اعظم سواتی کیس…ذمے داروں کا تعین ہونا چاہیے
اعظم سواتی ایک بہادر شخص ہیں، انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے
سینیٹر اعظم سواتی اور ان کے خاندان پر جو گزری اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اعظم سواتی ایک بہادر شخص ہیں، انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ سیاسی رہنماؤں، صحافیوں ، وکلاء اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوگی جو گزشتہ 50برسوں میں ایسی زیادتی کا شکار ہوئے لیکن انھوں نے خاموشی اختیار کرلی ۔
سینیٹر اعظم سواتی نے گزشتہ ماہ ایک ٹویٹ کیا ، اس کے بعد ایف آئی اے نے انھیں گرفتار کرلیا،ان کی ضمانت ہوگئی۔ انھوں نے رہائی کے بعد پریس کانفرنس میں بتایا کہ دوران حراست انھیں برہنہ کیا گیا اور بدسلوکی کی گئی۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے اعظم سواتی پر دوران حراست تشدد اور بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی۔ رانا ثناء اﷲ کا مدعا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے ان کے جسم پر تشدد کی تصدیق نہیں کی۔ اعظم سواتی نے صحافیوں کے سامنے روتے ہوئے کہا کہ '' ان کی بیٹی کا ٹیلی فون آیا، وہ زارو قطار رورہی تھی۔
بیٹی نے کہا کہ امی کو نامعلوم ٹیلی فون نمبر سے وڈیو موصول ہوئی ہے جو آپ کی اور امی کی ہے۔'' اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ وہ کوئٹہ گئے تھے۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے انھیں سپریم کورٹ کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا تھا۔ ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ تھیں لیکن سپریم کورٹ کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس گیسٹ ہاوس میں سواتی صاحب نہیں ٹہرے۔
ایف آئی اے نے ایک پریس ریلیز میں واضع کیا ہے کہ اعظم سواتی کی وڈیو کاپی پیسٹ ہے اور مختلف تصاویر کو جوڑ کر تیار کی گئی ہے اور یہ وڈیو جعلی ہے ۔ بہرحال اگر یہ وڈیو جعلی بھی مان لی جائے تو تب بھی اس کی وجہ سے ایک معزز سینیٹر کی زندگی اجیرن ہوگئی۔
اعظم سواتی نے کہا کہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انھوں نے بیٹیوں اور پوتیوں کو ملک سے باہر بھیج دیا ہے۔ ایک سویلین ایجنسی کے ایک سابق افسر اپنی یادداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ جام صادق کے دورِ اقتدار میں ایک سابق خاتون سیاسی رہنما اپنے شوہر سے ملنے اسپتال گئی تھیں تو انھیں اعلیٰ حکام نے ہدایت جاری کی تھی کہ اس کمرے میں خفیہ کیمرے لگادیے جائیں۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی ہدایت پر خفیہ کیمرے اس کمرے میں نصب کیے گئے تھے مگر انھوں نے کیمروں پر کور چڑھا دیا تھا کیونکہ وہ کسی فرد کی پرائیویسی کو افشا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی، مصطفی نواز کھوکھر اور وفاقی وزیر مصدق ملک نے اعظم سواتی کے ساتھ ہونے والی افسوس ناک حرکت کی مذمت کی ہے۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ کسی بھی شہری کی ذاتی زندگی کو افشا کرنا سنگین جرم ہے۔
عمران خان کے دورِ اقتدار میں بھی صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ خواتین صحافیوں کو بھی ہراساں کیا گیا۔ معروف صحافی عاصمہ شیرازی نے ایک بلاگ تحریر کیا تھا۔ اس کے بعد عاصمہ شیرازی کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی مہم چلائی گئی۔
مگر حکمراں جماعت کے رہنماؤں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایک اور خاتون اینکر کو بھی ایسی ہی صورتحال سے گزرنا پڑا۔ وہ پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے تحریک انصاف کے جلسوں میں گئیں تو انھیں ہراساں کیا گیا۔
