درینہ کا پل پہلا حصہ
کبھی یہ سنائی دیتا ہے کہ فلاں پل جو 144 برس پرانا تھا، وہ اپنی طبعی عمر پوری کر کے اب زمین پر آرام کر رہا ہے
ہمارے برصغیر میں ان دنوں پلوں کے ٹوٹنے اور منہدم ہونے کا بہت ذکر رہتا ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ فلاں پل گرگیا!
کبھی یہ سنائی دیتا ہے کہ فلاں پل جو 144 برس پرانا تھا، وہ اپنی طبعی عمر پوری کر کے اب زمین پر آرام کر رہا ہے اور اس کی اینٹیں بھی زمانے کے سرد و گرم کو سہہ کر آس پاس کے غریبوں کے گھروں میں پیوند بننے کی منتظر ہیں۔ ایسے میں مجھے ایک نوبل انعام یافتہ ناول ''درینہ کا پل'' یاد آتا ہے۔
اس ناول کو 1961 کا نوبل ادبی انعام ملا۔ اسے یوگوسلاویہ کے معروف ادیب آئیوو انڈرچ نے تحریر کیا۔ انڈرچ اپنے اس ناول میں صدیوں پر پھیلے یوگوسلاویہ تہذیب و ثقافت کو سمیٹتا ہے اور اس پل پر لڑی جانے والی لڑائی کو انسانی احساسات اور بوسینائی تہذیب کے دائرے میں سمیٹا ہے۔ یہ پل جو تین سو برس پرانا تھا اور جسے عثمانیوں نے بنایا تھا۔
اس کے اِدھر اور اُدھر بسنے والے عیسائی بچے پیدائش کے فوراً بعد پار کرتے تھے تاکہ گرجا گھر میں جاکر بپتسمہ لے سکیں اور ان کا شمار عیسائیوں میں ہوسکے جب کہ مسلمان بچوں پر اس قسم کی کوئی پابندی نہ تھی۔ اس پل کی تعمیر میں ہمیشہ کی طرح رخنے ہوئے۔
دن کو تعمیر ہوتی اور رات کو مسمار ہوجاتی۔ آخرکار ٹونے ٹوٹکے کرنے والوں نے مشورہ دیا کہ دو دو جڑواں بچوں کو لائیںاور انھیں پل کے ستونوں میں چنوادیا جائے۔ دوسرے لفظ میں یوں کہیے کہ انسانوں کی قربانی دی جائے۔یہ سن کر سب ہی لرز گئے۔
ترک سپاہی تلواریں سونتے آس پاس کی بستیوں میں پھیل گئے اور جس طرح ننگی تلواروں والے سپاہی ہمیشہ کامیاب آتے ہیں، وہ بھی کامیاب آئے اور ان کے بیچ ان جڑواں بچوں کی گریہ کرتی ہوئی ماں بھی جس کا کرتا دودھ سے تر تھا۔
بچے پل کے دو ستونوں میں زندہ چن دیے گئے۔ کہتے ہیں کہ ان بچوں کی چیخیں سالہا سال تک لوگوں کو سنائی دیتی رہیں اور بچوں کو دودھ پلانے والی ماں کے کرتے سے ٹپکتا ہوا دودھ ان دو موکھوں سے ٹپکتا رہا جن میں یہ شیرخوار بچے چنے گئے تھے۔
روایتیں اور داستانیں بھی کیا چیز ہوتی ہیں۔ اس سربو کروٹ سرب ناول میں آئیوو انڈرچ نے ان تمام نزاکتوں کو اپنے ہنر مند قلم سے سمیٹا ہے اور امر بنادیا۔
اس پل سے ایک عرب کردار کی کہانی بھی وابستہ ہے جو صدیوں سے اس پل کے ایک خفیہ حجرے میں رہتا ہے۔ بچے اس کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس عرب سے ایک دہشت ناک داستان وابستہ ہے۔ یہ کہ جو بھی اسے دیکھے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ اس کے باوجود تمام بچے کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسے دیکھ لیں۔
''درینہ کا پل'' جو ترکوں نے اپنے زور بازو سے 300 برس پہلے تعمیر کرایا، ایک خوفناک کہانی ہے۔ اس میں جبری مشقت ہے اور مذہبی آویزش بھی۔ یہ پُل جب تعمیر ہوگیا تو اس کے معمار ترک سرداروں نے ایک ضیافت عام دی۔
