ہمیں بھی پروا نہیں…
ذہنی مریضوں کو کہاں سمجھ ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے دوسروں کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے، وہ تو ناسمجھ ہوتے ہیں
ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ اپنے کاموں کی فہرست تیار کر کے ہم گھر سے نکلتے ہیں ، کاموں کو ترتیب دے کر روٹ بناتے ہیں، ایک طرف سے نکل کرکام کرتے ہوئے اس طرح گھر لوٹیں کہ بے جا دائیں بائیں نہ جانا پڑے، کوشش ہوتی تھی کہ ایک ہی سمت کے کاموں کو کسی ایک دن کر لیا جائے اور دوسرے کاموں کو کسی اور روز کے لیے اٹھا رکھا جائے۔
اب جب پٹرول کی قیمتیںاچھل اچھل کر آسمان کو چھونے لگی ہیں تو حالات اور بھی ابتر ہو گئے ہیں، اب اور بھی سوچ کر گھر سے نکلنا پڑتا ہے، خود سے یقین دہانی کر کے کہ واقعی اس کے سوا اب اور چارہ نہیں۔
اگر آپ بھی اپنے اپنے شہر کے حالات کو غور سے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گاکہ اب آپ کو بے مقصد گھومتے، لانگ ڈرائیو کرتے اور بچوں کو گھمانے پھرانے کے لیے نکلنے والے لوگ نظر ہی نہیں آتے۔ مہنگائی نے اس حد تک لاچار کر دیا ہے کہ لوگوں کے لیے اور بالخصوص تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔
گرانی کا عالم ہے کہ کسی سبزی یا پھل کو بھی ہاتھ لگائیں، فورا ہاتھ کھینچنا پڑتا ہے، جیسے کرنٹ لگتا ہے۔ پہلے پہل سوچتے تھے کہ غریب لوگ دکانوں پر سجے پھلوں کو حسرت سے دیکھتے ہوں گے، اب اس حسرت بھری نظر ڈالنے والوں میں متوسط طبقہ بھی شامل ہو گیا ہے۔
مٹھی میں سمٹ آنے والی تنخواہ کو کس طرح مہینے کے آخر تک بڑھتی جانے والی ضروریات تک پھیلایا جائے، اسی کوشش میں ہمارے ہاں کا متوسط طبقہ ختم ہو گیا ہے اور وہ بھی غربت کے دائرے میں شامل ہو گیا ہے۔پہلے اپنے گھر سے کام کار کے لیے نکلتے وقت، لوگ موسم چیک کرتے تھے اور یہ کہ کہیں بارش تو نہیں ہو گی تا کہ چھتری ہمراہ لے کر نکلیں۔
تیز بارش کا امکان ہے تو گھر تک محدود رہیں، نہ ہی نکلیں ماسوائے مجبوری کے۔ مگر اب باہر نکلتے وقت بہت کچھ اور چیک کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت ملک بے یقینی اور انتشار کی اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اگلے پل کے بارے میں قیافہ لگانا مشکل ہے ، کسے علم کہ کس وقت کیا حالات ہو جائیں ۔ خود گھر سے نکلنا چاہیں یا بچوں کو کام اور تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے نکلنا پڑے تو جب تک بچے واپس گھر کو نہ آئیں، جان حلق میں اٹکی رہتی ہے۔
