کراچی میں قائم تاریخی درسگاہ ڈی جے سائنس کالج پر قبضے کیخلاف طلبا سراپا احتجاج
کالج کی عمارت میں قبضہ ہورہا ہے، اساتذہ پڑھانے نہیں آتے، نئے داخلوں میں 84 فیصد کمی ہوئی ہے، احتجاجی طلبا
شہر قائد میں قائم تاریخی درسگاہ ڈی جے سائنس کالج کے طلبا کی جانب سے کالج کی عمارت کے اہم حصوں پر سرکاری محکموں کے قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق احتجاجی طلبا نے بند کلاس رومز،اساتذہ کی عدم دستیابی پر انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے کہا کہ رواں سال 85 فیصد داخلوں میں کمی ہوئی ہے۔
علاوہ ازیں طلبا نے الزام عائد کیا کہ انتظامیہ کی نااہلی اور غلفت کی وجہ سے ڈی جے سائنس کالج کی عمارت پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ طلبا نے پہلے ڈی جے سائنس کالج کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے بعد احتجاجی مظاہرین نے ڈی جی کالجز سندھ کے دفتر تک ریلی نکالی اور اپنے مطالبات کے حق میں ڈی جی کالجز کے دفتر کا گھیراؤ کیا۔
مزید پڑھیں: حکومت ڈی جے سائنس کالج کو بند کرنا چاہتی ہے، حافظ نعیم الرحمن
طلباء کے نمائندہ وفد نے اپنے مطالبات ڈی جی کالجز سندھ کے دفتر میں جمع کروائے اور پُرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ احتجاجی طلبا کے مطابق ہر سال کم و بیش چھ سو داخلے پری انجینئرنگ میں دیئے جاتے تھے لیکن رواں سال داخلوں میں پچاسی فیصد کمی کردی گئی۔ تاریخی عمارت کے اہم حصوں پر مختلف سرکاری محکموں کا قبضہ ہے جو کمرے کلاس رومز تھے وہ بند پڑے ہیں۔ کلاسز اور اساتذہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے مضامین تک بدلنے پڑے ہیں۔
اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز ڈاکٹر قاسم راجپر نے قبضے کی تردید کرتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ قبضے کا میرے علم میں نہیں البتہ آج تک کوئی داخلے بند نہیں ہوئے میرٹ کی بنیاد پر ہی داخلے دیے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈی جے سائنس کالج میں تیرہ سو چھپن داخلے ہوئے ہیں ابھی بھی سو داخلے پروسس میں ہیں جن کو میرٹ کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے، گزشتہ سال 14 سو داخلے ہوئے تھے پچھلے سال کمپیوٹر سائنس کی فیکلٹی نہیں تھی اس سال کمپیوٹر سائنس میں بھی داخلے دیے گئے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق احتجاجی طلبا نے بند کلاس رومز،اساتذہ کی عدم دستیابی پر انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے کہا کہ رواں سال 85 فیصد داخلوں میں کمی ہوئی ہے۔
علاوہ ازیں طلبا نے الزام عائد کیا کہ انتظامیہ کی نااہلی اور غلفت کی وجہ سے ڈی جے سائنس کالج کی عمارت پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ طلبا نے پہلے ڈی جے سائنس کالج کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے بعد احتجاجی مظاہرین نے ڈی جی کالجز سندھ کے دفتر تک ریلی نکالی اور اپنے مطالبات کے حق میں ڈی جی کالجز کے دفتر کا گھیراؤ کیا۔
مزید پڑھیں: حکومت ڈی جے سائنس کالج کو بند کرنا چاہتی ہے، حافظ نعیم الرحمن
طلباء کے نمائندہ وفد نے اپنے مطالبات ڈی جی کالجز سندھ کے دفتر میں جمع کروائے اور پُرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ احتجاجی طلبا کے مطابق ہر سال کم و بیش چھ سو داخلے پری انجینئرنگ میں دیئے جاتے تھے لیکن رواں سال داخلوں میں پچاسی فیصد کمی کردی گئی۔ تاریخی عمارت کے اہم حصوں پر مختلف سرکاری محکموں کا قبضہ ہے جو کمرے کلاس رومز تھے وہ بند پڑے ہیں۔ کلاسز اور اساتذہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے مضامین تک بدلنے پڑے ہیں۔
اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز ڈاکٹر قاسم راجپر نے قبضے کی تردید کرتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ قبضے کا میرے علم میں نہیں البتہ آج تک کوئی داخلے بند نہیں ہوئے میرٹ کی بنیاد پر ہی داخلے دیے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ڈی جے سائنس کالج میں تیرہ سو چھپن داخلے ہوئے ہیں ابھی بھی سو داخلے پروسس میں ہیں جن کو میرٹ کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے، گزشتہ سال 14 سو داخلے ہوئے تھے پچھلے سال کمپیوٹر سائنس کی فیکلٹی نہیں تھی اس سال کمپیوٹر سائنس میں بھی داخلے دیے گئے ہیں۔