اسپتالوں سے نبرد آزما عوام
مریضوں کو ’’ جگہ نہیں ہے‘‘ کا کہہ کر واپسی کا راستہ دکھا دیا جاتاہے ، ایسی صورت میں مریض جائے تو جائے کہاں ؟
ہمارے ملک میں بہت سے اسپتال ہیں ، چھوٹے ، بڑے ، درمیانے، سرکاری ، نجی، مہنگے ، سستے ، مفت ، اچھے ، بُرے ( یا اگر بُرے نہیں تو خطرناک حد تک بدحالی اور لا پرواہی کا شکار کہہ لیجیے ) غرضیکہ تمام اقسام کے اسپتال پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہیں۔
بہت سے بڑے Private اسپتال اچھے تو ضرور ہیں لیکن 75 سالوں سے مصائب و پریشانیوں میں گھرِے ، دکھوں کے مارے ، پاکستان کی غریب اور بے بس عوام کی دسترس سے کوسوں دور ہیں، اب تو چھوٹے نجی اسپتال بھی پر ، پرُزے نکالتے دکھائی دیتے ہیں، ڈسچارج کیے جانے والے صحت یاب مریض کو گھر لے جاتے وقت لواحقین کے ہاتھوں میں تھما ، اچھا خاصا بھاری بھرکم BILL ادائیگی کرتے ایک لاچار شخص کو بیمار بنا دیتا ہے یا کم از کم اس وقت شدید ذہنی صدمہ پہنچانے کا موجب تو ضرور بنتا ہے، اور پھر وہی شخص 'مرتا کیا نہ کرتا ' کی حقیقی مثل بنتے ، مجبوراً بل ادا کر ہی دیتا ہے۔
دوسری طرف وہ اسپتال ہیں جو سستے تو ضرور ہیں، لیکن معیاری ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا بوجھ اپنے ناتواں سے وجود پر ہمیشہ ہی اٹھائے رکھتے ہیں ، اب صحیح ہے یا غلط لیکن یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ اسپتال بالخصوص خواتین کے ''قینچی'' ( انگریزی میں C-section کہلانے ) والے آپریشن بلا ضرورت ہی کر ڈالتے ہیں تاکہ بل کا حجم کئی گُنا بڑھایا جاسکے۔
پھر باری ان اسپتالوں کی آتی ہے جو بالکل مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا ذریعہ بنے ہوتے ہیں، یہ سرکاری اسپتال کہلاتے ہیں ( Private تو کسی صورت نہیں ہو سکتے ) کراچی، لاہور ، اسلام آباد اور اسی طرح کے بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال قائم تو ہیں لیکن ان کی تعداد ضرورت مند آبادی کی کثیر مقدار کے مقابلے میں انتہائی کم دکھائی دیتی ہے، دیہی علاقوں میں تو شعور کی کمی گھروں کو ہی اسپتال بنائے رکھتی ہے۔
سرکاری اسپتال تنقیدی اور تعریفی ، دونوں حوالوں سے جانے پہچانے جاتے ہیں، مثلًا ان اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹرز کی موجودگی، داخل مریضوں کو مفت خوراک، ادویات اور طبی سہولیات کی فراہمی، مہنگے آپریشنز کا Free of Cost ہو جانا ، OPD میں آتے مریضوں کا مفت معائنہ ، تشخیص اور ادویات کی فراہمی ، ایکسرے، الٹراسائونڈ، لیبارٹری ٹیسٹ کی بلا معاوضہ فراہمی اور اسی طرح سے مستحق عوام کو دیگر سہولیات کا حصول قابل ستائش اور قابل تعریف ہے۔
مگر دوسری جانب انھی ماہر ڈاکٹرز کی مریضوں سے بدسلوکی، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ، تھکا دینے والا طویل انتظار کراتی قطاریں ، مطلوبہ طبی عملے کی کمی ، غیر حاضر اسٹاف ، گروپ بندیاں ، منفی سیاسی سوچ ، فرسودہ طور طریقوں پر ہوتا کام ، طبی ساز و سامان بشمول جدید آلات کی کمی ، کرپشن اور اسی طرح کی دیگر افسوسناک باتیں حکومتی سرپرستی میں چلنے والوں اسپتالوں کی خاص پہچان بن چکی ہیں، اب تو ہڑتالیں ہونا بھی شروع ہوگئی ہیں جس کے باعث اسپتال کم از کم چند گھنٹوں یا پھر کم از کم ایک دن کے لیے تو بند ہو ہی جاتا ہے، بند اسپتال، بند سانسوں کے ساتھ آتے مریضوں کے لیے موت کی یقینی علامت کے طور گردانا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، کراچی میں '' کھُلتا ، بند ہوتا '' بچوں کا ایک اسپتال اس کی واضح مثال ہے۔
پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت حکومتی سرپرستی کے حامل اسپتالوں یا ان کے کچھ حصوں کی ، این جی اوز کو سپردگی بھی کردی گئی ہے، اس موضوع نے بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، بہرحال، اس بارے میں اگر ایک عام اندازہ لگانا مقصود ہو تو پھر ایسے اسپتالوں یا پھر سپرد کیے جانے والے حصوں کی کارکردگی جانچ کر یہ کام با آسانی کیا جاسکتا ہے۔
جدید طبی سازوسامان اور قیمتی مشینری کی عدم موجودگی بھی غریب مریضوں کو شعبہ صحت سے جڑے Private اداروں کا راستہ دکھاتی ہے یا پھر اگر یہs Equipment سرکاری اسپتالوں میں موجود ہوں تو پھر ان کے ذریعے پہنچائی جانے والیServices کی فیس وصول کی جاتی ہے، جیسے بیشتر بڑے سرکاری اسپتالوں میںCTScan اور MRI جیسی سہولتیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن وہ بلا معاوضہ نہیں ہیں۔
یہاں ایک اور اہم بات جس کی نشاندہی بہت ضروری ہے وہ یہ کہ چھوٹے سرکاری اسپتالوں میں بیشتر کیسز ایسے بھی آتے ہیں جو بڑے یا کسیTertiary Care Hospital '' ریفر '' کر دیے جاتے ہیں، ایسے مریض باآسانی ریفر کر تو دیے جاتے ہیں لیکن یہ اتنی سادہ اور معمولی بات ہرگز نہیں ہے، نجی Tertiary اسپتال غریب عوام کی استطاعت سے قطعی باہر ہیں۔
دوسری جانب سرکاری Tertiary Care اسپتالوں کی تعداد کیونکہ انتہائی قلیل ہے اس لیے بالخصوص Admit ہونے والے مریضوں کو '' جگہ نہیں ہے'' کا کہہ کر واپسی کا راستہ دکھا دیا جاتاہے ، ایسی صورت میں مریض جائے تو جائے کہاں ؟ اس بات سے کسی کا کوئی سروکار نہیں ، اس صورتحال کا تو بڑے، بڑے شہروں میں رہنے والے غریبوں کو سامنا ہے، گائوں، دیہاتوں کی تو بات ہی رہنے دیجیے، وہاں کی عوام بمعہ بوریا بسترا اور مریض شہروں کا رخ کرتے ہیں اور پھر وہ اور ان کی قسمت ! بی ایچ یوز ، آر ایچ سیز اور ٹی ایچ کیوز وغیرہ سے مایوس سیلاب متاثر ہ مریضوں کی بڑی تعداد نے شہروں کا رخ کیا اور پھر ان کے ساتھ کیا ہوا ، یہ تو وہی بیچارے بتا سکتے ہیں، سرکاری اسپتال بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی پسماندہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ، کیسے؟
وہ ایسے کہ پسماندہ ممالک میں بسنے والے غریب عوام کی تعداد اشرافیہ کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، مجموعی آبادی میں کثیر حصہ رکھتی عوام کے ہر فرد کا معاشی ، سماجی، سیاسی و ثقافتی شعبہ جات وغیرہ میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ، اپنا اپنا حصہ اور اپنا ، اپنا کردار ہوتا ہے اور پھر اگر غریب عوام میں موجود افراد ، علاج و معالجے کی مخدوش صورتحال کے باعث مستقل بیمار ہی رہیں تو ملکی و معاشی ترقی میں اپنے ذمے ادا کیا جانے والا کردار ادا نہ کرسکیں گے۔
