پورا سچ بولا جائے
چلتے چلتے یہ بات کہہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس گانے کے بعد اس مغنیہ کا کوئی اور فلمی گانا اتنا مشہور نہ ہوا۔
1960ء کی دہائی کے آخری دنوں میں ایک فلم بنی تھی۔ نام تھا اس کا ''بدنام''۔ ریاض شاہد نے سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے سے مرکزی خیال لے کر بنائی تھی۔ علائوالدین نے اس میں ایک کوچوان کا کردار ادا کیا تھا۔ نبیلہ اس کی بیوی بنی تھی۔ نبیلہ کو یاد کرتے ہوئے اگرچہ یہ سوال بھی ذہن میں آیا ہے کہ وہ اچانک کہاں گم ہو گئی تھی مگر اس کا جواب ڈھونڈتے ہوئے میں موضوع سے بھٹک جائوں گا۔ فلم کی طرف واپس لوٹتے ہوئے کہنا یہ ہے کہ اس کا ''بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے'' والا گانا بھی بڑا مشہور ہوا تھا۔ ثریا ملتا نیکر نے اسے گایا تھا اور چلتے چلتے یہ بات کہہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس گانے کے بعد اس مغنیہ کا کوئی اور فلمی گانا اتنا مشہور نہ ہوا۔
''بدنام'' فلم کے اس گانے کی طرح اس کے وہ مکالمے بھی بہت مشہور ہوئے جس میں غریب کوچوان اپنی بیوی سے بڑی فریادی آواز میں یہ پوچھتا چلا جاتا ہے :''کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟ کس نے پہنائے ہیں یہ جھمکے؟ کیوں پہنائے ہیں یہ جھمکے؟'' نبیلہ نے جواباََ کیا کہا، مجھے یاد نہیں مگر دونوں میں اس ڈرامائی بات چیت کے بعد علیحدگی ہوتے دکھائی گئی تھی۔ ان دونوں کی ایک بچی تھی۔ کوچوان نے اسے اپنے پاس ہی رکھا اور ''ہم بھی مسافر۔ تم بھی مسافر'' گاتے ہوئے اس بچی کو اپنی گود میں رکھے تانگہ چلاتا اور رزقِ حلال کماتا رہا۔ پھر یہ بچی بڑی ہو گئی۔ کالج وغیرہ گئی اور ایک دن اس کے کانوں میں بھی کسی اور کے دیے ہوئے جھمکے نظر آ گئے۔ کوچوان نے وہی سوال جو اس نے اپنی بیوی سے کیے تھے اپنی بیٹی سے بھی پوچھنا شروع کر دیے۔
آج سے کئی برس پہلے دیکھی ''بدنام'' کے چند مناظر اور جھمکے والے مکالمے پتہ نہیں کیوں اس وقت میرے ذہن میں اچانک گھومنا شروع ہو گئے جب بدھ کو میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھا ہوا تھا۔ وقفہ سوالات کے دوران زیادہ تر سوالات وزارتِ خزانہ سے متعلق تھے۔ اسحاق ڈار صاحب خود موجود نہ تھے۔ ان کی جگہ پارلیمانی سیکریٹری صاحب نے جوابات پڑھے اور ضمنی سوالات کے جوابات دیے۔ حزبِ مخالف کی نشستوں پر بیٹھے اراکین مگر اپنے بھیجے ہوئے سوالوں اور حکومت کی طرف سے مہیا شدہ جوابات پر توجہ نہیں دے رہے تھے۔ ان کی صفوں میں سے جو بھی اُٹھتا ہے بس یہ جاننا چاہتا کہ :''کہاں سے آئے ہیں ڈیڑھ ارب ڈالر اور کیوں ملے ہیں ڈیڑھ ارب ڈالر؟''۔ پارلیمانی سیکریٹری واضح جواب دینے سے ہچکچاتے رہے۔ بالآخر تنگ آ کر ایک موقعہ پر عرض گزار ہوئے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر دینے والا ملک پاکستان کا ایک مخلص دوست ہے اور اس کی شدید خواہش ہے کہ اس کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔
ہمارے اپوزیشن والے خوب جانتے ہیں کہ اچھی خیرات وہی ہوتی ہے جو دائیں ہاتھ سے دی جائے تو بائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو پتہ بھی نہ چلے۔ پھر بھی اصرار کرتے رہے۔ پھر وقفہ سوالات ختم ہو گیا۔ بظاہر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ بہتر یہی ہوتا کہ اسحاق ڈار صاحب اس پورے معاملے کو نظر انداز کر دیتے۔ مگر وہ کسی بھی دبائو کے بغیر بذاتِ خود قومی اسمبلی میں تشریف لا کر اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور اسپیکر ایاز صادق کو ایک چٹ کے ذریعے مطلع کیا کہ وہ ایک ''پالیسی بیان'' دینا چاہتے ہیں۔ وزیر خزانہ کو جب مائیک ملا تو ''پالیسی بیان'' کے بجائے بدتر از گناہ معرکہ عذر تراشی فرماتے رہے۔ اصل مقصد ان کا محض یہ بیان کرنا تھا کہ ہمارے ملک میں مشرف کے جانے اور ''حقیقی جمہوریت'' قائم ہو جانے کے بعد پاکستان نے ''فرینڈز آف پاکستان'' کے ایک اجلاس میں اپنی معاشی مشکلات بیان کرنے کے بعد اپنے دوستوں سے دامے، درمے، سخنے مدد چاہی تھی۔ یہ اجلاس ستمبر2008ء میں ہوا تھا۔
