انارکی
عام لوگ سیاست پر بحث کرتے ہوئے کسی نہ کسی جید سیاسی رہنما کی طرفداری یا مخالفت کرتے نظر آتے ہیں
سیاست' ملک کو کتنا اور کہاں کہاں' برباد کرتی ہے۔ طالب علم کی دانست میں اب اس منفی رویہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ جو تباہی ہونی تھی۔ ہو چکی۔ ایک دانشور فرمانے لگے کہ جناب خانہ جنگی ہو گئی تو ان گنت لوگ مارے جائیں گے۔
مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب فہم شخص اٹھ کر بیٹھ گئے۔ فرمانے لگے۔ کہ اگر پچیس تیس کروڑ میں سے چند لاکھ بندے رزق خاک بھی ہو گئے تو کوئی غم نہیں ۔ عجیب سا لگا۔ عرض کی کہ حضرت! اگر اہم ترین لوگوں کی بجائے خستہ حال شناختی کارڈ بلی چڑھ گئے تو پھر۔ خاموش ہو کر جواب دیا۔ پچیس تیس ہزار اعلیٰ اور دنیاوی طور پر طاقتور بندے مارے بھی جائیں تو پھر بھی یہ مہنگا سودا نہیں۔ یعنی چند لاکھ بے گناہ اور چند ہزار حددرجہ مضبوط ترین لوگ' چھری تلے آ بھی گئے تو کوئی غم نہیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی تو پستا ہے۔
شائد اس طرح ہماری آنے والی نسلیں سپھل ہو جائیں۔ ورنہ وہی الف لیلیٰ کی فرمائشی کہانیاں جن پر عوام کو یقین کرنے کے لیے برین واش کر دیا گیا ہے۔ ویسے ذہن کوگدلا کرنے کے لیے دماغ اور سوچ کی ضرورت ہے جسے حادثاتی طور پر ہمارے خطے میں محکوم بنا دیا گیا ہے۔
سماجی' مذہبی ' علاقائی ' لسانی ناانصافیوں نے دیمک کی طرح ہمیں چاٹ لیا ہے۔ مذہب پر دلیل سے بات کرنا کم از کم ہمارے معاشرے میں حد درجہ دشوار بنا دیا گیا ہے۔ مذہب کی جو شرع مراکش ' بحرین' دوبئی' بنگلہ دیش یا دیگر مسلمان ممالک میں سند ہے۔
اس کے بالکل متضاد سوچ ہمارے ملک میں جاری ہے حتیٰ کہ سعودی عرب اب لبرل سوچ کی طرف جا چکا ہے۔ پر ہم وہ تمام کام کر رہے ہیں جو کسی بھی جدت پسند فکر سے عاری ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اس بیان سے متفق نہ ہوں۔ دنیا اقلیتی اور بے رحم سوچ کے حساب سے نہیں چلتی۔ ملک جس حال میں ہے۔ اس سے نیچے جانا اب ممکن نہیں رہا۔
عام لوگ سیاست پر بحث کرتے ہوئے کسی نہ کسی جید سیاسی رہنما کی طرفداری یا مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی قائد' اب پاکستان کی موجودہ مشکلات کو مستقل بنیاد پر حل نہیں کر سکتا۔ بغیر کسی تعصب کے آپ کسی بھی سیاسی لیڈر کے عملی طرز عمل پر غور کیجیے۔ صاف پتہ چل جائے گا کہ یہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں۔ بلکہ عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کا چلن ہے۔
موجودہ وزیراعظم جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انھوں نے ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والا ایک بجلی گھر لگایا تھا۔ اس کا اتنا ڈھول بجایا گیا کہ لگتا تھا کہ بس کمال ہی کمال ہو گیا۔ پر شکوہ سننے کا وقت کسی کے پاس ہے ہی نہیں۔ قیمتی ترین زرخیز زمین پر پوری دنیا میں کسی بھی اور جگہ کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر نہیں لگایا جاتا۔ ایک ادنیٰ فیصلے نے ساہیوال میں پلانٹ کے اطراف ' زرعی زمین کو بنجر کر دیا ہے۔
