پاکستانی نظام صحت
پاکستان میں صحت کے مسائل کی طرف بڑھتی ہوئی تعداد تشویش ناک ہے
پاکستان میں صحت کا نظام کبھی بھی بہت اچھا نہیں رہا، مگر اُس کو بہتر کرنے کی کوشش ضرور کی گئی اس نظام میں معمولی ہی سہی مگر کام ہوا تھا جس سے اس سیکٹر میں تھوڑی بہتری نظر آئی تھی۔
پاکستان میں صحت کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں millinium goals programs میں شرکت کی، پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ متعارف کروایا گیا۔
Human Resource Development کے لیے basic health unit اور Rural Health Centres بنائے گئے مگر ان سب باتوں کے باوجود پاکستان کے صحت کے نظام میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑا۔ دیکھا جائے تو ہمارے ملک کے نظام میں یہ خامیاں ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے تحاشا آبادی، غیر معیاری اور گندا پینے کا پانی، جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر، سیوریج کا ناقص سسٹم، معاشی اور معاشرتی طور پر لوگ نہایت کمزور ہیں، صحت کے حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔
ناکافی ویکسی نیشن کا ہونا، وبائی امراض کا بڑھتا ہوا خطرہ، کم وسائل، کمزور بنیادی ڈھانچہ، ducated Health specialist E کی کمی، High Prices of Imported products اور صحت کا اس سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے؟ طویل عرصے سے موت کی بنیادی وجوہات میں وائرل ہیپا ٹائٹس، ڈنگی، ٹی بی، ملیریا، ٹائیفائیڈ، ایچ آئی وی اور ہیضہ شامل ہیں۔
پاکستان میں صحت کے یہ عام مسائل شہری آبادی، ذیلی صفائی، آلودہ پانی کی فراہمی اور ناکافی سماجی اقتصادی حالات کا نتیجہ ہیں اور اس جیسے بہت سارے مسائل ہیں جن کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں صحت کے مسائل کی طرف بڑھتی ہوئی تعداد تشویش ناک ہے۔
وسائل کی کمی اور معاشی حالات کی وجہ سے صحت کی مشکلات یا بیماریاں جنم لے رہی ہیں جن کا علاج مشکل ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں زبردست ترقی کے باوجود پاکستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں بد ترین ہیں۔
پاکستان کے 60 ملین لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔فنڈز کی کمی کی وجہ سے بہت سے شہری اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے، مزید برآں اگر انھیں کسی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے تو ان کے پاس اس بیماری کا علاج کروانے کے لیے نہ پیسے ہوتے ہیں نہ اچھے سرکاری اسپتال میسر ہیں جہاں ایک غریب آدمی کا مکمل اور صحیح علاج ہو سکے۔
پاکستان میں غیر مراعات یافتہ لوگوں کے علاج معالجے اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مقامی اسپتالوں ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد ناکافی ہے۔ویسے اگر کہا جائے تو مقامی یا سرکاری اسپتال مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث وہ ایک ہی وقت میں بڑی تعداد میں مریضوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ مریضوں کو اگر دل کی تکلیف یا سرجری کی ضرورت پڑ جائے تو ان کو بہت طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب ان کی باری آتی ہے تو یا تو مریض کا انتقال ہو چکا ہوتا ہے یا وہ بہت زیادہ بیمار ہوچکا ہوتا ہے۔دوسری طرف دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ اپنی بیماریوں سے لاعلم ہیں، جس کی وجہ سے بروقت علاج ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بہت ساری بیماریاں پھیلی ہوئی اور خاص طور پر غریب متاثر ہیں۔
بنیادی وجہ علم کی کمی اور وسائل کا نہ ہونا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر پاکستان کئی شعبوں میں جدوجہد کر رہا ہے جس کی وجہ سے صحت کا نظام کافی متاثر ہوا ہے، اس کے نتیجے میں پاکستان عالمی ادارہ صحت کارکردگی رپورٹ میں 190 مالک میں سے 122 ویں نمبر پر ہے۔14 جون 2022 سے اب تک پاکستان میں سیلاب سے 17 1'7 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ سیلاب معمول سے زیادہ بارشوں، جو گرمی کی شدید لہر کے بعد آیا یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک ہیں۔ ہمارے ملک میں صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا یہاں سڑکوں کو ہونیوالے نقصان 64 فیصد اور ملک بھر میں پلوں کو 40 فیصد نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کے ریل کے نیٹ ورک کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان ریلوے کو مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے روزانہ تقریبا 385,025 ڈالر 90 ) ملین روپے ) کا نقصان ہوا۔پاکستان میں صوبائی حکومتیں پانی کی اور صفائی کی ذمہ دار ہیں۔ 2001 میں مقامی حکومتوں کو خدمات کی فراہمی کی ذمہ داری سونپی گئی مگر یہاں دیکھا جائے تو سندھ میں صفائی اور سیوریج کی انتہائی ناقص صورتحال ہے، کوئی کہیں نہ جواب دہ ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا اس لیے معاملات ہمیشہ بگڑتے چلے گئے۔
سندھ میں بارشوں کے بعد اتنی ابتر صورتحال ہے کہ وہاں اب بھی سیلاب زدگان بے گھر بیٹھے ہیں اور ان کو مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے، پہلے ہی صحت کی صورتحال ابتر تھی اب تو ان کو مختلف چھوٹے چھوٹے میڈیکل کیمپس یا سرکاری اسپتال کے ایک ہی بیڈ پر کئی مریضوں کو رکھا ہوا ہے جس سے مزید انفیکشنز پھیل رہے ہیں اور ان میں حاملہ خواتین بزرگ اور بچے شامل ہیں، جو بڑی کسمپرسی سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال 32'879 Physicians and Surgeons پڑھ کر پاس آؤٹ ہوتے ہیں جس میں سے 40 ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور صرف اب 20'000 Specialists موجود ہیں۔
ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو بہتر علاج معالجے کی سہولیات نہیں مل پاتیں۔ پاکستان میں تقریبا 150'000 ڈاکٹرز اور 10'693 ڈینٹسٹس ہیں 170 ملین لوگوں کے لیے ہیں اور انٹرنیشنل اسٹینڈرڈز کے مطابق 3 ڈاکٹرز اور ایک ڈینٹسٹ ہونا چاہیے 10'000 لوگوں کے لیے مگر یہاں صورتحال کافی مختلف ہے اور ابتری کا شکار ہے۔ پاکستان میں سرکاری اسپتال میں صحت کی سہولیات مفت ہیں مگر اس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہاں کی صورتحال کیا ہے اور 78% لوگ پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں کہ اس نظام کو بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات بہت ضروری ہیں۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستانی صحت کے سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں یہ اقدامات کرنے چاہیئیں۔ پاپولیشن کو کنٹرول اور تعلیم کی شرح کو بڑھانے کی سخت ضرورت ہے، صحت کے بجٹ کو بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ کرپشن کو کنٹرول کیا جائے، پبلک ہیلتھ پروجیکٹس میں جو کرپشن ہوتی ہے۔ صوبائی سطح پر ہیلتھ کیئر سسٹم کو متعارف کروایا جائے، عطائی اور نقلی ڈاکٹرز کا قلع قمع کیا جائے۔
ڈاکٹرز کا پسندیدہ فارما سوٹیکل کمپنی سے دوائیاں لکھنے اور لینے کا اصرار ختم کیا جائے۔ بلاجواز اور بار بار ٹیسٹ کروانے کے لیے اصرار ختم کیا جائے۔ سندھ کی بات کی تو یہاں 14000 ڈاکٹرز، 2000 نرسز اور 12000 پیرا میڈیکل اسٹاف موجود ہیں مگر ایسی زبوں حالی ہے کہ لوگ علاج معالجے کی سہولتوں کے لیے ترستے ہیں۔
اب وقت ہے ان معاملات کو سلجھایا جائے اور بہتر طریقے سے ان تمام صحت کے الجھے ہوئے مسائل پر قابو پایا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے اور لوگوں تک صاف پانی، بہتر غذا کی فراہمی، لوکل جگہوں پر ڈسپنسری اور صحت کے مراکز قائم کیے جائیں اور صفائی کا نظام موثر کیا جائے تو بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کا صحت کا نظام جلد ازجلد بہتر ہو اور عوام کو اس سے فائدہ حاصل ہو اور ہم بھی بہتر صحت کی سہولیات فراہم کرنیوالے ممالک میں شامل ہو جائیں۔