ایک ایسی ضیافت عام جس میں جو آدمی شریک ہونا چاہتا تھا، ہوسکتا تھا۔ یہ ضیافت دو دن تک جاری رہی، اس میں نگرانوں اور مزدوروں کو روپے اور کپڑے لتے کے تحائف دیے گئے۔ وزیر کا جام صحت، گوشت، شراب، موسیقی، رقص اور گانوں سے منایا گیا۔ گھوڑوں اور آدمیوں کی دوڑیں ہوئیں اور غرباء میں گوشت اور مٹھائیاں بانٹی گئیں۔
اس چوک میں جو پل کو مارکیٹ سے ملاتا تھا، دیگوں میں حلوہ پکایا گیا جو گرم گرم لوگوں میں تقسیم کردیا گیا۔
یہ حلوہ قصبے کے آس پاس گاؤں تک جاپہنچا اور جس کسی نے کھایا، اس نے وزیر کی صحت اور اس کی عمارات کی سلامتی اور پائیداری کی دعائیں کیں۔ ایسے بچے بھی تھے جو دیگوں کے پاس چودہ چودہ مرتبہ گئے، حتیٰ کہ پکانے والوں نے انھیں پہچان کر اپنے لمبے چوبی چمچوں سے بھگادیا۔ ایک خانہ بدوش بچے کی موت بہت زیادہ گرم حلوہ کھانے سے واقع ہوگئی۔
ایسی چیزیں ایک طویل مدت تک یاد رکھی گئیں اور پُل کی تعمیر کے متعلق جب بھی کہانیاں سنائی جاتیں تو ان چیزوں کا ذکر بھی آتا۔ زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ فیاض وزیر اور ایماندار حکام بعد کے برسوں میں مرکھپ گئے اور ایسی ضیافتیں نایاب سے نایاب تر ہوگئیں۔
جب کہ ضیافت جاری تھی، لوگ عام طور پر ان ابتدائی دنوں میں پُل کو لاتعداد مرتبہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک عبور کرتے تھے۔ بچے دوڑ کر یا تیز تیز گزرجاتے، مگر ان کے بزرگ ایک دوسرے سے باتوں میں منہمک آہستہ آہستہ رفتار سے چلتے رہے یا اسی آہستہ روی سے ایسے نئے نظاروں کو جو پُل نے ان کے لیے کھول دیے تھے بغور دیکھتے ہوئے گزر جاتے تھے، چونکہ کوئی آدمی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس نئی چیز سے وہ محروم ہو یا اس میں اس کا حصہ نہ ہو، چنانچہ مجبور و بے بس لوگ، لنگڑے، لولے اور بیمار آدمی بھی پُل پار کرنے کے لیے ڈولیاں اور اسٹریچر استعمال میں لانے لگے۔
اس پُل کے بن جانے سے قصبے میں نچلے درجے کے لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کے اختیارات میں یک لخت کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
ترک نوجوانوں نے حلوے کی دیگوں کے گرد ''کولو'' رقص شروع کیا اور اسے پُل کے پار لے گئے، کیونکہ انھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اُڑ رہے ہیں اور ان کے پاؤں ٹھوس زمین کو نہیں چھورہے۔ رقص کپیا کے اردگرد حلقوں میں ہوتا رہا۔ رقاص اپنی ایڑیاں اور پاؤں زور سے نئے فرشی پتھروں پر مارتے، گویا وہ پل کی پختگی کا امتحان لے رہے تھے۔
یہ ''کولو'' رقص نوجوان جسموں کا رقص تھا جس میں رقاص انتھک طور پر ایک ہی تال پہ سر سے اوپر نیچے کودتے تھے۔ ''کولو'' رقص کے اس حلقے کے گرد بچے کھیل رہے تھے جو رقص کرنے والوں کے پاؤں میں سے یوں اندر باہر آتے جاتے جیسے کسی متحرک جنگلے سے گزر رہے ہوں جو کولو کے مرکز میں کھڑا ہو۔
