رسک الاؤنس کی بحالی کیلیے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکٹس کا احتجاج خواتین سمیت متعدد گرفتار
وزیراعلیٰ کا محکمۂ صحت کے ملازمین کی گرفتاری کا نوٹس، پُرامن مظاہرین کی رہائی اور مشتعل افراد کیخلاف کارروائی کا حکم
محکمہ صحت کے ملازمین نے رسک الاؤنس کی کٹوتی کے خلاف 26ویں روز احتجاج کیا اور وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال کر کے متعدد مظاہرین کو گرفتار کرلیا، وزیراعلیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے پُرامن مظاہرین کو رہا کرنے اور مشتعل افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کردی۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مظاہرین نے مطالبات کی منظوری کیلیے وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی تو سندھ سیکریٹریٹ پہنچنے پر پولیس نے انہیں روک کر لاٹھی چارج کیا اور مظاہرین پر لاٹھیاں چارج کی۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپ کا بھی آزادانہ استعمال کیا جبکہ موقع سے خواتین سمیت متعدد مظاہرین کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کردیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے شہر کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر ،نرسز اور طبی عملے کی جانب سے اوپی ڈی کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے، جبکہ گزشتہ 4 روز سے جناح اسپتال،سول اسپتال ،قومی ادارہ برائے صحت اطفال اسپتال اور قطر اسپتال سمیت مختلف سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی اور آئی سی یو(انتہائی نگہداشت یونٹس)کے علاوہ تمام سروسز رسک الاؤنس کی بحالی تک معطل کردیں۔ جس کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں آپریشنز ملتوی ہوئے اور سرکاری اسپتالوں میں مریض رُل گئے۔
جمعرات کے روز گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت کی جانب سے محکمہ صحت کو جمعہ کو دوپہر 12 بجے تک کا الٹی میٹم دے دیا گیا تھا، مظاہرین کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اگر جمعہ کے روز دوپہر 12 بجے تک محکمہ صحت سندھ نے ہیلتھ رسک الاؤنسز کی بحالی ،سروس اسٹرکچر اور ٹایم اسکیل کی منظوری کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تو وزیر اعلی ہاؤس کا رخ کرلیا جائے گا۔
مطالبات منظور نہ ہونے پر مظاہرین نے وزیر اعلی ہاؤس کا رخ کیا، جس کے نتیجے میں سندھ سکریٹریٹ کے بالمقابل سڑک پر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہورہی تھی۔ اس موقع پر پولیس موبائلز، واٹرکینن سمیت ڈنڈابردار بھی موجود تھے۔ مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے مابین تلخ کلامی میں دیکھنے میں آئی، اشتعال انگیز مظاہرین کو قابو میں کرنے کے لیئے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت اور خواتین سمیت متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جن کو 10 سے 15 منٹ بعد رہا بھی کردیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری سیکڑوں مظاہرین ڈی جے ایس ایم کالج کے بالمقابل محدود کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
پولیس کی جانب سے سخت اقدامات کے بعد ۔متعدد مظاہرین اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور ہوئے۔ پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لے کر قیدی وین میں ڈالا اور صدر تھانے منتقل کیا۔ مظاہرین کی گرفتاریوں کے بعد چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر محبوب نونانی نے ویڈیو پیغام کے ذریعے اعلان کیا کہ ہیلتھ ملازمین کے پُرامن احتجاج پر لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کی گئی، جب تک اے سی، ایس پی اور ایس ایچ او مستعفی نہیں ہوں گے، حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی سروس معطل کرنے کا بھی علان کردیا گیا ہے۔ سندھ کے پارلیمانی سیکریٹری صحت قاسم سراج سومرو نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کورونا ختم ہوچکا ہے،تو اس کا رسک الاؤنس لینا جائز نہیں، جو ڈاکٹرز،نرسز اور طبی عملہ احتجاج کرتا ہے اس سے کوئی ہمدردی نہیں،اگر مظاہرین وزیر اعلی ہاؤس کا رخ کریں گے تو وہاں کی انتظامیہ ان سے خود نمٹے گی۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کے سبب صوبے سندھ کا طبی نظام متاثر ہورہا ہے،اگر مستقبل میں پولیو کا کیس بھی رپورٹ ہوا یا کوئی مشکلات پیش آئیں تو ذمہ دار مظاہرین ہوں گے۔
مظاہرین کا ساتھیوں کی گرفتاری کیخلاف احتجاج
بعد ازاں مظاہرین نے پریڈی تھانے کے باہر احتجاج شروع کیا اور صوبے بھر میں ہفتے کی صبح سے ایمرجنسی سروس بھی بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسے ساتھیوں کی رہائی سے مشروط کیا۔ پولیس نے بتایا تھا کہ 80 کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے خلاف ہنگامہ آرائی اور کار سرکار میں مداخلت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ کا محکمۂ صحت کے ملازمین کی گرفتاری کا نوٹس
اُدھر صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مظاہرین کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کردیا ہے تاہم اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے پر اتفاق ہوا ہے جو ہنگامہ آرائی یا زبردستی اسپتال بند کروانے میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مظاہرین کی گرفتاری پر افسوس ہے مگر ریڈ زون کی خلاف ورزی پر پولیس نے مجبوری میں ایکشن لیا۔ سندھ حکومت نے مذکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی مگر مظاہرین نے مطالبات کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مظاہرین نے مطالبات کی منظوری کیلیے وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی تو سندھ سیکریٹریٹ پہنچنے پر پولیس نے انہیں روک کر لاٹھی چارج کیا اور مظاہرین پر لاٹھیاں چارج کی۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپ کا بھی آزادانہ استعمال کیا جبکہ موقع سے خواتین سمیت متعدد مظاہرین کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کردیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے شہر کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر ،نرسز اور طبی عملے کی جانب سے اوپی ڈی کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے، جبکہ گزشتہ 4 روز سے جناح اسپتال،سول اسپتال ،قومی ادارہ برائے صحت اطفال اسپتال اور قطر اسپتال سمیت مختلف سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی اور آئی سی یو(انتہائی نگہداشت یونٹس)کے علاوہ تمام سروسز رسک الاؤنس کی بحالی تک معطل کردیں۔ جس کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں آپریشنز ملتوی ہوئے اور سرکاری اسپتالوں میں مریض رُل گئے۔
جمعرات کے روز گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت کی جانب سے محکمہ صحت کو جمعہ کو دوپہر 12 بجے تک کا الٹی میٹم دے دیا گیا تھا، مظاہرین کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اگر جمعہ کے روز دوپہر 12 بجے تک محکمہ صحت سندھ نے ہیلتھ رسک الاؤنسز کی بحالی ،سروس اسٹرکچر اور ٹایم اسکیل کی منظوری کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تو وزیر اعلی ہاؤس کا رخ کرلیا جائے گا۔
مطالبات منظور نہ ہونے پر مظاہرین نے وزیر اعلی ہاؤس کا رخ کیا، جس کے نتیجے میں سندھ سکریٹریٹ کے بالمقابل سڑک پر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہورہی تھی۔ اس موقع پر پولیس موبائلز، واٹرکینن سمیت ڈنڈابردار بھی موجود تھے۔ مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے مابین تلخ کلامی میں دیکھنے میں آئی، اشتعال انگیز مظاہرین کو قابو میں کرنے کے لیئے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت اور خواتین سمیت متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جن کو 10 سے 15 منٹ بعد رہا بھی کردیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری سیکڑوں مظاہرین ڈی جے ایس ایم کالج کے بالمقابل محدود کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
پولیس کی جانب سے سخت اقدامات کے بعد ۔متعدد مظاہرین اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور ہوئے۔ پولیس نے مظاہرین کو حراست میں لے کر قیدی وین میں ڈالا اور صدر تھانے منتقل کیا۔ مظاہرین کی گرفتاریوں کے بعد چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر محبوب نونانی نے ویڈیو پیغام کے ذریعے اعلان کیا کہ ہیلتھ ملازمین کے پُرامن احتجاج پر لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کی گئی، جب تک اے سی، ایس پی اور ایس ایچ او مستعفی نہیں ہوں گے، حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی سروس معطل کرنے کا بھی علان کردیا گیا ہے۔ سندھ کے پارلیمانی سیکریٹری صحت قاسم سراج سومرو نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کورونا ختم ہوچکا ہے،تو اس کا رسک الاؤنس لینا جائز نہیں، جو ڈاکٹرز،نرسز اور طبی عملہ احتجاج کرتا ہے اس سے کوئی ہمدردی نہیں،اگر مظاہرین وزیر اعلی ہاؤس کا رخ کریں گے تو وہاں کی انتظامیہ ان سے خود نمٹے گی۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کے سبب صوبے سندھ کا طبی نظام متاثر ہورہا ہے،اگر مستقبل میں پولیو کا کیس بھی رپورٹ ہوا یا کوئی مشکلات پیش آئیں تو ذمہ دار مظاہرین ہوں گے۔
مظاہرین کا ساتھیوں کی گرفتاری کیخلاف احتجاج
بعد ازاں مظاہرین نے پریڈی تھانے کے باہر احتجاج شروع کیا اور صوبے بھر میں ہفتے کی صبح سے ایمرجنسی سروس بھی بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسے ساتھیوں کی رہائی سے مشروط کیا۔ پولیس نے بتایا تھا کہ 80 کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے خلاف ہنگامہ آرائی اور کار سرکار میں مداخلت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ کا محکمۂ صحت کے ملازمین کی گرفتاری کا نوٹس
اُدھر صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مظاہرین کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کردیا ہے تاہم اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے پر اتفاق ہوا ہے جو ہنگامہ آرائی یا زبردستی اسپتال بند کروانے میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مظاہرین کی گرفتاری پر افسوس ہے مگر ریڈ زون کی خلاف ورزی پر پولیس نے مجبوری میں ایکشن لیا۔ سندھ حکومت نے مذکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی مگر مظاہرین نے مطالبات کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