قدرت کے کھیل
نتیجہ جو بھی ہو، اصل بات اس کھیل کے ناقابل یقین حقائق کی ہے
یونیورسٹی کے دنوں تک باقاعدہ کرکٹ کھیلنے اورا س کے بعد سے اب تک اس کھیل اور اس کی خبروں سے گہری دلچسپی کے باعث میں آج بھی اس علاقے میں ہونے والی وارداتوں سے باخبر رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔
یہ ایک ایسا عجیب و غریب کھیل ہے کہ بعض اوقات چند منٹ کا کھیل پورے پانچ دن پر بھاری پڑ کر کچھ کا کچھ کر دیتا ہے۔ آج کل اس کھیل میں بہت زیادہ پیسہ گرد ش کر رہا ہے جس کا بیشتر کریڈٹ کیری پیکر کو جاتا ہے جس نے ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں دنیا بھر سے کھلاڑیوں کو اپنے ترتیب کردہ میچوں کے لیے بھاری معاوضوں پر خریدنا شروع کیا جس کی وجہ اس کے چینل کو آسٹریلوی کر کٹ کی کوریج کا ٹھیکہ نہ ملنا تھا۔ اس کا معاملہ تو دو چار برسوں میں طے ہوگیا مگر کرکٹ کے کھلاڑیوں کی جیسے لاٹری نکل آئی کہ اس سے پہلے انگلینڈ کی کاونٹی کرکٹ سے قطع نظر کہیں بھی کرکٹر کو بطور کرکٹر ماہانہ تنخواہ نہیں ملتی تھی۔
خود میں نے اپنی آنکھوں سے پچاس کی دہائی کے آخر میں پاکستان کے ایک ٹیسٹ کھلاڑی کو سائیکل پر ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے آتا دیکھا ہے کہ اُس وقت آج کے بھاری معاوضے، آرام دہ سفر، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں قیام اور ایکٹروں والا گلیمر سب کے سب ایک خواب کی طرح تھے اور ٹیم سے باہر یا ریٹائر ہو جانے کے بعد اُن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔
برطانیہ کی کاؤنٹی کرکٹ میں شمولیت اور کچھ اداروں میں اسپورٹس بیس پر ملنے والی ملازمتوں کے باعث ان کے حالات کچھ بہتر تو ہوئے مگر اب بھی اس کا ذکر ''کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب'' ہی کی طرح کیا جاتا تھا۔ ون ڈے کرکٹ کے پہلے چارمقابلوں میں ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستان ٹیم کی کارکردگی تقریباً اولمپکس کی دوڑوں کے حساب سے Also Ran جیسی رہی کہ ہاں یہ بھی وہاں تھے مگر 1992کے پانچویں ورلڈ کپ میں حالات نے ایک دم ایک ایسی کروٹ لی کہ جیسے سب کچھ معجزاتی طور پر بدل گیا۔
معجزاتی اس لیے کہ عقلِ سلیم، اعداد وشمار اور عمومی تاثر کسی بھی حوالے سے پاکستان کا فائنل تک پہنچنا ممکن نظر نہ آتا تھا مگر پھر کچھ ایسے غیرمتوقع نتائج سامنے آئے کہ یکدم یہ ٹیم آخری چار ٹیموں یعنی سیمی فائنلز میں پہنچ گئی اور پھر اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
یہ واقعہ آسٹریلیا میں پیش آیا اور اتفاق سے آج کل بھی یہ ورلڈ کپ وہیں پر ہو رہا ہے۔ ٹی ٹونٹی کا ورلڈ کپ اپنے آخری مراحل میں ہے اور مزید اتفاق یہ کہ یہاں بھی راؤنڈ مقابلوں کے درمیان پاکستان تقریباً دوڑ سے باہر سمجھا جا رہا تھا۔ خود میں بھی ذہنی طور پر اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر چکا تھا کہ ہماری حد تک یہ ورلڈ کپ ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب اس کے پاس کچھ میچوں میں بارشوں کی دُعا کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا کہ اس گروپ کی دونوں ٹاپ ٹیمیں انڈیا، زمبابوے کے مقابلے میں اور ساؤتھ افریقہ، نیدرلینڈ کے مقابلے میں بہت ہی تگڑی ٹیمیں تھیں۔
سو، ہوا یہ کہ آخری دو میچ جیتنے کے بعد بھی پاکستان کا بنگلہ دیش سے جیتنا تو بہت حد تک ممکن تھا مگر ا ن دونوں ٹیموں میں سے کسی کا ہارنا ناممکن کے ذیل میں آرہا تھا اور پھر یوں ہوا کہ چند ہی گھنٹوں کے اندر ہر چیز اُلٹ پلٹ ہوگئی اور پاکستان سیمی فائنلز میں نہ صرف پہنچا بلکہ نیوزی لینڈ کو ہرانے کے بعد فائنل میں بھی پہنچ گیا جب کہ دوسری طرف بھارت اور انگلستان کے میچ میں بھارت کو نسبتاً بہتر ٹیم خیال کیا جا رہا تھا اور کم از کم پاکستان کی حد تک لوگ فائنل کو بھارت کے خلاف ہی دیکھ رہے تھے۔
