پولیس خراب ہے لیکن ٹھیک کون ہے

کالی بھیڑیں ہر اس ادارے میں موجود ہیں جن کو آرگنائزڈ جرائم کی بیخ کنی کی ذمے داری دی گئی ہے


امتیاز بانڈے November 13, 2022

بہت سے قارئین کو شکایت ہے کہ میں زیادہ تر کالمز پولیس کے خلاف ہی لکھتا ہوں،لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ میں پولیس کے خلاف ہوں کیسے سکتا ہوں جب کہ میں نے بتیس سال اس محکمے میں بڑی عزت سے نوکری کی اور یہ میری پہچان ہے۔

انگریزی کی ایک کہاوت ہے "Once a Cop, Always a Cop" ۔ اگر قارئین نے میرے کالمز غور سے پڑھے ہوں توانھیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ میں پولیس کے خلاف نہیں بلکہ اس سسٹم کے خلاف ہوں جس کے تحت پولیس کو چلایا جا رہا ہے۔

پولیس کا ایک خاص طبقہ ہے جو دن رات مشقت کر کے بھی عوام کی نظر میں اچھا نہیں بن سکا لیکن اسی پولیس میں ایک دوسرا طبقہ ہر طرح کی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور اس امتیازی سلوک کی وجہ سے ہی پولیس کے معاملات کبھی ٹھیک نہ ہوسکے۔

ایک جانب تو یہ ملازمین اور نان گزیٹیڈ افسران اپنے سینئر افسران کے عتاب اور امتیازی سلوک کا شکار رہتے ہیں اور دوسری جانب پچھلے چند سالوں سے چند نام نہاد رپورٹرز نے جو خود کو صحافی ظاہر کرتے ہیں سوشل میڈیا پر مختلف مضحکہ خیز ناموں سے گروپس اور ڈمی اخبار بناکر پولیس کے ان ملازمین اور افسران کے خلاف جھوٹی خبریں وائرل کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی جھوٹی خبر پر صرف پولیس ہی کا محکمہ ایسا محکمہ ہے کہ جہاں فوری ایکشن لے لیا جاتا ہے۔

جہاں پولیس کے سینئر افسران ان الزامات کی تحقیق بعد میں کرواتے ہیں اس سے پہلے ایسے افسر یا ملازم کو معطلی یابرطرفی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب ایک بار ایسے کسی جعلی رپورٹر کی خبر پر کسی پولیس کے افسر یاملازم کے خلاف کوئی ایکشن ہو جائے تو پھر دوسری بار وہ رپورٹر خم ٹھونک کر کسی بھی تھانے میں جاتا ہے اور اپنے تعلقات کا رعب جمانے کی کوشش کرتا ہے۔

حیرت تو تب ہوتی ہے کہ جب ایسے برساتی رپورٹرز اور نام نہاد صحافیوں کو پولیس کے سینئر افسران اپنے دفاتر میں بٹھا کر چائے اور بسکٹ سے تواضع کرتے ہیں۔ ان کے دفاتر میںجہاں جونیئر افسران با ادب باملاحظہ کے مصداق کھڑے ہوتے ہیں وہیں یہ بلیک میلر رپورٹرز ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔تو پھر ایسے جونیئر پولیس افسر کا مورال کیسے نیچے نہ جائے؟

اب پولیس کی نوکری صرف واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا گروپس میں اپنی کارکردگی کی رپورٹس شایع کروانا رہ گیا ہے اور اس مقصد کے لیے بہت سے پولیس افسران نے ایسے رپورٹرز کو ''پال رکھا ہے۔'' جو ان افسران کی اکا دکا کارروائیوں کو ''دبنگ'' کاروائیوں کو ٹائٹل دے کر مختلف گروپس میں چلواتے ہیں ۔ یہ تو سب کے علم میں ہے کہ گٹکا ماوا، منشیات کراچی کے کس علاقے میں نہیں بک رہی؟

کراچی کے مضافاتی علاقوںمیں چلے جائیں تو ہر تیسرا شخص منہ میں گٹگا یا ماوا دبائے نظر آتا ہے۔ معاشیات کے طلب اور رسد کے قانون کے مطابق چونکہ ان مضر صحت اشیاء کی طکب زیادہ ہے اور ان پر پابندی بھی ہے اس لیے ہر دکاندار کی کوشش ہوتی ہے کہ چوری چھپے ایسی اشیاء کی رسد بھی جاری رہے، کیونکہ اس کام میں پھر انھیں منافع دگنا ملتا ہے۔

یہ درست ہے کہ اس میں پولیس کے کچھ اہلکاروں کی معاونت شامل ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر تھانے کے علاقے میں ایسی مضر صحت اور غیر قانونی اشیاء علاقہ کے ایس ایچ اواور اس کے ماتحت عملے کی مرضی سے ہی فروخت ہو رہی ہوں۔

گٹکا، ماوا اور منشیات عموماً ایسے علاقوں میں زیادہ بکتی ہے جہاں چھوٹی چھوٹی اور تنگ گلیوں کی وجہ سے پولیس کا تواتر سے اندر جانا مشکل ہوتا ہے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ایسے نام نہاد رپورٹرز اور خود کو صحافی کہلوانے والے وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں اورا ن کی اکثریت ایسے غیر قانونی کاموں سے ہفتہ اور ماہانہ وصول کرتی ہیں۔

