معیشت اور سیاسی عدم استحکام
پاکستان کو گرداب سے نکالنے کی سب سے زیادہ ذمے داری ملک کی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے
پاکستان کی معیشت کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی عدم استحکام بدستور موجود ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک معاشی میدان میں پاکستان کی مدد کر بھی رہے ہیں اور مزید مدد کرنے پر آمادہ بھی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری ہوتی نظر آ رہی ہے تاہم ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت مستحکم ہو چکی ہے کیونکہ ملک کے اندر سیاسی محاذآرائی کی شدت میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
اس کے باوجود اگر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رہے ہیں تو اسے حکومت کی اچھی حکمت عملی قرار دیا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورت حال بہتر ضرور بنائی ہے تاہم آئی ایم ایف افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دے چکا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ امید بھی دلائی ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔
اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ بہتر اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے لہٰذا اس کی ضروریات بھی بڑی ہیں اور پاکستان کے پاس پوٹینشل بھی موجود ہے لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔ اگر سیاسی استحکام آ جائے تو پاکستان کی معیشت زیادہ تیزرفتاری سے کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چین، سعودی عرب، یو ای اے اور قطر پاکستان کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون کررہے ہیں۔
یہ صورت حال یقیناً مثبت اور خوش آیند ہے لیکن گراس روٹ لیول پر دیکھا جائے تو پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کے ناقابل برداشت بل، ادویات، روزمرہ اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سفیدپوش گھرانے سخت قسم کے معاشی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ وہ اپنی آمدن اور خرچ میں توازن پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔
ادھر ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران تارکین وطن کی جانب سے مجموعی طور پر 9.9ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی گئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے 8.6 فیصد کم ہیں۔ ذرایع کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر گز شتہ ماہ اکتوبر میں تارکین وطن کی جانب سے2.2ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی گئیں۔
ماہانہ بنیادوں پر اکتوبر میں بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر ستمبر کے مقابلہ 9.1 فیصد کم ہیں جب کہ سالانہ بنیادوں پر اکتوبر میں بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر گزشتہ سال اکتوبر میں بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر کے مقابلے میں 15.7فیصد کم ہیں۔
ایک دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ گورنر اسٹیٹ نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 بلین ڈالر سے کم رہنے کی توقع ہے ،ان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ تباہ کن سیلاب بیرونی مالیاتی ضروریات پر منفی اثر نہیں ڈالے گا۔10 بلین ڈالر یا مجموعی ملکی پیداوار کا 2.3 فیصد سے کم متوقع خسارہ بھی عالمی بینک کی GDP کے 4.3 فیصد کی تازہ ترین پیش گوئی سے تقریباً نصف کم ہے۔ اس سے شرح مبادلہ پر دباؤ کم ہو سکتا ہے۔
گورنر نے مزید کہا کہ حکومت اور مرکزی بینک کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر کی مناسب سطح کو برقرار رکھنے کی کوششوں کے باعث کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کے استعمال پر عائد تازہ پابندیوں سے ملک سالانہ 500 ملین ڈالر کا زرمبادلہ بچائے گا۔ورلڈ بینک نے اپنی تازہ ترین پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.3 فیصد یا تقریباً 17 بلین ڈالر رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔
مالی سال 2021-22 میں، پاکستان نے 17.4 بلین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا تھا جو کہ جی ڈی پی کے 4.6 فیصد کے برابر تھا، جو چار سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