بہت سے بڑے Private اسپتال اچھے تو ضرور ہیں لیکن 75 سالوں سے مصائب و پریشانیوں میں گھرِے ، دکھوں کے مارے ، پاکستان کی غریب اور بے بس عوام کی دسترس سے کوسوں دور ہیں، اب تو چھوٹے نجی اسپتال بھی پر ، پرُزے نکالتے دکھائی دیتے ہیں، ڈسچارج کیے جانے والے صحت یاب مریض کو گھر لے جاتے وقت لواحقین کے ہاتھوں میں تھما ، اچھا خاصا بھاری بھرکم BILL ادائیگی کرتے ایک لاچار شخص کو بیمار بنا دیتا ہے یا کم از کم اس وقت شدید ذہنی صدمہ پہنچانے کا موجب تو ضرور بنتا ہے، اور پھر وہی شخص 'مرتا کیا نہ کرتا ' کی حقیقی مثل بنتے ، مجبوراً بل ادا کر ہی دیتا ہے۔
دوسری طرف وہ اسپتال ہیں جو سستے تو ضرور ہیں، لیکن معیاری ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا بوجھ اپنے ناتواں سے وجود پر ہمیشہ ہی اٹھائے رکھتے ہیں ، اب صحیح ہے یا غلط لیکن یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ اسپتال بالخصوص خواتین کے ''قینچی'' ( انگریزی میں C-section کہلانے ) والے آپریشن بلا ضرورت ہی کر ڈالتے ہیں تاکہ بل کا حجم کئی گُنا بڑھایا جاسکے۔
پھر باری ان اسپتالوں کی آتی ہے جو بالکل مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا ذریعہ بنے ہوتے ہیں، یہ سرکاری اسپتال کہلاتے ہیں ( Private تو کسی صورت نہیں ہو سکتے ) کراچی، لاہور ، اسلام آباد اور اسی طرح کے بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال قائم تو ہیں لیکن ان کی تعداد ضرورت مند آبادی کی کثیر مقدار کے مقابلے میں انتہائی کم دکھائی دیتی ہے، دیہی علاقوں میں تو شعور کی کمی گھروں کو ہی اسپتال بنائے رکھتی ہے۔
سرکاری اسپتال تنقیدی اور تعریفی ، دونوں حوالوں سے جانے پہچانے جاتے ہیں، مثلًا ان اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹرز کی موجودگی، داخل مریضوں کو مفت خوراک، ادویات اور طبی سہولیات کی فراہمی، مہنگے آپریشنز کا Free of Cost ہو جانا ، OPD میں آتے مریضوں کا مفت معائنہ ، تشخیص اور ادویات کی فراہمی ، ایکسرے، الٹراسائونڈ، لیبارٹری ٹیسٹ کی بلا معاوضہ فراہمی اور اسی طرح سے مستحق عوام کو دیگر سہولیات کا حصول قابل ستائش اور قابل تعریف ہے۔
مگر دوسری جانب انھی ماہر ڈاکٹرز کی مریضوں سے بدسلوکی، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ، تھکا دینے والا طویل انتظار کراتی قطاریں ، مطلوبہ طبی عملے کی کمی ، غیر حاضر اسٹاف ، گروپ بندیاں ، منفی سیاسی سوچ ، فرسودہ طور طریقوں پر ہوتا کام ، طبی ساز و سامان بشمول جدید آلات کی کمی ، کرپشن اور اسی طرح کی دیگر افسوسناک باتیں حکومتی سرپرستی میں چلنے والوں اسپتالوں کی خاص پہچان بن چکی ہیں، اب تو ہڑتالیں ہونا بھی شروع ہوگئی ہیں جس کے باعث اسپتال کم از کم چند گھنٹوں یا پھر کم از کم ایک دن کے لیے تو بند ہو ہی جاتا ہے، بند اسپتال، بند سانسوں کے ساتھ آتے مریضوں کے لیے موت کی یقینی علامت کے طور گردانا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، کراچی میں '' کھُلتا ، بند ہوتا '' بچوں کا ایک اسپتال اس کی واضح مثال ہے۔
پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت حکومتی سرپرستی کے حامل اسپتالوں یا ان کے کچھ حصوں کی ، این جی اوز کو سپردگی بھی کردی گئی ہے، اس موضوع نے بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، بہرحال، اس بارے میں اگر ایک عام اندازہ لگانا مقصود ہو تو پھر ایسے اسپتالوں یا پھر سپرد کیے جانے والے حصوں کی کارکردگی جانچ کر یہ کام با آسانی کیا جاسکتا ہے۔
جدید طبی سازوسامان اور قیمتی مشینری کی عدم موجودگی بھی غریب مریضوں کو شعبہ صحت سے جڑے Private اداروں کا راستہ دکھاتی ہے یا پھر اگر یہs Equipment سرکاری اسپتالوں میں موجود ہوں تو پھر ان کے ذریعے پہنچائی جانے والیServices کی فیس وصول کی جاتی ہے، جیسے بیشتر بڑے سرکاری اسپتالوں میںCTScan اور MRI جیسی سہولتیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن وہ بلا معاوضہ نہیں ہیں۔
یہاں ایک اور اہم بات جس کی نشاندہی بہت ضروری ہے وہ یہ کہ چھوٹے سرکاری اسپتالوں میں بیشتر کیسز ایسے بھی آتے ہیں جو بڑے یا کسیTertiary Care Hospital '' ریفر '' کر دیے جاتے ہیں، ایسے مریض باآسانی ریفر کر تو دیے جاتے ہیں لیکن یہ اتنی سادہ اور معمولی بات ہرگز نہیں ہے، نجی Tertiary اسپتال غریب عوام کی استطاعت سے قطعی باہر ہیں۔
دوسری جانب سرکاری Tertiary Care اسپتالوں کی تعداد کیونکہ انتہائی قلیل ہے اس لیے بالخصوص Admit ہونے والے مریضوں کو '' جگہ نہیں ہے'' کا کہہ کر واپسی کا راستہ دکھا دیا جاتاہے ، ایسی صورت میں مریض جائے تو جائے کہاں ؟ اس بات سے کسی کا کوئی سروکار نہیں ، اس صورتحال کا تو بڑے، بڑے شہروں میں رہنے والے غریبوں کو سامنا ہے، گائوں، دیہاتوں کی تو بات ہی رہنے دیجیے، وہاں کی عوام بمعہ بوریا بسترا اور مریض شہروں کا رخ کرتے ہیں اور پھر وہ اور ان کی قسمت ! بی ایچ یوز ، آر ایچ سیز اور ٹی ایچ کیوز وغیرہ سے مایوس سیلاب متاثر ہ مریضوں کی بڑی تعداد نے شہروں کا رخ کیا اور پھر ان کے ساتھ کیا ہوا ، یہ تو وہی بیچارے بتا سکتے ہیں، سرکاری اسپتال بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی پسماندہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ، کیسے؟
وہ ایسے کہ پسماندہ ممالک میں بسنے والے غریب عوام کی تعداد اشرافیہ کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، مجموعی آبادی میں کثیر حصہ رکھتی عوام کے ہر فرد کا معاشی ، سماجی، سیاسی و ثقافتی شعبہ جات وغیرہ میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ، اپنا اپنا حصہ اور اپنا ، اپنا کردار ہوتا ہے اور پھر اگر غریب عوام میں موجود افراد ، علاج و معالجے کی مخدوش صورتحال کے باعث مستقل بیمار ہی رہیں تو ملکی و معاشی ترقی میں اپنے ذمے ادا کیا جانے والا کردار ادا نہ کرسکیں گے۔