امریکی وسط مدتی انتخابات

ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان نشستوں کی تعداد میں فرق زیادہ نہیں ہے


Editorial November 11, 2022
فوٹو : گیٹی امیجز

امریکا سے موصول شدہ تازہ صورت حال کے مطابق ایوان نمایندگان اور سینیٹ کے لیے کئی کلیدی ریاستوں میں کانٹے کے مقابلے ہوئے، جبکہ انتخابی حکام نے خبردار کیا ہے کہ بعض حلقوں میں حتمی نتائج آنے میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیں۔

امریکی ایوانِ نمایندگان کے انتخاب میں ری پبلکننز کی جس 'ریڈ ویو' کی توقع کی جارہی تھی، وہ توقع سے کم رہی ہے تاہم ری پبلکنز نے ایوانِ نمایندگان میں برتری حاصل کرلی ہے تاہم ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان نشستوں کی تعداد میں فرق زیادہ نہیں ہے۔

کانگریس کے ہر دو سال کے بعد ہونے والے انتخابات میں صدر جوبائیڈن کی بقیہ مدت کے دوران کیپٹل ہل کا سیاسی کنٹرول داؤ پر ہے۔ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کی نشستوں پر انتخابات کے علاوہ کئی ریاستوں کے گورنرز کے انتخاب کے لیے منگل کو ووٹنگ ہوئی تھی۔

حالیہ بدترین مہنگائی کے باعث جو بائیڈن کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ انھوں نے ادویات کی قیمتوں میں کمی، ماحول دوست توانائی کے استعمال اور امریکی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو جیسے وعدوں کی تکمیل کے لیے کام کیا ہے۔ اس الیکشن میں ووٹروں کے لیے معیشت اور اسقاط حمل کا حق دو بڑے مسائل بتائے گئے ہیں۔

جوبائیڈن کی طرح سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی انتخابات کا حصہ نہیں ہیں لیکن وہ اپنے قانونی معاملات اور ریپبلکنز کی حمایت کی وجہ سے ریپبلکنز کے لیے ہی درد سر بنے ہوئے ہیں۔

امریکی ووٹرز ہر 2 برس بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں کس کو اکثریت ملتی ہے، صدر کیا نئی پالیسی منظور کرائیں گے اور اپوزیشن اس ایجنڈے کو ناکام بنا سکے گی یا نہیں۔ ایوانِ نمایندگان کی تمام 435 نشستوں سمیت سینیٹ کی 100 نشستوں میں سے 35 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی۔

36 ریاستوں میں گورنروں اور ریاستی سطح کے قانون سازوں، سیکریٹریوں اور اٹارنی جنرل کے لیے بھی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ انتخابات اور ان کے نتائج مختلف معاملات کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں پر اثرانداز ہوں گے۔

وسط مدتی انتخابات میں عموماً حکومتی جماعت کو ایوان میں دہرے ہندسوں کا نقصان ہوتا ہے، اس بار جوبائیڈن کی مقبولیت کا گراف 40 فیصد تک آگیا ہے، وبا کے اثرات 3 سال بعد بھی موجود ہیں اور مہنگائی 40 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، لیکن ڈیمو کریٹس کو سیاسی منظر نامے میں حالیہ تبدیلی سے کچھ حوصلہ ملا ہے۔

جن میں قانون سازی میں کامیابیاں، اسقاط حمل کے حق پر ریپبلکنز کی غیر مقبول پابندیاں اور گیس کی گرتی ہوئی قیمتیں شامل ہیں۔ غیر جانبدار تجزیہ کار امید ظاہر کررہے ہیں کہ نائب صدر کمالا ہیرس کے ٹائی بریکنگ ووٹ کے ساتھ ڈیمو کریٹس کا کنٹرول برقرار رہے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو انتخابی مہم میں نمایاں رکھا ہے اور 200 سے زائد انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کی توثیق کی ہے جبکہ سینئر ریپبلکنز نے نجی طور پر ٹرمپ کے حمایت یافتہ سینیٹ کے امیدواروں کے معیار پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

مزید کسر اُن سرکاری رازوں کے ذخیرے سے نکل گئی جو فلوریڈا میں ان کی رہائش گاہ پر ایف بی آئی کے چھاپے کے دوران برآمد ہوا۔ ان کے خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات، انتخابی شکست کو پلٹنے کی کوششوں کی تحقیقات اور 2021 کے کیپیٹل ہل پر حملے کی سماعتوں جیسے عوامل اعتدال پسند ریپبلکنز کی حوصلہ شکنی کا سبب بن سکتے ہیں۔