خبر میں وزارت خزانہ کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کی جانب سے چین کو 500 ملین ڈالر کے تجارتی قرض کی ادائیگی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 7.9 بلین ڈالر تک گر گئے۔ ،500 ملین ڈالر کے چینی تجارتی قرضے کو دوبارہ فنانس کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ملک میں مسلسل چار ہفتوں سے مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان بدستور جاری ہے۔ ملک میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 29.24 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
معیشت کو درست کرنے کے لیے سیاسی انتشار کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ معیشت کو سیاست سے بالاتر رکھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل وضع نہ کیا گیا تو سیاسی عدم استحکام معیشت کے لیے زہر قاتل بن سکتا ہے۔ حکمران اتحادی جماعتوں کی قیادت ہو، عمران خان یا دوسرے سیاست دان، انھیں اپنے جماعتی اور سیاسی مفادات کے لیے معیشت کو تختۂ مشک نہیں بنانا چاہیے بلکہ سب مل کر ملک کا سوچیں اور معیشت پر سیاست بند کریں۔
پاکستان کے لیے بیرونی قرض کی ادائیگی کا مسئلہ سوہان روح بنا ہوا ہے۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، کسی کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ گھمبیر سیاسی اور معاشی معاملات کو چٹکی بجاتے درست کر لیں، ملک کی معیشت کو باہمی اتحاد، سخت محنت اور درست معاشی حکمت عملی کے ذریعے ہی درست کیا جا سکتا ہے، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں رہنما کردار ادا کریں تو حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مفاہمت کی طرف کسی فریق کا دھیان نہیں ہے۔ ملکی میں جاری سیاسی محاذآرائی کی وجہ سے صنعت کار اور تاجر طبقہ شدید خوفزدہ ہے۔
اگر ملک کے اسٹیک ہولڈر مختصر، درمیانے اور طویل المدتی میثاق معیشت پر راضی ہو جائیں اور حکمت عملی مرتب کریں تو پاکستان معاشی مشکلات سے بھی نکل سکتا ہے اور فوڈ سیکیورٹی، انرجی سیکیورٹی، بارڈر سیکیورٹی اور عدل و انصاف بھی بہتر جا سکتا ہے جو پاکستان کو آگے لے کر جائے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ اکانومی مستحکم ہونے سے روزگار میں اضافہ ہو گا، غریب اور متوسط طبقے کی آمدنی بڑھے گی جس کے بزنس سیکٹر پر موثر اثرات آئیں گے۔ معیشت مستحکم ہونے سے ہی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کا شمار زرعی ممالک میں ہوتا ہے، ستر فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اگر پالیسی ساز اپنے اہداف میں زرعی ترقی کو بنیاد بنا کر حکمت عملی مرتب کریں تو آیندہ چند سال میں نہ صرف پاکستان کو زرعی شعبے میں خود کفیل کرسکتے ہیں بلکہ اجناس اور زرعی مصنوعات برآمد کرکے اربوں ڈالر بھی کما سکتے ہیں۔
زراعت اور انسانوں کے زندہ رہنے کے لیے پانی بہت ضروری ہے۔ حکمران طبقوں کو یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ ملک میں پانی کا بحران بھی بڑھ رہا ہے اور زیرزمین پانی مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ نئے ڈیمز کی جلد از جلد تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس محنتی کسان بھی ہیں اور زرخیز زمین بھی، بس درست حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی ترقی کے لیے توانائیانتہائی ضروری ہے۔ پٹرول، گیس اور بجلی، کارخانے اور زندگی کے معمولات چلانے کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ ہر سال اربوں روپے پٹرول اور ایل پی جی برآمد کرنے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں توانائی کے متبادل ذرایع تلاش کرنے چاہئیں تاکہ مصنوعات پر آنے والی لاگت کو کم کیا جاسکے تو دوسری طرف ایکسپورٹ بل کو بھی نیچے لایا جائے، اگر پٹرول اور ایل پی جی کی درآمد کابل آدھا ہوجائے تو اس سے زرمبادلہ کے بحران پرکافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو آیندہ چند سال تک پٹرول پر انحصار کم سے کم کردیں گے۔ ہمارے قدرتی گیس کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہورہے ہیں، اس لیے ہمیں بہت سنجیدگی کے ساتھ نئی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔
پاکستان کو گرداب سے نکالنے کی سب سے زیادہ ذمے داری ملک کی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ ماضی کی بے اعتدالیوں، ہوس اقتدار اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار کی نذر ہو چکا ہے۔ اس وقت ملک کا سارا نظام زنگ آلود ہی نہیں بلکہ گلنا سڑنا شروع ہو چکا ہے۔
پارلیمنٹیرینز اور سیاسی قیادت ذہانت اور تدبر کا مظاہرہ کرتی تو ملک کے آئین میں موجود خامیوں اور ابہام کو پہلی فرصت میں دور کیا جانا چاہیے تھا۔ جو بھی قانون سازی کی جاتی، اس کا مقصد ریاست کے عام آدمی کے مفادات کا تحفظ ہوتا اور یہ قانون سازی غیرمبہم، واضح اور ٹھوس ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا، آج آئین اور ملک کے نظام میں کینسر کی طرح پھیلنے والے مبہم قوانین نے ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ طاقتور بھی ان کا شکار ہو رہے ہیں۔
عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک معاشی میدان میں پاکستان کی مدد کر بھی رہے ہیں اور مزید مدد کرنے پر آمادہ بھی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری ہوتی نظر آ رہی ہے تاہم ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت مستحکم ہو چکی ہے کیونکہ ملک کے اندر سیاسی محاذآرائی کی شدت میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
اس کے باوجود اگر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رہے ہیں تو اسے حکومت کی اچھی حکمت عملی قرار دیا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورت حال بہتر ضرور بنائی ہے تاہم آئی ایم ایف افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دے چکا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ امید بھی دلائی ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔
اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ بہتر اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے لہٰذا اس کی ضروریات بھی بڑی ہیں اور پاکستان کے پاس پوٹینشل بھی موجود ہے لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔ اگر سیاسی استحکام آ جائے تو پاکستان کی معیشت زیادہ تیزرفتاری سے کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چین، سعودی عرب، یو ای اے اور قطر پاکستان کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون کررہے ہیں۔
یہ صورت حال یقیناً مثبت اور خوش آیند ہے لیکن گراس روٹ لیول پر دیکھا جائے تو پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کے ناقابل برداشت بل، ادویات، روزمرہ اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سفیدپوش گھرانے سخت قسم کے معاشی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ وہ اپنی آمدن اور خرچ میں توازن پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔
ادھر ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران تارکین وطن کی جانب سے مجموعی طور پر 9.9ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی گئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے 8.6 فیصد کم ہیں۔ ذرایع کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر گز شتہ ماہ اکتوبر میں تارکین وطن کی جانب سے2.2ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی گئیں۔
ماہانہ بنیادوں پر اکتوبر میں بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر ستمبر کے مقابلہ 9.1 فیصد کم ہیں جب کہ سالانہ بنیادوں پر اکتوبر میں بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر گزشتہ سال اکتوبر میں بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر کے مقابلے میں 15.7فیصد کم ہیں۔
ایک دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ گورنر اسٹیٹ نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 بلین ڈالر سے کم رہنے کی توقع ہے ،ان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ تباہ کن سیلاب بیرونی مالیاتی ضروریات پر منفی اثر نہیں ڈالے گا۔10 بلین ڈالر یا مجموعی ملکی پیداوار کا 2.3 فیصد سے کم متوقع خسارہ بھی عالمی بینک کی GDP کے 4.3 فیصد کی تازہ ترین پیش گوئی سے تقریباً نصف کم ہے۔ اس سے شرح مبادلہ پر دباؤ کم ہو سکتا ہے۔
گورنر نے مزید کہا کہ حکومت اور مرکزی بینک کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر کی مناسب سطح کو برقرار رکھنے کی کوششوں کے باعث کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کے استعمال پر عائد تازہ پابندیوں سے ملک سالانہ 500 ملین ڈالر کا زرمبادلہ بچائے گا۔ورلڈ بینک نے اپنی تازہ ترین پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.3 فیصد یا تقریباً 17 بلین ڈالر رہنے کی پیش گوئی کی تھی۔
مالی سال 2021-22 میں، پاکستان نے 17.4 بلین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا تھا جو کہ جی ڈی پی کے 4.6 فیصد کے برابر تھا، جو چار سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
خبر میں وزارت خزانہ کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کی جانب سے چین کو 500 ملین ڈالر کے تجارتی قرض کی ادائیگی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 7.9 بلین ڈالر تک گر گئے۔ ،500 ملین ڈالر کے چینی تجارتی قرضے کو دوبارہ فنانس کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ملک میں مسلسل چار ہفتوں سے مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان بدستور جاری ہے۔ ملک میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 29.24 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