پھر اس میں اتنی گھٹیا مشینری استعمال کی گئی ہے کہ درجنوں کلومیٹر دور تک کوئلے کی خاک ہوا میں موجود رہتی ہے جو انسانی صحت کے لیے حد درجہ مضر ہے۔
پلانٹ میں اور انوائسنگ کتنی ہوئی، اس کا تو خیر سب کو پتہ ہے۔ ایک سنجیدہ بندے نے سابقہ وزیراعلیٰ کو مشورہ دیا تھا کہ کوئلہ کا پلانٹ یہاں مت لگائیں۔اگر کوئی مجبوری ہے تو اس کو ساحل سمندر کے بیابان ترین علاقے میں نصب کیجیے۔
منفی اثرات کم سے کم ہو جائینگے۔ مگر نہیں صاحب ' لگانا بھی وہاں تھا۔ جہاں ہر آنے جانے والے کی نظر پڑے تاکہ واہ واہ ہوتی رہے۔ اور لگانا بھی اس نامناسب جگہ پر تھا جو ہرلحاظ سے کمتر تھی۔ بہر حال تمام قائدین کا یکساں حال ہے۔ کوئی بھی عملی طور پر اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتا۔
خان صاحب' اس وقت ملک کے مقبول لیڈر ہیں۔ یہ بات بالکل صائب ہے۔ پر کیا خان صاحب' کسی کی دانائی کی بات تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کیا ان کے سامنے کوئی بندہ اختلافی بات کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ۔ عملی مثال سامنے رکھتا ہوں۔ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا ایک سیاسی غلطی تھی۔ بزدار صاحب انتظامی طور پر ناکام وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔
اداروں کے سربراہان نے بجا طور پر وزیراعظم سے بار بار کہا کہ بزدار کو چلتا کیجیے۔ یہ بھاری پتھر آپ کب تک اٹھائیں گے۔ علیم خان' ایک متحرک انسان تھے ان کو خان صاحب نے کمال سیاست فرماتے ہوئے زندان خانے میں بھجوا دیا۔ مگر بزدار کو اپنے منصب سے فارغ نہیں کیا۔ یعنی ایک تو سیاسی غلطی بلکہ سیاسی خودکشی اور اسکے بعد اس پر اڑ جانا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سنگین باب ہے۔
خان صاحب آج تک اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ۔ ہاں ایک بات عرض کرتا چلوں۔ چند دن پہلے خان صاحب سے عشق کرنے والے ایک اینکر سے ملاقات ہوئی۔ پوچھا کہ جناب اگر خان صاحب' دوبارہ دو تہائی اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم بن گئے تو کیا ایسا کرینگے جس سے پاکستان ترقی کی راہ پر سرپٹ دوڑنا شروع کر دے۔ کہنے لگا کہ آپ کے سوال کا کم از کم میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ دوبارہ مسند شاہی پر آ کر وہ پہلے سے مختلف ہو جائیں۔ اور چند ایسے کام کر جائیں جن سے قوم کی قسمت بدل جائے۔ میں خاموش ہو گیا۔ مقصد کسی بھی سیاسی شدت پسند سے مڈھ بھیڑ نہیں بلکہ مکالمہ ہے۔
نہ وہ جواب دے پائے اور نہ مجھے کسی جواب کی خواہش رہی۔ اس لیے کہ سچ سب جانتے ہیں۔ سندھ کے متعلق بات کرنا وقت کا ضیاع ہے ۔ کیونکہ محترم زرداری صاحب' اب ریاستی اداروں کے لیے قابل قبول ہیں۔ خان صاحب نے کہا کہ ریاستی ادارے کرپشن کو بالکل برا نہیں سمجھتے۔
اہل نظر ! جب ہر جانب چوپٹ راج ہو تو پھر کیا راستہ رہ جاتا ہے۔ یہ وہ مضطرب سوال ہے جو ہمارے ملک میں پوچھا نہیں جاتا۔ بلکہ اس پر بات کرنا بھی ممنوع ہے۔ مگر صاحبان' اگر اس پر اب بات نہ کی تو پھر کیا ملک کو مزید پسماندہ کرنے کے بعد ہو گی۔ یاد رہے۔ دنیا کے سب سے امیر ترین حکمران روس کے زار تھے۔
نکولائی رومانوو آخری زار تھا۔ دنیا کی مضبوط ترین فوج ' حد درجہ کامیاب معیشت اور ظالم ترین خفیہ اداروں کا بادشاہ ۔ جب اسے بتایا جاتا تھا کہ روس میں عوام کی زندگی حد درجہ مشکل ہو چکی ہے ۔ لوگ غربت کے ہاتھوں برباد ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ امیر تر ہوتی جا رہی ہے۔
امیر اور غریب طبقے میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے تو یقین فرمائیے۔ نکولائی رومانوو حد درجہ غیر سنجیدہ طرز عمل رکھتا تھا۔ اردگرد درباری مسلسل بتاتے رہتے تھے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ معدودے چند شر پسند لوگ بلا وجہ اس کے خلاف ہیں۔ دیواروں پر جو نعرے لکھے جاتے ہیں۔
یہ بھی ایک اندرونی سازش کا شاخسانہ ہے۔ ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ زار ان باتوں پر مکمل یقین کرتا تھا۔ مگر رومانوو کی والدہ حد درجہ ذہین خاتون تھیں۔ بھانپ چکی تھی کہ ملکی حالات خراب ہو چکے ہیں۔ مگر بیٹا' اس کی بات نہیں مانتا تھا۔ شاہی خاندان کو دھچکا لگا جب زار کا سمدھی جو کہ پولیس اور خفیہ اداروں کا سربراہ تھا۔ ایک بم دھماکے میں مارا گیا۔
جب اس کی مسخ شدہ لاش محل میں لائی گئی تو زار کی آنکھیں کھلیں کہ یہ تو معاملہ ہی مکمل طور پر الٹ چکا ہے۔ مگر اب سنبھلنے کا وقت نہیں تھا ۔ عوام کا غصہ اور نفرت پورے شاہی خاندان اور نظام کے خلاف متحد ہو چکی تھی۔ رومانوو اپنے خاندان کو لے کر ایک محفوظ جگہ پر منتقل ہو گیا۔مگر وہاں بھی سکون سے نہ رہ سکا۔
نتیجہ یہ ہے کہ پورا خاندان قتل کر دیا گیا۔ پورے ملک کی انارکی کو نئی کمیونسٹ پارٹی نے بطور سیاسی ہتھیار کامیابی سے استعمال کیا۔ روس ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ دنیا کے طاقتور ترین خاندان کا نام و نشان ختم ہو گیا۔
عرض کرونگا کہ ملکی حالات کا لاوہ جس طرح بھڑک رہا ہے۔ جس قدر غم و غصہ عوامی سطح پر ہمارے ادنیٰ نظام کے خلاف موجود ہے۔ یہ معاملہ کسی بھی طرف جا سکتا ہے۔
روایتی سیاست دان اس نفرت کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ عام لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے کتنا غیر مثبت جذبہ ہے۔ قیامت خیز مہنگائی ' عام آدمی کے حد درجہ محدود وسائل' نظام میں کسی قسم کے انصاف اور رحم کی عدم موجودگی ' مذہبی منافرت کی انتہا' ہر شعبہ میں طاقتور کی غریب آدمی پر یلغار' حد درجہ اندرونی افراتفری اور ہر دم قتل و غارت جیسے عوامل نے عام آدمی کو بے بس کر ڈالا ہے۔
اس انارکی کی بدولت کتنی قتل و غارت ہو گی اس کے متعلق کوئی بھی پیشن گوئی نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں جو سیاسی لیڈر' اس منفی جذبہ کو بھانپ کر' اسے اپنے سیاسی فکر میں سمو گیا۔ ملک پھل کی طرح اس کی جھولی میں گر جائے گا۔ شائد انارکی ہی سے یہ بدبودار نظام ختم ہو جائے!
مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب فہم شخص اٹھ کر بیٹھ گئے۔ فرمانے لگے۔ کہ اگر پچیس تیس کروڑ میں سے چند لاکھ بندے رزق خاک بھی ہو گئے تو کوئی غم نہیں ۔ عجیب سا لگا۔ عرض کی کہ حضرت! اگر اہم ترین لوگوں کی بجائے خستہ حال شناختی کارڈ بلی چڑھ گئے تو پھر۔ خاموش ہو کر جواب دیا۔ پچیس تیس ہزار اعلیٰ اور دنیاوی طور پر طاقتور بندے مارے بھی جائیں تو پھر بھی یہ مہنگا سودا نہیں۔ یعنی چند لاکھ بے گناہ اور چند ہزار حددرجہ مضبوط ترین لوگ' چھری تلے آ بھی گئے تو کوئی غم نہیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی تو پستا ہے۔
شائد اس طرح ہماری آنے والی نسلیں سپھل ہو جائیں۔ ورنہ وہی الف لیلیٰ کی فرمائشی کہانیاں جن پر عوام کو یقین کرنے کے لیے برین واش کر دیا گیا ہے۔ ویسے ذہن کوگدلا کرنے کے لیے دماغ اور سوچ کی ضرورت ہے جسے حادثاتی طور پر ہمارے خطے میں محکوم بنا دیا گیا ہے۔
سماجی' مذہبی ' علاقائی ' لسانی ناانصافیوں نے دیمک کی طرح ہمیں چاٹ لیا ہے۔ مذہب پر دلیل سے بات کرنا کم از کم ہمارے معاشرے میں حد درجہ دشوار بنا دیا گیا ہے۔ مذہب کی جو شرع مراکش ' بحرین' دوبئی' بنگلہ دیش یا دیگر مسلمان ممالک میں سند ہے۔
اس کے بالکل متضاد سوچ ہمارے ملک میں جاری ہے حتیٰ کہ سعودی عرب اب لبرل سوچ کی طرف جا چکا ہے۔ پر ہم وہ تمام کام کر رہے ہیں جو کسی بھی جدت پسند فکر سے عاری ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اس بیان سے متفق نہ ہوں۔ دنیا اقلیتی اور بے رحم سوچ کے حساب سے نہیں چلتی۔ ملک جس حال میں ہے۔ اس سے نیچے جانا اب ممکن نہیں رہا۔
عام لوگ سیاست پر بحث کرتے ہوئے کسی نہ کسی جید سیاسی رہنما کی طرفداری یا مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی قائد' اب پاکستان کی موجودہ مشکلات کو مستقل بنیاد پر حل نہیں کر سکتا۔ بغیر کسی تعصب کے آپ کسی بھی سیاسی لیڈر کے عملی طرز عمل پر غور کیجیے۔ صاف پتہ چل جائے گا کہ یہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں۔ بلکہ عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کا چلن ہے۔
موجودہ وزیراعظم جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انھوں نے ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والا ایک بجلی گھر لگایا تھا۔ اس کا اتنا ڈھول بجایا گیا کہ لگتا تھا کہ بس کمال ہی کمال ہو گیا۔ پر شکوہ سننے کا وقت کسی کے پاس ہے ہی نہیں۔ قیمتی ترین زرخیز زمین پر پوری دنیا میں کسی بھی اور جگہ کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر نہیں لگایا جاتا۔ ایک ادنیٰ فیصلے نے ساہیوال میں پلانٹ کے اطراف ' زرعی زمین کو بنجر کر دیا ہے۔
پھر اس میں اتنی گھٹیا مشینری استعمال کی گئی ہے کہ درجنوں کلومیٹر دور تک کوئلے کی خاک ہوا میں موجود رہتی ہے جو انسانی صحت کے لیے حد درجہ مضر ہے۔