تاریخی اعتبار سے لبرل ہونے کے باوجود میسا چوسیٹس، میری لینڈ اور الینوئے جیسی ریاستوں نے ماضی میں اعتدال پسند رپبلکن گورنروں کا انتخاب کیا۔ اس سال ان ریاستوں میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایت یافتہ رپبلکنز زیادہ پیچھے دکھائے دیے اور ایک سال میں فتح آسانی سے ڈیمو کریٹس کے حوالے کر دی گئی جو دوسری صورت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے مشکل ثابت ہو سکتی تھی۔ میسا چوسیٹس اور میری لینڈ میں تاریخی طور پر پہلی مرتبہ کچھ نیا ہوا ہے۔

ڈیموکریٹ مورا ہیلی اعلانیہ طور پر پہلی ہم جنس پرست شخصیت بنیں اور میسا چوسیٹس کی پہلی خاتون گورنر بن گئیں۔ ویس مور میری لینڈ کے پہلے سیاہ فام گورنر منتخب ہو گئے جب کہ الینوئے کے موجودہ گورنر جے بی پرٹز کر عہدے پر برقرار ہیں۔

ریاست فلوریڈا جو کبھی ایک اہم '' بیٹل گراؤنڈ '' ریاست ہوا کرتی تھی وہاں رپبلکن پارٹی کے قدم مسلسل مضبوط ہوئے ہیں اور رون ڈی سانٹس دوسری مرتبہ گورنر منتخب ہوگئے ہیں۔

انہوں نے ڈیموکریٹک حریف چارلی کرسٹ کو شکست دی جو کانگریس کے سابق رکن ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کی بدولت ڈی سانٹس قومی سطح پر رپبلکن اسٹار بن کر ابھرے ہیں اور انہوں نے 2024 میں صدارتی انتخاب پر نظریں جما لی ہیں۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ بنیادی رپبلکن متبادل کی حیثیت سے ان کی پوزیشن اچھی ہو سکتی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق الیکشن میں رپبلکن پارٹی کی کامیابی ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی راہ ہموار کر سکتی ہے جو زیادہ تر معاشی مسائل پر انتخابی مہم چلانے کے بعد انتخابات میں دھاندلی کے بے بنیاد دعوؤں کی طرف لوٹ آئے۔

بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ رپبلکنز جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہیں کیوں کہ پارٹی کے آدھے سے زیادہ امیدوار دھاندلی کے ٹرمپ کے اس مسترد شدہ دعوے کو دہرانے میں مصروف ہیں جو سابق صدر نے 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد کیا۔

متعدد ریاستوں میں ڈیمو کریٹس اور رپبلکن امیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی مکمل تصویر سامنے آنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ ایریزونا جس کے بارے میں توقع ہے وہ ان ریاستوں میں ایک ہو گی جہاں سخت ترین مقابلہ ہو گا۔ اس کے علاوہ رپبلکنز نے گنجان آباد ترین میری کوپا کاؤنٹی میں ووٹنگ مشین کے مسئلہ سامنے آنے کے بعد پولنگ جاری رکھنے کا مقدمہ دائر کیا۔ اگرچہ حکام کا کہنا تھا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا گیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق کانگریس میں ری پبلکنز کے زیادہ امیدوار جیت کر آئے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن مستحکم ہوگی، جو صدر جو بائیڈن کے لیے اگلے 2 سال مشکلات کا سبب بنیں گے۔

امریکا میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے نتائج آئندہ عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کو تو واضح کریں گے لیکن امریکی انتخابات کے نتائج سے پاکستان بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کی اندرونی سیاست اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے امریکا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں ہمارے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔

پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے اہم ملک ہے اور روس یوکرین جنگ کے بعد بھارت کے روس کی طرف واضح جھکاؤ کے بعد امریکا کے پاس پاکستان کے علاوہ خطے میں کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ امریکا چین کشیدگی کے تناظر میں بھی امریکی حکومت کسی صورت پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔

اب یہ پاکستان کی موجودہ حکومت کا امتحان ہے کہ وہ امریکی وسط مدتی انتخابات کے بعدکی صورتحال کو کیسے اپنے قومی مفاد میں استعمال کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں