تعلیم پر سیاست
28 جون 2013ء کے بعد شعبہ تعلیم میں جس طرح سے تھرتھری مچائی گئی،
28 جون 2013ء کے بعد شعبہ تعلیم میں جس طرح سے تھرتھری مچائی گئی، بغیر سوچے سمجھے، جانے اور جانچے جس طرح سے ''لم سم'' پالیسیوں کے نفاذ اور ناکامی کا ذائقہ چکھنے کے بعد انھیں واپس لینے کی روایت راسخ ہوتی جارہی ہے، شاید ماضی کے ادوار ایسی مثال دینے سے قاصر ہوں۔
حکومت کے پروردہ سفید ہاتھیوں نے پانچویں اور آٹھویں کے امتحانات میں اپنی اپنی نااہلی کے پول جس طرح سے عیاں کیے، حکومت کے لیے ان پر پردہ ڈالنا اب ممکن نہیں رہا، کئی سال سے اساتذہ برادری مسلسل افسروں کے مشوروں پر ''آمین'' کہنے والی حکومتوں سے عرض گزار رہی ہے، صرف چند سکوں کی خاطر ملک کی نئی نسل اور تعلیمی شعبے کو تباہ نہ کیا جائے لیکن اساتذہ کے مطالبات پر نہ تو گزشتہ حکومتوں نے کان دھرے اور نہ موجودہ حکومت تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کو دور کرنے کے لیے اساتذہ کی بات سننے کے لیے تیار ہے۔ انھی غیر ملکی آقائوں کے بینر تلے سانس لینے والوں کے مشورے پر چند قبل جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق نئے تعلیمی سال کے اجرا کا حکم نامہ جاری کیا گیا، جس میں حکم دیا گیا کہ نیا تعلیمی سال یکم اپریل کے بجائے یکم مارچ سے شروع ہوگا۔
جب اس حکم نامے کے روبہ عمل ہونے کے نقصانات سے سرکار کو آگاہ کیا گیا، اس کے بعد سرکار نے حسب سابق الم غلم کیفیت میں جاری ہونے والے اس حکم نامے کو واپس لے لیا اور پھر سے یکم اپریل سے نئے تعلیمی سال کے احکامات جاری کر دیے، چوں چوں کے اس مربے پر عوامی تنقید ابھی جا ری و ساری تھی کہ جماعت پنجم اور ہشتم کے امتحانات میں نئے ریکارڈ قائم کر دیے گئے، غیر ملکی ''دانہ'' چگنے سے اور غیروں کے تعلیمی نظام میں پیسے اور نظریات کی سرمایہ کاری کی آب یاری سے قبل پنجم اور ہشتم کا امتحان ضلعی سطح پر محکمہ تعلیم کے ذمے دار لیا کرتے تھے۔ مقامی ممتحن اور مقامی انتظامیہ کے ''آل ان آل'' ہونے کے باوجود گزرے زمانے میں کبھی پنجم اور ہشتم کے سابقہ طریقہ امتحان میں ذرا بھر بھی ''بوٹی مافیا'' اور اقربا پروری کے قصے زبان زد عام نہیں ہوئے، پنجم اور ہشتم کے سابقہ طریقہ امتحان کے تحت پاس ہونے والے طلبا پاس اور فیل ہونے والے فیل گردانے جاتے تھے۔
پاکستان کے تعلیمی شعبے میں زوال پذیری کا عنصر اس دن شامل ہوا جب تعلیم کے شعبے میں غیر ملکی ''چمک'' داخل ہوئی۔ غیروں کے آگے جب دامن پھیلایا گیا، غیروں نے جہاں دامن میں ''سکے'' ڈالے، وہیں انھوں نے اسی دامن میں اپنی شرائط بھی ڈالیں۔ بس! وہ دن اور آج کا دن، پیسہ اوپر سطح پر کھایا جا رہا ہے اور نچلی سطح پر شرائط کی زنجیروں میں نئی نسل کو جکڑ کر اسے تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کبھی ''مخلوط نظام تعلیم'' کی شرط عائد کی جاتی ہے، کبھی غیر ''جنسی'' تعلیم لاگو کرنے کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں، کبھی نظام تعلیم کی بہتری کے بہانے پاکستانی معاشرے کی کسی اور قدر پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں سارے گورکھ دھندے کا مفہوم یہ بنتا ہے، غیروں نے جہاں حکمرانوں اور افسر شاہی کی جھولیوں میں سکے ڈالے ساتھ اپنے مفادات بھی ''بونس'' کی صورت میں ان کے دامن کا حصہ بنا گئے۔