پلانٹ میں اور انوائسنگ کتنی ہوئی، اس کا تو خیر سب کو پتہ ہے۔ ایک سنجیدہ بندے نے سابقہ وزیراعلیٰ کو مشورہ دیا تھا کہ کوئلہ کا پلانٹ یہاں مت لگائیں۔اگر کوئی مجبوری ہے تو اس کو ساحل سمندر کے بیابان ترین علاقے میں نصب کیجیے۔
منفی اثرات کم سے کم ہو جائینگے۔ مگر نہیں صاحب ' لگانا بھی وہاں تھا۔ جہاں ہر آنے جانے والے کی نظر پڑے تاکہ واہ واہ ہوتی رہے۔ اور لگانا بھی اس نامناسب جگہ پر تھا جو ہرلحاظ سے کمتر تھی۔ بہر حال تمام قائدین کا یکساں حال ہے۔ کوئی بھی عملی طور پر اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتا۔
خان صاحب' اس وقت ملک کے مقبول لیڈر ہیں۔ یہ بات بالکل صائب ہے۔ پر کیا خان صاحب' کسی کی دانائی کی بات تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کیا ان کے سامنے کوئی بندہ اختلافی بات کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ۔ عملی مثال سامنے رکھتا ہوں۔ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا ایک سیاسی غلطی تھی۔ بزدار صاحب انتظامی طور پر ناکام وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔
اداروں کے سربراہان نے بجا طور پر وزیراعظم سے بار بار کہا کہ بزدار کو چلتا کیجیے۔ یہ بھاری پتھر آپ کب تک اٹھائیں گے۔ علیم خان' ایک متحرک انسان تھے ان کو خان صاحب نے کمال سیاست فرماتے ہوئے زندان خانے میں بھجوا دیا۔ مگر بزدار کو اپنے منصب سے فارغ نہیں کیا۔ یعنی ایک تو سیاسی غلطی بلکہ سیاسی خودکشی اور اسکے بعد اس پر اڑ جانا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سنگین باب ہے۔
خان صاحب آج تک اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ۔ ہاں ایک بات عرض کرتا چلوں۔ چند دن پہلے خان صاحب سے عشق کرنے والے ایک اینکر سے ملاقات ہوئی۔ پوچھا کہ جناب اگر خان صاحب' دوبارہ دو تہائی اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم بن گئے تو کیا ایسا کرینگے جس سے پاکستان ترقی کی راہ پر سرپٹ دوڑنا شروع کر دے۔ کہنے لگا کہ آپ کے سوال کا کم از کم میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ دوبارہ مسند شاہی پر آ کر وہ پہلے سے مختلف ہو جائیں۔ اور چند ایسے کام کر جائیں جن سے قوم کی قسمت بدل جائے۔ میں خاموش ہو گیا۔ مقصد کسی بھی سیاسی شدت پسند سے مڈھ بھیڑ نہیں بلکہ مکالمہ ہے۔
نہ وہ جواب دے پائے اور نہ مجھے کسی جواب کی خواہش رہی۔ اس لیے کہ سچ سب جانتے ہیں۔ سندھ کے متعلق بات کرنا وقت کا ضیاع ہے ۔ کیونکہ محترم زرداری صاحب' اب ریاستی اداروں کے لیے قابل قبول ہیں۔ خان صاحب نے کہا کہ ریاستی ادارے کرپشن کو بالکل برا نہیں سمجھتے۔
اہل نظر ! جب ہر جانب چوپٹ راج ہو تو پھر کیا راستہ رہ جاتا ہے۔ یہ وہ مضطرب سوال ہے جو ہمارے ملک میں پوچھا نہیں جاتا۔ بلکہ اس پر بات کرنا بھی ممنوع ہے۔ مگر صاحبان' اگر اس پر اب بات نہ کی تو پھر کیا ملک کو مزید پسماندہ کرنے کے بعد ہو گی۔ یاد رہے۔ دنیا کے سب سے امیر ترین حکمران روس کے زار تھے۔
