جب اقبال ؒ دربارِ رسالت مآبؐ میں پیش ہوئے

حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا دل ہمیشہ امت مسلمہ کے ساتھ دھڑکتا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے درد سے معمور رہتا تھا

zulfiqarcheema55@gmail.com

کالم کے عنوان سے متعلقہ واقعہ سے پہلے قارئین کے ساتھ فرزندِ اقبالؒ ڈاکٹر جاوید اقبال کی خودنوشت میں سے چند لائنیں شیئر کررہا ہوں۔

''میرے سفر کی چھٹی منزل میں یہ تحقیق کرنا مقصود تھا کہ علامہ اقبال کے فلسفہ اور فکر نے تحریکِ پاکستان کے لیے نظریاتی اساس فراہم کرنے میں کیا کردار ادا کیا۔ اس تحقیق کے نتیجے میں مجھ پر یہ راز افشاء ہوا کہ جب سے اسلام برصغیر میں وارد ہوا، روحِ اسلام اپنی نمو کی خاطر راہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی۔ گزشتہ کئی صدیوں میں کبھی تو اس نے مشاہدے کے ذریعے اور کبھی کشف کے ذریعے اس کوشش کا اظہار کرنا چاہا۔ کبھی شہنشاہوں کے فرمان کی صورت اختیار کی، کبھی علماء کی وساطت سے اپنا مدعا بیان کرنا چاہا، کبھی مجاہدین کی تلواروں کی راہ سے، کبھی جدید سیاسیات کے بھیس میں، کبھی اتحادِ اسلام کے داعی کی ہیّت میں، کبھی ادب اور کبھی فلسفہ کی شکل میں، غرضیکہ اس نے مختلف ذرایع اختیار کیے حتٰی کہ 1930 میں جاکر اسے واضح زبان نصیب ہوئی، جب وہ علامہ اقبال کے الفاظ میں ڈھل گئی اور بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں پاکستان کے قیام کی صورت میں اس نے صدیوں کی جدوجہد کے بعد اس مقصد کو پالیا۔''

حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا دل ہمیشہ امت مسلمہ کے ساتھ دھڑکتا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے درد سے معمور رہتا تھا۔ دنیا کے کسی حصے میں مسلمانو ں پر افتاد پڑتی تو علامہ بے حد مضطرب ہوجاتے اگرچہ اقبالؒ کی طبیعت کو فطری طور پر عملی سیاست سے رغبت نہیں تھی اس لیے وہ عملی طور پر سیاست میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے رہے مگر اجتماعی مصائب اور مشکلات میں وہ ہندوستان کے مسلمانوں اور امت مسلمہ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔

علامہ نے 1909 میں Islam as a moral and political ideal (اسلام ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین) کے عنوان سے ایک طویل مقالہ لکھا اور اس کے بعد فروری 1911میں علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک اور معرکہ آراء انگریزی مضمون The Muslim community (ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر) پیش کیا، جس میں مسلم قومیت کے تین امتیازی پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ مسلمانوں کے ذہنی عقیدے اور تہذیب وثقافت میں کیا تعلق ہے۔

ان کی تعلیمی، معاشی اور سیاسی کمزوریاں کیا ہیں اور اس صورتِ حال سے عہدہ براء ہونے کی تدابیر کیا ہیں۔

یورپ سے واپسی پر اگر چہ ان کا زیادہ وقت معاش کی مصروفیات (وکالت وغیرہ) میں صرف ہوتا رہا مگر پھر بھی 1914 تک انھوں نے چالیس کے قریب معرکہ آراء نظمیں لکھیں جس میں شکوہ، جواب شکوہ، شمع اور شاعر، فلسفۂ غم، ترانۂ ملی، بزمِ انجم، خطاب بہ جوانانِ اسلام اور حضور رسالت مآب میں شامل ہیں۔

آخری نظم کا پس منظر یہ ہے کہ 1911 میں اٹلی نے یورپی ممالک کی مدد سے طرابلس (جو اس وقت سلطنتِ عثمانیہ یعنی ترکوں کا حصہ تھا) پر حملہ کردیا جس سے بہت سے ترک مسلمان شہید ہوگئے۔ جب یہ خبر ہندوستان پہنچی تو پورے ہندوستان میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور مسلمانوں کے جذبات میں زبردست ہل چل مچ گئی۔

علامہ اقبالؒ جیسی حساس اور مسلمانوں کے لیے دردمندی کے جذبات رکھنے والی شخصیت کو بھی اس خبر نے تڑپا کر رکھ دیا۔ مسلمانانِ برصغیر نے غم وغصے کے اظہار اور ترک مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے بادشاہی مسجد لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا، جس میں بڑے بڑے مسلم اکابرین نے بڑی پرجوش اور آتشیں تقریریں کیں، جوش کا یہ عالم تھا کہ جذبات پر قابو رکھنا محال ہورہا تھا۔