پاکستان میں صحت کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں millinium goals programs میں شرکت کی، پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ متعارف کروایا گیا۔
Human Resource Development کے لیے basic health unit اور Rural Health Centres بنائے گئے مگر ان سب باتوں کے باوجود پاکستان کے صحت کے نظام میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑا۔ دیکھا جائے تو ہمارے ملک کے نظام میں یہ خامیاں ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے تحاشا آبادی، غیر معیاری اور گندا پینے کا پانی، جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر، سیوریج کا ناقص سسٹم، معاشی اور معاشرتی طور پر لوگ نہایت کمزور ہیں، صحت کے حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔
ناکافی ویکسی نیشن کا ہونا، وبائی امراض کا بڑھتا ہوا خطرہ، کم وسائل، کمزور بنیادی ڈھانچہ، ducated Health specialist E کی کمی، High Prices of Imported products اور صحت کا اس سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے؟ طویل عرصے سے موت کی بنیادی وجوہات میں وائرل ہیپا ٹائٹس، ڈنگی، ٹی بی، ملیریا، ٹائیفائیڈ، ایچ آئی وی اور ہیضہ شامل ہیں۔
پاکستان میں صحت کے یہ عام مسائل شہری آبادی، ذیلی صفائی، آلودہ پانی کی فراہمی اور ناکافی سماجی اقتصادی حالات کا نتیجہ ہیں اور اس جیسے بہت سارے مسائل ہیں جن کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں صحت کے مسائل کی طرف بڑھتی ہوئی تعداد تشویش ناک ہے۔
وسائل کی کمی اور معاشی حالات کی وجہ سے صحت کی مشکلات یا بیماریاں جنم لے رہی ہیں جن کا علاج مشکل ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں زبردست ترقی کے باوجود پاکستان میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں بد ترین ہیں۔
پاکستان کے 60 ملین لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔فنڈز کی کمی کی وجہ سے بہت سے شہری اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے، مزید برآں اگر انھیں کسی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے تو ان کے پاس اس بیماری کا علاج کروانے کے لیے نہ پیسے ہوتے ہیں نہ اچھے سرکاری اسپتال میسر ہیں جہاں ایک غریب آدمی کا مکمل اور صحیح علاج ہو سکے۔
پاکستان میں غیر مراعات یافتہ لوگوں کے علاج معالجے اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مقامی اسپتالوں ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد ناکافی ہے۔ویسے اگر کہا جائے تو مقامی یا سرکاری اسپتال مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث وہ ایک ہی وقت میں بڑی تعداد میں مریضوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ مریضوں کو اگر دل کی تکلیف یا سرجری کی ضرورت پڑ جائے تو ان کو بہت طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب ان کی باری آتی ہے تو یا تو مریض کا انتقال ہو چکا ہوتا ہے یا وہ بہت زیادہ بیمار ہوچکا ہوتا ہے۔دوسری طرف دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ اپنی بیماریوں سے لاعلم ہیں، جس کی وجہ سے بروقت علاج ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بہت ساری بیماریاں پھیلی ہوئی اور خاص طور پر غریب متاثر ہیں۔