لوگ ایک دوسرے سے کہتے ''دیکھو کس طرح محمد پاشا نے جو داناؤں میں سب سے بڑا اور اپنے وقت کا عظیم انسان ہے، اپنے دل کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے احتیاط اور محنت سے درینہ پر ایک پل بنادیا ہے۔
اس پانی کے اوپر جو گہرا ہے اور تیز رفتار ہے۔
اس کے پیشرو اس قابل نہیں تھے کہ وہ کوئی چیز تعمیر کراتے۔
میں دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ پل پائیدار ہوگا۔
اور کہ اس کی موجودگی خوشی سے گزرے گی۔
اور غم کبھی اس کے پاس پھٹکے گا بھی نہیں۔''
اس طرح پل او راس کے ساتھ کپیا کی تخلیق ہوئی اور یہ ہیں وہ حالات جن کے نتیجے میں قصبہ اس کے اردگرد پھیل گیا۔ اس کے بعد کوئی تین سو سال سے زیادہ عرصے تک اس کا کردار قصبے کی ترقی میں اور لوگوں کی زندگی میں اسی طرح اہم رہا جس طرح کہ اوپر بیان ہوچکا ہے اور اگر سچ کہا جائے تو اس کی اہمیت کا اور اس کے وجود کا دارومدار اس کی پائیداری پر تھا۔
قصبے کی ترتیب میں اس کے چمکتے ہوئے خطوط تبدیل نہیں ہوئے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح آسمان کے سامنے پہاڑوں کے خاکے۔ انسانی نسلوں کی تیز رفتار ترقی اور تبدیلیوں کے باوجود یہ بالکل ویسے کا ویسا ہی رہا، جیسے وہ پانی جو اس کے نیچے بہہ رہا تھا۔
گو فطری تقاضے کے بموجب پرانا یہ بھی ہوگیا، لیکن وقت کے اس پیمانے پر جو نہ صرف انسانی زندگی کی طوالت سے، بلکہ نسلوں کے تمام سلسلوں کے ختم ہونے سے بھی بڑا ہے۔ پس ان حالات میں اس کا بڑھاپا انسانی آنکھ نہ دیکھ سکی۔ اس کی زندگی جو اگرچہ فانی تھی۔ ابدیت سے مشابہت رکھتی تھی، اس کا انجام نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔
(جاری ہے)
کبھی یہ سنائی دیتا ہے کہ فلاں پل جو 144 برس پرانا تھا، وہ اپنی طبعی عمر پوری کر کے اب زمین پر آرام کر رہا ہے اور اس کی اینٹیں بھی زمانے کے سرد و گرم کو سہہ کر آس پاس کے غریبوں کے گھروں میں پیوند بننے کی منتظر ہیں۔ ایسے میں مجھے ایک نوبل انعام یافتہ ناول ''درینہ کا پل'' یاد آتا ہے۔
اس ناول کو 1961 کا نوبل ادبی انعام ملا۔ اسے یوگوسلاویہ کے معروف ادیب آئیوو انڈرچ نے تحریر کیا۔ انڈرچ اپنے اس ناول میں صدیوں پر پھیلے یوگوسلاویہ تہذیب و ثقافت کو سمیٹتا ہے اور اس پل پر لڑی جانے والی لڑائی کو انسانی احساسات اور بوسینائی تہذیب کے دائرے میں سمیٹا ہے۔ یہ پل جو تین سو برس پرانا تھا اور جسے عثمانیوں نے بنایا تھا۔
اس کے اِدھر اور اُدھر بسنے والے عیسائی بچے پیدائش کے فوراً بعد پار کرتے تھے تاکہ گرجا گھر میں جاکر بپتسمہ لے سکیں اور ان کا شمار عیسائیوں میں ہوسکے جب کہ مسلمان بچوں پر اس قسم کی کوئی پابندی نہ تھی۔ اس پل کی تعمیر میں ہمیشہ کی طرح رخنے ہوئے۔
دن کو تعمیر ہوتی اور رات کو مسمار ہوجاتی۔ آخرکار ٹونے ٹوٹکے کرنے والوں نے مشورہ دیا کہ دو دو جڑواں بچوں کو لائیںاور انھیں پل کے ستونوں میں چنوادیا جائے۔ دوسرے لفظ میں یوں کہیے کہ انسانوں کی قربانی دی جائے۔یہ سن کر سب ہی لرز گئے۔