لگے برسوں میں جس طرح سے پاکستانی نظام تعلیم میں ''بہتری'' کے ماٹو کو اپنا کر غیر ملکی آقائوں کی شرائط کو نظام تعلیم میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی اس کے منفی ثمرات بڑی تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ مانا کہ تعلیمی شعبے میں بہتری لانے کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں کی جائیں، ایک خاص وقت کے بعد نصاب پر نظرثانی کی جائے، مگر پاکستانی معاشرے اور پاکستانی آئین کے کس شق میں یہ لکھا ہے، چند روپوں کی خاطر پاکستانی معاشرے کے اقدار، روایات اور اسلام کے احکامات پر قدغن لگائیں۔ پاکستانی آئین میں کہاں لکھا ہے کہ اپنی ثقافت کو ''رول بیک'' اور غیروں کی ثقافتی اقدار اور پالیسیوں کو رائج کیا جائے۔ لدھے چند سال سے تعلیمی نظام میں کیا خوفناک فصل بوئی جا رہی ہے؟ کامل طور پر غیر ملکی آقائوں کے احکامات پر من و عن لبیک کہتے ہو ایسی پالیسیوں کو بغیر جانچے نافذ کیا جا رہا ہے، جن پالیسیوں کے رواں دواں ہونے سے پاکستانی نظام تعلیم کا پہیہ رکنے لگا ہے، نصاب کو ایک جانب رکھ کر بات کی جائے، ایمان داری کی بات یہ کہ پاکستان کا تعلیمی نظام دخل در معقولات اور بیرونی خرافات سے پہلے پاکستانی ثقافت، روایات اور اقدار کے مطابق چل رہا تھا۔
اب ''ایسٹ انڈیا کمپنی'' کی اجارہ داری کے بعد اخلاقیات، مشرقی اقدار، روایات اور تعلیمی حالت کے جنازے ایک ساتھ نکل رہے ہیں اور یہ سب کچھ کیوں اور کس کے ایما پر کیا جا رہا ہے۔ اس کہانی کے دوسرے سرے پر صرف ''پیسہ وصولی'' کا ایجنڈا کارفرما ہے۔ پاکستانی نئی نسل کی راست تربیت اور پاکستانی نظریات اور اقدار سے غیر ملکی ڈالر زیادہ اہم ہو گئے ہیں، بظاہر تو یہی نظر آتا ہے، جن کو ڈالرز کی جھنکار سے پیار ہے انھیں پاکستان کے مفادات سے کوئی ''دل لگی'' نہیں۔ یہاں فرض عین وفاقی حکومت کے نمایندوں، پنجاب کے کارپردازوںٰ کا فرض بنتا ہے وہ غیر ملکی آقائوں کے پیروکار افسر شاہی کے کہے سنے کے بجائے محکمہ تعلیم سے وابستہ ماہرین اور اساتذہ سے طویل مشاورت کریں اور اس مشاورت کے بعد تعلیمی شعبے میں نئے رجحانات متعارف کرانے کے لیے اقدامات کریں۔
افسر شاہی کی ہاں میں ہاں ملانے سے ری ایلوکیشن پالیسی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناحق بدنام کیا گیا، نئے تعلیمی سال کا سارا گند چپکے سے موجودہ حکومت کے سر پر تھوپا گیا۔ اب پنجم اور ہشتم کے امتحانات میں ہونے والی صوبائی سطح پر ''سبکی'' کو بھی صوبے میں براجمان حکومت اور اساتذہ پر تھوپنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ چند سال میں اچھے بھلے چلنے والے نظام تعلیم کے بے موقع اور بے محل ''آپریشن'' کروا کروا کر اسے ''قسطوں'' میں تباہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے اقدار سے لگا نہ کھانے والی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے شعبہ تعلیم ایک نہ حل ہونے والا معمہ بنتا جا رہا ہے۔
اس ساری کھچڑی سے ایک طرف اساتذہ میں شدید بددلی اور بے چینی کو فروغ ملا ہے، دوسری جانب عوامی، سماجی اور تعلیمی حلقوں میں موجودہ حکومت کی بدنامی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ معاملات کو ''نو ٹرن'' پر پہنچنے سے پہلے اگر وزیراعلیٰ پنجاب اپنے ہاتھ میں اس اہم تر معاملے کی باگ لے لیں، اس سے جہاں تعلیمی نظام تبا ہی سے بچ جائے گا وہیں نیک نامی کا تمغہ بھی وزیراعلیٰ کا مقدر بن جائے گا۔ ورنہ تعلیمی شعبے پر چھائی افسر شاہی حکومت وقت کے لیے قدم قدم پر خفت کے ایسے امور کا بندوبست مستقبل میں کرتی رہے گی جس سے عوامی اور تعلیمی حلقوں میں حکومت وقت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکومت کے پروردہ سفید ہاتھیوں نے پانچویں اور آٹھویں کے امتحانات میں اپنی اپنی نااہلی کے پول جس طرح سے عیاں کیے، حکومت کے لیے ان پر پردہ ڈالنا اب ممکن نہیں رہا، کئی سال سے اساتذہ برادری مسلسل افسروں کے مشوروں پر ''آمین'' کہنے والی حکومتوں سے عرض گزار رہی ہے، صرف چند سکوں کی خاطر ملک کی نئی نسل اور تعلیمی شعبے کو تباہ نہ کیا جائے لیکن اساتذہ کے مطالبات پر نہ تو گزشتہ حکومتوں نے کان دھرے اور نہ موجودہ حکومت تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کو دور کرنے کے لیے اساتذہ کی بات سننے کے لیے تیار ہے۔ انھی غیر ملکی آقائوں کے بینر تلے سانس لینے والوں کے مشورے پر چند قبل جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق نئے تعلیمی سال کے اجرا کا حکم نامہ جاری کیا گیا، جس میں حکم دیا گیا کہ نیا تعلیمی سال یکم اپریل کے بجائے یکم مارچ سے شروع ہوگا۔
جب اس حکم نامے کے روبہ عمل ہونے کے نقصانات سے سرکار کو آگاہ کیا گیا، اس کے بعد سرکار نے حسب سابق الم غلم کیفیت میں جاری ہونے والے اس حکم نامے کو واپس لے لیا اور پھر سے یکم اپریل سے نئے تعلیمی سال کے احکامات جاری کر دیے، چوں چوں کے اس مربے پر عوامی تنقید ابھی جا ری و ساری تھی کہ جماعت پنجم اور ہشتم کے امتحانات میں نئے ریکارڈ قائم کر دیے گئے، غیر ملکی ''دانہ'' چگنے سے اور غیروں کے تعلیمی نظام میں پیسے اور نظریات کی سرمایہ کاری کی آب یاری سے قبل پنجم اور ہشتم کا امتحان ضلعی سطح پر محکمہ تعلیم کے ذمے دار لیا کرتے تھے۔ مقامی ممتحن اور مقامی انتظامیہ کے ''آل ان آل'' ہونے کے باوجود گزرے زمانے میں کبھی پنجم اور ہشتم کے سابقہ طریقہ امتحان میں ذرا بھر بھی ''بوٹی مافیا'' اور اقربا پروری کے قصے زبان زد عام نہیں ہوئے، پنجم اور ہشتم کے سابقہ طریقہ امتحان کے تحت پاس ہونے والے طلبا پاس اور فیل ہونے والے فیل گردانے جاتے تھے۔
پاکستان کے تعلیمی شعبے میں زوال پذیری کا عنصر اس دن شامل ہوا جب تعلیم کے شعبے میں غیر ملکی ''چمک'' داخل ہوئی۔ غیروں کے آگے جب دامن پھیلایا گیا، غیروں نے جہاں دامن میں ''سکے'' ڈالے، وہیں انھوں نے اسی دامن میں اپنی شرائط بھی ڈالیں۔ بس! وہ دن اور آج کا دن، پیسہ اوپر سطح پر کھایا جا رہا ہے اور نچلی سطح پر شرائط کی زنجیروں میں نئی نسل کو جکڑ کر اسے تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کبھی ''مخلوط نظام تعلیم'' کی شرط عائد کی جاتی ہے، کبھی غیر ''جنسی'' تعلیم لاگو کرنے کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں، کبھی نظام تعلیم کی بہتری کے بہانے پاکستانی معاشرے کی کسی اور قدر پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں سارے گورکھ دھندے کا مفہوم یہ بنتا ہے، غیروں نے جہاں حکمرانوں اور افسر شاہی کی جھولیوں میں سکے ڈالے ساتھ اپنے مفادات بھی ''بونس'' کی صورت میں ان کے دامن کا حصہ بنا گئے۔
