موت کے سوداگر

کہاوت مشہور ہے کہ ’’آنی کو کون ٹال سکتا ہے‘‘۔ مگر ہم پاکستانی ایسے باہنر ہیں کہ اگر آنی کو ٹال نہیں سکتے

کہاوت مشہور ہے کہ ''آنی کو کون ٹال سکتا ہے''۔ مگر ہم پاکستانی ایسے باہنر ہیں کہ اگر آنی کو ٹال نہیں سکتے تو ''ٹلی ہوئی کو بلا ضرور سکتے ہیں''۔ ملک میں ہر طرف موت کا والہانہ رقص جاری ہے۔ قدرتی آفات، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، خاندانی دشمنی اور بلا جواز فائرنگ سے ملک بھر میں روز سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قدرتی آفات کے علاوہ باقی سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے، بلکہ ایک طبقہ فکر کا تو کہنا ہے کہ قدرتی آفات بھی ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں۔ مومن کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ موت کو ہر وقت یاد رکھتا ہے کیونکہ موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے، جس کا وقت بھی مقرر ہے مگر ہمیں اس کا ادراک نہیں کہ وہ کب ہماری زندگی کی دہلیز پر دستک دیتی ہے۔ ہر آتی سانس کو غنیمت جان کر آنے والی سانس کا انتظار کرنا اور آ جائے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے جو سانس کی آمد و رفت پر قادر ہے۔ لمحہ موجود ہی زندگی ہے، پتہ نہیں کہ دوسری سانس آتی ہے یا نہیں، بقول میر انیسؔ:

انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

غرض یہ کہ موت ہمارے چہار سو رقص کناں ہے۔ اس کے باوجود ہم دولت کو اپنا دین و ایمان بلکہ خدا بنا بیٹھے ہیں اور جو سانسیں میسر ہیں ان کو دولت بٹورنے کے علاوہ کسی اور کام میں صرف کرنے پر آمادہ نہیں۔ آج وطن عزیز میں سب سے چلتا کاروبار گورکن اور کفن فروشوں کا ہے۔

دولت کی ہوس نے ہم سے حرام و حلال، جائز و ناجائز کی تمیز بھی چھین لی ، گھڑی بھر کا بھروسہ نہیں منصوبے (ذاتی خوشحالی اور مفادات کے) سو سالہ۔ دولت اکٹھی کرنے کی دھن میں ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ یہ دولت ہم استعمال بھی کر سکیں گے یا اس سے قبل ہی فرشتہ اجل سے ملاقات ہو جائے اور سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائے۔ لیکن دولت کا نشہ شاید وہ نشہ ہے کہ

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

اس دولت نے کیا کیا گل کھلائے اور کیسے کیسے چراغ گل کیے اگر ان کے پس پردہ جھانک کر دیکھا جائے تو ہر ادارے، ہر شعبہ زندگی کی کارکردگی طشت ازبام ہوئے۔ پیسے کی خاطر کہاں کہاں، کیسے کیسے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ معمولی حادثے سے لے کر خوفناک اور دل دہلا دینے والے المیوں تک سب میں یہی دولت کی لوٹ کھسوٹ کا ہاتھ کار فرما نظر آئے گا۔


اتوار، 23 مارچ کی صبح گڈانی میں ٹریفک کا ہولناک سانحے کو ہم قدرتی آفت قرار نہیں دے سکتے۔ اسمگلنگ جرم ہے اور وہ بھی پٹرول جیسے آتش گیر مادے کی، جو اسمگلنگ کی روک تھام پر مامور ذمے داروں کی زیر نگرانی روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہو تو کیا اس میں کوئی ایک فرد یا ایک گروہ ملوث ہے یا وہ سب جو اپنے حصے کی رقم وصول کر کے یہ مذموم کاروبار چلانے میں مددگار ہیں۔ جب سب کی مٹھی گرم ہو جائے تو پھر بلاخوف غیر قانونی کام بھی قانونی بن جاتا ہے اور یہ موت کا سامان ہماری شاہراہوں پر بلا روک ٹوک دندناتا پھرے تو کسی کو اس پر کیا اعتراض؟ غضب خدا کا کہ ٹینکروں کے علاوہ مسافر بسوں میں بھی پٹرول کے ڈرم بلاخوف سڑکوں پر نہ جانے کب سے رواں دواں تھے، اگر یہ سانحہ نہ ہوتا تو یہ کاروبار یوں ہی چلتا رہتا بلکہ اب بھی چلتا ہی رہے گا (شاید کچھ عرصے کو تعطل کا شکار ہو جائے)۔ کیونکہ ہمارے یہاں بڑے سے بڑے حادثے کے ذمے داروں کا کبھی بروقت تعین ہوتا ہی نہیں۔ وقتی پکڑ دھکڑ ہوتی جب واقعہ شدید اور تازہ ہوتا ہے۔ تفتیش و تحقیق کے نام پر اتنا وقت گزر جاتا ہے کہ لوگ اس کو بھول جائیں اور معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے۔