ترک سپاہی تلواریں سونتے آس پاس کی بستیوں میں پھیل گئے اور جس طرح ننگی تلواروں والے سپاہی ہمیشہ کامیاب آتے ہیں، وہ بھی کامیاب آئے اور ان کے بیچ ان جڑواں بچوں کی گریہ کرتی ہوئی ماں بھی جس کا کرتا دودھ سے تر تھا۔
بچے پل کے دو ستونوں میں زندہ چن دیے گئے۔ کہتے ہیں کہ ان بچوں کی چیخیں سالہا سال تک لوگوں کو سنائی دیتی رہیں اور بچوں کو دودھ پلانے والی ماں کے کرتے سے ٹپکتا ہوا دودھ ان دو موکھوں سے ٹپکتا رہا جن میں یہ شیرخوار بچے چنے گئے تھے۔
روایتیں اور داستانیں بھی کیا چیز ہوتی ہیں۔ اس سربو کروٹ سرب ناول میں آئیوو انڈرچ نے ان تمام نزاکتوں کو اپنے ہنر مند قلم سے سمیٹا ہے اور امر بنادیا۔
اس پل سے ایک عرب کردار کی کہانی بھی وابستہ ہے جو صدیوں سے اس پل کے ایک خفیہ حجرے میں رہتا ہے۔ بچے اس کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس عرب سے ایک دہشت ناک داستان وابستہ ہے۔ یہ کہ جو بھی اسے دیکھے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ اس کے باوجود تمام بچے کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسے دیکھ لیں۔
''درینہ کا پل'' جو ترکوں نے اپنے زور بازو سے 300 برس پہلے تعمیر کرایا، ایک خوفناک کہانی ہے۔ اس میں جبری مشقت ہے اور مذہبی آویزش بھی۔ یہ پُل جب تعمیر ہوگیا تو اس کے معمار ترک سرداروں نے ایک ضیافت عام دی۔
ایک ایسی ضیافت عام جس میں جو آدمی شریک ہونا چاہتا تھا، ہوسکتا تھا۔ یہ ضیافت دو دن تک جاری رہی، اس میں نگرانوں اور مزدوروں کو روپے اور کپڑے لتے کے تحائف دیے گئے۔ وزیر کا جام صحت، گوشت، شراب، موسیقی، رقص اور گانوں سے منایا گیا۔ گھوڑوں اور آدمیوں کی دوڑیں ہوئیں اور غرباء میں گوشت اور مٹھائیاں بانٹی گئیں۔
اس چوک میں جو پل کو مارکیٹ سے ملاتا تھا، دیگوں میں حلوہ پکایا گیا جو گرم گرم لوگوں میں تقسیم کردیا گیا۔
یہ حلوہ قصبے کے آس پاس گاؤں تک جاپہنچا اور جس کسی نے کھایا، اس نے وزیر کی صحت اور اس کی عمارات کی سلامتی اور پائیداری کی دعائیں کیں۔ ایسے بچے بھی تھے جو دیگوں کے پاس چودہ چودہ مرتبہ گئے، حتیٰ کہ پکانے والوں نے انھیں پہچان کر اپنے لمبے چوبی چمچوں سے بھگادیا۔ ایک خانہ بدوش بچے کی موت بہت زیادہ گرم حلوہ کھانے سے واقع ہوگئی۔
ایسی چیزیں ایک طویل مدت تک یاد رکھی گئیں اور پُل کی تعمیر کے متعلق جب بھی کہانیاں سنائی جاتیں تو ان چیزوں کا ذکر بھی آتا۔ زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ فیاض وزیر اور ایماندار حکام بعد کے برسوں میں مرکھپ گئے اور ایسی ضیافتیں نایاب سے نایاب تر ہوگئیں۔
جب کہ ضیافت جاری تھی، لوگ عام طور پر ان ابتدائی دنوں میں پُل کو لاتعداد مرتبہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک عبور کرتے تھے۔ بچے دوڑ کر یا تیز تیز گزرجاتے، مگر ان کے بزرگ ایک دوسرے سے باتوں میں منہمک آہستہ آہستہ رفتار سے چلتے رہے یا اسی آہستہ روی سے ایسے نئے نظاروں کو جو پُل نے ان کے لیے کھول دیے تھے بغور دیکھتے ہوئے گزر جاتے تھے، چونکہ کوئی آدمی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس نئی چیز سے وہ محروم ہو یا اس میں اس کا حصہ نہ ہو، چنانچہ مجبور و بے بس لوگ، لنگڑے، لولے اور بیمار آدمی بھی پُل پار کرنے کے لیے ڈولیاں اور اسٹریچر استعمال میں لانے لگے۔