اور جب ان میں سے کوئی بھتہ دینے سے انکار کرے تو یہ اپنے خود ساختہ نیوز گروپس میں نہ صرف ان کے خلاف پیغامات چلاتے ہیں بلکہ علاقہ پولیس پر بھی ان کی سرپرستی کا الزام لگا کر انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم نے ایسے سینئر افسران بھی دیکھے ہیں جو ان جعلی صحافیوں اور ان کے چلائے جانے والے پیغامات پر فورا یقین نہیں کر لیتے لیکن ایسے افسران کی تعداد کم ہی ہے۔ گو کہ قانون موجود ہے کہ ایسے جھوٹے الزامات کے خلاف متاثرہ پولیس افسر شکایت درج کروا سکتا ہے لیکن ایک تو انھیں اتنا وقت ہی نہیں دیا جاتا اور دوسرے انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شکایت پر کارروائی شروع ہونے میں کئی دن لگ جائیں اور نتیجہ پھر بھی کچھ نہیں نکلے گا۔

ان افسران کی اکثریت ایسے الزامات پر ڈھیر ہوجاتی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس رپورٹر کے ساتھ''ـ صلح'' کر لی جائے۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ ایسی جھوٹی خبروں اور پیغامات پر نہ صرف ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل میں بلکہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹس میں بھی شکایات درج کروائیں جائیں تاکہ نہ صرف ایسے جعلی اور نام نہاد صحافیوں کو گرفتار کروایا جائے بلکہ ان کے سوشل میڈیا گروپس اور ڈمی اخباروں پر پابندی بھی لگوائی جائے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ جب ایسا افسر خود مطمئن ہو کہ یہ الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔

اسپیشل برانچ بھی پولیس ہی کا ایک حصہ ہے لیکن اس کا کام اپنی شناخت کو خفیہ رکھتے ہوئے ہر قسم کے جرائم کی نشاندہی کرتے رہنا ہے،لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ہر علاقے میں نہ صرف وہاں کی پولیس بلکہ جرائم پیشہ افراد بھی ان اہلکاروں سے واقف ہوتے ہیں اور اپنی شناخت ظاہر کر نے کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ جو کام علاقہ پولیس کی معاونت سے چل رہے ہوں ان میں ان کو بھی حصہ ملے۔

اسپیشل برانچ کے کرپٹ اہلکار ایک جانب تو اپنا حصہ بقدر جثہ باقاعدگی سے حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن دوسری جانب (Stereo Type)، یعنی پہلے سے طے شدہ انفارمیشن رپورٹس افسران بالا کو ارسال کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی کارکردگی پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔ میں یہاں پھر کسی کا نام لیے بناء ان ایس ا یچ اوز کا ذکر کروں گا جو گزشتہ کئی سالوں سے اس پوزیشن کو انجوائے کر رہے ہیں، تو کیا وہ اتنے ہی مستعد،ایماندار اور اہل ہیں کہ آج تک اسپیشل برانچ کے اہل کاروں کو ان کے خلاف کوئی انفارمیشن نہیں مل سکی؟

یہاں ان ایس ایچ اوز کے تذکرہ کرنے کا مقصد صرف ادارے کے ''ڈبل اسٹینڈرڈز'' کو ظاہر کرنا ہے جو چہیتوں کے لیے الگ اور لا وارثوں کے لیے الگ ہیں۔ میں نے خود ایس ایچ او رضویہ کی حیثیت سے اسی علاقے میں ایک عرصے سے متعین اسپیشل برانچ کے ایک کرپٹ اہلکار کی رپورٹ، علاقہ مکینوں کی درخواستوں کے ساتھ افسران بالا کو ارسال کی۔ جس میں اس کی ان پراپرٹیز کی بھی نشاندہی کی گئی جو اس نے اپنی نوکری کے دوران اسی علاقے میں بنائیں، لیکن اس کے خلاف تو کوئی کارروائی نظر نہیں آئی البتہ مجھے ہی بعد میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

اس تحریر کامقصد صرف یہ بتانا ہے کہ صرف تھانوں ہی کی تمام پولیس کرپٹ نہیں ہے بلکہ کالی بھیڑیں ہر اس ادارے میں موجود ہیں جن کو آرگنائزڈ جرائم کی بیخ کنی کی ذمے داری دی گئی ہے۔ ان اداروں کے کرپٹ اہلکار بھی ان جرائم پیشہ افراد سے باقاعدگی سے بھتہ وصول کرتے ہیں لیکن جب ان سے جرائم کی رپورٹ مانگی جاتی ہے تو وہ تھانوں کے افسران و اہلکاروں کے خلاف رپورٹس افسران کو بھجوا دیتے ہیں تاکہ ان کی ''کھال'' محفوظ رہے۔

میں صحافی تنظیموں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ان بناء ڈگری کے صحافیوں، جعلی رپورٹرز، ان کے ڈمی اخباروں اور مختلف واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر بنائے گئے جعلی اکاونٹس کی نشاندہی کریں ، کیونکہ یہ تنظیمیں ہی بہتر بتا سکتی ہیں کہ کون اصلی صحافی اور رپورٹر ہے اور کون جعلی اور بلیک میلر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں