پیسے سے ورلڈکپ نہیں خرید سکتے

واضح ہوگیا کہ قدرت بھی پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے


Saleem Khaliq November 11, 2022

سچ کہوں تو مجھے قطعی امید نہ تھی کہ پاکستانی ٹیم ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی، ابتدائی دونوں میچز ہارنے کے بعد اگر حقیقت پسندانہ سوچ اپناتے تو شاید بیشتر لوگوں کا یہی خیال ہوتا، اس کے بعد قسمت نے پلٹا کھایا، شاہ رخ خان کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے ناں کہ ''اگر کسی چیز کو دل سے چاہو تو پوری کائنات اسے تم سے ملانے میں لگ جاتی ہے'' بس ورلڈکپ میں بھی ایسا ہی ہوا۔

گرین شرٹس نے اپنے اگلے تینوں میچز جیت لیے پھر نیدرلینڈز نے جنوبی افریقا کو اپ سیٹ شکست دے دی، یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ سیمی فائنل کا بند دروازہ کھول کر کہا کہ ''پلیز آئیے'' حریف ٹیموں نے کئی غلطیاں بھی کیں جس سے فتوحات میں مدد ملی، اس سے واضح ہوگیا کہ قدرت بھی پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے، پھر سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو بھی بآسانی زیر کر لیا، پہلی ہی گیند پر بابر اعظم کا کیچ ڈراپ ہوا اور پھر وہ فارم میں واپس آ گئے۔

محمد رضوان نے بھی نصف سنچری بنا دی، جوڑی نمبر ون کی شاندار کارکردگی نے پاکستان کو آسان فتح دلائی، ٹائٹل ہم سے ایک قدم کی دوری پر رہ گیا ہے، جس طرح قسمت نے اب تک ساتھ دیا یہ سلسلہ فائنل میں بھی جاری رہا تو انگلینڈ کو ہرانا بھی ممکن ہوگا۔

اگر ہم پاکستانی کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ہمیں اوپنرز سے بہت زیادہ امیدیں تھیں، مڈل آرڈر پر شکوک کا اظہار ہو رہا تھا مگر ورلڈکپ میں الٹ ہوا، بابر کی فارم روٹھ گئی، سیمی فائنل سے قبل ان سے بہتر بیٹنگ اوسط شاہین آفریدی اور حارث رؤف کی تھی، رضوان بھی اصل رنگ میں دکھائی نہ دیے تھے۔

دونوں کا اسٹرائیک ریٹ بھی کم تھا، پاور پلے کے اوورز ضائع ہوتے رہے جس سے ٹیم کو نقصان ہوا، پھر اچانک ٹیم میں محمد حارث کی شمولیت ہوئی، ہم رمیز راجہ پر بہت تنقید کرتے ہیں مگر یہاں اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ ان کے کہنے پر ہی حارث کو ورلڈکپ کے ریزرو کھلاڑیوں میں رکھا گیا تھا۔

فخر زمان کی انجری نے انھیں اسکواڈ میں شامل ہونے کا موقع دیا، پھر تینوں میچز میں مختصر مگر پْراثر اننگز کھیل کر حارث نے ٹیم میں اٹیک کی جو کمی محسوس ہو رہی تھی وہ پوری کر دی، ان کی وجہ سے ہی بابر اور رضوان پر دباؤ پڑا اور دونوں نے اپنا روایتی انداز تبدیل کرتے ہوئے سیمی فائنل میں مثبت بیٹنگ کی، حارث کے بے خوف کھیل سے حریف بولرز خوفزدہ ہوگئے۔

اس سے پہلے شان مسعود ون ڈاؤن پر آ رہے تھے جو ٹی ٹوئنٹی انداز کی بیٹنگ نہیں کر پائے، افتخار احمد کو دیکھ کر مصباح الحق کی یاد آتی ہے، وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے لیکن ورلڈکپ میں عمدہ کھیل پیش کیا ہے، شاداب خان نے بھی ہر شعبے میں بہترین پرفارم کیا۔

شاہین شاہ آفریدی ردھم میں واپس آ گئے، دیگر بولرز بھی اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں، اسی وجہ سے پاکستانی ٹیم درست وقت میں فارم میں واپس آگئی، نیوزی لینڈ کے خلاف فیلڈنگ بھی زبردست رہی، لوگ توقع کر رہے تھے کہ فائنل میں بھارت سے مقابلہ ہوگا لیکن انگلینڈ نے اس کی جو پٹائی لگائی وہ برسوں یاد رکھی جائے گی۔

بھارت کا مسئلہ بھی ابتدائی اوورز میں سست بیٹنگ کا نظر آیا، پاور پلے کے اوورز ضائع کیے، بعد میں پانڈیا نے مار دھاڑ کی پھر بھی اسکور کم رہا، انگلش ٹیم کے اوپنرز الیکس ہیلز اور جوز بٹلر نے پہلی گیند سے ہی ہٹنگ شروع کر دی جس سے بھارتی ٹیم حواس باختہ ہوگئی، بی سی سی آئی کو اپنے پیسے کا غرور ہے لیکن پیسے سے ورلڈکپ نہیں خریدا جا سکتا، آئی پی ایل کروا کے سوچ لیا کہ اب عالمی ٹائٹلز بھی اپنے ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا، ارب پتی بھارتی اسٹارز کا معاوضہ بہت زیادہ ہے۔

لیگ اور اشتہارات سے بھی بھاری رقم ملتی ہے مگر جذبے میں وہ پاکستانی کرکٹرز کا مقابلہ نہیں کر سکتے، بابر اعظم، رضوان، شاہین یہ سب اربوں روپے تو نہیں کماتے مگر ملک کیلیے نام ضرور کمایا ہے، آپ انھیں فیلڈ میں دیکھ لیں سب کی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ کر دکھائیں، اسی لیے ٹیم کو یہ عزت ملی، ابتدائی شکستوں کے بعد تو بہت تنقید ہوئی جو کہ جائز بھی تھی۔

آپ زمبابوے سے ہار جائیں تو کیسے کوئی تعریف کرے گا، البتہ اچھی بات یہ ہے کہ تنقید کا مثبت اثر لیتے ہوئے گرین شرٹس نے اپنی خامیاں دور کیں اور ٹورنامنٹ میں کم بیک کیا، بھارت کے مقابلے میں انگلینڈ فائنل میں زیادہ سخت حریف ثابت ہوگا، اس کے پاس اچھے اسپنرز، پیسرز، پاور ہٹرز، اوپنرز سب موجود ہیں، پاکستانی ٹیم بھی کسی سے کم نہیں، البتہ اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کھلاڑی دباؤ کا شکار نہ ہو جائیں۔

انگلش ٹیم نے سیمی فائنل میں جس طرح کا کھیل پیش کیا اس سے گرین شرٹس کو تشویش تو ہوئی ہوگی لیکن خود پر اعتماد برقرار رکھتے ہوئے اصل صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا، یہ سوچیں کہ آپ کیلیے تو سپر12 راؤنڈ کے بعد وطن واپسی کی فلائٹ بھی بک کرانے کی تیاری ہو رہی تھیں اب سب کو غلط ثابت کر کے میلبورن پہنچ چکے تو ٹرافی کے ساتھ ہی واپس آنا چاہیے۔

ٹیم کی ابتدائی شکستوں کے بعد کھلاڑیوں کو اکیلے تنقید سہنے کیلیے چھوڑ دیا گیا تھا، البتہ خوشی کی بات ہے کہ اب چیئرمین رمیز راجہ بھی سوشل میڈیا پر دوبارہ نظر آنے لگے اور چیف سلیکٹر محمد وسیم بھی پھر سے انٹرویوز دے رہے ہیں، جب کوئی اچھا کھیل رہا ہو تو اسے تعریفوں اور سپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی، بْرے وقت میں اسے کسی کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے۔

اب ٹرافی قریب دیکھ کر سب نے گوشہ نشینی ترک کر دی تاکہ چیمپئن بننے پر کریڈٹ لے سکیں، یہی لوگ ہارنے پر غائب ہوگئے تھے، خیر کھلاڑیوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہے، ہماری عادت ہے کہ بہت جلدی آسمان پر چڑھا دیتے ہیں مگر واپس زمین پر پٹخنے میں بھی دیر نہیں لگاتے، شکر ہے ٹیم فائنل میں پہنچ گئی ورنہ اب بھی پلیئرز تنقید کے نشتر کھا رہے ہوتے،منزل کے اتنے قریب پہنچ کر ہمت نہیں ہارنی چاہیے، ورلڈ چیمپئن بن کر ہی واپس آنا گرین شرٹس۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں