قدرتی بیٹری
ہوا اور شمسی توانائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی
سائنس داں ہوا اور شمسی توانائی سے جڑی ایجادات اور اس ضمن میں مختلف تجربات میں مصروف ہیں۔
قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو فائدہ پہنچانے کی کوششوں کے ضمن میں اب تک کئی ایجادات سامنے آچکی ہیں۔ حال ہی میں امریکی محققین نے ہوا اور شمسی توانائی کے ذرایع سے پیدا ہونے والی بجلی کو ذخیرہ کرنے کی سمت میں ایک اہم پیش رفت کی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے بڑے پیمانے پر بجلی کو گرڈ کے اندر ذخیرہ کرنے کے قابل بیٹری ٹیکنالوجی کے ایک منصوبے کا تصور پیش کیا ہے۔ گرڈ کی سطح پر شمسی توانائی کو ذخیرہ کرنے کا خیال ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ سکتا ہے۔ چند ماہ قبل نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنس دانوں نے کم وزن رکھنے والی لچک دار بیٹری تیار کرنے میں کام یابی حاصل کی تھی۔ یہ بیٹری کسی دھات پر مشتمل نہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر اس کی تیاری میں عام کاغذ استعمال کیا گیا۔
سائنس دانوں نے کاغذ کو برقی توانائی ذخیرہ کرنے والی ڈیوائس میں تبدیل کر کے منہگی بیٹریوں سے نجات کی امید پیدا کی ہے۔ حالیہ تجربہ بھی بیٹری سے متعلق ہے اور یہ کم لاگت ہو گی، مگر یہ ذرا مختلف معاملہ ہے۔ روایتی بیٹری کا ڈیزائن بڑے پیمانے پر توانائی کو سستے طریقے سے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے منہگے کیمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال مشکل ہوتی ہے۔ ویناڈیم تجارتی سطح پر استعمال ہونے والی سب سے اعلیٰ درجے کی بیٹری ٹیکنالوجی ہے، لیکن اس کی قیمت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بیٹریوں میں قیمتی دھات پلاٹینیم عمل انگیز کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئی بیٹری ویناڈیم بیٹری کی طرح ہی کام کرتی ہے، لیکن اس میں قیمتی دھات کا بہ طور عمل انگیز استعمال نہیں ہو گا۔ اس میں دھات کے بجائے قدرتی طور پر پائے جانے والے کیمیکل کونون کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ مرکبات پانی میں گھل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور قدرتی کاربن پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیٹریوں کی طرح اس بیٹری میں بھی توانائی سیال مادے میں ذخیرہ کی جاتی ہے، جسے ایک بیرونی ٹینک میں رکھا جاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کاروں اور موبائل آلات میں پائی جانے والی بیٹریاں ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایندھن سیل کی طرح ہی ہے۔ اس میں توانائی کو ہائیڈروجن گیس کے طور پر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور کیمیائی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ تاہم اس بیٹری کو چلانے کے لیے آگے اور پیچھے کھینچنے کی ضرورت پڑے گی۔ جب کیمیائی توانائی کے طور پر برقی توانائی جمع کریں گے تو اسے پیچھے کی طرف چلانا ہوگا اور واپس کیمیائی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بیٹری کو آگے کی طرف چلانا ہوگا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بیٹری میں توانائی کے ذخیرہ کرنے کی مقدار کا مجموعہ ٹینک کے سائز اور کیمیکل کی مقدار پر منحصر ہے۔ یہ نئی بیٹری اگر طویل مدتی صلاحیت اور توانائی کی بچت کے لیے کارکردگی ظاہر کرے اور عملی طور پر مفید ہو تو توانائی ذخیرہ کرنے کا ایک بہترین طریقہ ثابت ہو گی۔
ماہرین اس ٹیکنالوجی کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے اس بیٹری کے تصور پر کام یاب تجربات کرسکے تو یہ قدرتی ذرایع سے گرڈ کی سطح پر بجلی کو ذخیرہ کرنے کے باب میں اہم پیش رفت ہو گی۔
قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو فائدہ پہنچانے کی کوششوں کے ضمن میں اب تک کئی ایجادات سامنے آچکی ہیں۔ حال ہی میں امریکی محققین نے ہوا اور شمسی توانائی کے ذرایع سے پیدا ہونے والی بجلی کو ذخیرہ کرنے کی سمت میں ایک اہم پیش رفت کی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے بڑے پیمانے پر بجلی کو گرڈ کے اندر ذخیرہ کرنے کے قابل بیٹری ٹیکنالوجی کے ایک منصوبے کا تصور پیش کیا ہے۔ گرڈ کی سطح پر شمسی توانائی کو ذخیرہ کرنے کا خیال ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ سکتا ہے۔ چند ماہ قبل نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنس دانوں نے کم وزن رکھنے والی لچک دار بیٹری تیار کرنے میں کام یابی حاصل کی تھی۔ یہ بیٹری کسی دھات پر مشتمل نہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر اس کی تیاری میں عام کاغذ استعمال کیا گیا۔
سائنس دانوں نے کاغذ کو برقی توانائی ذخیرہ کرنے والی ڈیوائس میں تبدیل کر کے منہگی بیٹریوں سے نجات کی امید پیدا کی ہے۔ حالیہ تجربہ بھی بیٹری سے متعلق ہے اور یہ کم لاگت ہو گی، مگر یہ ذرا مختلف معاملہ ہے۔ روایتی بیٹری کا ڈیزائن بڑے پیمانے پر توانائی کو سستے طریقے سے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے منہگے کیمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال مشکل ہوتی ہے۔ ویناڈیم تجارتی سطح پر استعمال ہونے والی سب سے اعلیٰ درجے کی بیٹری ٹیکنالوجی ہے، لیکن اس کی قیمت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بیٹریوں میں قیمتی دھات پلاٹینیم عمل انگیز کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئی بیٹری ویناڈیم بیٹری کی طرح ہی کام کرتی ہے، لیکن اس میں قیمتی دھات کا بہ طور عمل انگیز استعمال نہیں ہو گا۔ اس میں دھات کے بجائے قدرتی طور پر پائے جانے والے کیمیکل کونون کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ مرکبات پانی میں گھل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور قدرتی کاربن پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیٹریوں کی طرح اس بیٹری میں بھی توانائی سیال مادے میں ذخیرہ کی جاتی ہے، جسے ایک بیرونی ٹینک میں رکھا جاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کاروں اور موبائل آلات میں پائی جانے والی بیٹریاں ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایندھن سیل کی طرح ہی ہے۔ اس میں توانائی کو ہائیڈروجن گیس کے طور پر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور کیمیائی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ تاہم اس بیٹری کو چلانے کے لیے آگے اور پیچھے کھینچنے کی ضرورت پڑے گی۔ جب کیمیائی توانائی کے طور پر برقی توانائی جمع کریں گے تو اسے پیچھے کی طرف چلانا ہوگا اور واپس کیمیائی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بیٹری کو آگے کی طرف چلانا ہوگا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بیٹری میں توانائی کے ذخیرہ کرنے کی مقدار کا مجموعہ ٹینک کے سائز اور کیمیکل کی مقدار پر منحصر ہے۔ یہ نئی بیٹری اگر طویل مدتی صلاحیت اور توانائی کی بچت کے لیے کارکردگی ظاہر کرے اور عملی طور پر مفید ہو تو توانائی ذخیرہ کرنے کا ایک بہترین طریقہ ثابت ہو گی۔
ماہرین اس ٹیکنالوجی کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے اس بیٹری کے تصور پر کام یاب تجربات کرسکے تو یہ قدرتی ذرایع سے گرڈ کی سطح پر بجلی کو ذخیرہ کرنے کے باب میں اہم پیش رفت ہو گی۔