بنیادی وجہ علم کی کمی اور وسائل کا نہ ہونا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر پاکستان کئی شعبوں میں جدوجہد کر رہا ہے جس کی وجہ سے صحت کا نظام کافی متاثر ہوا ہے، اس کے نتیجے میں پاکستان عالمی ادارہ صحت کارکردگی رپورٹ میں 190 مالک میں سے 122 ویں نمبر پر ہے۔14 جون 2022 سے اب تک پاکستان میں سیلاب سے 17 1'7 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ سیلاب معمول سے زیادہ بارشوں، جو گرمی کی شدید لہر کے بعد آیا یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک ہیں۔ ہمارے ملک میں صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا یہاں سڑکوں کو ہونیوالے نقصان 64 فیصد اور ملک بھر میں پلوں کو 40 فیصد نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کے ریل کے نیٹ ورک کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان ریلوے کو مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے روزانہ تقریبا 385,025 ڈالر 90 ) ملین روپے ) کا نقصان ہوا۔پاکستان میں صوبائی حکومتیں پانی کی اور صفائی کی ذمہ دار ہیں۔ 2001 میں مقامی حکومتوں کو خدمات کی فراہمی کی ذمہ داری سونپی گئی مگر یہاں دیکھا جائے تو سندھ میں صفائی اور سیوریج کی انتہائی ناقص صورتحال ہے، کوئی کہیں نہ جواب دہ ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا اس لیے معاملات ہمیشہ بگڑتے چلے گئے۔
سندھ میں بارشوں کے بعد اتنی ابتر صورتحال ہے کہ وہاں اب بھی سیلاب زدگان بے گھر بیٹھے ہیں اور ان کو مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے، پہلے ہی صحت کی صورتحال ابتر تھی اب تو ان کو مختلف چھوٹے چھوٹے میڈیکل کیمپس یا سرکاری اسپتال کے ایک ہی بیڈ پر کئی مریضوں کو رکھا ہوا ہے جس سے مزید انفیکشنز پھیل رہے ہیں اور ان میں حاملہ خواتین بزرگ اور بچے شامل ہیں، جو بڑی کسمپرسی سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال 32'879 Physicians and Surgeons پڑھ کر پاس آؤٹ ہوتے ہیں جس میں سے 40 ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور صرف اب 20'000 Specialists موجود ہیں۔
ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو بہتر علاج معالجے کی سہولیات نہیں مل پاتیں۔ پاکستان میں تقریبا 150'000 ڈاکٹرز اور 10'693 ڈینٹسٹس ہیں 170 ملین لوگوں کے لیے ہیں اور انٹرنیشنل اسٹینڈرڈز کے مطابق 3 ڈاکٹرز اور ایک ڈینٹسٹ ہونا چاہیے 10'000 لوگوں کے لیے مگر یہاں صورتحال کافی مختلف ہے اور ابتری کا شکار ہے۔ پاکستان میں سرکاری اسپتال میں صحت کی سہولیات مفت ہیں مگر اس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہاں کی صورتحال کیا ہے اور 78% لوگ پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں کہ اس نظام کو بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات بہت ضروری ہیں۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستانی صحت کے سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں یہ اقدامات کرنے چاہیئیں۔ پاپولیشن کو کنٹرول اور تعلیم کی شرح کو بڑھانے کی سخت ضرورت ہے، صحت کے بجٹ کو بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ کرپشن کو کنٹرول کیا جائے، پبلک ہیلتھ پروجیکٹس میں جو کرپشن ہوتی ہے۔ صوبائی سطح پر ہیلتھ کیئر سسٹم کو متعارف کروایا جائے، عطائی اور نقلی ڈاکٹرز کا قلع قمع کیا جائے۔
ڈاکٹرز کا پسندیدہ فارما سوٹیکل کمپنی سے دوائیاں لکھنے اور لینے کا اصرار ختم کیا جائے۔ بلاجواز اور بار بار ٹیسٹ کروانے کے لیے اصرار ختم کیا جائے۔ سندھ کی بات کی تو یہاں 14000 ڈاکٹرز، 2000 نرسز اور 12000 پیرا میڈیکل اسٹاف موجود ہیں مگر ایسی زبوں حالی ہے کہ لوگ علاج معالجے کی سہولتوں کے لیے ترستے ہیں۔
اب وقت ہے ان معاملات کو سلجھایا جائے اور بہتر طریقے سے ان تمام صحت کے الجھے ہوئے مسائل پر قابو پایا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے اور لوگوں تک صاف پانی، بہتر غذا کی فراہمی، لوکل جگہوں پر ڈسپنسری اور صحت کے مراکز قائم کیے جائیں اور صفائی کا نظام موثر کیا جائے تو بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان کا صحت کا نظام جلد ازجلد بہتر ہو اور عوام کو اس سے فائدہ حاصل ہو اور ہم بھی بہتر صحت کی سہولیات فراہم کرنیوالے ممالک میں شامل ہو جائیں۔