لگے برسوں میں جس طرح سے پاکستانی نظام تعلیم میں ''بہتری'' کے ماٹو کو اپنا کر غیر ملکی آقائوں کی شرائط کو نظام تعلیم میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی اس کے منفی ثمرات بڑی تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ مانا کہ تعلیمی شعبے میں بہتری لانے کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں کی جائیں، ایک خاص وقت کے بعد نصاب پر نظرثانی کی جائے، مگر پاکستانی معاشرے اور پاکستانی آئین کے کس شق میں یہ لکھا ہے، چند روپوں کی خاطر پاکستانی معاشرے کے اقدار، روایات اور اسلام کے احکامات پر قدغن لگائیں۔ پاکستانی آئین میں کہاں لکھا ہے کہ اپنی ثقافت کو ''رول بیک'' اور غیروں کی ثقافتی اقدار اور پالیسیوں کو رائج کیا جائے۔ لدھے چند سال سے تعلیمی نظام میں کیا خوفناک فصل بوئی جا رہی ہے؟ کامل طور پر غیر ملکی آقائوں کے احکامات پر من و عن لبیک کہتے ہو ایسی پالیسیوں کو بغیر جانچے نافذ کیا جا رہا ہے، جن پالیسیوں کے رواں دواں ہونے سے پاکستانی نظام تعلیم کا پہیہ رکنے لگا ہے، نصاب کو ایک جانب رکھ کر بات کی جائے، ایمان داری کی بات یہ کہ پاکستان کا تعلیمی نظام دخل در معقولات اور بیرونی خرافات سے پہلے پاکستانی ثقافت، روایات اور اقدار کے مطابق چل رہا تھا۔
اب ''ایسٹ انڈیا کمپنی'' کی اجارہ داری کے بعد اخلاقیات، مشرقی اقدار، روایات اور تعلیمی حالت کے جنازے ایک ساتھ نکل رہے ہیں اور یہ سب کچھ کیوں اور کس کے ایما پر کیا جا رہا ہے۔ اس کہانی کے دوسرے سرے پر صرف ''پیسہ وصولی'' کا ایجنڈا کارفرما ہے۔ پاکستانی نئی نسل کی راست تربیت اور پاکستانی نظریات اور اقدار سے غیر ملکی ڈالر زیادہ اہم ہو گئے ہیں، بظاہر تو یہی نظر آتا ہے، جن کو ڈالرز کی جھنکار سے پیار ہے انھیں پاکستان کے مفادات سے کوئی ''دل لگی'' نہیں۔ یہاں فرض عین وفاقی حکومت کے نمایندوں، پنجاب کے کارپردازوںٰ کا فرض بنتا ہے وہ غیر ملکی آقائوں کے پیروکار افسر شاہی کے کہے سنے کے بجائے محکمہ تعلیم سے وابستہ ماہرین اور اساتذہ سے طویل مشاورت کریں اور اس مشاورت کے بعد تعلیمی شعبے میں نئے رجحانات متعارف کرانے کے لیے اقدامات کریں۔
افسر شاہی کی ہاں میں ہاں ملانے سے ری ایلوکیشن پالیسی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناحق بدنام کیا گیا، نئے تعلیمی سال کا سارا گند چپکے سے موجودہ حکومت کے سر پر تھوپا گیا۔ اب پنجم اور ہشتم کے امتحانات میں ہونے والی صوبائی سطح پر ''سبکی'' کو بھی صوبے میں براجمان حکومت اور اساتذہ پر تھوپنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ چند سال میں اچھے بھلے چلنے والے نظام تعلیم کے بے موقع اور بے محل ''آپریشن'' کروا کروا کر اسے ''قسطوں'' میں تباہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے اقدار سے لگا نہ کھانے والی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے شعبہ تعلیم ایک نہ حل ہونے والا معمہ بنتا جا رہا ہے۔
اس ساری کھچڑی سے ایک طرف اساتذہ میں شدید بددلی اور بے چینی کو فروغ ملا ہے، دوسری جانب عوامی، سماجی اور تعلیمی حلقوں میں موجودہ حکومت کی بدنامی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ معاملات کو ''نو ٹرن'' پر پہنچنے سے پہلے اگر وزیراعلیٰ پنجاب اپنے ہاتھ میں اس اہم تر معاملے کی باگ لے لیں، اس سے جہاں تعلیمی نظام تبا ہی سے بچ جائے گا وہیں نیک نامی کا تمغہ بھی وزیراعلیٰ کا مقدر بن جائے گا۔ ورنہ تعلیمی شعبے پر چھائی افسر شاہی حکومت وقت کے لیے قدم قدم پر خفت کے ایسے امور کا بندوبست مستقبل میں کرتی رہے گی جس سے عوامی اور تعلیمی حلقوں میں حکومت وقت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