نکولائی رومانوو آخری زار تھا۔ دنیا کی مضبوط ترین فوج ' حد درجہ کامیاب معیشت اور ظالم ترین خفیہ اداروں کا بادشاہ ۔ جب اسے بتایا جاتا تھا کہ روس میں عوام کی زندگی حد درجہ مشکل ہو چکی ہے ۔ لوگ غربت کے ہاتھوں برباد ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ امیر تر ہوتی جا رہی ہے۔
امیر اور غریب طبقے میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے تو یقین فرمائیے۔ نکولائی رومانوو حد درجہ غیر سنجیدہ طرز عمل رکھتا تھا۔ اردگرد درباری مسلسل بتاتے رہتے تھے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ معدودے چند شر پسند لوگ بلا وجہ اس کے خلاف ہیں۔ دیواروں پر جو نعرے لکھے جاتے ہیں۔
یہ بھی ایک اندرونی سازش کا شاخسانہ ہے۔ ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ زار ان باتوں پر مکمل یقین کرتا تھا۔ مگر رومانوو کی والدہ حد درجہ ذہین خاتون تھیں۔ بھانپ چکی تھی کہ ملکی حالات خراب ہو چکے ہیں۔ مگر بیٹا' اس کی بات نہیں مانتا تھا۔ شاہی خاندان کو دھچکا لگا جب زار کا سمدھی جو کہ پولیس اور خفیہ اداروں کا سربراہ تھا۔ ایک بم دھماکے میں مارا گیا۔
جب اس کی مسخ شدہ لاش محل میں لائی گئی تو زار کی آنکھیں کھلیں کہ یہ تو معاملہ ہی مکمل طور پر الٹ چکا ہے۔ مگر اب سنبھلنے کا وقت نہیں تھا ۔ عوام کا غصہ اور نفرت پورے شاہی خاندان اور نظام کے خلاف متحد ہو چکی تھی۔ رومانوو اپنے خاندان کو لے کر ایک محفوظ جگہ پر منتقل ہو گیا۔مگر وہاں بھی سکون سے نہ رہ سکا۔
نتیجہ یہ ہے کہ پورا خاندان قتل کر دیا گیا۔ پورے ملک کی انارکی کو نئی کمیونسٹ پارٹی نے بطور سیاسی ہتھیار کامیابی سے استعمال کیا۔ روس ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ دنیا کے طاقتور ترین خاندان کا نام و نشان ختم ہو گیا۔
عرض کرونگا کہ ملکی حالات کا لاوہ جس طرح بھڑک رہا ہے۔ جس قدر غم و غصہ عوامی سطح پر ہمارے ادنیٰ نظام کے خلاف موجود ہے۔ یہ معاملہ کسی بھی طرف جا سکتا ہے۔
روایتی سیاست دان اس نفرت کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ عام لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے کتنا غیر مثبت جذبہ ہے۔ قیامت خیز مہنگائی ' عام آدمی کے حد درجہ محدود وسائل' نظام میں کسی قسم کے انصاف اور رحم کی عدم موجودگی ' مذہبی منافرت کی انتہا' ہر شعبہ میں طاقتور کی غریب آدمی پر یلغار' حد درجہ اندرونی افراتفری اور ہر دم قتل و غارت جیسے عوامل نے عام آدمی کو بے بس کر ڈالا ہے۔
اس انارکی کی بدولت کتنی قتل و غارت ہو گی اس کے متعلق کوئی بھی پیشن گوئی نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں جو سیاسی لیڈر' اس منفی جذبہ کو بھانپ کر' اسے اپنے سیاسی فکر میں سمو گیا۔ ملک پھل کی طرح اس کی جھولی میں گر جائے گا۔ شائد انارکی ہی سے یہ بدبودار نظام ختم ہو جائے!