گزشتہ دنوں جب عمران خان سے ان کے کارکنوں کے رویہ کی شکایت کی گئی تو موصوف نے یہ تاریخی کلمات ادا کیے کہ خاتون اینکر کو مردوں میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھا۔
اسلام آباد کے صحافی مطیع اﷲ جان کو اغواء کیا گیا۔ بعدازاں نامعلوم افراد نے انھیں رات کو ویرانے میں چھوڑ دیا۔ عمران خان کی حکومت ملزمان کو تلاش نہیں کرپائی۔ ایک اور صحافی اسد طور پر ان کے فلیٹ میں گھس کر حملہ کیا گیا مگر سابقہ حکومت خاموش رہی۔
مسلم لیگ ن کے جذباتی کارکن یہ کہہ رہے ہیں کہ جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف لندن میں دل کے بائی پاس کے لیے ایک اسپتال میں داخل ہوئے تھے تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے جنگجوؤں نے اس پورے عمل کو جعلی قرار دیا تھا۔
جب کلثوم نواز کینسر کے خلاف لندن کے ایک اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی تھیں تو ان ہی جنگجوؤں نے اسی طرح کی سوشل میڈیا پر مہم شروع کی تھی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن ب نے بھی اس حوالے کوئی بات کی تھی مگر اعتزاز احسن میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ انھوں نے اپنے رویہ پر معذرت کی تھی مگر تحریک انصاف کے رہنما اپنے جنگجوؤں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ 10کے قریب صحافی مختلف صورتحال میں مردہ پائے گئے۔ درجنوں سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے اور کئی کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔
کراچی میں ایم کیو ایم اور علیحدگی پسند سندھی قوم پرست گروہوں سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں کو نامعلوم افراد اپنے ساتھ لے گئے۔ ان میں سے کچھ کی لاشیں ملیں، کچھ لاپتہ ہیں اور کارکنوں کے دماغ کا سوفٹ ویئر اچانک تبدیل ہوا۔ انھوں نے قوم پرست سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا۔ شمالی وزیرستان میں طالبان جنگجوؤں کی کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے مقامی افراد مسلسل شہید ہوتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے یورپی یونین کے دباؤ پر زیر حراست ملزموں پر تشدد کی روک تھام کا قانون اور ریاستی اداروں کی جانب سے شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کا مسودہ قانون قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا تھا ۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک بار فخر سے اعلان کیا کہ لاپتہ افراد کو فوجداری جرم قرار دینے کا مسودہ لاپتہ ہوگیا ہے مگر پچھلی حکومت کے جو کارنامے تھے وہ تو تھے ہی شہباز شریف کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی صورتحال میں فرق نہیں آیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں شہباز گل پر تشدد، صحافیوں کو ہراساں کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔
ملک بھر میں کئی سیاسی کارکن جیلوں میں ہیں۔ ایک رکن اسمبلی کی تمام مقدمات میں ضمانت ہوچکی ہے مگر ان کو رہائی نہیں کیا گیا۔ ان کی رہائی کیسے ممکن ہوسکتی ہے ؟ قانون اس بارے میں خاموش ہے۔ اعظم سواتی کے ساتھ اس بیہمانہ سلوک کے خلاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی مذمت ایک خوش آیند عمل ہے ۔
سینیٹ کے چیئرمین نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے 14سینیٹروں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کی ہے۔ اس کمیٹی میں سینیٹ میں تمام نمایندہ جماعتوں کے سینیٹر شامل ہیں۔
یہ ایک انتہائی معقول اقدام ہے مگر یہ کمیٹی کیا واقعی اس واقعہ کے ذمے داروں کو تلاش کرسکے گی، اس سوال کا جواب اگلے چند ماہ میں مل جائے گا۔ مگر حکومت کا فرض ہے کہ اس کمیٹی سے مکمل تعاون کرے۔ کیونکہ اعظم سواتی کے ساتھ جو ہوا مستقبل میںان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