حادثے کے ذمے دار کیونکہ صاحب ثروت ہوتے ہیں اور اپنی ناجائز دولت کو بڑی فیاضی سے سب پر تقسیم کر کے تمام مراعات حاصل کرلیتے ہیں، ان کے کاروبارِ موت میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں تو بھلا چند گمنام اور بے حیثیت افراد جو اس زمین پر کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، کی خاطر ان با حیثیت و با اختیار افراد پر کیسے ہاتھ ڈالا جائے؟ کیونکہ تمام ہی کرتا دھرتاؤں کے چولہے ان کی نوازشات کے باعث جلتے ہیں۔ مقدمہ درج بھی ہو جاتا ہے، چلتا بھی ہے، ملزم پکڑے بھی جاتے ہیں مگر کبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچ پاتے۔ اول تو ان کے خلاف کوئی ثبوت اور گواہ ملتا ہی نہیں اور اگر کوئی گواہ مل بھی جائے تو وہ دوسری پیشی پر اپنے بیان سے منحرف ہو جاتا ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ بھئی! کیوں منحرف ہو گیا، مقدمے کی ایک سماعت سے دوسری سماعت کے درمیان ان حادثوں میں مر جانے والوں کی لاشوں پر سوداگری شروع ہو جاتی ہے۔ گواہ کو مع خاندان اپنی جان و عزت کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اس کی جان بخشی کی صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان واپس لے لے، اس کے باوجود وہ ہمیشہ خود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے اور موقع ملتے ہی ملک نہیں تو کم از کم شہر چھوڑ کر گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

انصاف کی فراہمی میں اتنی تاخیر بذات خود ایک بڑا جرم ہے کیونکہ یہ کئی اور جرائم کو پروان چڑھاتا ہے۔

گارمنٹ فیکٹری میں زندہ جل جانے والوں کے سانحے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہ ایک اور اندوہناک حادثہ پیش آ گیا۔ آج تک پہلے زندہ جل جانے والوں کے لواحقین کو انصاف میسر نہ آ سکا تو کیا ان تازہ سوختہ افراد کے لواحقین کو انصاف ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ بلکہ اگلے دن ہی اس سانحے کی شدت میں کمی کا احساس ہر صاحب دل ہو گیا تھا۔

جو قوم اندرونی و بیرونی خطرناک میں گھری ہوئی ہو، جہاں کوئی بھی فرد کہیں بھی خود کو محفوظ نہ سمجھتا ہو حتیٰ کہ گھر، مساجد، اسپتال، دفتر، پارک اور راہ چلتے کہیں بھی امان نہ ہو، جہاں سرحدوں اور لوگوں کی حفاظت کرنے والے خود غیر محفوظ ہوں وہاں چند افراد کا لقمہ اجل بن جانا کیا اہمیت رکھتا ہے۔ دولت میں بڑی طاقت ہے، اتنی کہ انصاف بھی زرخرید غلام کی طرح آپ کے اشاروں پر چلے، آپ کے تمام جرائم پر قیمتی دبیز پردے ڈال دے۔ فرعون و ہامون، شداد و نمرود اپنی دولت و اقتدار کی طاقت کے بل بوتے پر ہی تو خلق خدا کو حقیر سمجھتے تھے، وہ دولت و طاقت کے نشے میں اس طاقت کو بھلا بیٹھے تھے جس نے ان میں سے کسی کو غرق آب کیا تو کسی کو دولت کے ساتھ ہی زمین میں دفن کر دیا اور کسی کا غرور ایک معمولی مچھر کے ذریعے خاک میں ملا دیا۔ مگر دولت کو طاقت اور اپنا خدا سمجھنے والے ان کے انجام کو مسلسل نظرانداز کرتے رہے ہیں، کرتے رہیں گے۔ صورتحال میں فی الحال کسی تبدیلی کا دور دور نشان نظر نہیں آتا بلکہ لگتا ہے کہ 'موت کا رقص والہانہ، زندگی منہ چھپائے پھرتی ہے، جیسی صورتحال برقرار رہے گی۔
Load Next Story