کہیں محاصرے ہیں اور کہیں مظاہرے، کہیں لانگ مارچ ہے اور کہیں اسے روکنے کی کوششوں میں ہلکان ہوتے ہوئے سیکیورٹی ادارے۔ لانگ مارچ کی وجہ سے جہاں جہاں سے وہ گزر رہا ہے، وہاں وہاں لوگوں کے لیے اپنے کام کرنا مشکل اور اپنے گھروں سے باہر نکلنا اجیرن ہو جاتا ہے۔کسی کے گھر شادی ہے تو کہیں مرگ، کہیں کوئی بیمار ہے اور کسی کے ہاں بچے کی پیدائش کا وقت آن پہنچا ہے مگر گھر سے باہر نکلنے کے لیے بارش سے زیادہ گولیوں کی بوچھاڑ ، آنسو گیس، ٹائروں کے جلنے یا پتھراؤ ہونے سے زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس بارش کے لیے نہ کوئی حفاظتی دیوار ہے نہ کوئی چھتری ہے ۔ پہلے پہل مزاحیہ فنکار جگت کے طور پر کہا کرتے تھے کہ اس ملک ، پاکستان کو خود اللہ تعالی چلا رہا ہے۔ اس میں یوں بھی کوئی شک نہیں ہے مگر موجودہ حالات کے تناظر میں تو یہ بات بعینہ درست لگتی ہے۔ اس ملک میں اس وقت حکومت کا کو ئی ادارہ کام کر رہا ہے نہ افراد۔ یوں لگتا ہے کہ ایک سناٹا سا ہے، ایک اذن سا پھونک کر سب کو ایک جگہ پر ساکت کر دیا گیا ہے، اس ملک کے نظام کا پہیہ جام کر دیا گیا ہے۔
کوئی بجٹ ہے نہ عوام کے لیے کوئی ریلیف۔ اگر کوئی اس ملک میں کام کر رہا ہے تو وہ لوگ ہیں جو قیمتیں بڑھاتے ہیں مگر اس کے مقابل عوام کے لیے سکھ کی سانس لینے کو کچھ نہیں کرتے۔ وہ افراد اور حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں جنھوں نے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا ہے خواہ اس کی وجہ سے نہ صرف جڑواں شہروں میں، بلکہ ان کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی لوگوں کے لیے مشکلات کے انبار ہیں۔
ایسی مخلوط حکومت کی مثال ماضی میں شاید نہیں ملتی کہ جہاں مرکز کی حکومت کو مرکز کی حدود کے اندر محصور کر دیا گیا ہو، وہ اپنے اس حصار کو مضبوط سے مضبو ط تر کرنے کے لیے جو اقدامات کررہے ہیں، وہ کافی مضحکہ خیز ہیں۔ کنٹینر اگر چہ لگائے ہوئے نہیں ہیں مگرسڑکوں کے کناروں پر ہزاروں کی تعداد میں کھڑے ہوئے ان کنٹینروں کا منظر اس قدر ناگوار گزرتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارے ملک کے دورہ کرنے والے ، اہم ترین سعودی وفد کو اس کی کیا توجیح پیش کریں گے کیونکہ یہ لانگ مارچ تو اس قدر لانگ ہو گیا ہے کہ اس کے آیندہ دن کی منزل کا بھی علم نہیں ہو پاتا۔
ان کے اسلام آباد پہنچنے کا ارادہ نظر نہیں آتا اور ہم اسلام آباد میں رہنے والوں کے مسائل میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس انتہائی الم ناک صورت حال کا کوئی حل بھی نظر نہیں آتا کیونکہ کوئی بھی فریق بیٹھ کر ان مسائل کے حل کی کاوش کرنے کو تیار نہیں، کوئی اپنے مفادات پر اس ملک کے مفادات، عوام کے مفادات کو ترجیح دینے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی بیچ میں مصالحت کروانے کو تیار ہو بھی تو اس کی سننے کو کوئی تیار نہیں۔
ہر سمت ایسی ہٹ دھرمی ہے کہ کوئی اپنے موقف سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں، اس پر سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہیں، ہر وقت فشار خون کو بلند کیے رکھتی ہیں۔ جسمانی نہیں، ہم سب ذہنی مریض بن گئے ہیں، اس میں صرف میں اور آپ ہی نہیں، سب شامل ہیں، حزب اقتدار والے بھی اور حزب اختلاف والے بھی۔
