عالمی برادری پاکستان کو قرضوں میں چھوٹ دے

مختلف سائنسی تحقیقات اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ یہ تباہی اپنی جگہ برقرار رہے گی


Editorial November 09, 2022
مختلف سائنسی تحقیقات اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ یہ تباہی اپنی جگہ برقرار رہے گی—فائل فوٹو

وزیراعظم شہباز شریف نے مصر میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کوپ 27 سربراہی کانفرنس کے موقعے پر مختلف سربراہان حکومت اور اہم عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں دو طرفہ ، علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے درمیان بھی ملاقات ہوئی ، اس ملاقات کے بعد پاکستان پویلین میں دونوں رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں سیلاب متاثرہ علاقے کا رقبہ پرتگال سے تین گنا بڑا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضوں میں چھوٹ دیں کیونکہ پاکستان کو آبادکاری کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈزکی ضرورت ہے ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تسلسل سے عالمی برادری کی توجہ پاکستان میں ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں کے جانب مبذول کرا رہے ہیں لیکن نہ تو پاکستان کو ضرورت کے مطابق عالمی امداد ملی اور نہ ہی قرضوں میں ریلیف ملا۔

یہ بات لائق تحسین ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی غرض سے دوست ممالک سے پیکیجز لینے میں کامیاب ہو رہے ہیں جیسا کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان چند روز میں پاکستان آنے والے ہیں وہ کئی میگاپروجیکٹ میں سرمایہ کاری کا اعلان بھی کریں گے۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر اس بات کا پوری طرح احساس اجاگر کیا جائے کہ پاکستان کا عالمی موسمیاتی تبدیلیوں میں حصہ نہ ہونے کے برابر یعنی محض ایک فیصد ہے جیسا کہ عالمی قائدین نے اپنے بیانات میں اعتراف کیا ہے لیکن اس کی بھاری قیمت چکانا پاکستان کو پڑ رہی ہے۔ اس لیے دنیا اس بات کا جتنا جلد ادراک کرے اتنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ سیلاب زدگان کی تکالیف ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔

آنے والے دنوں میں موسم مزید سخت اور ٹھنڈا ہوتا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر سیلاب زدگان اسی طرح بے یارو مددگار رہے اور ان کی بحالی کا کام بر وقت نہ ہوسکا تو اس امر کا سخت احتمال ہے کہ آنے والے سال میں پاکستان میں غذائی بحران کی کیفیت قحط سالی کی طرح نہ ہو جائے ، اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔

پوری دنیا کی ذمے داری ہے کہ ان بحرانی حالات سے پاکستان کو نکالنے کے لیے جس وسیع امداد اور ٹیکنیکل سپورٹ کی ضرورت ہے وہ فوری طور پر مہیا کی جائے کہ یہ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور انسانی شرف اور ہمدردی بھی۔

ملک میں سیلاب گلیشیر پگھلنے یا ٹوٹنے سے نہیں بارش سے پیدا ہوا ہے۔ یہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ اس کا ذمے دار پاکستان نہیں ہے۔

پاکستان میں سالانہ اوسط سے کئی سو گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، سندھ میں سب سے زیادہ، ہزار گنا تک کا اندازہ ہے، سندھ میں سو کلو میٹر کا علاقہ کسی جھیل کی مانند ہے، سی این این نے تصویر بھی جاری کی ہے بلوچستان، سندھ، ساؤتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا شدید متاثر ہوئے ہیں اور سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ افراد بے گھر ہوئے ہیں، یہ تعداد یو کرین روس جنگ کے نتیجے میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد کا چھ گنا ہے پاکستان کا ہر چھٹا فرد سیلاب اور بارشوں سے متاثر ہے۔

ان تمام حالات کا اصل محرک موسمیاتی تبدیلی ہے۔ کافی عرصے سے ہمیں آگاہ کیا جارہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان پر بری طرح اثرانداز ہورہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا پانچواں ملک تصور کیا گیا ہے۔

مختلف سائنسی تحقیقات اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ یہ تباہی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ جب ہمیں معلوم ہے موسمیاتی تبدیلی ایک بڑی حقیقت ہے، تو وہیں دوسری حقیقت متاثرین کی بحالی، لیکن ان کی منتقلی، بحالی اور محفوظ بنانے کا عمل بدنظمی کا شکار ہے۔

ہمارا تعمیراتی اسٹرکچر موسمی حالات کو برداشت کرنے کے لائق نہیں ہے، جیسے جیسے وقت آگے بڑھے گا ہم یہ دیکھیں گے موسمیاتی تبدیلی کے نتائج مزید بڑھ کر سامنے آئیں گے۔

لہٰذا ہمیں قومی اور صوبائی سطح پر ایسی ٹاسک فورسز کی شدید ضرورت ہے، جس میں ٹیکنو کریٹس شامل ہوں اور وہ کوشش کریں ان تمام حالات سے نمٹنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر تیار تجاویز پیش کریں اور ان تجاویز کو قانونی شکل دے کر نافذ کیا جائے۔

ایک قومی سطح کا سروے کیا جائے، جس میں سیلابی نمونے کا جائزہ لیا جائے ، اس میں دیکھا جائے کہ نشیب یا اونچائی پر ایسے کون سے مقامات ہیں جہاں منتقلی ہوسکتی ہے۔ ان مقامات کو ترجیحی بنیاد پر بحالی و آبادکاری کے لیے استعمال کیا جائے۔

