فوٹو ریسیپٹر

کم زور بصارت اور بینائی سے محروم افراد کے لیے نوید

کم زور بصارت اور بینائی سے محروم افراد کے لیے نوید۔ فوٹو : فائل

پردۂ چشم کی خرابی اور بصارت سے محرومی سے بچاؤ کے لیے طبی تحقیق اور تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موتیا، بڑھاپے میں بینائی کے مسائل اور ذیابیطس سے بصارت متأثر ہونے کے 80 فی صد واقعات میں جلد تشخیص اور علاج کی مدد سے نہ قابو پایا جاسکتا ہے۔ بصارت کی کم زوری یا اس سے محرومی کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ موتیے کی وجہ سے آنکھ کے قدرتی عدسے میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے، جس سے نظر دھندلا جاتی ہے اور دہرا نظر آتا ہے، رات کے وقت دیکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔آنکھوں کا معائنہ کرانے سے تشخیص کی صورت میں عینک، محدب عدسے اور مناسب روشنی کی مدد سے اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔


اگر ان تدابیر سے فرق نہ پڑے تو آپریشن کے ذریعے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس آپریشن میں آنکھ کے قدرتی عدسے کی جگہ مصنوعی عدسہ لگا دیا جاتا ہے۔ یہ طریقۂ علاج پاکستان میں عام ہے۔ کالا موتیا اندھے پن کی ایک اہم وجہ مانا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آنکھ کے اندر پڑنے والا دباؤ اس مرض کا سبب ہے، جس سے بصارت رفتہ رفتہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مسائل بھی بصارت کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔


طبی محققین کا کہنا ہے کہ مردہ افراد کی آنکھوں کے خلیوں سے اندھے پن کا علاج کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں چوہوں پر تجربات سے کام یابی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ یونی ورسٹی کال آف لندن کی ایک ٹیم کے مطابق انسانوں میں یہ تجربہ کیا جائے تو ان کی بینائی بہتر ہوسکتی ہے، لیکن وہ کچھ پڑھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔



ماضی میں عطیہ شدہ قرنیے کی مدد سے بینائی کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم سائنس دانوں کی ٹیم نے آنکھ کی پشت سے ایک مخصوص خلیے کو حاصل کر کے یہ نیا تجربہ کیا ہے۔ اس علاج سے بڑے پیمانے پر بینائی سے متعلق بیماریوں کا علاج ممکن ہو گا۔ لیبارٹری میں ان خلیوں کو کیمیائی طور پر راڈ سیلز کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے، جو پردۂ چشم میں روشنی کی شناخت کرتے ہیں۔ یہ سیلز بینائی سے محروم چوہوں کی آنکھ کے پچھلے حصے میں لگائے گئے اور مشاہدہ کیا کہ اس طریقۂ علاج سے آنکھوں اور دماغ کا برقی رابطہ 50 فی صد تک بحال ہوا۔ اگر یہ تجربہ انسانوں پر کیا جائے تو وہ پڑھنے کے قابل نہیں ہوں گے، مگر اِدھر اُدھر جا سکیں گے اور اپنے کمرے میں موجود اشیا کی شناخت بھی ان کے لیے ممکن ہو گی۔ اس طرح ان کا معیار زندگی کافی بہتر ہو جائے گا۔

اسی سے جڑی ایک اور کوشش نیچر بایوٹیکنالوجی نامی جریدے میں شایع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ آنکھ کے اس حصے کو مخصوص سیلز کی مدد سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، جو روشنی محسوس کرتا ہے۔ پردۂ چشم پر موجود فوٹو ریسیپٹر نامی خلیے روشنی پڑنے پر متحرک ہو جاتے ہیں اور یہ روشنی سگنل کی صورت میں دماغ کو بھیج دی جاتی ہے۔ تاہم نابینا پن کی بعض اقسام میں یہ خلیے مر جاتے ہیں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں سائنس دانوں نے تجربہ گاہ میں پردۂ بصارت بنانے کی نئی تکنیک میں ہزاروں سیلز حاصل کر کے انہیں فوٹو ریسیپٹر خلیوں میں ڈھالنے کے بعد آزمائش کے لیے نابینا چوہوں کی آنکھوں میں نصب کیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ خلیے آنکھ کے اندر موجود خلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرنے لگے۔ تاہم اگر آنکھ میں دو لاکھ خلیے داخل کیے جائیں تو ان میں سے صرف ایک ہزار کے لگ بھگ ہی کام کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ زیادہ مؤثر طریقہ نہیں ہے، لیکن مزید تحقیق اور تجربات سے قابلِ ذکر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یونی ورسٹی کالج آف لندن کے مور فیلڈ آئی اسپتال کی تحقیقاتی ٹیم نے اسے اہم پیش رفت کہا ہے۔ اس ٹیم نے دکھایا ہے کہ ان فوٹو ریسیپٹر خلیوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے نابینا پن دور ہو سکتا ہے۔
Load Next Story