باقی رہا نہ کوئی تماشا

وہی باتیں سننے کو ملتی ہیں جن میں وہی مٹھاس ہوتی ہے اور وہی کڑواہٹ ‘ انداز اور طریقہ کار بدلتا رہتا ہے

barq@email.com

ہمارے سامنے یہ جو اسٹیج ہے اوراس پر پچھترسال سے ایک ''سوپ سیریل''چل رہا ہے یوں تو اس پر وہی ایک ہی ڈرامہ چل رہاہے جس میں نام بدل جاتے ہیں، کردار بدل جاتے ہیں، چہرے بدل جاتے ہیں لیکن واقعات اور مکالمے وہی رہتے ہیں۔

وہی باتیں سننے کو ملتی ہیں جن میں وہی مٹھاس ہوتی ہے اور وہی کڑواہٹ ' انداز اور طریقہ کار بدلتا رہتا ہے' کبھی کبھی تو اس میں ایسے مناظر بھی آجاتے ہیں کہ پورا ہال تالیوں کی گونج، سیٹیوں اور شورسے بھر جاتاہے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔

جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو

سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں

بلکہ اسے اگر ہم ہائیڈ پارک یا وہ میلہ کہیں جس میں بھانت بھانت کے مداری اپنا اپنا تماشا دکھا کراپنا تماشا دکھا رہے اور اپنی دوائی بیچ رہے ہیں ،ہجوم بھی یہ تماشا دیکھ کر خوش ہو رہا ہے اور تالیاں بجا رہا ہے۔ ایسا ہی ایک منظر ہم نے بہت دن ہوئے دیکھا تھا۔

ایوب خان کی ''ولولہ انگیز'' قیادت نے جب دس سال پورے کیے تو ایک جشن برپا کیاگیا جس کا نام ڈیکیڈ آف ریفامز یاجشن دس سالہ ترقیات تھا، مختلف مقامات پر جشن برپا ہورہے ہیںاور یہ بتایا جا رہا تھا کہ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور ہریالی ہی ہریالی 'جو کچھ بنجر نظر آ رہا ہے وہاں بھی چند دن بعد ہریالی ہی ہریالی ہوجائے گی۔

ایسا ہی ایک جشن ہمارا چشم دید تھا ''بٹ خیلہ'' میں ایک پارک ہے، اس میں ملاکنڈ ایجنسی کے زیراہتمام اس جشن کو دیکھنے کا موقع ہم کو بھی ملا تھا۔ ایک بہت وسیع پارک میں شامیانے قناتیں اور تمبو لگائے گئے تھے اور سوات، دیر، چترال اور ادھرمردان سے نامی گرامی طوائفیں اور طائفے اس میں مدعوکیے گئے تھے لیکن پروگرام کسی ایک جگہ نہیں بلکہ وسیع وعریض پارک میں جگہ جگہ ہو رہے تھے ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ میلہ کتنا بڑا تھا اور عوام کا جوش و خروش کتنا تھا ۔

ہرطائفہ یا طوائف کی اپنی اپنی ٹولی تھی جہاں وہ اپنا ''جوہر''دکھا رہی تھی اور تماشائی خوشی خوشی کبھی ایک کبھی دوسری ٹولی کو دیکھنے میں متحرک تھے ،ایک شورکا سماں تھا ہرجگہ رونق ہی رونق تھی۔ہر طرف مسکراتے اور قہقہے لگاتے ہوئے تماشائی نظر آ رہے تھے۔ہر ٹولی کی کوشش تھی کہ وہ اپنے گرد زیادہ سے زیادہ تماشائیوں کا ہجوم اکٹھا کرے ۔

یا شب کو دیکھتے تھے ہر گوشہ بساط

دامان باغ بان وکف گل فروش تھا

موج خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ

بزم خیال میکدہ مے فروش تھا

کچھ ایسی ہی صورت حال آج بھی ہے، آج بھی کچھ نہیں بدلہ سب کچھ ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ ہر ٹولی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے تماشائیوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے ایسے تماشے ہو رہے ہیں کہ نہ کبھی دیکھے تھے نہ سنے تھے ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ تماشائی بھی ایسے تماشے دیکھ کر اکتا نہیں رہے بلکہ ہر تماشے میں بھرپور شرکت کر رہے اور پرجوش انداز میں تالیاں بجا رہے ہیں۔

باقی رہا نہ کوئی تماشا کیے بغیر

وہ بھی ہوا جو پہلے کہیں بھی نہیں ہوا

یہ تماشا نہیں تو کیا ہے کہ ضمنی الیکشن میں پہلے سے منتخب شدہ محض دل لگی کی خاطر سات آٹھ سیٹوں پر انتخابات لڑتے ہیں، سب کو پتہ ہے کہ زرکثیر صرف کرکے یہ تماشا کرنے کے بعد یہی تماشا ایک مرتبہ پھر ہوگا جب سات آٹھ سیٹوں پر منتخب ہونے والا صرف ایک سیٹ رکھ کر فالتو سیٹوں سے استعفیٰ دے دے گا تو پھر الیکشن ہوگا اور اس بدنصیب قوم کا خون پسینہ گٹر میں بہایا جائے گا جو قرضوں کے انبار کے نیچے کراہ رہی ہے اور یہ صرف اسلیے کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔


حیرت تو اس امر پر ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس قوم نے ایسا کھیل کھیلا کہ اس کی محنت کا پھل کہیں نظر نہیں آ رہا ' جسے ہرا سمجھا گیا تھا اب وہاں سوکھی گھاس دکھائی دے رہی ہے ' جسے ہٹا کر ایک بار پھر وہاں ہری گھاس اگانے کے خواب دیکھے جائیں گے۔

ایک پرانا واقعہ پھر دم ہلانے لگا ہے، جسٹس محمد رستم کیانی کی تقاریر پر مشتمل کتاب ''افکار پریشان '' میں اس دورکے دلچسپ واقعات بیان ہوئے ہیں ،کیانی صاحب نے کسی جگہ کا ذکر کیا ہے جہاں وہ بطور جج فائز تھے، کہتے ہیں کہ میری عدالت میں ایک شاعرکو پیش کیا گیا جس پر الزام تھا کہ اس نے ملک کی توہین کی ہے جس شعرکو جرم کے طور پر لکھا گیا تھا وہ یہ تھا کہ ؎

دیکھتاکیاہے میرے منہ کی طرف

قائد اعظم کا پاکستان دیکھ

میں نے سرکاری وکلاء سے پوچھا کہ اس میں جرم کہاں ہے ، اس نے تو کسی سے کہا ہے کہ میرے منہ کی طرف مت دیکھو بلکہ قائد اعظم کے پاکستان کی طرف دیکھو، اول تو کسی کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کا کچھ جرم نہیں اور پھر اگر اس میں کسی چیزکی برائی نظر آتی ہے تو وہ شاعر کا اپنا منہ ہے شاید اس کا چہرہ دیکھنے کے قابل نہ ہو یا کسی کو مسلسل اپنے چہرے کی طرف دیکھتے پا کر اسے اچھا نہ لگا ہو۔

اس لیے اس نے دیکھنے والے سے کہا کہ میرے منہ کی طرف مت دیکھو ، قائد اعظم کا پاکستان دیکھو، اس میں غلط کیا ہے ۔پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان کہہ کر اس نے توہین کی بجائے تعریف کی ہے اور قائد اعظم کے پاکستان کو دیکھنے دکھانے کی بات کوئی بری بات نہیں ہے۔ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ۔

اس زمانے میں پتہ نہیں کہ پاکستان دیکھنے کی چیز تھا یا نہیں لیکن آج کل تو نہ صرف دیکھنے کی '' چیز''ہے بلکہ ''سننے'' کی بھی چیز ہے کیوں کہ جو میلا لگا ہوا ہے اس میں ''بیان اور بیانیے'' بھی بہت سرگرم ہے اور یہ کام اتنا ضروری ہے کہ کچھ لوگوں نے خود کو ناکافی جان کر باقاعدہ ''توپیں'' کرائے پر لی ہوئی ہے جو دھنا دھن گولے اگل رہی ہیں، یہ توپیں معاون خصوصی یا مشیر یا ترجمان کہلاتی ہیں اور روزانہ دھن دھناری ہیں ایک حشر سا بپا ہے۔

تو نے بت ہرجائی کچھ ایسی ادا پائی

تکتا ہے تری صورت پر ایک تماشائی

ہم توہر روزجب اخبارکھولتے ہیں تو وہی تماشا گاہ اور وہی ہائیڈ پارک دیکھتے ہیں، ہرطرف ٹولیاں تماشائیوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے ہرحد پارکر رہی ہیں، منہ ہی منہ میں زبانیں ہی زبانیں ہیں، شور ہی شور ہے اور ہنگامے ہی ہنگامے ہیں، مقابلہ اتنا سخت ہے اور بات اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ ؎

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

وہ تو ہم جانتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ یہ سارا کھڑاک ان بدنصیب، بدقماش اور خالی دماغ،عوامیہ کی چادر چرانے کے لیے ہو رہا ہے اور پیڑ میں سونے کی چڑیا دکھا کر نیچے ختنہ کرنے کا معاملہ ہے لیکن ایسی بھی کیا میلہ سازی اور دھوم دھڑاکا کہ اس میں ہرحد، ہر اخلاق، ہراصول اور ہرشرافت کا جنازہ ہی نکال دیاجائے ۔

ایک پرانا مقولہ تو یہ تھا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائزہوتاہے لیکن اس وقت ''سیاست'' میں سب کچھ جائزکیا جا چکا ہے ۔

ازمہرتابہ ذرہ دل ودل ہے آئینہ

طوطی کوہرجہت سے مقابل ہے آئینہ
Load Next Story