''نیرنگِ خیال'' کے مدیر حکیم محمد یوسف حسن (جو جلسے میں موجود تھے) نے آنکھوں دیکھا حال تحریر کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ '' بڑے بڑے مسلم راہنماؤں کی جوشیلی تقریروں کے بعد کچھ قراردادیں پاس کی گئیں اور آخر میں علامہ اقبال سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنا کلام سنائیں، جب علامہ اقبال نے نظم پڑھنا شروع کی تو پرجوش مجمع پر ایک سکوت طاری ہوگیا، اس وقت فرش پر ایک سوئی بھی گرتی تو آواز آتی۔ علامہ کی نظم کا مرکزی خیال یہ تھا کہ وہ عالمِ تصور میں آسمانوں پر پہنچ کر دربارِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہوئے اور وہاں ان کا جو مکالمہ ہوا، اس کا انھوں نے نظم میں احوال بیان کردیا۔''

گراں جو مجھ پر یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا

فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجھ کو
حضور آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو

یعنی اقبالؒ دنیا سے رخصت ہو کر، عالم خیال وتصور میں دربارِ رسالتؐ میں پہنچ جاتے ہیں

کہا حضورؐ نے اے عندلیبِ باغِ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمئی نوا سے گداز

اڑا جو پستئی دنیا سے تو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز

نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟


اقبال جواباً عرض کرتے ہیں:

حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے، وہ زندگی نہیں ملتی

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو وہ کلی نہیں ملتی

علامہ نے جب پوری دل سوزی اور سرشاری سے یہ شعر پڑھا

مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی

تو لوگوں کا تجسس انتہاؤں کو چھونے لگا اور وہ سوچنے لگے کہ بھلا وہ کیا چیز ہوگی جو جنت میں بھی نہیں ملتی اور اقبال جیسا مردِ قلندر اور سچا عاشقِ رسولؐ آقائے دوجہاںؐ کی خدمت میں پیش کرنے لگا ہے۔ تھوڑے توقّف کے بعد علامہ نے یہ شعر پڑھا۔

جھلکتی ہے تیری اُمّت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں

اس پر مجمع بے قابو ہوگیا۔ چیخ وپکار، نالہ و بقا اور آہ وفغان سے مسجد کی دیواریں لرزنے لگیں اور اﷲ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونجنے لگی۔

کچھ لوگ زمین پر اس طرح لَوٹنے اور تڑپنے لگے جیسے انھیں کسی نے ذبح کر ڈالا ہو۔ یوسف حسن صاحب لکھتے ہیں کہ'' میں نے اپنی زندگی میں کسی موت کے سانحے پر ایسا دلخراش منظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔''

اس تحریر کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔

عمران خان پر فائرنگ کا واقعہ

عمران خان صاحب پر فائرنگ کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے، اصل مجرموں کو قرار واقعی سز ا ملنی چاہیے مگر اس کے لیے انتہائی منصفانہ تفتیش کی ضرورت ہے۔

منصفانہ تفتیش کے لیے ضروری تھا کہ کسی سرکاری اسپتال کے سینئر ڈاکٹر عمران خان صاحب اور دیگر زخمیوں کا معائنہ کرتے تاکہ ان کے زخموں کی نوعیت کا پتہ چلتا۔ عمران خان صاحب خود کسی سرکاری اسپتال سے میڈیکولیگل معائنہ کرانے کے بجائے اپنے کینسر اسپتال میں داخل ہوگئے جو ناقابلِ فہم اور باعثِ حیرت ہے۔

خان صاحب نے اس فائرنگ کاالزام اپنے سیاسی حریفوں پر لگادیا ہے اور وہ ایف آئی آر میں وزیرِاعظم، وزیرِ داخلہ اور ایک سینئر فوجی افسر کا نام لکھوانے پر بضد ہیں، اگر ان کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر ہوتی ہے تو پھر یہ سلسلہ چل نکلے گا اور ملک کے کونے کونے میں ہرروز عمران خان، شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن کے علاوہ ججوں اور جرنیلوں کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں ایف آئی آریں درج ہوا کریں گی اور ملک انارکی کی دلدل میں دھنس جائے گا، لہٰذا خان صاحب کو اس سے گریز کرنا چاہیے۔

قاتلانہ حملے کے اس کیس کی تفتیش ملک کے سینئر اور ایماندار پولیس افسروں کو دی جانی چاہیے۔ میرے خیال میں اس کیس کی تفتیش خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے آئی جی صاحبان پر مشتمل ٹیم کو تفویض کردی جائے، تمام حقائق سامنے آجائیںگے۔ جج صاحبان کا کام فوجداری کیسوں کی تفتیش کرنا نہیں ہے، اس لیے جوڈیشل کمیشن ایک سعئی لا حاصل ہوگی۔

ایٹمی قوت پاکستان کو انارکی کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے دشمن قوتیں بہت زیادہ متحرک ہیں، ہر روز عوام کے دل میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف نفرت پیدا کرنے والی فیک وڈیوز پھیلائی جارہی ہیں۔

اس نازک مرحلے پر پی ٹی آئی کے Saner elements کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ آگے آئیںاور اپنے ورکرز کو سمجھائیں کہ وہ پاکستان کو عراق یا لیبیا بنانے کی عالمی سازش کا آلۂ کار نہ بنیں اور راستے بند کرکے ملک کی کمزور معیشت کو ہر روز اربوں روپے کا نقصان نہ پہنچائیں۔ الیکشن چھ نہیں تو آٹھ مہینوں بعد ہوجائیں گے، بے صبری نہیں، ہوش مندی کا مظاہرہ کریں۔
Load Next Story