وہاں موجود دوستوں نے مدد کے جو وعدے کیے انھیں ہندسوں میں جمع کریں تو 6 ارب ڈالر کی خطیر رقم بنتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑی تگ و دو کے بعد اس رقم میں سے صرف 30 کروڑ ڈالر جاپان اور ترکی جیسے دوستوں سے ملے۔ ستمبر 2008ء میں ہونے والے اس اجلاس میں ایک ''برادرملک'' نے ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اب اسی ملک نے یہ وعدہ اس سال کے شروع میں دو قسطوں میں رقم ادا کرنے کے ذریعے پورا کر دیا ہے۔ ''برادر ملک'' نے اپنا وعدہ وفا کرنے میں چھ سال کیوں لگا دیے؟ اس سوال کا جواب ڈار صاحب کے پاس موجود تھا مگر اسے بیان کرتے ہوئے وہ اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں کا دل نہیں دکھانا چاہتے تھے۔ ان کی التجا تو بلکہ یہی رہی کہ ایسا ہرگز نہ سمجھا جائے کہ اتنی خطیر رقم میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگی حکومت کو ''تحفتاََ'' دی گئی ہے۔ یہ گراں قدر ''تحفہ'' بلکہ پورے پاکستان کے لیے ہے اور دینے والا ملک ہرگز نہیں چاہتا کہ اس کا نام لے کر اسے خواہ مخواہ شرمندہ کیا جائے۔ ڈار صاحب نے دُکھ بھری آواز میں یہ گلہ بھی کیا کہ پاکستان کے ''محسن ملک'' کو شرمندہ کرنے کے ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کے چند لوگ کچھ ایسے سوالات بھی اٹھاتے چلے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ''مخلص دوست'' یہ سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے کہ پاکستانی بڑے احسان فراموش لوگ ہیں۔
اپوزیشن والے وزیر خزانہ کی التجائوں پر غور کرنے کو تیار نہ تھے۔ نوید قمر، مخدوم شاہ محمود قریشی اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے بلکہ طویل اور دھواں دھار تقاریر فرما ڈالیں۔ وہ ''مخلص دوست'' کا نام بھی لیتے رہے اور شام کے حوالے سے اس ملک کے واضح طور پر نظر آنے والے مفادات کا ذکر بھی۔ محمود خان اچکزئی اس موقع پر اپنی اتحادی جماعت کی مدد کو اُٹھے۔ خادمینِ حرمین شریفین کی پاکستان سے محبت کا کھلے دل سے اعتراف کیا مگر وزیر خزانہ سے یہ مطالبہ بھی کر ڈالا کہ اگر ان کے لیے مناسب نہیں تو وزیر اعظم یا کم از کم وزیر دفاع کی طرف سے یہ واضح بیان دلوا دیجیے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ مل جانے کے بعد پاکستان اپنی افواج کو کسی دوسرے ملک کے مفاد کے لیے کسی تیسرے ملک نہیں بھیجے گا۔ ڈار صاحب کو اچکزئی کی وجہ سے موقعہ مل گیا کہ ایوان کو یاد دلائیں کہ نواز شریف کی کابینہ کا ایک اہم رکن ہوتے ہوئے وہ تمام حکومتی پالیسیوں کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کسی بھی وقت کوئی بیان دے سکتے ہیں۔
یہ بات یاد دلانے کے بعد انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ پاکستان اپنی افواج کو کسی دوسرے ملک کے مفاد میں کسی تیسرے ملک میں استعمال نہیں کرے گا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد انھیں بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ پتہ نہیں کیوں جذبات کی رو میں بہہ کر بالآخر انھوں نے اعتراف کر ڈالا کہ جی ہاں سعودی عرب نواز شریف اور ان کی جماعت اور حکومت پر بے پناہ اعتماد کرتا ہے۔ پاکستان نے 1998ء میں جب ایٹمی دھماکے کیے تو دنیا کے طاقتور ملکوں نے ہم پر اعصاب شکن اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں۔ اس کڑے وقت میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کو دو ارب ڈالر مالیت کا تیل مفت فراہم کرنے کا بندوبست کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ نواز حکومت اس سہولت کا پوری طرح فائدہ نہ اٹھا سکی۔ دُکھ اس نے جھیلے مگر انڈے پرویز مشرف کی حکومت مزید دو سال تک کھاتی رہی۔ یہ سب برملا کہہ دینے کے بعد ڈار صاحب کو کم از کم یہ دعویٰ کرنے سے باز آ جانا چاہیے کہ سعودی عرب سے ملے ''تحفے'' نواز شریف اور ان کی حکومت کے لیے مخصوص نہیں ہوتے۔ سچ بولنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پورا ہی بولا کریں۔ خواہ مخواہ کی عذر خواہیوں میں وقت ضایع نہ کریں۔