اس پُل کے بن جانے سے قصبے میں نچلے درجے کے لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کے اختیارات میں یک لخت کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
ترک نوجوانوں نے حلوے کی دیگوں کے گرد ''کولو'' رقص شروع کیا اور اسے پُل کے پار لے گئے، کیونکہ انھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اُڑ رہے ہیں اور ان کے پاؤں ٹھوس زمین کو نہیں چھورہے۔ رقص کپیا کے اردگرد حلقوں میں ہوتا رہا۔ رقاص اپنی ایڑیاں اور پاؤں زور سے نئے فرشی پتھروں پر مارتے، گویا وہ پل کی پختگی کا امتحان لے رہے تھے۔
یہ ''کولو'' رقص نوجوان جسموں کا رقص تھا جس میں رقاص انتھک طور پر ایک ہی تال پہ سر سے اوپر نیچے کودتے تھے۔ ''کولو'' رقص کے اس حلقے کے گرد بچے کھیل رہے تھے جو رقص کرنے والوں کے پاؤں میں سے یوں اندر باہر آتے جاتے جیسے کسی متحرک جنگلے سے گزر رہے ہوں جو کولو کے مرکز میں کھڑا ہو۔
لوگ ایک دوسرے سے کہتے ''دیکھو کس طرح محمد پاشا نے جو داناؤں میں سب سے بڑا اور اپنے وقت کا عظیم انسان ہے، اپنے دل کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے احتیاط اور محنت سے درینہ پر ایک پل بنادیا ہے۔
اس پانی کے اوپر جو گہرا ہے اور تیز رفتار ہے۔
اس کے پیشرو اس قابل نہیں تھے کہ وہ کوئی چیز تعمیر کراتے۔
میں دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ پل پائیدار ہوگا۔
اور کہ اس کی موجودگی خوشی سے گزرے گی۔
اور غم کبھی اس کے پاس پھٹکے گا بھی نہیں۔''
اس طرح پل او راس کے ساتھ کپیا کی تخلیق ہوئی اور یہ ہیں وہ حالات جن کے نتیجے میں قصبہ اس کے اردگرد پھیل گیا۔ اس کے بعد کوئی تین سو سال سے زیادہ عرصے تک اس کا کردار قصبے کی ترقی میں اور لوگوں کی زندگی میں اسی طرح اہم رہا جس طرح کہ اوپر بیان ہوچکا ہے اور اگر سچ کہا جائے تو اس کی اہمیت کا اور اس کے وجود کا دارومدار اس کی پائیداری پر تھا۔
قصبے کی ترتیب میں اس کے چمکتے ہوئے خطوط تبدیل نہیں ہوئے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح آسمان کے سامنے پہاڑوں کے خاکے۔ انسانی نسلوں کی تیز رفتار ترقی اور تبدیلیوں کے باوجود یہ بالکل ویسے کا ویسا ہی رہا، جیسے وہ پانی جو اس کے نیچے بہہ رہا تھا۔
گو فطری تقاضے کے بموجب پرانا یہ بھی ہوگیا، لیکن وقت کے اس پیمانے پر جو نہ صرف انسانی زندگی کی طوالت سے، بلکہ نسلوں کے تمام سلسلوں کے ختم ہونے سے بھی بڑا ہے۔ پس ان حالات میں اس کا بڑھاپا انسانی آنکھ نہ دیکھ سکی۔ اس کی زندگی جو اگرچہ فانی تھی۔ ابدیت سے مشابہت رکھتی تھی، اس کا انجام نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔
(جاری ہے)