انھوں نے پہلے کھیلتے ہوئے ٹورنامٹ کی عمومی اسکورنگ ریٹ کے حساب سے بھی 168رنز بنا کر اپنی پوزیشن کو بہت حد تک مضبوط کرلیا مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ شاید انگلینڈ والوں کے بھی گمان میں نہیں تھا کہ سولہ اوورز میں جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز کے آؤٹ ہوئے بغیر نہ صرف یہ سارا اسکور کرلیا بلکہ کئی دیگر ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ دس وکٹ سے فتح بھی حاصل کرلی۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ جس دن یہ کالم چھپے گا، اُسی روز پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ملبورن کے تاریخی اسٹیڈیم میں فائنل میچ ہوگا۔ اگرا سے 1992 والے ورلڈ کپ کی مشابہتوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس میں بھی انگلینڈ کی ہار ہی آخری نتیجے کے طور پر سامنے آئی ہے لیکن اس پورے ورلڈ کپ میں اور خاص طور پر سیمی فائنل میں انھوں نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ کچھ اور کہہ رہی ہے۔
بہر حال نتیجہ جو بھی ہو، اصل بات اس کھیل کے ناقابل یقین حقائق کی ہے اور بالخصوس وطنِ عزیز کے کھلاڑیوں کی کارکردگی اور تقدیر کے اُن کے حق میں فیصلے کی اب تک کی داستان ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ مقابلہ بہت سخت ہوگا۔ بات ختم کرنے سے پہلے میں یہ یاد دلانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ذاتی طور پر مجھے شعیب ملک کا ایک پروگرام میں بطور تجزیہ نگار بیٹھنا اچھا نہیں لگا۔ اُسے اس ٹیم کے اندر اور میدان میں ہونا چاہیے تھا کہ اب بھی ہمارے مڈل آرڈر میں اُس سے بہتر کوئی کھلاڑی موجود نہیں ہے ۔
یہ ایک ایسا عجیب و غریب کھیل ہے کہ بعض اوقات چند منٹ کا کھیل پورے پانچ دن پر بھاری پڑ کر کچھ کا کچھ کر دیتا ہے۔ آج کل اس کھیل میں بہت زیادہ پیسہ گرد ش کر رہا ہے جس کا بیشتر کریڈٹ کیری پیکر کو جاتا ہے جس نے ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں دنیا بھر سے کھلاڑیوں کو اپنے ترتیب کردہ میچوں کے لیے بھاری معاوضوں پر خریدنا شروع کیا جس کی وجہ اس کے چینل کو آسٹریلوی کر کٹ کی کوریج کا ٹھیکہ نہ ملنا تھا۔ اس کا معاملہ تو دو چار برسوں میں طے ہوگیا مگر کرکٹ کے کھلاڑیوں کی جیسے لاٹری نکل آئی کہ اس سے پہلے انگلینڈ کی کاونٹی کرکٹ سے قطع نظر کہیں بھی کرکٹر کو بطور کرکٹر ماہانہ تنخواہ نہیں ملتی تھی۔
خود میں نے اپنی آنکھوں سے پچاس کی دہائی کے آخر میں پاکستان کے ایک ٹیسٹ کھلاڑی کو سائیکل پر ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے آتا دیکھا ہے کہ اُس وقت آج کے بھاری معاوضے، آرام دہ سفر، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں قیام اور ایکٹروں والا گلیمر سب کے سب ایک خواب کی طرح تھے اور ٹیم سے باہر یا ریٹائر ہو جانے کے بعد اُن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔
برطانیہ کی کاؤنٹی کرکٹ میں شمولیت اور کچھ اداروں میں اسپورٹس بیس پر ملنے والی ملازمتوں کے باعث ان کے حالات کچھ بہتر تو ہوئے مگر اب بھی اس کا ذکر ''کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب'' ہی کی طرح کیا جاتا تھا۔ ون ڈے کرکٹ کے پہلے چارمقابلوں میں ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستان ٹیم کی کارکردگی تقریباً اولمپکس کی دوڑوں کے حساب سے Also Ran جیسی رہی کہ ہاں یہ بھی وہاں تھے مگر 1992کے پانچویں ورلڈ کپ میں حالات نے ایک دم ایک ایسی کروٹ لی کہ جیسے سب کچھ معجزاتی طور پر بدل گیا۔
