔ امی کوئی بات تو نہیں ہے ناں۔''
زارا نے حیرت سے کہا۔
''نہیں بھئی، بلکہ میں نے سب کے لیے ہی بنا دیا ہے، تم بھابی کو بھی بلا لاؤ ، وہ بھی معاذ کے ساتھ رات بھر کی جاگی ہوئی ہیں۔'' امی نے کہا، تو زارا جو ابھی اپنے لیے امی کو ناشتا بنانے کا کہہ رہی تھی بول اٹھی:
''امی آپ ساس ہیں، کبھی ساسیں بھی بہوؤں کے لیے ناشتا بناتی ہیں، ہم نے تو کہیں نہیں دیکھا بہوؤں کے اتنے نخرے اٹھاتے کسی کو۔'' وہ ناگواری سے بولی۔
اکثر ہی گھروں میں بلکہ زیادہ تر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ بیٹے،بھائی ، شوہر ، ساس سسر کے ہی کاموں کو اہمیت دی جاتی ہے، چاہے وہ گھر کی عورتوں کو عزت دیں یا نہ دیں۔
ان کے کام کریں نہ کریں، مگر کیوں کہ وہ مرد ہیں اس لیے ان کے کام بھی عورتوں کوکرنے ہی ہیں اور یہ گھر کی عورتوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ گھر کا مرد باہر سے روزی روٹی کما کر گرمی اور ماحول کی سختی جھیل کر گھر آئے، تو اس کو گھر کا آرام ملے، تاکہ جو دوڑ دھوپ وہ اپنے گھر والوں کے لیے کر رہا ہے اس کو معلوم ہو کہ گھر والوں کو اس کی محنت کا احساس ہے اور یہ احساس اس کو دوسرے دن کے لیے پھر تازہ دم کردیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی گھر میں موجود خواتین بھی جو سارا دن نظر نہ آنے والے کام کاج خاموشی سے سر انجام دے رہی ہوتی ہیں وہ بھی ستائش کی متمنی ہوتی ہیں۔
گھر کی وہ کنواری بیٹی یا بہن جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ بہ ظاہر سارا دن آرام کرتی یا بھانجوں بھتیجوں سے کھیلتی یا لڑتی ہوئی نظر آ رہی ہوتی ہے، وہ بھی کتنے ہی چھوٹے موٹے کام ایسے کر رہی ہوتی ہے، جو کسی کی بھی نظر میں کام نہیں ہوتے۔
یا وہ بہو جو رات رات بھر بچوں کے ساتھ جاگتی ہے اور پھر صبح ہوتے ہی چائے کی بڑا سی پیالی پی کر زبردستی اپنی آنکھیں کھول کر کام میں جُت جاتی ہے، ان دونوں کو بھی اگر ماں یا ساس اپنے ہاتھ سے ناشتا بنا کر دے دے یا ان کو زیادہ دیر تک صبح سونے دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ساسیں اگر بہو کو کچھ آرام دے رہی ہیں، تو اللّہ کی رضا کے لیے کریں۔ بہو سے بدلے کی چاہ نہ ہو، بلکہ یہ سوچ کر کریں کہ آج آپ کسی کی بیٹی کو آرام دیں گی، تو کل ان شاء اللہ آپ کی بیٹی کو بھی قدردان لوگ ملیں گے۔
اس موقعے پر بہو اور بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ ساس کی قدر کریں، ضروری نہیں ہے کہ ان کی بڑائی کا بدلہ بڑائی سے ہی دیں وہ آپ سے عمر میں کئی گنا بڑی ہیں اور ان کے دماغ میں بھی کوئی ایک نہیں بلکہ کتنے ہی کام چل رہے ہوتے ہیں تو جیسے ساسیں بہوؤں کو مارجن دیتی ہیں ایسی ہی بہوؤں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ گھر میں ان کے آنے سے یقیناً کچھ تبدیلیاں آتی ہیں، ان کو قبول کرنے میں ساسوں کو بھی وقت لگتا ہے۔
صرف چھوٹوں یعنی بہو اور بیٹی ہی کا فرض نہیں ہے کہ ماں اور ساس کی خدمت کرے بلکہ بڑوں کو بھی اپنا بڑاپن دکھاتے ہوئے اپنا دامن وسیع رکھنا چاہیے۔ آخر یہ روایتی بدنام اور دوریوں سے آراستہ رشتہ کیسے اپنا تاثر بہتر یا اچھا کرے گا؟
زارا نے امی کو بھائی کے لیے ناشتا بناتے ہوئے دیکھا تو کہہ دیا ۔
طبیعت ٹھیک ہے تمہاری ؟ امی بنائیں گی تمھارے لیے ناشتا۔۔۔؟ بہ جائے اس کے کہ تم امی کے لیے بناؤ۔''امی کے کچھ جواب دینے سے پہلے ہی اس کے بھائی معاذ نے ایک ناگواری سے کہا ۔
''تو تمھارے لیے بھی تو بناہی رہی ہیں نا ں، میرے لیے بھی بنادیں گی تو کیا ہوگا۔ امی کوئی بات تو نہیں ہے ناں۔''
زارا نے حیرت سے کہا۔
''نہیں بھئی، بلکہ میں نے سب کے لیے ہی بنا دیا ہے، تم بھابی کو بھی بلا لاؤ ، وہ بھی معاذ کے ساتھ رات بھر کی جاگی ہوئی ہیں۔'' امی نے کہا، تو زارا جو ابھی اپنے لیے امی کو ناشتا بنانے کا کہہ رہی تھی بول اٹھی:
''امی آپ ساس ہیں، کبھی ساسیں بھی بہوؤں کے لیے ناشتا بناتی ہیں، ہم نے تو کہیں نہیں دیکھا بہوؤں کے اتنے نخرے اٹھاتے کسی کو۔'' وہ ناگواری سے بولی۔
اکثر ہی گھروں میں بلکہ زیادہ تر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ بیٹے،بھائی ، شوہر ، ساس سسر کے ہی کاموں کو اہمیت دی جاتی ہے، چاہے وہ گھر کی عورتوں کو عزت دیں یا نہ دیں۔
ان کے کام کریں نہ کریں، مگر کیوں کہ وہ مرد ہیں اس لیے ان کے کام بھی عورتوں کوکرنے ہی ہیں اور یہ گھر کی عورتوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ گھر کا مرد باہر سے روزی روٹی کما کر گرمی اور ماحول کی سختی جھیل کر گھر آئے، تو اس کو گھر کا آرام ملے، تاکہ جو دوڑ دھوپ وہ اپنے گھر والوں کے لیے کر رہا ہے اس کو معلوم ہو کہ گھر والوں کو اس کی محنت کا احساس ہے اور یہ احساس اس کو دوسرے دن کے لیے پھر تازہ دم کردیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی گھر میں موجود خواتین بھی جو سارا دن نظر نہ آنے والے کام کاج خاموشی سے سر انجام دے رہی ہوتی ہیں وہ بھی ستائش کی متمنی ہوتی ہیں۔
گھر کی وہ کنواری بیٹی یا بہن جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ بہ ظاہر سارا دن آرام کرتی یا بھانجوں بھتیجوں سے کھیلتی یا لڑتی ہوئی نظر آ رہی ہوتی ہے، وہ بھی کتنے ہی چھوٹے موٹے کام ایسے کر رہی ہوتی ہے، جو کسی کی بھی نظر میں کام نہیں ہوتے۔
یا وہ بہو جو رات رات بھر بچوں کے ساتھ جاگتی ہے اور پھر صبح ہوتے ہی چائے کی بڑا سی پیالی پی کر زبردستی اپنی آنکھیں کھول کر کام میں جُت جاتی ہے، ان دونوں کو بھی اگر ماں یا ساس اپنے ہاتھ سے ناشتا بنا کر دے دے یا ان کو زیادہ دیر تک صبح سونے دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ساسیں اگر بہو کو کچھ آرام دے رہی ہیں، تو اللّہ کی رضا کے لیے کریں۔ بہو سے بدلے کی چاہ نہ ہو، بلکہ یہ سوچ کر کریں کہ آج آپ کسی کی بیٹی کو آرام دیں گی، تو کل ان شاء اللہ آپ کی بیٹی کو بھی قدردان لوگ ملیں گے۔
اس موقعے پر بہو اور بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ ساس کی قدر کریں، ضروری نہیں ہے کہ ان کی بڑائی کا بدلہ بڑائی سے ہی دیں وہ آپ سے عمر میں کئی گنا بڑی ہیں اور ان کے دماغ میں بھی کوئی ایک نہیں بلکہ کتنے ہی کام چل رہے ہوتے ہیں تو جیسے ساسیں بہوؤں کو مارجن دیتی ہیں ایسی ہی بہوؤں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ گھر میں ان کے آنے سے یقیناً کچھ تبدیلیاں آتی ہیں، ان کو قبول کرنے میں ساسوں کو بھی وقت لگتا ہے۔
صرف چھوٹوں یعنی بہو اور بیٹی ہی کا فرض نہیں ہے کہ ماں اور ساس کی خدمت کرے بلکہ بڑوں کو بھی اپنا بڑاپن دکھاتے ہوئے اپنا دامن وسیع رکھنا چاہیے۔ آخر یہ روایتی بدنام اور دوریوں سے آراستہ رشتہ کیسے اپنا تاثر بہتر یا اچھا کرے گا؟