ذہنی مریضوں کو کہاں سمجھ ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے دوسروں کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے، وہ تو ناسمجھ ہوتے ہیں۔تعلیمی ادارے کئی روز سے بند ہیں کیونکہ مظاہروں کی وجہ سے بہت سے راستوں کی بندش ہے اور طلباء کے لیے تعلیمی اداروں میں پہنچنا پہلا مسئلہ ہے۔
اب جب پٹرول کی قیمتیںاچھل اچھل کر آسمان کو چھونے لگی ہیں تو حالات اور بھی ابتر ہو گئے ہیں، اب اور بھی سوچ کر گھر سے نکلنا پڑتا ہے، خود سے یقین دہانی کر کے کہ واقعی اس کے سوا اب اور چارہ نہیں۔
اگر آپ بھی اپنے اپنے شہر کے حالات کو غور سے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گاکہ اب آپ کو بے مقصد گھومتے، لانگ ڈرائیو کرتے اور بچوں کو گھمانے پھرانے کے لیے نکلنے والے لوگ نظر ہی نہیں آتے۔ مہنگائی نے اس حد تک لاچار کر دیا ہے کہ لوگوں کے لیے اور بالخصوص تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔
گرانی کا عالم ہے کہ کسی سبزی یا پھل کو بھی ہاتھ لگائیں، فورا ہاتھ کھینچنا پڑتا ہے، جیسے کرنٹ لگتا ہے۔ پہلے پہل سوچتے تھے کہ غریب لوگ دکانوں پر سجے پھلوں کو حسرت سے دیکھتے ہوں گے، اب اس حسرت بھری نظر ڈالنے والوں میں متوسط طبقہ بھی شامل ہو گیا ہے۔
مٹھی میں سمٹ آنے والی تنخواہ کو کس طرح مہینے کے آخر تک بڑھتی جانے والی ضروریات تک پھیلایا جائے، اسی کوشش میں ہمارے ہاں کا متوسط طبقہ ختم ہو گیا ہے اور وہ بھی غربت کے دائرے میں شامل ہو گیا ہے۔پہلے اپنے گھر سے کام کار کے لیے نکلتے وقت، لوگ موسم چیک کرتے تھے اور یہ کہ کہیں بارش تو نہیں ہو گی تا کہ چھتری ہمراہ لے کر نکلیں۔
تیز بارش کا امکان ہے تو گھر تک محدود رہیں، نہ ہی نکلیں ماسوائے مجبوری کے۔ مگر اب باہر نکلتے وقت بہت کچھ اور چیک کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت ملک بے یقینی اور انتشار کی اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اگلے پل کے بارے میں قیافہ لگانا مشکل ہے ، کسے علم کہ کس وقت کیا حالات ہو جائیں ۔ خود گھر سے نکلنا چاہیں یا بچوں کو کام اور تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے نکلنا پڑے تو جب تک بچے واپس گھر کو نہ آئیں، جان حلق میں اٹکی رہتی ہے۔
کہیں محاصرے ہیں اور کہیں مظاہرے، کہیں لانگ مارچ ہے اور کہیں اسے روکنے کی کوششوں میں ہلکان ہوتے ہوئے سیکیورٹی ادارے۔ لانگ مارچ کی وجہ سے جہاں جہاں سے وہ گزر رہا ہے، وہاں وہاں لوگوں کے لیے اپنے کام کرنا مشکل اور اپنے گھروں سے باہر نکلنا اجیرن ہو جاتا ہے۔کسی کے گھر شادی ہے تو کہیں مرگ، کہیں کوئی بیمار ہے اور کسی کے ہاں بچے کی پیدائش کا وقت آن پہنچا ہے مگر گھر سے باہر نکلنے کے لیے بارش سے زیادہ گولیوں کی بوچھاڑ ، آنسو گیس، ٹائروں کے جلنے یا پتھراؤ ہونے سے زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس بارش کے لیے نہ کوئی حفاظتی دیوار ہے نہ کوئی چھتری ہے ۔ پہلے پہل مزاحیہ فنکار جگت کے طور پر کہا کرتے تھے کہ اس ملک ، پاکستان کو خود اللہ تعالی چلا رہا ہے۔ اس میں یوں بھی کوئی شک نہیں ہے مگر موجودہ حالات کے تناظر میں تو یہ بات بعینہ درست لگتی ہے۔ اس ملک میں اس وقت حکومت کا کو ئی ادارہ کام کر رہا ہے نہ افراد۔ یوں لگتا ہے کہ ایک سناٹا سا ہے، ایک اذن سا پھونک کر سب کو ایک جگہ پر ساکت کر دیا گیا ہے، اس ملک کے نظام کا پہیہ جام کر دیا گیا ہے۔
کوئی بجٹ ہے نہ عوام کے لیے کوئی ریلیف۔ اگر کوئی اس ملک میں کام کر رہا ہے تو وہ لوگ ہیں جو قیمتیں بڑھاتے ہیں مگر اس کے مقابل عوام کے لیے سکھ کی سانس لینے کو کچھ نہیں کرتے۔ وہ افراد اور حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں جنھوں نے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا ہے خواہ اس کی وجہ سے نہ صرف جڑواں شہروں میں، بلکہ ان کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی لوگوں کے لیے مشکلات کے انبار ہیں۔
ایسی مخلوط حکومت کی مثال ماضی میں شاید نہیں ملتی کہ جہاں مرکز کی حکومت کو مرکز کی حدود کے اندر محصور کر دیا گیا ہو، وہ اپنے اس حصار کو مضبوط سے مضبو ط تر کرنے کے لیے جو اقدامات کررہے ہیں، وہ کافی مضحکہ خیز ہیں۔ کنٹینر اگر چہ لگائے ہوئے نہیں ہیں مگرسڑکوں کے کناروں پر ہزاروں کی تعداد میں کھڑے ہوئے ان کنٹینروں کا منظر اس قدر ناگوار گزرتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارے ملک کے دورہ کرنے والے ، اہم ترین سعودی وفد کو اس کی کیا توجیح پیش کریں گے کیونکہ یہ لانگ مارچ تو اس قدر لانگ ہو گیا ہے کہ اس کے آیندہ دن کی منزل کا بھی علم نہیں ہو پاتا۔
ان کے اسلام آباد پہنچنے کا ارادہ نظر نہیں آتا اور ہم اسلام آباد میں رہنے والوں کے مسائل میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس انتہائی الم ناک صورت حال کا کوئی حل بھی نظر نہیں آتا کیونکہ کوئی بھی فریق بیٹھ کر ان مسائل کے حل کی کاوش کرنے کو تیار نہیں، کوئی اپنے مفادات پر اس ملک کے مفادات، عوام کے مفادات کو ترجیح دینے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی بیچ میں مصالحت کروانے کو تیار ہو بھی تو اس کی سننے کو کوئی تیار نہیں۔
ہر سمت ایسی ہٹ دھرمی ہے کہ کوئی اپنے موقف سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں، اس پر سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہیں، ہر وقت فشار خون کو بلند کیے رکھتی ہیں۔ جسمانی نہیں، ہم سب ذہنی مریض بن گئے ہیں، اس میں صرف میں اور آپ ہی نہیں، سب شامل ہیں، حزب اقتدار والے بھی اور حزب اختلاف والے بھی۔
ذہنی مریضوں کو کہاں سمجھ ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے دوسروں کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے، وہ تو ناسمجھ ہوتے ہیں۔تعلیمی ادارے کئی روز سے بند ہیں کیونکہ مظاہروں کی وجہ سے بہت سے راستوں کی بندش ہے اور طلباء کے لیے تعلیمی اداروں میں پہنچنا پہلا مسئلہ ہے۔