زادِ راہ
ہر انسان مسافر ہے اور چار و ناچار زندگی کا سفر سب ہی کو طے کرنا ہے
مولانا جلیل احسن ندوی نے ''زادِ راہ'' کے عنوان سے رسول اللہؐ کی حدیثوں کا جو مجموعہ مرتب کیا ہے ، اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ دنیا ایک گزرگاہ ہے، انسانیت کے قافلے اس پر سے پیہم گزر رہے ہیں۔ پوری زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔ ہر انسان مسافر ہے اور چار و ناچار زندگی کا سفر سب ہی کو طے کرنا ہے۔
مسافر اپنے سفر کے لیے زاد راہ کی فکر کرتا ہے، بغیر زادِ راہ سفر کرنے والا طرح طرح کی مشکلوں سے دوچار ہوتا ہے اور بالآخر اپنی راہ کھوٹی کرتا ہے۔
زندگی کے مسافروں کو زاد راہ چاہیے۔ یہ مجموعہ حدیث اس ضرورت کو پورا کرنے کی ایک عاجزانہ کوشش ہے۔ اسوۂ رسولؐ ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہادیٔ برحقؐ کے ایک ایک قول اور عمل کو حرف جاں بنائے اور اس کی روشنی میں اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو سنوارے۔
مولانا جلیل احسن کے اس مجموعہ میں اسوۂ رسول اور اسوۂ صحابہؓ کے دو مستقل باب ہیں جس میں کافی چیزیں آگئی ہیں۔ پھر ایک مستقل باب جامع حدیثوں کا رکھا گیا ہے جس میں وہ حدیثیں جمع کردی گئی ہیں جن میں حضورؐ نے بیک وقت مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔
'' زاد ِ راہ '' میں سرکار دو عالمؐ کے ارشادات مختلف عنوانات کے تحت جمع کیے گئے ہیں۔ پہلا عنوان ہے '' نیت کی پاکیزگی۔''
حضورؐ کا ارشاد ہے ''لوگ قیامت کے دن صرف اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔'' اخلاص نیت کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: '' اللہ صرف وہی عمل قبول کرے گا جو صرف اس کے لیے کیا گیا ہوگا اور اسی کی خوشنودی اس عمل کی محرک ہوگی۔''
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ جب مجھے یمن کے علاقے میں بھیج رہے تھے تو میں نے عرض کیا کہ '' اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔'' آپؐ نے فرمایا: '' اپنی نیت ہر کھوٹ سے پاک رکھو، جو عمل کرو صرف خدا کی خوشنودی کے لیے کرو، تو تھوڑا عمل بھی تمہاری نجات کے لیے کافی ہوگا۔''
'' معاملات '' کے عنوان کے تحت رسول اللہؐ نے حلال کمائی پر جو ارشاد فرمایا وہ یہ ہے: '' اے لوگو ! اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہنا اور روزی کی تلاش میں غلط طریقے مت اختیارکرنا ، اس لیے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مر سکتا جب تک کہ اسے پورا رزق نہ مل جائے اگرچہ اس کے ملنے میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔
تم اللہ سے ڈرتے رہنا اور روزی کی تلاش میں اچھا طریقہ اختیار کرنا۔ حلال روزی حاصل کرو، حرام روزی کے قریب نہ جاؤ۔'' محنت کی روزی کے بارے میں حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ''اللہ اس مسلمان سے محبت کرتا ہے جو کوئی محنت کرکے روزی کماتا ہے۔''
حسن سلوک کے بارے میں حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: '' تم لوگ دوسروں کی تقلید اور پیروی کرنے والے نہ بنو، یعنی یوں نہ سوچو کہ لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور اگر لوگ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے۔
نہیں، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر جماؤ کہ لوگ اچھا سلوک کریں تو تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اگر برا برتاؤ کریں تو تم ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کرو۔''