معجزاتی اس لیے کہ عقلِ سلیم، اعداد وشمار اور عمومی تاثر کسی بھی حوالے سے پاکستان کا فائنل تک پہنچنا ممکن نظر نہ آتا تھا مگر پھر کچھ ایسے غیرمتوقع نتائج سامنے آئے کہ یکدم یہ ٹیم آخری چار ٹیموں یعنی سیمی فائنلز میں پہنچ گئی اور پھر اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
یہ واقعہ آسٹریلیا میں پیش آیا اور اتفاق سے آج کل بھی یہ ورلڈ کپ وہیں پر ہو رہا ہے۔ ٹی ٹونٹی کا ورلڈ کپ اپنے آخری مراحل میں ہے اور مزید اتفاق یہ کہ یہاں بھی راؤنڈ مقابلوں کے درمیان پاکستان تقریباً دوڑ سے باہر سمجھا جا رہا تھا۔ خود میں بھی ذہنی طور پر اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر چکا تھا کہ ہماری حد تک یہ ورلڈ کپ ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب اس کے پاس کچھ میچوں میں بارشوں کی دُعا کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا کہ اس گروپ کی دونوں ٹاپ ٹیمیں انڈیا، زمبابوے کے مقابلے میں اور ساؤتھ افریقہ، نیدرلینڈ کے مقابلے میں بہت ہی تگڑی ٹیمیں تھیں۔
سو، ہوا یہ کہ آخری دو میچ جیتنے کے بعد بھی پاکستان کا بنگلہ دیش سے جیتنا تو بہت حد تک ممکن تھا مگر ا ن دونوں ٹیموں میں سے کسی کا ہارنا ناممکن کے ذیل میں آرہا تھا اور پھر یوں ہوا کہ چند ہی گھنٹوں کے اندر ہر چیز اُلٹ پلٹ ہوگئی اور پاکستان سیمی فائنلز میں نہ صرف پہنچا بلکہ نیوزی لینڈ کو ہرانے کے بعد فائنل میں بھی پہنچ گیا جب کہ دوسری طرف بھارت اور انگلستان کے میچ میں بھارت کو نسبتاً بہتر ٹیم خیال کیا جا رہا تھا اور کم از کم پاکستان کی حد تک لوگ فائنل کو بھارت کے خلاف ہی دیکھ رہے تھے۔
انھوں نے پہلے کھیلتے ہوئے ٹورنامٹ کی عمومی اسکورنگ ریٹ کے حساب سے بھی 168رنز بنا کر اپنی پوزیشن کو بہت حد تک مضبوط کرلیا مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ شاید انگلینڈ والوں کے بھی گمان میں نہیں تھا کہ سولہ اوورز میں جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز کے آؤٹ ہوئے بغیر نہ صرف یہ سارا اسکور کرلیا بلکہ کئی دیگر ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ دس وکٹ سے فتح بھی حاصل کرلی۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ جس دن یہ کالم چھپے گا، اُسی روز پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ملبورن کے تاریخی اسٹیڈیم میں فائنل میچ ہوگا۔ اگرا سے 1992 والے ورلڈ کپ کی مشابہتوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس میں بھی انگلینڈ کی ہار ہی آخری نتیجے کے طور پر سامنے آئی ہے لیکن اس پورے ورلڈ کپ میں اور خاص طور پر سیمی فائنل میں انھوں نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ کچھ اور کہہ رہی ہے۔
بہر حال نتیجہ جو بھی ہو، اصل بات اس کھیل کے ناقابل یقین حقائق کی ہے اور بالخصوس وطنِ عزیز کے کھلاڑیوں کی کارکردگی اور تقدیر کے اُن کے حق میں فیصلے کی اب تک کی داستان ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ مقابلہ بہت سخت ہوگا۔ بات ختم کرنے سے پہلے میں یہ یاد دلانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ذاتی طور پر مجھے شعیب ملک کا ایک پروگرام میں بطور تجزیہ نگار بیٹھنا اچھا نہیں لگا۔ اُسے اس ٹیم کے اندر اور میدان میں ہونا چاہیے تھا کہ اب بھی ہمارے مڈل آرڈر میں اُس سے بہتر کوئی کھلاڑی موجود نہیں ہے ۔