دوسری جگہ پر ایسا کا م کیا جائے کہ وہاں پانی ٹہرے نہیں بلکہ نکل جائے۔صورت حال کا ٹھیک طریقے سے جائزہ لیا جائے۔ جن محرکات کے سبب آمدورفت کی سڑکیں متاثر ہورہی ہیں، ان سڑکوں اور ہائی ویز کو محفوظ بنانے کے لیے انفرا اسٹرکچر میں جن ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے وہ کی جائیں۔

اسی طرح پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں ہیں وہ رکاوٹیں جو پانی کو دریاؤں یا دیگر ندی نالوں میں جانے سے روکتی ہیں، وہ رکاوٹیں دور کی جائیں، کیونکہ پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ سیلابی صورت حال کا باعث بنتی ہے۔ سارے کام کرنے کے لیے ہمارے پاس جدید سہولیات میسر ہیں ، ہم ڈیجیٹل ٹول کا استعمال کرسکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ سیلاب کی شدت کا اندازہ جدید طریقے سے لے سکتے ہیں۔ یہ ٹاسک ترجیحی بنیادوں پر استوار کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہماری زمین کے معاملات کس حد تک سائنسی بنیادوں پر استوار ہیں۔ ہمیں صوبائی بورڈ آف ریونیو سے زمین کے مالکان کا پورا ڈیٹا حاصل کرنا چاہیے اور یہ ڈیٹا بھی اس ہی ٹاسک فورس کے حوالے کرنا چاہیے۔

تاکہ اتنی بڑی آبادی جو ان حالات کے بعد دوسری جگہ منتقل کی جائے گی، تو اس کی مدد سے ازسرنو آبادکاری میں یہ دیکھنا ہوگا اس میں کون سی زمین آسانی کے ساتھ مہیا کی جاسکتی ہے۔ ملک بھر میں زمین کو کمرشل بنیادوں پر فروخت کرنے کا جو کاروبار ہورہا ہے اس پر ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ بعض جگہ ان اسکیموں کے نتیجے میں ہمارے قومی انفرااسٹرکچر جیسے ہائی ویز اور زراعت بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

کراچی میں ایم نائین موٹر وے سیلاب سے دوچار ہوا۔ سوات میں ہوٹلوں کی تباہی ہوئی ، وہ سب دریاؤں کے راستے میں بنے ہوئے تھے، وہ اس ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کا مقابلہ نہ کرسکے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران اور ادارے اقوام عالم کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی سطح پر اتفاق رائے سے اس معاملے میں موثر فیصلوں کی طرف بڑھیں گے جن سے مستقبل میں قوم کے لیے یہ بارشیں قدرتی آفت کے بجائے قدرتی نعمت ثابت ہو سکیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس پر توجہ ہی نہیں دی جاتی ،ڈیموں کی تعمیر ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اگر ہم ڈیم تعمیر کر کے سیلابی پانی کو ذخیرہ کر لیں تو نقصانات میں واضح کمی ہو سکتی ہے۔

ندی نالوں اور چھوٹے دریاؤں کا سیلابی پانی ڈیموں میں آئے گا تو اس کی رفتار بھی کم ہو گی اور ضرورت کے مطابق اخراج کر کے شہروں اور دیہاتوں کو نہ صرف ڈوبنے سے بچایا جا سکے گا اور سال بھر زراعت بھی کی جا سکے گی۔ یوں سیلابی پانی ہمارے لیے موجب رحمت بن جائے گا۔ 2023 میں پاکستان کے متعلق پیشگوئی ہے کہ وہ آبی بحران کا شکار ہو جائے گا ، اس آبی بحران کا توڑ چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر ہے۔

کالا باغ ڈیم متنازع بنا دیا گیا۔ کاش اس منصوبے پر غور و فکر کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا، البتہ چھوٹے ڈیموں کی تعمیر میں تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے باعث جب گلیشیئر بھی پگھل رہے ہیں، مستقبل میں شدید سیلابوں کی پیشگوئیاں بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان سے مستقبل میں اس سے بھی زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے۔

اس لیے یہ ہماری قومی بقا مسئلہ بن چکا ہے۔ نئے آبی ذخائر اور ڈیم وقت کی اشد ضرورت ہیں اس معاملے کو قومی ترجیحات میں اولین حیثیت نہ دی گئی تو خاکم بدہن ملکی بقا اور سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔مقام شکر ہے کہ پاکستانی عوام نے اپنے ہم وطن سیلاب زدگان کے لیے اپنے اپنے طور پر فنڈز اکٹھے کیے اور مصیبتوں میں گھرے لوگوں کی امداد جاری رکھی ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان ہر ممکن طور پر اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے۔

ہماری بہادر مسلح افواج اپنی بے مثال درخشاں تاریخ کے ساتھ اس بار بھی اپنے پاکستانی بھائیوں کی جس انداز میں مدد کررہی ہیں اس کا اعتراف ساری دنیا نے کیا ہے۔ حالیہ سیلاب سے پاکستان کی ایک تہائی آبادی متاثر ہوئی ہے ، ان کی بحالی کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس پر جلد عملدرآمد کرنے بھی ضرورت ہے تاکہ بحالی کا کام جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں