اختلافی نوٹ
پاکستان کی عدلیہ میں جوڈیشل ایکٹوازم کی بہت سے اشکال رہی ہیں۔ تاہم مستقبل قریب میں ہم نے سوموٹو کو ہی دیکھا ہے
سپریم کورٹ کے محترم جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
انھوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی اختلاف کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جو معاملہ عدالت کے سامنے تھا ہی نہیں اس کے بارے میں حکم کیسے جاری کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال محترم جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ اب فیصلے کا حصہ ہے اور عدالتی تاریخ میں اس کو پڑھا اور دیکھا جائے گا۔
یہ الگ بات ہے کہ بنچ کے باقی چار ججز نے ان کے موقف سے اتفاق نہیں کیا۔ اس لیے چار ججز کے فیصلے کو ہی فیصلہ مانا جائے گا۔ لیکن پھر بھی اختلافی نوٹ کی ایک عدالتی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔
میں سمجھتا ہوں جناب جسٹس یحییٰ آفریدی نے جو نکات اپنے اختلافی نوٹ میں اٹھائے ہیں انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سانحہ وزیر آباد کے بارے میں ایف آئی آر درج نہ ہونے کے حوالے سے عدالت کے سامنے کوئی درخواست یا پٹیشن زیر سماعت نہیں تھی۔ کسی بھی متاثرہ فریق نے کوئی درخواست دائر نہیں کی تھی۔
اس لیے ہمارے نظام انصاف کا بنیادی اصول یہی ہے کہ جب تک عدالت سے انصاف طلب نہ کیا جائے' عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا نہ جائے عدالت حرکت میں نہیں آتی۔ قانون کی زبان میں عدالت کا اپنا کوئی علم نہیں ہوتا' اس نے فریقین کی بات سن کر ہی فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھے علم ہے۔ عدالت کا علم وہی ہے جو فریقین اسے بتاتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہم نے سوموٹو میں دیکھا ہے کہ عدالت از خود فیصلہ کرتی ہے۔ سوموٹو میں فریقین عدالت سے رجوع نہیں کرتے بلکہ عدالت فریقین کو از خود طلب کرتی ہے اور کئی دفعہ طلب کیے بغیر ہی فیصلہ بھی جاری کر دیا جاتا ہے۔
ماضی میں ہم نے سوموٹو کلچر کو بہت دیکھا ہے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس صاحبان نے خود ہی سوموٹو کلچر کومحدود کر دیا۔ ایک چیف سابق جسٹس جو روزانہ سوموٹو لینے کی شہرت رکھتے تھے لیکن ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس نے کوئی سوموٹو نہ لینے کو اپنا نصب العین بنایا' اس لیے سوموٹو کے حوالے سے عدلیہ میں یکساں رائے نہیں ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عدلیہ سوموٹو کا اختیار ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اس کو قائم بھی رکھنا چاہتی ہے لیکن آجکل کم استعمال کرنے کا رجحان ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سانحہ وزیر آباد کی ایف آئی آر درج کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ کوئی سوموٹو نہیں تھا۔ بلکہ کسی اور کیس کو سنتے ہوئے یہ حکم دیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی ایک مقدمہ کو سنتے ہوئے کسی اور مقدمہ یا واقعہ کے بارے میں حکم جاری کرنا سو موٹو اور جوڈیشل ایکٹوزم سے بھی آگے کی بات ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سپریم کورٹ کو سانحہ وزیر آباد کی ایف آئی آر درج نہ ہونے پر کوئی حکم جاری نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن قانون میں کوئی حکم قانونی تقاضوں کو پورا کرکے ہی دینا چاہیے۔
ایک قانونی حکم اگر غیر قانونی طریقہ سے دیا جائے گا تو اس کی قانونی حیثیت پر سوال پیدا ہو جائیں گے۔ اس لیے جسٹس یحییٰ آفریدی کے قانونی نکات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اگر عدلیہ میں یہ رحجان پروان چڑھ گیا کہ کوئی ا ور مقدمہ سنتے ہوئے کسی اور مقدمہ میں کوئی حکم جاری کر دیں گے تو نظام انصاف گر جائے گا۔ اس کی بنیاد ہی ختم ہو جائے گی۔
کسی کو کیا پتہ ہو گا کس مقدمہ کی سماعت کے دوران کونسی عدالت کونسا حکم جاری کر دے گی۔
پاکستان کی عدلیہ میں جوڈیشل ایکٹوازم کی بہت سے اشکال رہی ہیں۔ تاہم مستقبل قریب میں ہم نے سوموٹو کو ہی دیکھا ہے۔
چیف جسٹس کے بنچ تشکیل دینے کے انتظامی اختیار پر بھی سوال نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے چیف جسٹس پاکستان کو دو اہم معاملات پر خط لکھے ہیں۔ صحافی ارشد شریف اور سانحہ وزیر آباد کی تحقیقات کے لیے ان دونوں اہم معاملات پر سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججز پر کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے۔
میری رائے میں وزیر اعظم پاکستان نے ہر قسم کے جیوڈیشل ایکٹوزم کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ عمران خان پر حملہ کی ایف آئی آر پر عدلیہ تب ہی حرکت میں آتی جب عدلیہ سے رجوع کیا جاتا۔ ویسے بھی ماتحت عدلیہ موجود ہے۔ یہ ماتحت عدلیہ کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جو حکم دیا ہے وہ ماتحت عدلیہ کا ایک ایڈیشنل سیشن جج دے سکتا تھا جب کوئی بھی متاثرہ فریق اس سے رجوع کرتا۔
کیا عام آدمی کو بھی یہ سہولت حاصل ہوگی ۔ اگر یہ سہولت عام آدمی کو حاصل نہیں ہو گی تو یہ یکساں نظام انصاف کی نفی ہوگی۔ جو نظام انصاف کی بنیاد ہے۔