مولانا جلیل احسن نے اپنی کتاب میں کچھ وہ حدیثیں بھی بیان کی ہیں جن میں رسول اللہؐ نے لوگوں کے حالات کے پیش نظر ایک ہی حدیث میں مختلف پہلوؤں سے ان کی تربیت فرمائی ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں ''میرے محبوب ﷺ نے مجھے چند باتوں کی وصیت فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو مجھ سے مال و جاہ وغیرہ میں فوقیت رکھتے ہوں میں ان کی طرف نہ دیکھوں بلکہ ان لوگوں کو دیکھوں جو مجھ سے کم تر ہیں تاکہ میرے دل میں شکر کا جذبہ ابھرے۔ آپؐ نے مجھے وصیت فرمائی کہ مسکینوں سے محبت کرو اور ان کے پاس جاؤ۔ تیسری وصیت حضورؐ نے اس بات کی مجھے کی کہ میرے اعزا اور رشتے دار چاہے مجھ سے خفا ہوں، میرے حقوق ادا نہ کریں، لیکن میں ان سے اپنا تعلق جوڑے رکھوں، ان کے حقوق ادا کرتا رہوں۔''
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ '' میری یہ باتیں جو میں بتاؤں کون لے گا، ان پر عمل کرے گا اور عمل کرنے والوں کو بتائے گا۔'' میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسولؐ! میں اس کے لیے تیار ہوں، بتائیے۔'' اس پر حضورؐ نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ باتیں بتائیں۔
(۱)۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو، سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے۔
(۲)۔ جتنی روزی اللہ نے تمہارے لیے مقرر فرما دی ہے، اس پر راضی اور مطمئن رہو، تم سب سے زیادہ غنی بن جاؤ گے۔
(۳)۔ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو، تو مومن بن جاؤ گے۔
(۴)۔ تم جو کچھ اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو، تو تم مسلم ہو گے۔
(۵)۔ زیادہ نہ ہنسو۔ زیادہ ہنسنے سے آدمی کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔
حضرت سالمؓ اپنے والد عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: '' دو ہی آدمی قابل رشک ہیں، ایک وہ جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا تو وہ اسے پڑھتا پڑھاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے، رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی۔ اور دوسرا وہ شخص ہے جس کو اللہ نے مال دیا جسے وہ رات اور دن کے اوقات میں صحیح جگہ پر خرچ کرتا ہے۔''
مولانا جلیل احسن نے دنیا سے بے نیازی اور زہد کے صحیح تصور کا ذکر کرتے ہوئے دو حدیثیں بیان کی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سرکار دو عالمؐ سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ''مجھے دنیا سے کیا دلچسپی؟ میری اور دنیا کی مثال ایسی سمجھو، جیسے کوئی مسافر گرمی کے زمانے میں کسی درخت کے سائے میں تھوڑی دیر کے لیے سو رہتا ہے، پھر اس درخت اور اس کے سائے کو چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دیتا ہے۔'' پھر آپؐ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے شانے پکڑ کر فرمایا: ''اے عبداللہ! تم دنیا میں اس طرح رہو، گویا کہ تم ایک اجنبی مسافر ہو بلکہ راستہ چلنے والے کی طرح دنیا میں رہو اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کرو۔''
دوسری حدیث کے راوی حضرت ابوذر غفاری ہیں۔ وہ فرماتے ہیں، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: '' دنیا سے بے رغبتی اور زہد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے اور اپنے پاس مال نہ رکھے بلکہ زہد تو یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد ہو اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا جو اجر و ثواب ملنے والا ہے اس پر تمہاری نگاہ جم جائے اور تم مصائب کو ذریعہ ثواب سمجھو۔''
اسوۂ رسولؐ کا ایک پہلو جس کی راوی حضرت عائشہؓ ہیں، یہ بھی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ایک بدو حضورؐ کے پاس آیا۔ آپؐ اس وقت کسی بچے کو پیار کر رہے تھے۔ اس نے یہ دیکھ کر کہا ''آپ لوگ اپنے بچوں کو پیار کرتے ہیں، ہم لوگ یہ نہیں کرتے ہیں۔''
رسول اللہؐ نے فرمایا: ''میں کیا کروں، اگر اللہ تعالیٰ نے رحم و کرم کا جذبہ تیرے دل سے کھینچ لیا ہے۔''