معیشت کو درست کرنے کے لیے سیاسی انتشار کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ معیشت کو سیاست سے بالاتر رکھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل وضع نہ کیا گیا تو سیاسی عدم استحکام معیشت کے لیے زہر قاتل بن سکتا ہے۔ حکمران اتحادی جماعتوں کی قیادت ہو، عمران خان یا دوسرے سیاست دان، انھیں اپنے جماعتی اور سیاسی مفادات کے لیے معیشت کو تختۂ مشک نہیں بنانا چاہیے بلکہ سب مل کر ملک کا سوچیں اور معیشت پر سیاست بند کریں۔
پاکستان کے لیے بیرونی قرض کی ادائیگی کا مسئلہ سوہان روح بنا ہوا ہے۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، کسی کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ گھمبیر سیاسی اور معاشی معاملات کو چٹکی بجاتے درست کر لیں، ملک کی معیشت کو باہمی اتحاد، سخت محنت اور درست معاشی حکمت عملی کے ذریعے ہی درست کیا جا سکتا ہے، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں رہنما کردار ادا کریں تو حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مفاہمت کی طرف کسی فریق کا دھیان نہیں ہے۔ ملکی میں جاری سیاسی محاذآرائی کی وجہ سے صنعت کار اور تاجر طبقہ شدید خوفزدہ ہے۔
اگر ملک کے اسٹیک ہولڈر مختصر، درمیانے اور طویل المدتی میثاق معیشت پر راضی ہو جائیں اور حکمت عملی مرتب کریں تو پاکستان معاشی مشکلات سے بھی نکل سکتا ہے اور فوڈ سیکیورٹی، انرجی سیکیورٹی، بارڈر سیکیورٹی اور عدل و انصاف بھی بہتر جا سکتا ہے جو پاکستان کو آگے لے کر جائے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ اکانومی مستحکم ہونے سے روزگار میں اضافہ ہو گا، غریب اور متوسط طبقے کی آمدنی بڑھے گی جس کے بزنس سیکٹر پر موثر اثرات آئیں گے۔ معیشت مستحکم ہونے سے ہی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کا شمار زرعی ممالک میں ہوتا ہے، ستر فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اگر پالیسی ساز اپنے اہداف میں زرعی ترقی کو بنیاد بنا کر حکمت عملی مرتب کریں تو آیندہ چند سال میں نہ صرف پاکستان کو زرعی شعبے میں خود کفیل کرسکتے ہیں بلکہ اجناس اور زرعی مصنوعات برآمد کرکے اربوں ڈالر بھی کما سکتے ہیں۔
زراعت اور انسانوں کے زندہ رہنے کے لیے پانی بہت ضروری ہے۔ حکمران طبقوں کو یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ ملک میں پانی کا بحران بھی بڑھ رہا ہے اور زیرزمین پانی مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ نئے ڈیمز کی جلد از جلد تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس محنتی کسان بھی ہیں اور زرخیز زمین بھی، بس درست حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی ترقی کے لیے توانائیانتہائی ضروری ہے۔ پٹرول، گیس اور بجلی، کارخانے اور زندگی کے معمولات چلانے کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ ہر سال اربوں روپے پٹرول اور ایل پی جی برآمد کرنے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں توانائی کے متبادل ذرایع تلاش کرنے چاہئیں تاکہ مصنوعات پر آنے والی لاگت کو کم کیا جاسکے تو دوسری طرف ایکسپورٹ بل کو بھی نیچے لایا جائے، اگر پٹرول اور ایل پی جی کی درآمد کابل آدھا ہوجائے تو اس سے زرمبادلہ کے بحران پرکافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو آیندہ چند سال تک پٹرول پر انحصار کم سے کم کردیں گے۔ ہمارے قدرتی گیس کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہورہے ہیں، اس لیے ہمیں بہت سنجیدگی کے ساتھ نئی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔
پاکستان کو گرداب سے نکالنے کی سب سے زیادہ ذمے داری ملک کی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ ماضی کی بے اعتدالیوں، ہوس اقتدار اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار کی نذر ہو چکا ہے۔ اس وقت ملک کا سارا نظام زنگ آلود ہی نہیں بلکہ گلنا سڑنا شروع ہو چکا ہے۔
پارلیمنٹیرینز اور سیاسی قیادت ذہانت اور تدبر کا مظاہرہ کرتی تو ملک کے آئین میں موجود خامیوں اور ابہام کو پہلی فرصت میں دور کیا جانا چاہیے تھا۔ جو بھی قانون سازی کی جاتی، اس کا مقصد ریاست کے عام آدمی کے مفادات کا تحفظ ہوتا اور یہ قانون سازی غیرمبہم، واضح اور ٹھوس ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا، آج آئین اور ملک کے نظام میں کینسر کی طرح پھیلنے والے مبہم قوانین نے ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ طاقتور بھی ان کا شکار ہو رہے ہیں۔