پاکستان اور امریکا ماضی حال اور مستقبل

ڈیمو کریٹس دنیا بھر میں جمہوریت ، انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی سب سے زیادہ حمایت کرتے ہیں

امریکا میں وسط مدتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق ری پبلکنز کی برتری کا امکان ہے۔ ایوانِ نمایندگان میں ری پبلکن کو 191 اور ڈیمو کریٹس کو 167 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔ ان انتخابی نتائج کے بعد سینیٹ میں ری پبلکنز کی 46 اور ڈیمو کریٹس کی 47 نشستیں ہونے کا امکان ہے۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق ایوانِ نمایندگان میں ری پبلکنز کی برتری کا امکان زیادہ ہے۔ کانگریس میں طاقت کا توازن ری پبلکنز کے پلڑے میں آیا تو ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن مضبوط ہوگی ، جس سے صدر جوبائیڈن کے لیے اگلے 2 سال مشکل ہو جائیں گے۔ پاکستان اور امریکا کے خارجہ تعلقات میں ہمیشہ گرمجوشی ری پبلکن کے دور حکومت میں دیکھنے میں آئی۔

ڈیمو کریٹس کے دور حکومت میں ہمیشہ دوطرفہ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے بلکہ ڈیمو کریٹس کے مختلف ادوار میں پاکستان کو امریکی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ امریکا میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے نتائج آیندہ عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کو تو واضح کریں گے ، لیکن امریکی انتخابات کے نتائج سے پاکستان بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔

پاکستان کی اندرونی سیاست اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے امریکا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ماضی کو دیکھا جائے تو جنرل مشرف پر جمہوریت کی بحالی کے لیے بے نظیر بھٹو سے مذاکرات اور سیاسی ڈیل کے لیے امریکی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان پاکستانی سیاست کی شہرہ آفاق ڈیل این آر او کروانے میں اس وقت کی سیکریٹری خارجہ کونڈو لیزا رائس نے کلیدی کردار ادا کیا۔

بے نظیر بھٹو کی ڈیل کے بدلے پاکستان واپسی کی صورت میں نواز شریف کی وطن واپسی کی بھی راہ ہموار ہوئی، جو اس وقت سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ جلاوطن سیاسی قیادت کی پاکستان واپسی کے بعد جمہوری انتخابی عمل کا آغاز ہوا لیکن بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کی دہشت گرد حملے میں اچانک شہادت کے بعد انتخابات کچھ عرصے کے لیے ملتوی ہوئے۔

امریکی حکومت کے دباؤ پر جنرل مشرف عام انتخابات کروانے پر مجبور ہوئے اور انتخابی نتائج کے بعد اقتدار پیپلز پارٹی کو سونپ کر کچھ عرصے بعد جنرل مشرف کو منصب صدارت سے بھی مستعفی ہونا پڑا۔ اقتدار اور سیاست کے اس سارے کھیل میں امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس کے کردار کی تائید جنرل مشرف اور شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی بائیو گرافی میں کی۔

اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے نتیجے میں جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو عمران خان نے براہ راست اس کا الزام امریکا پر عائد کیا۔ عمران خان نے عوام میں یہ بیانیہ بنا دیا کہ امریکی انڈر سیکریٹری ڈونلڈ لو کے حکم پر ان کے خلاف تحریک عدم لائی گئی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے دوٹوک انداز میں ان الزامات کی تردید کی لیکن اس وقت تک عمران خان عوام میں اینٹی امریکا بیانیہ بنا چکے تھے۔

امریکی مراسلے اور سازش کی اصل حقیقت کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی اور 11 جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ کوئی بھی ریاست اس وقت تک بڑی پالیسی فیصلے نہیں لے سکتی جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز کا اس پر اتفاق نہ ہو۔


پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے اہم ملک ہے اور روس یوکرین جنگ کے بعد بھارت کے روس کی طرف واضح جھکاؤ کے بعد امریکا کے پاس پاکستان کے علاوہ خطے میں کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ امریکا چین کشیدگی کے تناظر میں بھی امریکی حکومت کسی صورت پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔

دوسری طرف نہ تو موجودہ اتحادی حکومت کے پاس کسی بڑے پالیسی فیصلے کا مینڈیٹ ہے نہ موجودہ صورتحال میں جب سیاسی کشیدگی عروج پر ہے۔ توانائی بحران پر امریکا اور سعودی عرب کے مابین پیدا ہونے والی سفارتی تلخیوں کے خاتمے میں بھی پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دو طرفہ تعلقات اسلامی اخوت اور باہمی محبت کی بنیادوں پر استوار ہیں۔

امریکا پاکستان کی مدد سے سعودی عرب کو اگر تیل کی پیداوار میں اضافے پر قائل نہ بھی کر سکا تو کم از کم دوطرفہ تعلقات میں پیدا ہونے والی تلخیوں میں کمی کے لیے امریکا کی مدد ضرور کرسکتا ہے۔ حکومت خارجہ پالیسی سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ لینے کی پوزیشن میں ہے۔22 کروڑ آبادی پر مشتمل اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی ریاست کا غیر مستحکم ہونا کسی صورت بھی امریکا کے مفاد میں نہیں۔

حالیہ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی کسی بھی وقت تصادم کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ سیاسی تصادم نہ صرف پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا بلکہ اس خطے سے وابستہ مفادات رکھنے والی عالمی طاقتوں کے لیے بھی پاکستان میں سیاسی ٹکراؤ کی کیفیت باعث تشویش ہے۔

مختلف چینلز کے ذریعے پاکستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ ہونے والے رابطے واضح کرتے ہیں کہ امریکا نے پاکستان کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا، بلکہ امریکی حکومت اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں ہے۔ دو ماہ قبل امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا پاکستان میں صحافیوں کے خلاف مقدمات اور اظہار رائے کی آزادی پر ان دیکھی بندشوں پر اظہار تشویش اور عمران خان پر ہوئے حملے کی مذمت واضح کرتی ہے کہ امریکا پاکستان کے معاملات سے لاتعلق نہیں۔

امریکا کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ عمران خان آج پاکستان کا سب سے پاپولر سیاستدان ہے اور گزشتہ چند ماہ میں ہوئے 35 ضمنی انتخابات میں سے 27 الیکشن عمران خان نے جیتے ہیں۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے نہ تو پاکستان لاتعلق رہ سکتا ہے اور نہ امریکا مزید پاکستان کو نظرانداز کرسکتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی اندرونی سیاست اور جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے امریکا ماضی کی طرح پس پردہ کوئی کردار ادا کرتا ہے یا موجودہ اتحادی حکومت کی ہی حمایت کرے گا؟

امریکا میں ڈیموکریٹ حکومت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ڈیمو کریٹس دنیا بھر میں جمہوریت ، انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی سب سے زیادہ حمایت کرتے ہیں اور ان ایشوز پر بعض اوقات ڈیموکریٹ حکومت دوطرفہ تعلقات کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔

پاکستان میں جاری سیاسی بحران میں تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف سنگین نوعیت کے سیاسی مقدمات ، صحافیوں پر تشدد اور اظہار رائے کی بندشوں پر امریکا سے بیانات تو آئے ، لیکن اس سیاسی کشیدگی اور ممکنہ تصادم کا واحد حل نئے انتخابات ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے انتخابات کے لیے کیا امریکی حکومت پاکستان کی اتحادی حکومت پر کوئی دباؤ ڈالے گی؟
Load Next Story